میں یا وہ

میں نے کام سے فارغ ہو کر جونہی گھڑی کی سمت نظر دوڑائی تو گھڑی کی چھوٹی سوئی بارہ پر تھی اور بڑی والی دس کے ہندسے کو چھو رہی تھی۔ (ٹائم کیا ہوا تھا یہ بھی میں بتاؤں خود بی سوچ لیں پلیز)
میں نے فوراً کام سمیٹا اور کمرے سے باہر نکلی ہی تھی کہ اسے اپنے سامنے دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ "کاٹو تو لہو نہیں" والا محاورہ مجھ پر فٹ آ رہا تھا۔ میں نے کچھ بولنا چاہا لیکن آواز نکل ہی نہیں سکی۔

گھر والے کن اکھیوں سے میری طرف متوجہ تھے۔ اس نے بھی رحم طلب نظروں سے مجھے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو جانے دو رات کے اس پہر میں کہاں جاؤں ؟ اور سچ کہوں تو میں بھی گھر میں اس وقت کوئی ہنگامہ نہیں چاہتی تھی۔ میں نے سب کو دبے لفظوں میں صبح کا الٹی میٹم دے دیا کہ وہ یا میں
کیونکہ سب کی ہمدردیاں اسی کے ساتھ ہوتی ہیں۔ وہ تمہیں کیا کہتی ہے؟ تم اسے اگنور کرو وغیرہ وغیرہ
صبح کے طوفان کے سب منتظر تھے۔ تمام رات میں نے ٹینشن میں گزاری۔ جاگ تو میں بہت پہلے گئی تھی۔ جونہی ہلکی ہلکی روشنی نمودار ہوئی تو میں نے اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کمر کس لی۔ میں کسی صورت اسے برداشت نہیں کر سکتی۔ آخر کروں بھی کیوں؟ گھر میرا اور قبضہ اس کا ہو۔ میں کیا کوئی بھی اسے کسی قیمت پر قبول نہیں کرے گی۔ آج جو معصوم صورت بنائے مجھ سے بچ رہی ھے کل یہی میری تھوڑی سی ڈھیل پر میرے سر پر سوار ہو کر پورے گھر میں راج کرے گی۔

میں نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں مگر وہ نظر نہ آئی ۔ اس کی عادت تھی کہ مجھے دیکھتے ہی کہیں چھپ جاتی ہے۔

آخر میں نے کافی سوچ بچار کے بعد ایک سکیم سوچ ہی لی۔ خود میں منظر نامے سے غائب ہو چکی تھی (یہ بات نہیں تھی کہ میں اس سے ڈرتی ہوں بس مجھے اس کی شکل سے سخت نفرت ھے)۔ ایک ڈنڈا دے کر گھر کے ایک بندے کو کمرے میں بھیجا کہ اگر دروازے کے پیچھے سے آرام سے نہ نکلے تو اس بڑی سی چھپکلی کو وہیں مار ڈالیں۔
میں بعد میں وہ جگہ صاف کر لوں گی۔

Tehmina Jabeen
About the Author: Tehmina Jabeen Read More Articles by Tehmina Jabeen: 6 Articles with 9349 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.