خصائصِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

مسلمانوں کا ایمان ہے اور یہ ایمان قرآن و حدیث کی تعلیم پر مبنی ہے کہ اللہ عزوجل نے انبیاء ومرسلین میںبعض کو بعض پر فضیلت دی اورحضور سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان سب انبیاء و مرسلین پر رفعت و عظمت بخشی ، قرآنِ کریم کا ارشاد گرامی ہے ورفع بعضھم درجٰتِِ oاور ان رسولوں میں بعض کو درجوں بلند فرمایا۔

ائمہ فرماتے ہیں کہ یہاں اس بعض سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مراد ہیں اور یوں مبہم، بلانام لیے ذکر فرمانے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کا افضل المرسلین ہونا ایسا ظاہر و مشتہر ہے کہ نام لویانہ لو، انہیں کی طرف زہن جائے گا اور کوئی دوسرا خیال میں نہ آئے گا، توخصائصِ مصطفےٰ سے مراد وہ فضائل و کمالات ہیں جن کے باعث حضور المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام انبیاء و مرسلین وملائکہ مقربین اور تمام مخلوقاتِ الٰہی پر فضیلت بخشی گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے افضل و اعلیٰ و بلند بالا فرمایاگیا، وہ حضور ہی کے ساتھ خاص ہیں کسی اور کا ان میں حصہ نہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان خاص فضائل و کمالات کو پوری وسعت کے ست کس کی مجال اور کس میں طاقت ہے کہ بیان کرسکے، ان کا رب کریم ان کا چاہنے والا، ان کی رضا کا طالب جل جلا لہ و عم نوالہ ہی اپنے حبیب کی خصوصیات کا جاننے والاہے۔ ہمارا تو اعتقاد یہ ہے کہ ہر کمال ہر فضل و خوبی میں، انہیں تمام انبیاء ومرسلین پر فضیلتِ تامہ حاصل ہے کہ جو کسی کو ملا وہ سب انہیں سے ملا اور جو انہیں ملا وہ کسی کو نہ ملا۔
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

بلکہ انصافاً جو کسی کو ملا آخرکس سے ملا؟ کس کے ہاتھ سے ملا؟ کس کے طفیل میں ملا؟ اسی منبعِ ہر فضل و کرم ، باعثِ ایجادِ عالم سے بعض احادیث میں یہ ہے کہ میں چھ باتوں میں تمام انبیاء پر فضیلت دیا گیا، اور ایک حدیث میں ہے کہ میں انبیاء پر دوباتوں میں فضیلت دیا گیا، اور ایک حدیث میں ہے کہ جبریل نے مجھے دس چیزوں کی بشارت دی کہ مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں۔

ان احادیث کریمہ میں نہ صرف عدد اور گنتی میں اختلاف ہے بلکہ جو چیزیں شمار کی گئی ہیں، وہ بھی مختلف ہیں، کسی میں کچھ خصائص کا ذکر ہے، کسی میں کچھ اور فضائل کا بیان ہے، ان احادیث میں معاذ اللہ کچھ تعارض نہیں اور نہ دو یا پانچ یا چھ یا دس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلتیں منحصر ہیں،حاشا للہ ً ان کے فضائل لامحدود او ر خصائص نا محصور، ان کی حد بندی اور حصر و شمار ہمارے بس کی بات نہیں۔ در اصل ان احادیث میں یہ بیان ہے کہ بعض خصائص و فضائل یہ ہیں ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اور بھی ہیں تو کسی حدیث میں چند خصائص کا بیان اور کسی میں دوسرے خصائص کا ذکر، صرف اس لیے ہے کہ یہ خصائص جو وقتاً فوقتاً بیان کیے جا رہے ہیں، اس کو دل و دماغ میں محفوظ کر لیا جائے تاکہ آفتابِ نبوت کے فضائل و کمالات کی گوناگوں شعاعوں سے مسلمان کا سینہ منور و روشن رہے اور محبت رسول میں روز فزوں ترقی ہو کہ یہی اصلِ ایمان و مدار ایمان ہے۔

ہم ان خصائص میں سے چند کا اجمالاً بیان کرتے ہیں:
(۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمۃ للعالمین میں:
قرآنِ کریم کا ارشادِ گرامی ہے:
ومآ ارسلنٰک الا رحمۃ للعٰلمینo
ترجمہ: اے محبوب! ہم نے تجھے نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہانوں کے لیے۔

