کیا صدر عارف علوی کا ٹوئٹ دستخط نہ کرنے کا دونوں بلز پر اثرانداز ہوسکتا ہے

پاکستانی صدر علوی کے ٹویٹ کے بعد نہ نگران لاء منسٹر کو اور نہ ہی لاء منسٹری کو سمجھ آرہی ہے کہ وہ کیا کریں، مسئلہ سلجھنے کی بجائے مزید الجھ رہا ہے۔ اور یہ ہوسکتا ہے کہ آئندہ تین ہفتوں میں سپریم کورٹ اہم فیصلے کرے گی جن میں مردم شماری سے لے کر نیب توشہ خانہ اور اب سیکرٹ ایکٹ بھی شامل ہو جائے گا، پچھلے تین دنوں سے دنیا بھر اور سارے پاکستان کے میڈیا پر ٹویٹ اور صرف صدر کا ٹویٹ ہی چل رہا ہے۔ صدر عارف علوی نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ کر کے بھونچال تو پاکستانی سیاست میں اور پاکستان کے بڑے بڑے ایوانوں میں لے آئے ہیں نہ نگران لاء منسٹر کو نہ لاء منسٹری کو سمجھ آرہی ہے کہ وہ کریں تو کیا کریں اس وقت تو مسئلہ سلجھنے کی بجائے الجھتا ہی جارہا ہے آئندہ 3 ہفتوں میں سپریم کورٹ اہم فیصلے کرے گی جس میں مردم شماری سے لے کر نیب توشہ خانہ اور اب سیکرٹ ایکٹ بھی.
آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 سے جڑے اس تنازع نے اس وقت شدت اختیار کی جب صدر ڈاکٹر عارف علوی نے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور شدہ ان بلز پر دستخط کرنے کی تردید کی۔ یہ تنازع ملک میں جاری سیاسی بحران کی ایک نئی کڑی ہے، خاص کر اس تناظر میں کہ آفیشل سیکرٹس سے متعلق قوانین کے تحت تحریک انصاف کے نائب سربراہ اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔
یہ تنازع ایک نہیں بلکہ دو بلز پر ہے: پاکستان آرمی ترمیمی بل اور آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل۔
پاکستان کے سینیٹ اور قومی اسمبلی نے اپنے علیحدہ اجلاسوں میں آرمی ایکٹ 1952 میں کی گئی ترامیم پر مبنی بِل کو متفقہ طور پر منظور کیا تھا جس میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ کوئی بھی شخص سرکاری حیثیت میں حاصل کی گئی ایسی معلومات، جو ملکی مفاد اور سلامتی کے لیے نقصان دہ بن سکتی ہوں، کو ظاہر کرتا ہے یا اسے ظاہر کرنے کا سبب بنتا ہے،
اسے پانچ سال تک قید بامشقت کی سزا دی جا سکے گی۔اس میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ جو فوجی افسر دوران سروس ایسے عہدے پر فائز رہا ہو جو آرمی ایکٹ کے تحت آتا ہو اور جسے ’حساس‘ قرار دیا گیا ہے وہ اپنی ریٹائرمنٹ، یا مستعفی ہونے، یا پھر برطرفی کے پانچ سال مکمل ہونے تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا۔
پاکستان کے صدر عارف علوی کے ایک حالیہ بیان کے بعد یہ معاملہ زیر بحث ہے کہ اب متنازع آفیشل سیکرٹس ایکٹ اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کا سٹیٹس کیا ہے؟
یہی سب سے بڑا سوال ہے کہ آیا دونوں ایوانوں سے منظور یہ بل صدر کے دستخط کے بغیر قانون بن گئے ہیں یا نہیں۔
پاکستان میں قانون سازی کے لیے کیا صدر کے دستخط ہونا ضروری ہیں اور اگر صدر کوئی بھی قانونی راستہ اختیار نہ کریں تو کیا کوئی بل خود ہی قانون بن جاتا ہے؟
دوسری طرف آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل میں تجویز دی گئی تھی کہ امن و امان، تحفظ، مفاد اور دفاع کے خلاف انٹیلیجنس اداروں کے اہلکاروں، مخبروں یا ذرائع کی شناخت ظاہر کرنا جرم تصور ہو گا۔
مخالفین کی جانب سے مستعفی ہونے کے مطالبات کا سامنا کرنے والے صدرِ پاکستان عارف علوی نے آج اپنے سیکریٹری وقار احمد کو اس عہدے سے ہٹا کر ان کی خدمات واپس کر دی ہیں۔ اپنے عملے پر حکم عدولی کے الزام کے بعد صدر نے اپنے سیکریٹری کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کر دیں اور کہا کہ انھیں وقار احمد کی خدمات کی ’مزید ضرورت نہیں۔
اب اس نئے تنازع کے بعد پاکستان میں گذشتہ روز سے ہی سیاسی گرما گرمی بڑھ گئی ہے۔ ایک طرف صدر عارف علوی سے انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے ملوث افسران کو سزا دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف خود صدر عارف علوی کے اس معاملے میں کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
