سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ

بےشک اللہ سُنتا دیکھتا ہے
یہ جو خالقِ کائنات کا نام لے کر ہم قسم کھاتے ہیں ( خدا کی قسم) تو سوچیں کہ اس کا نام لینے یا اس کو حاضر ناظر جان کر کوئی بیان دینا تاکہ اس بیان کو سچ مانا جائے ، عقل کی بات ہے یا بے وقوفی کی ؟ جب خالقِ کائنات کی حقیقت کو تسلیم کر ہی لیا تو اس کو کہہ کر یا اس کا نام لے کر قسم کھانا کوئی ضروری نہیں ، ہم اس کا نام نہ بھی لیں یا ہم اس کو حاضر ناظر نہ بھی کہیں تو کیا اس کی موجودگی سے کوئی انکار کر پائے گا؟
خالقِ کائنات ہر وقت و ہر جگہ موجود ہے لیکن ہم اس کو دیکھ نہیں پاتے محض اس کی نشانیوں سے اس کا احساس ہی کافی ہے لہٰذا ہم جو کچھ بھی کہیں خواہ وہ عمومی بیان ہو یا حلفی، دونوں صورتوںمیں وہ سنتا ہے اور دیکھتا ہے کیونکہ اس کی 99 صفات میں سے دو صفات "سمیع و بصیر" بھی ہیں۔ ہم کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ کچھ بھی بولیں ، وہ سنا جارہا ہوتا ہے اور سننے والوں میں ہر وقت و ہر جگہ خالقِ کائنات ہوتا ہے تو پھر ہمیں ہر وقت و ہر جگہ سچ بولنا چاہئے۔اپنی کسی بات کا دوسرے کو یقین دلانے یا کسی عدالت میں تفتیشی افسر کے سامنے اپنا سچا بیان دینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بغیر کسی اور شے کی مدد کے ہم جو بھی بیان دیں وہ سچ مانا جائے یہ ہمارے کلچر میں نہیں ، نہ صرف ہمارے ملک یا معاشرے میں بلکہ تمام دنیا میں اس کا رواج نہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہمیں معاشرہ و ملک کی روایات کے مطابق وہاں کی مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر بیان دینا پرتا ہے اور ساتھ ہی بیان ایک اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دینا پڑتا ہے جو پیپر عدالتوں میں ملتا ہے چند سِکّوں کے عوض۔ اس میں زبان بھی عام فہم کی نہیں ہوتی بلکہ رائج الوقت عدالتی زبان ہوتی ہے جو محض عدالتی عملہ یا جج ہی پڑھ سکتے ہی اور اس کی تشریح بھی وہی کر سکتے ہیں جس کی بابت اس میں پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں جس سے ان سب کی روزی روٹی وابستہ ہوتی ہے۔ اگر ہمارے منہ سے نکلا ہؤا ہر لفظ سچ ہو اور مانا بھی جائے تو بہت سے افراد کی روزی روٹی ختم ہونے کا اندیشہ ہے لہٰذا یہ رواج پوری دنیا میں جاری و ساری ہے اور آئیندہ بھی رہے گا۔
گویا تمام دنیا میں جھوٹ سر چڑھ کر بولتا ہے کیونکہ اسی کا بول بالا ہے ۔ جھوٹ کو ہی سچ ثابت کرنے کے لئے بے شمار ترکیبیں اور طریقے ایجاد کئے گئے ۔ ہمارے منہ سے نکلا ہؤا ہر لفظ سچ ہو تو اس کو سچ ثابت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئے؟ ایک اور انسان کی بد نصیبی کہیں کہ تمام دنیا میں کسی سے اپنی مرضی کا بیان دلوانے کو بھی سچ اگلوانا کہا جاتا ہے جس کا ہر معاشرے میں ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ہر پُر تشدّد طریقہ جس کی تاب نہ لاکر ملزم وہ بیان دے دے جو مطلوب ہو، افسوس اس قدر ترقی یافتہ و تہذیب یافتہ دور میں بھی آج تک نہائت پُر تشدد طریقوں سے بیان لئے جاتے ہیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں دنیا بھر میں کام کر رہی ہیں لیکن ان کی بھی بس روٹی روزی لگی ہوئی ہے کیونکہ طاقتور کے سامنے وہ دیگر طبقات کی مانند بے بس ہیں۔

Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 126 Articles with 112545 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More