ملک غلام محمد(تیسرے گورنر جنرل) ٭٭٭ قسط سوئم٭٭٭ دو وزرائے ِاعظم خواجہ ناظم الدین اور محمد علی بوگرہ کی برطرفی

پاکستان کے سربراہان ِمملکت٭باب4٭
پہلی دفعہ فوج بھی براہ ِراست سیاست کاحصہ بن کر سیاسی اقتدار کی میوزیکل چیئر میں شامل ہو گئی۔

ملک غلام محمد(تیسرے گورنر جنرل)۔۔۔انڈین وزیراعظم نہرو۔۔۔لیاقت علی خان

گورنر جنرل ملک غلام محمد (1895ء ۔ 1956ء)
تحقیق و تحریر:عارف جمیل

دو وزرائے ِاعظم خواجہ ناظم الدین اور محمد علی بوگرہ کی برطرفی٭ قسط سوئم٭



غلام محمد نے اسلامی ممالک کے آپس میں بہتر تعلقات قائم کرنے اور تجارت کو فروغ دینے کیلئے اسلامی ممالک کے تعاون سے انٹرنیشنل اسلامک اکنامک آرگنائزیشن قائم کی اور بانی کی حیثیت سے پہلے صدر بھی منتخب ہوئے۔ اقوام ِ متحدہ کے مالیاتی ادارے عالمی بنک کے عہدہ داروں نے پاکستان کیلئے غلام محمد کی خدمات کو سراہتے ہوئے اُنھیں عالمی بنک کی طرف سے پاکستان میں گورنر مقرر کیا۔
غلام محمد ایک انقلابی ذہن کے مالک تھے اور اس کا ذکر اُنھوں نے خود بھی فروری 1951ء میں موچی دروازہ لاہور کے ایک جلسے میں خطاب کے دوران کیا تھا۔ اُنھو ں نے کہا تھا کہ پاکستان کی مادی ترقی کیلئے ایک ذہنی و اخلاقی انقلاب ناگزیر ہے۔ غلام محمد اشتراکی نظام کی بجائے سرمایہ دارانہ نظام کے قائل تھے اور ویسے بھی اُنکا جُھکاؤ امریکہ اور یورپین ممالک کی طرف تھا جسکی مثال اُنکے بہت سے مالیاتی اقدامات کے علاوہ ایک ایسے تنخواہ کمیشن کے قیام سے ملتی ہے جس کے ذمے یہ کام سونپا گیا تھا کہ وہ کمیشن سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایک حد سے زیادہ اضافہ نہ کرنے کی تجویز پر غور کرے تاکہ مستقبل میں تنخواہ کم ہونے کے باعث لوگ سرکاری ملازمت کی بجائے نجی کاروباری اداروں میں ملازمت حاصل کرنے کو ترجیح دیں۔ اسکے ساتھ نجی کاروبار کرنے والوں پر بھی یہ لازم ہو کہ وہ قابل افراد کو بہتر تنخواہ دیں۔ غلام محمد نے مہاجرین کیلئے بھی قرضے جاری کرنے کیلئے فائنس ری ہیبلی ٹیشن کارپوریشن قائم کی تاکہ مہاجرین سرکاری ملازمت کی بجائے اپنے کاروبار کو زیادہ ترجیح دیں۔
غلام محمدنے آغاز میں ساری توجہ وزارت ِ خزانہ کے معاملات پر ہی دی۔لیکن جب صوبہ ِ پنجاب میں ممدوٹ دولتانہ تنازعہ انتہاء کو پہنچ گیا اور لیاقت علی خان نے بحیثیت وزیراعظم پاکستان وزیر اعلیٰ پنجاب نواب آف ممدوٹ کی بجائے ممتاز دولتانہ کی طرفداری کی تو غلام محمد نے اپنے دوست مشتاق گورمانی کے ساتھ مل کر نواب آف ممدوٹ کی پُشت پناہی کی تاکہ وہ ممتاز دولتانہ کے مقابلے میں مضبوط رہ سکیں۔ لیکن اسکے باوجود پنجاب کے ان خراب سیاسی حالات کو قابو کرنے کیلئے جنوری 1949ء میں لیاقت علی خان نے صوبائی وزارت اور اسمبلی کو برطرف کر کے نظم و نسق آئندہ آنے والے صوبائی انتخابات تک پنجاب کے انگریز گورنر موڈی کے سُپرد کر دیا۔