صدر کے کنڈکٹ پر ملک بھر کے اخبارات و الیکٹرونک میڈیا و سوشل میڈیا میں دو مختلف آرا پائی جاتی ہیں، مگر ان کے مخالفین جن میں پی ڈی ایم کی جماعتیں ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایسا نہیں کہ صدر کو طریقہ کار پتہ نہیں تھا۔ پچھلے پانچ سال میں انہوں نے متعدد بلز پر دستخط کیے اور متعدد ایسے تھے جس پر اعتراضات لگا کر واپس بھیجے۔ وہ دیکھتے ہیں، آبزرویشن لگتی ہے، وہ ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
صدر کو علم تھا کہ کون سا بل آیا ہے اور انھوں نے واپس بھیجنا ہے، لیکن انھوں نے خاموشی اختیار کی۔ حالانکہ یہ خبر پاکستان کی میڈیا پر بھی آ گئی کہ بل قانون بن گیا ہے وہ اس کے بعد بھی خاموش رہے۔
چوبیس گھنٹے بعد اپنے عملے کے خلاف کسی کوتاہی پر کارروائی کی بجائے صدر نے سوشل میڈیا پر آ کر ایک بیان جاری کیا۔ ملک کی جگ ہنسائی ہوئی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ ایک غیر موثر صدر ہیں جو اپنا اختیار استعمال نہیں کر سکتے۔
صدر عارف علوی اس تمام تنازع سے دراصل سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنا چاہتے تھے۔ ان پر سیاسی پارٹی کا دباو آیا ہے یا انہوں نے خود کو اپنی پارٹی کی سیاست میں ریلیونٹ رکھنے کے لیے یہ کام کیا ہے۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی دور میں پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی دونوں ہی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہیں۔
عمران خان کی جماعت سمجھتی ہے کہ وہ آج بہت طاقتور ہیں۔ دوسری طرف پی ڈی ایم اتحاد سمجھتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں کوئی جماعت ایسی نہیں ہوگی جو اکثریت ووٹ لے کر حکومت بنا سکے، اسی لیے وہ اتنے مضبوط ہیں کہ کہ آئندہ اتحادی حکومت بنا لیں گے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب بل قانون بنا اسی دن صدر سوال کرتے کہ ’یہ کیسے ہو سکتا ہے جب میں نے دستخط ہی نہیں کیے۔ مگر تاخیر کے بعد شور شرابہ کرنا سمجھ سے باہر ہے۔ اب سیاسی جماعتیں اس صورتحال کو مزید ( استحصال ) ایکسپلائیٹ کریں گی.
آئین تو یہ کہتا ہے کہ جب صدر کے پاس پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں بحث کے بعد بل دوسری مرتبہ واپس آئے گا، تبھی دستخط کی عدم موجودگی میں یہ بل قانون بنے گا۔ یہاں تو ایسا کچھ نہیں ہوا۔
جبکہ پی ٹی آئی کے ترجمان پی ڈی ایم کے عہدیداروں کے جواب میں اپنا یہ نقطعہ رکھ رہے ہیں کہ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، کوئی استعفی نہیں ہوگا۔ صدر عارف علی پاکستان میں ایک آئینی اور جمہوری نظام میں داخل کرنے کی قیادت کریں گے۔ صدر عارف علوی مستعفی نہیں ہوں گے اور ان کے خیال میں یہ اتنی بڑی وجہ نہیں کہ وہ استعفی دیں۔پہلے تو یہی سوال آتا ہے کہ صدر نے اتنی دیر کیوں لگا دی، یہ ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ ایک مقررہ وقت کے بعد اس تنازع کو پیدا کرتے. اس بار ایسا لگتا ہے کہ سیاسی مقاصد حاصل کیے گئے ہیں۔ یہ ایک اہم اور متنازع بل تھا، بل بھی ہو گیا، ان کا بعد ازاں نوٹ بھی آگیا اور وہ ہیرو بھی بن گئے۔ صدر عارف علوی اگر صحیح معنوں میں اس بل کو روکنے کے حق میں ہوتے تو وہ کھل کر اس معاملے پر پوزیشن لے سکتے تھے، تاہم اب یہ ان کی پی ٹی آئی میں واپسی کی ایک کوشش ہے اور یوں لگتا ہے کہ وہ مستقبل میں جبکہ ان کی جماعت پر دباؤ ہے، وہ اپنے لیے ایک اہم مقام چاہتے ہیں. اگر وہ صحیح معنوں میں اسے روکنا چاہتے تو وہ اسی وقت اس کو موثر انداز میں روک لیتے جیسے کسی بھی غیرانسانی قانون کو روکا جاتا ہے۔ اور اس وقت وہ اس معاملے پر پوزیشن لیتے۔ یہ ایک آسان عمل ہوتا اور قومی اسمبلی تھی نہیں تو باآسانی یہ غیرموثر ہو سکتا تھا۔
ایوان صدر پہلے ہی صدر کے سیکریٹری کی خدمات واپس کر چکے ہیں جو اس وقت ایوان صدر میں سینیئر ترین بیورکریٹ عہدہ ہے۔
اگر صدر پاکستان خود کسی کوتاہی اور بھول کے ذمہ دار ہیں تو وہ بھی جوابدہ ہیں۔ لیکن ان کے عملے میں سے کسی نے کوتاہی کی ہے، یا جانتے بوجھتے غلط اقدام کیا ہے تو ان کے خلاف نہ صرف انکوائری ہونی چاہیے۔ بلکہ یہ ایک سنگین جرم ہے اور اس پر عملے کے متعلقہ افراد کو سزا ملنی چاہیے کہ آئندہ کوئی بھی اس طرح کی غیرذمہداری کا مظاہرہ نہ کرے کہ ملک کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہو.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81717 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.