جب پالیسیاں وطنیت کی بنیاد پر ہوں تو

۱: کشمیر محض اقوام متحدہ کی ایک قرارداد بن کر رہ جاتا ہے اور انڈیا باوجود اپنے ظالمانہ کردار کے پسندیدہ قوم کے درجے تک پہنچ جاتا ہے.

۲: شام اور اس کے مظلوم مسلمان دو طاقتوں کی کشمکش کا شاخسانہ قرار پاتے ہیں. اور انھیں طاقتوں یعنی امریکہ اور روس سے تعلقات قومی مفاد بن جاتے ہیں، بھلے وہ لاکھوں مسلمانوں کے قاتل ہوں.

۳: فلسطین محض ایک بڑھک بن کر رہ جاتا ہے جو ہمیشہ اس کے دم توڑنے پر لگائی جاتی ہے.

۴: برما علاقائی مسئلہ بن جاتا ہے جس میں مداخلت توازن بگاڈ سکتا ہے.

۵. سنکیانگ چین کا داخلی مسئلہ قرار پاتا ہے جس پر آواز اٹھانا ہمالیہ جیسی دوستی کو زمین بوس کرسکتا ہے. اس لیے چپ ہی بھلی ہے.

۶: افغانستان اور عراق پر حملہ سپر پاور کی شہ زوری قرار پاتا ہے جس کے راستے میں آنا یا ان کا ساتھ نہ دینا، ہمیں تورا بورا بنا سکتا ہے.

جب غزہ پر بمباری ہوتی ہے تو کیا لوگ آنسو بہانے سے پہلے ان کا مسلک پوچھتے ہیں؟ جب برما میں قتل عام ہو تو کیا لوگ آواز بلند کرنے سے پہلے ان کی رنگت معلوم کرتے ہیں؟ جب صومالیہ میں بچے بھوک سے تڑپ رہے ہوں تو کیا لوگ امداد سے پہلے وطنیت کی بات کرتے ہیں؟ کیا کبھی دیکھا کہ سڑک پر کوئی حادثہ ہوجائے اور لوگ مدد سے پہلے فرقہ معلوم کرے؟ جب زکواہ دینی ہو تو کیا لوگ زبان پوچھتے ہیں؟
جناب اس امت کو تقریبا 100 سالوں سے قومیت، وطنیت، مسلک پرستی گھول گھول کر پلائی جارہی ہے مگر ان کو دیکھیں تو اب تک تنہاء بغیر کسی ریاست، فوج، تھنک ٹینک اور اداروں کے یہ اپنی شناخت تھامے ہوئے ہیں.. دراصل یہ کلمے کا رشتہ ہے ہی ایسا کہ تمام زنجیریں توڑ کر غالب آجاتا ہے، اور پھر دنیا دیکھتی ہے کہ اسرائیلی میزائیل غزہ میں گرتا ہے اور درد کراچی کی گلیوں میں محسوس ہوتا ہے. الغرض وطنی مفاد کے آگے خونِ مسلم رائیگاں جاتا ہے اور بے شک اسے رائیگاں جانا بھی چاہیے تھا کہ جنھیں "ایک ہوں مسلم" کا خواب حقیقت بنانا تھا وہ "پہلے پاکستان" کی دلفریب چکاچوند سے قوم کو چونا لگا گئے. اور افسوس بعد میں آنے والے بھی اسی راہ پر گامزن رہے.
آج تک مسلمانوں کا دفاع کرنے والی کوئی ریاست یا کوئی حاکم نہیں۔ جس کا دل چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے قبضہ کرتا ہے، کبھی کشمیر کا خون بہتا ہے تو کبھی فلسطین سسکیاں لیتا ہے۔ کبھی شیشان کی وادیاں خود آلود ہوتی ہیں تو کبھی بوسنیا میں زمین مسلمانوں کی لاشوں سے بھر جاتی ہے، کبھی امریکی میزائل افغانستان پر برستے ہیں تو کبھی عراق پر اور کبھی شام پر۔ کبھی برما میں بہنوں کی عزتیں لٹتیں ہیں تو کبھی تھائی لینڈ اور نائجیریا میں ان کو تار تار کیا جاتا ہے۔ 94 سال میں الجزائر سے لے کر فلپائن تک ہزاروں داستانیں ہیں، اور نہ جانے ان میں مزید کتنا اضافہ ہوگا۔
آئیں آج عہد کرے کہ بجائے لبرلزم کے، بجائے کسی مغربی جمہوریت کے، بجائے کسی سامراجی نظام کے ہم خود اپنی تقدیر لکھیں، آئیں ہم خود اپنی ریاست اور اپنا نظام واپس نافذ کریں وہ ریاست جس میں زكواة دینے والے ہوتے تھے مگر لینے والا ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا، وہ ریاست جس نے الجبرا، طب، سائنس میں ایسی ترقی کی کہ مغرب و مشرق سے ہر کوئی اس کا رخ کرتا، وہ ریاست جس نے ایک عورت کے لیے سندھ فتح کیا، وہ ریاست جس نے ہم تک اسلام پہنچایا ورنہ شاید ہم بھی کسی ہنومان کی پوجا کر رہے ہوتے یا کسی ماتا گائے کو سجدہ کر رہے ہوتے.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 233 Articles with 83008 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.