غلام محمد اپنی طبیعت کی تیزی اور سخت محنت کی وجہ سے فشار ِ خون (بلڈ پریشر) کے مرض میں مُبتلا ہو چکے تھے۔ اسکے علاج کیلئے غلام محمد 1951ء کی بہار میں امریکہ گئے اور وہاں ریڑھ کی ہڈی کا ایک طویل دورانیہ کا آپریشن کروایا۔ لیکن پاکستان آنے کے کچھ عرصے بعد ہی اُن پر اچانک فالج کے پے در پے حملے ہو گئے جس سے زبان میں لُکنت آگئی اور چال میں لنگ۔ غلام محمد کی اس بیماری کی وجہ سے حکومت ِ پاکستان نے اُنھیں وزیر ِ خزانہ کے عہدے سے ریٹائر کرنے کا فیصلہ کر لیا اور غلام محمد نے بھی اپنی اس بیماری کی وجہ سے کچھ مُدت کیلئے چھٹیاں حاصل کر کے راولپنڈی میں اپنے عزیز ڈی۔ایم ملک کے گھر رہائش اختیار کر لی۔
وزیراعظم لیاقت علی خان کو 16 ِاکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سید اکبر نامی افغانی نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ غلام محمد اُس وقت راولپنڈی سرکٹ ہاوس میں مشتاق گورمانی اور اپنے بیوی کے بھانجے ریاض کے ساتھ تھے۔ جب اچانک یہ خبر ملی تو غلام محمد اور مشتاق گورمانی کو بہت تعجب ہوا۔ گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین اُس وقت نتھیا گلی میں تھے وہ اطلاع پاتے ہی راولپنڈی پہنچے اور بذریعہ ہوائی جہاز کراچی پہنچ گئے اور غلام محمد اور مشتاق گورمانی بذریعہ ٹرین کراچی پہنچے۔
گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے ان نازک حالات میں کراچی میں موجود چند کابینہ کے ممبران سے مشورہ کرنے کے بعد 17 ِاکتوبر 1951ء کو خود وزیر اعظم پاکستان کا عہدہ سنبھال لیا اور غلام محمد کو گورنر جنرل کے عہدے کیلئے موزوں سمجھتے ہوئے برطانیہ کے بادشاہ سے اُنکے تقرر کی سفارش کر دی۔ حالانکہ پہلے فیصلہ یہ ہوا تھا کہ وزیراعظم غلام محمد ہونگے۔غلام محمد جسمانی اعتبار سے بے شک کسی حد تک مفلوج تھے لیکن دماغی لحاظ سے حسب ِ سابق چاق و چوبند، قوت ِ ارادی اور قوت ِفیصلہ کے مالک اور خود اعتمادی بھی ماضی کی طرح قائم دائم تھی۔ بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ ہر دم رواں اور ہر دم جواں ہے کہ زندگی کے اُس وقت بھی قائل تھے۔ اُن کے برعکس وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین میں وہ صلاحیتں موجود نہیں تھیں جو لیاقت علی خان میں موجود تھیں۔لہذا وزارت ِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی ملک میں کچھ اس قسم کے مسائل پیدا ہو گئے جنکو حل کرنا خواجہ ناظم الدین کیلئے مشکل ہوتا چلا گیا۔