عالَمین جمع ہے عالَم کی اور عالَم کہتے ہیں ماسوی اللہ کو، یعنی اللہ عزوجل کے سوا ساری کائنات ، جس میں انبیاء و مرسلین اور ملائکہ مقربین، سب داخل ہیں تو لا جرم حضور پرنور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے لیے رحمتِ الٰہی اور نعمت خداوندی ہوئے اور وہ سب حضور کی سرکارِ عالی مدار سے بہرہ مند و فیضیاب ، اسی لیے علماء کرام تصریحیں فرماتے ہیں کہ ازل سے ابد تک ارض و سما (زمین و آسمان) میں، اولیٰ و آخرت میں ، دنیا و دین میں، روح و جسم میں، ظاہری یا باطنی ، روزِ اول سے اب تک، اب سے قیامت تک ، قیامت سے آخرت ، آخرت سے ابد تک ، مومن یا کافر ، مطیع یا فاجر، ملک یا انسان ، جن یا حیوان بلکہ تمام ماسواللہ میں، چھوٹی یا بڑی، بہت یا تھوڑی جو نعمت و دولت ، کسی کو ملی یا اب ملتی ہے یا آئندہ ملے گی، سب حضور کی بارگاہِ جہاں پناہ سے بٹی اور بٹتی ہے اور ہمیشہ بٹتی رہے گی، سب پر حضور ہی کے طفیل رحمت ہوئی، حضور ہی بارگاہِ الٰہی کے وارث ہیں، بلا واسطہ خد ا سے حضور ہی مدد لیتے ہیں اور تمام عالَم مددِ الٰہی حضور ہی کے وسیلہ سے لیتا ہے۔ تو جس کو جو ملا یہیں سے ملا اور جس نے جو پایا یہیں سے پایا (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ واصحابہ وابنہ سیّدنا الغوث الاعظم و بارک وسلم) ۔ ان کا چاہنے والا ان کا خالق رب العالمین ہے اور یہ رحمۃ للعالمین ، جو اطلاق و عمومیت وہاں ہے، یہاں بھی ہے۔
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مفر مقر
جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو جو یہاں نہیں تو وہا نہیں

(۲) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مخلوقِ الٰہی کے نبی ہیں:
قرآنِ کریم ارشاد فرماتا ہے:
ومآ ارسلنٰک الا کآ فۃ للناس o
ترجمہ: ہم نے تمھیں نہ بھیجا مگر رسول سب لوگوں کے لیے۔

علماء کرام فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالتِ عامہ کا تمام جن وانس کو شامل ہونا اجماعی ہے اور اہل تحقیق کے نزدیک ملائکہ کو بھی شامل ہے اور شجرو حجر،حور و غلمان، ارض و سما ، دریا، پہاڑ غرض تمام کائنات کا ذرہ ذرہ نخلستان کا پتہ پتہ، سمندروں کا قطرہ قطرہ، حضور کے عام و تام دائرئہ رسالت واحاطۂ نبوت میں داخل ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مخلوق ، انسان و جن بلکہ ملائکہ حیوانات ، جمادات سب کی طرف مبعوث ہوئے۔

خود قرآنِ عظیم میں دوسری جگہ آپ کی نبوت کو عالَمین کے لیے بتایا اور مذکورہ بالا آیت میں لفظ ’’خلق‘‘ بمعنی مخلوقاتِ الٰہی آیا اور اس کی تاکید میں لفظ کافۃ لا کر یہ بتا دیا کہ آپ کی نبوت جن وانسان اور انبیاء و مرسلین و ملائکہ مقربین سب کے لیے ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کے بھی رسول ہیں، امتیوں کو جو نسبت انبیاء ورسل سے ہے کہ وہ ان سب کے نبی اور یہ ان کے امتی ، وہی نسبت انبیاء ورسل کو اس سید الکل سے ہے بلکہ وہی نسبت اس سرکارِ عرش وقار سے ہر زرہ مخلوق اور ہر فرد ماسوی اللہ کی ہے اسی لیے اکابر علماء تصریح فرماتے ہیں کہ جس کا خدا خالق ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں، خود قرآنِ کریم اس حقیقت پر شاہد ہے کہ روزِ اوّل ہی امتیوں پر فرض کیا گیا کہ رسولوں پر ایمان لائیں اور رسولوں سے عہد و پیمان لیا گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گرویدہ بن جائیں، حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آج اگر موسیٰ دنیا میں ہوتے تو میری پیروی کے سوا ان کو گنجائش نہ ہوتی۔

اور یہی باعث ہے کہ جب زمانہ قرب قیامت میں حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے با آنکہ بدستور منصبِ نبوت پر ہوں گے، حضور پر نور و کے امتی بن کر رہیں گے، حضور ہی کی شریعت پر عمل کریں گے اور حضور کے ایک امتی و نائب یعنی امام مہد ی کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔

غرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء کے نبی ہیں اور تمام انبیاء و مرسلین اور ان کی امتیں سب حضور کے امتی ہیں، حضور کی نبوت ورسالت ، ابو البشر سید نا آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روزِ قیامت تک جمیع خلق اللہ کو عام و شامل ہے۔

