پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران

اس وقت پاکستان کی معیشت بیچ منجدھار میں پھنسی ہوئی ہے. پاکستان کی معیشت مشکلات کا شکار ہے۔ اور معاشرہ سیاسی طور پر تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ ملک میں دہشتگردی کے واقعات آئے روز کہیں نہ کہیں ہوجاتے ہیں اور مہنگائی کے طوفان نے لاکھوں شہریوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل سے مُشکل تر بنا دیا ہے. حالیہ بجلی کے بلوں پر پاکستان بھر میں عوام کا شدید ردعمل اس کی اہم مثال ہے ، جبکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر، جو ایندھن سمیت دیگر درآمدات کی ادائیگی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، کئی دہائیوں میں سب سے کم سطح پر آچکے ہیں۔ اور ملک میں اشیا خردو نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ جبکہ پاکستان گذشتہ برس آنے والے تباہ کن سیلاب کے اثرات سے پاکستان ابھی تک نکل ہی نہیں سکا ہے اور اس سال پھر سے بے موسمی بارشوں کا ہونے سے اس کے لیے اور پریشانی کا باعث بن چکا ہے۔ ملک شدید مالی مسائل سے دوچار ہے تو دوسری طرف سیاست دانوں اور اداروں میں اختیارات کی رسہ کشی کا نہ رکنے والا سلسلہ ( اپیسوڈ ) جاری ہے کہ کون پاکستان کے اسٹیرنگ پر بیٹھے گا۔
’سیاسی عدم استحکام ایسے میں صورتحال اور نظام کو مزید خراب کر رہا ہے۔ پاکستان کا نظام تباہ ہو رہا ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ پاکستان کی عوام یا سیاستدانوں کسی کے لیے فائدہ مند نہیں ہو گا۔
عدالتی رسہ کشی نے عدلیہ کو بھی تقسیم کر دیا ہے۔ حکومت کا الزام ہےکہ عدلیہ کے چند ججز( 1992 کے ورلڈ کپ کے کپتان ) کی حمایت میں ہیں اور اس تقسیم اور سخت اختلاف سے ملک میں ایک آئینی بحران پیدا ہونے کا بھی اندیشہ ہے. کئی آئینی ماہرین تو اس وقت اپنے تجزیہ میں یہی اپنا اپنا نقطہ نمبر پیش کررہے ہیں کہ مُلک میں کچھ چیزیں بغیر آئین کے چل رہی ہیں.
( 1992 کے ورلڈ کپ کے کپتان ) کی جماعت حکومت کو دباؤ میں اپنی سی کوشش میں لگی ہوئی ہے جبکہ دوسری طرف اس نگراں حکومت کی تمام تر توجہ اپنی حکومت کو معیاد بڑھانے پر لگی ہوئی ہے.اس کا یہی خیال نظر آتا ہے کہ اس محاذ آرائی کا تعلق ( 1992 کے ورلڈ کپ کے کپتان ) کی ذات سے ہے کیونکہ ’وہ کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔
( 1992 کے ورلڈ کپ کے کپتان ) کی طرف سے سمجھوتہ نہ کرنا بے سود ہے اور طویل المدت میں انھیں ناقابل نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کیونکہ سیاست میں وقت پر فیصلہ نہ کرنا جماعت کو بھی اور لیڈرشپ کو بھی پیچھے دھکیل دیتا ہے. سیاست بڑی ظالم ہے یہ کبھی رعایت نہیں دیتی.
اس ڈیڈ لاک سے یہ ہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے ادارے ناکام ہو رہے ہیں اور ان کو اس سے کوئی سروکار بھی نہیں ’کوئی ایسا فریق، ادارہ یا گروہ نہیں بچا جو آگے آکر ثالثی کا کردار ادا کرسکے، ملکی اسٹیبلشمنٹ کی اپنے تیں کوشش میں لگی ہوئی ہوئیگی مگر عوام کو اس کا کوئی ثالثی کا کردار سامنے نہیں آرہا جس سے عوام میں نااُمیدی بڑھتی جارہی ہے.
بہت سے لوکل اور انٹرنیشنل تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سنہ 2018 کے انتخابات میں ( 1992 کے ورلڈ کپ کے کپتان ) کی الیکشن میں کامیابی اسٹیبلیشمنٹ کی مرہون منت تھی۔ اب جبکہ وہ حزب اختلاف میں ہیں تو وہ کُھل کر اسٹیبلیشمنٹ کے ناقد ہے اور اس سے اسٹیبلیشمنٹ کو تجزیہ کار اپنے نیوز تجزیہ اور تبصروں میں اسٹیبلیشمنٹ کی عوام میں مقبولیت پر اپنے اپنے تجزیہ مختلف انداز میں پیش کررہے ہیں.
نگراں وزیراعظم اس بات پر کہ ملک میں عام انتخابات بھی اسی برس ہونے ہیں لیکن خدشہ ہے کہ انھیں بھی ملک کی سکیورٹی صورتحال اور ناکافی فنڈز کا بہانہ بنا کر تاخیر کا شکار کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کے لیے بہت نقصان دہ ہو گا۔ یہ بہت بدقسمتی ہو گی اور یہ ملک میں ٹوٹی پھوٹی جمہوری عمل کو نقصان پہنچائے گا، جس کی شاید تلافی نہ ہو سکے کیونکہ اب جتنی بھی جلدی ہو الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری سے ایک صاف اور شفاف الیکشن کراکے ملک کو جمہوری ٹریک کی طرف روانہ کردے . اس کا یہ اخلاقی و امانتی فریضہ بھی ہے. کیونکہ عام انتخابات میں جتنی ہی تاخیر ہوئیگی مُلک کے معاشی مسائل اور مہنگائی کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ اپنے قدم بڑھتا جائیگا. جو اس وقت ملک اور عوام کے لیے بالکل سود مند نہیں.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 233 Articles with 82907 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.