غلام محمد کی ذاتی تا عملی زندگی سے سب کو اندازہ تھا کہ وہ ایک ذہین اور تیز رو شخصیت کے مالک ہیں اور قدرت نے اُنکو کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کیلئے غیر معمولی صلاحیتوں عطا کی ہیں۔ لیکن بحیثیت گورنر جنرل اس اصول کے پابند تھے کہ وزیراعظم اور اُنکی کابینہ کے معاملات میں براہ ِراست دخل اندازی نہ کریں۔ جبکہ ملک کے سیاسی و معاشی حالات ابتر ہوتے جا رہے تھے اور اخبارات میں بھی خواجہ ناظم الدین اور اُنکی کابینہ پر تنقید ہو رہی تھی۔ لہذا ان حالات کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے غلام محمد نے وزیر اعظم کی کابینہ میں اپنے لیئے ایک اندرونی کابینہ بنا لی جس کا تعلق حکومت کے سنیئر افسروں کے ساتھ قائم کر دیا گیا تاکہ ایک تو خواجہ ناظم الدین اور اُنکی کابینہ کے فیصلوں کے متعلق اُنھیں باخبر رکھا جا سکے اور دوسرا ملک کے آئینی معاملات میں دخل اندازی بھی کی جا سکے۔ اسکے علاوہ غلام محمد نے پاکستان فوج کے پہلے سپہ سالار جنرل ایوب خان سے بھی اچھے تعلقات استوار کر لیئے تھے۔
خواجہ ناظم الدین اپنی شریف النفسی اور حُب الوطنی کی وجہ سے بڑھتے ہوئے ملکی مسائل کو حل کرنے میں مسلسل ناکام ہو رہے تھے۔ یہاں تک کہ 22 ِدسمبر 1952ء کو جب بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ مکمل ہو کر منظر ِعام پر آئی تو اسکی وجہ سے مشرقی بنگال اور پنجاب میں ٹھن گئی۔ ابھی خواجہ ناظم الدین ان صوبوں کے نمائندوں سے رپورٹ کے متعلق رائے اکٹھی کر ہی رہے تھے کہ 1953ء کے آغاز میں کراچی میں طلباء کی ایجی ٹیشن اور پھر ساتھ ہی پنجاب میں تحریک ِ ختم ِ نبوت جیسے واقعات کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ سمگلنگ کا کاروبار تو جب سے خواجہ ناظم الدین نے حکومت سنبھالی تھی مسلسل بڑھتا جا رہا تھا جسکی وجہ سے قیمتیں آسمان کو چُھونے لگیں، غیر ملکی زر ِ مبادلہ ختم ہو گیا اور اقتصادی استحکام شدید خطرے سے دوچار ہو گیا جس سے غلام محمد جیسے اعلیٰ درجے کے معیشت دان برداشت نہ کر پا رہے تھے۔ بس ان تمام حالات نے غلام محمد اور اُنکی اندرونی کابینہ کے ہاتھ مضبوط کر دیئے اور آخر کار 17 ِاپریل 1953ء بروز جمعہ کی صبح گورنر جنرل ملک غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو اُنکی کابینہ سمیت برطرف کر دیا اور فرمان جاری کیا گیا کہ ملک کو جو مُشکلات درپیش ہیں خواجہ ناظم الدین کی کابینہ اُنکا مقابلہ کرنے میں یکسر ناکام رہی ہے۔
خواجہ ناظم الدین نے غلام محمد کے اس اقدام پر شدید احتجاج کیا اور کہا کہ ایک تو شاہ ِبرطانیہ سے سفارش کر کے اُنھوں نے غلام محمد کو گورنر جنرل بنوایا تھا اور اُس نے مجھے ہی برطرف کر دیا ہے اور دوسرا چند روز پہلے ہی میں نے ملک کا آئندہ سال کا بجٹ اسمبلی میں اکثریت کے ساتھ پاس کروایا ہے۔ لیکن غلام محمد کے مطابق اسمبلی میں اکثریت ہونے پر یا بجٹ پاس کروانے کی بنا پر ملک کی عوام کو مزید مسائل میں جھونکا نہیں جا سکتا تھاکیونکہ بجٹ تو گزشتہ سال بھی اکثریت سے ہی پاس ہوا تھا لیکن ملک کے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید بڑھے ہی تھے۔ بہر حال غلام محمد کے اس غیر جمہوری فیصلے کو ان حالات میں سراہتے ہوئے محترمہ فاطمہ جناح، ممتاز دولتانہ اور دوسرے کچھ سیاسی رہنماؤں نے اُنھیں عوام کا حقیقی نمائندہ قرار دیا اور مبارکباد بھی پیش کی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ غیر جانب دار مبصرین نے اس قابل ِاعتراض اور غیر جمہوری فیصلہ قرار دیا۔جبکہ دوسری طرف برطانوی حکومت نے دو دِن بعد ہی خواجہ ناظم الدین اور اُنکی کابینہ کی برطرفی کو آئینی طور پر جائز قرار دے دیا۔
گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی جگہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو فوراً پاکستان بُلا کر وزیر ِاعظم مقرر کر دیا اور نئی کابینہ بھی تشکیل دے دی۔ نومبر 1953 ء میں غلام محمد بیماری کے باعث امریکہ میں اپنا علاج کروانے گئے تو ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے گورنر جنرل غلام محمد کے اس دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان امریکہ سے دفاعی و معاشی امداد کیلئے جو مفاہمت کرنے والا ہے اُس وجہ سے اب بھارت کے پاکستان سے متنازعہ امور پر مذاکرات شاید ممکن نہ ہوں۔ جبکہ غلام محمد اور محمد علی بوگرہ نے امریکہ کے ساتھ معاہدے کے مقصد کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کا مقصد ملک کے دفاع کو مضبوط بنانا ہے نہ کہ ہندوستان کے خلاف کسی قسم کی جارحیت کرنا۔
محمد علی بوگرہ کو اچانک وزیر اعظم بنایا گیا تھا جبکہ وہ مرکزی اسمبلی کے رُکن بھی نہ تھے، لیکن اس کے باوجود محمد علی بوگرہ نے جس ہوش مندی سے پاکستان کے کچھ مسائل حل کر دیئے اُن سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن آئین بنانے میں سُستی اور 1954ء کے مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کی شکست اور خوانین واقعات کے بعد گورنر راج کا نفاذ محمد علی بوگرہ اُنکی کابینہ اور مرکزی اسمبلی میں مسلم لیگ کی اکثریت کیلئے کچھ اچھا ثابت نہ ہوا اور غلام محمد کو ایک دفعہ پھر ہاتھ مضبوط کرنے کا موقعہ مل گیا۔ محمد علی بوگرہ ایک قابل شخص تھے اُنھوں نے ان حالات میں اندازہ لگا لیا کہ مستقبل میں برطرفی سے بچنے کیلئے گورنر جنرل کے خلاف غیر معمولی اقدامات کرنے ہوں گے۔ لہذا محمد علی بوگرہ نے غلام محمد کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پاکستان کے پہلے آئین کے مسودے کو دستور ساز اسمبلی سے پاس کروانے کی کوششیں تیز کر دیں اور دوسری طرف اپنے چند رفقاء کے ساتھ مل کر پروڈا کا قانون ختم کرنے والی اور گورنر جنرل کے اختیارات ِ خصوصی سلب کرنے والیں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 ء کی دفعات بالترتیب 20 ِستمبر اور 21 ِ ستمبر 1954ء کے دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں منسوخ کروا دیں۔ یہ وہی دفعات تھیں جن کے تحت خواجہ ناظم الدین کو کابینہ سمیت برطرف کیا گیا تھا۔