حضور کے نیب الانبیاء ہونے ہی کا باعث ہے کہ شبِ اسراتمام انبیاء و مرسلین نے حضور کی اقتداء کی اور اس کا پورا ظہور کل بروزِ قیامت ہوگا جب حضور کے جھنڈے کے زیر سایہ تمام رُسل و انبیاء ہوں گے (صلی اللہ علیہ وعلیہم وبارک وسلم) ۔

(۳) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دین کامل ہے اور نعمتیں تمام:
رب عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الا سلام دینا o
ترجمہ: میں تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔

علمائے کرام فرماتے ہیں کہ دین کا اکمال یہ ہے کہ وہ اگلی شریعتوں کی طرح منسوخ نہ ہوگا اور قیامت تک باقی رہے گا ، اکمالِ دین سے مراد یہ ہے کہ دین کو ایک مستقل نظامِ زندگی اور مکمل دستورِ حیات بنا دیا گیا جس میں زندگی کے جملہ مسائل کا وجاب اصولاً یا تفصیلاً موجو دہے، اور ہدایت ورہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت نہیں، اور نعمت تمام کرنے سے مراد اسی دین کی تکمیل ہے اور اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ بندوں کی طرف سے قانونِ الٰہی کی تعمیل اور حدودِ شریعت پر قائم رہنے میں بندوں کی طرف سے کوئی کوتاہی نہ ہو اور وہ یقین رکھیں کہ انہیں درجہ قبولیت اسی شریعت کی اتباع سے حاصل ہوگا۔

مختصراًیوں کہنا چاہیے کہ جب انسان اپنے عقل و شعور میں حدِ بلوغ تک پہنچ گیا یا اس کے سامان پوری طرح مہیا ہو گئے ، تب نبوت ور سالت کو بھی حدِ کمال و تمام تک پہنچا کر ختم کر دیا گیا اور رشد و ہدایت کو رہتی دنیا تک اس طرح باقی رکھا کہ آخری پیغمبر کے ذریعے جو آخری پیغام کامل و مکمل بن کر آیا اسے تمام احکام و قوانین اور ہر دستورِ حیات کے لیے اساس و بنیاد بنا دیا۔

ظاہر ہے کہ اگر نبوت و رسالت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہنچ کر ختم نہ ہوتی اور اس کا سلسلہ کمالِ نبوت ہی کی شکل میں آگے بڑھتا رہتا ، تو صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اطاعت کا حکم نہ دیا جاتا بلکہ خطاب یہ ہوتا کہ جو نبی تمہارے زمانہ میں موجود ہو اس کی اتباعِ کرو جبکہ قرآنِ مجید صاف صاف لفظوں میں بار بار ، جگہ جگہ یہ ارشاد فرما رہا ہے کہ اب انسانی رشدو ہدایت کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اللہ کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جائے۔

بفرضِ غلط اگر ختمِ نبوت کی تصریح قرآنِ کریم یا حادیثِ صحیحہ میں نہ بھی ہوتی جب بھی یہی آیۃ کریمہ (الیوم اکملت لکم) اس عقیدہ کی بنیاد کو کافی تھی کہ جب کوئی درجہ مزید تعلیم اور اصلاح کا باقی ہی نہ رہا تو اب کسی نئے نبی کی ضرورت ہی کیا رہی کہ دین کامل ہے اور قرآن اگلی شریعتوں کا ناسخ ، اب نہ کسی دین کی ضرورت ہے نہ کسی کتابِ قانون کی حاجت، والحمد للہ رب العالمین۔

(۴) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین ہیں:
قرآن شریف میں ارشاد فرمایا گیا :
ولٰکن رسول اللہ وخاتم النبین o
ترجمہ: محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور سب نیبوں میں پچھلے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاتم البنیین اور آخری نبی ہونا اور آپ پر نبوت کا ختم ہوجانا،آپ کے بعد کسی نئے نبی کا نہ قطعی ایقانی اجماعی عقیدہ ہے، نصِ قرآنی بھی یہی بتاتی ہے اور بکثرت احادیثِ صحیحہ، جو حدِ تواتر تک پہنچتی ہیں، ان سب سے ثابت ہے کہ حضور سب سے پچھلے نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نیا نبی ہونے والا نہیں اور تاریخ کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانۂ اقدس کے بعد جب بھی دنیا کے کسی گوشہ سے کسی مجنون لایعقل کے منہ سے دعویٔ نبوت ہوا، امتِ مسلمہ نے اس کے دعویٰ کو ٹھکرا کر اسی کے منہ پر ماردیا۔

صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانۂ خلافت میں مدعیانِ نبوت کے خلاف تمام صحابۂ کرام کا جہاد بتا رہا ہے کہ انہوں نے خاتم النبےین کے یہی معنی سمجھے اور اسی پر کاربند رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں، آپ کے بعد کسی نئے نبی کی گنجائش نہیں اور مسیلمہ کذاب کا جو حشر ہوا وہ سب پر روشن ہے۔
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1295349 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.