غلام محمد نے اس کاروائی کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے سیاسی جوڑتوڑ شروع کر دیا۔ ایک طرف تو اُنھوں نے پروڈا کے قانون ختم ہونے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے سیاسی رہنماؤں کو معاف کرنا شروع کر دیا اور دوسری طرف حسین شہید سہروردی سے رابطہ کر کے یہ مطالبہ کروایا کہ چونکہ مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے لہذا موجودہ دستور ساز اسمبلی غیر نمائندہ ہے اس لیئے اسے توڑ دیا جائے۔ اس دوران محمد علی بوگرہ امریکہ کے سرکاری دورے پر جا چکے تھے اور 16 ِاکتوبر 1954ء کو دستور کا مسودہ بھی پریس میں بھیج دیا گیا تھا تاکہ ارکان ِاسمبلی تک جلد پہنچ جائے اور ارکان ِ اسمبلی 27 ِاکتو بر کو دستور ساز اسمبلی کا اجلاس منعقد ہونے سے پہلے اس کا مطالعہ کر لیں۔ لیکن گورنر جنرل غلام محمد نے اس اجلاس سے پہلے ہی محمد علی بوگرہ کو امریکہ سے واپس بُلا لیا اور 24 ِاکتوبر 1954ء کو اُنھوں نے یہ جواز پیش کرتے ہوئے کہ دستور ساز اسمبلی چونکہ اب تک دستور بنانے میں ناکام رہی ہے اور اس وجہ سے عوام کا اعتماد بھی کھو چُکی ہے، دستور ساز اسمبلی اور کابینہ توڑ دی اور ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا۔
غلام محمد نے اپنے تین سالہ دور میں یہ دوسری دفعہ حکومت برطرف کی تھی۔ لیکن غلام محمد اپنے فیصلے پر اس دفعہ بھی ذرا پشیمان نہیں تھے بلکہ اُس دن اُنھوں نے گورنر جنرل ہاؤس میں وینس میں محبت نامی ایک انگریزی فلم کا انتظام کروا کر دیکھی۔ اصل میں جہاں تک عوام کے نزدیک یہ ایک غیر جمہوری اقدام تھا وہاں غلام محمد کی ذاتی سوچ کچھ مختلف تھی اور ٹھیک بھی تھی یعنی سات سال کے طویل عرصہ میں نہ تو آئین بنا تھا اور نہ ہی اس وجہ سے ملک میں باقاعدہ طور پر انتخابات ہوئے تھے۔ اوپر سے اپنی حکومت مضبوط کرنے کیلئے دستور بنانے سے زیادہ گورنر جنرل کے اختیارات کو کم کرنے کو ترجیح دی جا رہی تھی اور پروڈا جیسے اُس قانون کو جس سے لیاقت علی خان نے اپنے دورے ِ حکومت میں سیاست دانوں کا محاسبہ کرنے کیلئے آئین کا حصہ بنا دیا تھا منسوخ کر دیا گیا تھا۔
غلام محمد نے سوچا کہ اگر عوام ہی اس قانون کو نہیں چاہتی تو پھر اُنھیں کیا ضرورت ہے کہ پروڈا کے قانون کے تحت ملک کے سیاست دانوں کو نااہل قرار دے کر اپنے خلاف کریں۔ بلکہ اُنھوں نے تو اس قانون کے منسوخ ہونے کی خبر سنتے ہی اُن سیاست دانوں پر سے بھی زیر ِسماعت مقدمات واپس لے لیئے جن کو اس قانون کے تحت نااہل قرار دیا جا چُکا تھا۔ بہر حال غلام محمد نے اپنے اس اقدام کے بعد نئے انتخابات تک مرکزی حکومت کا نظم و نسق چلانے کیلئے اُسی دِن ایک دفعہ پھر نئی وزارت بنانے کی دعوت محمد علی بوگرہ کو دے کر اُن سے اورکابینہ کے8 ارکان سے حلف لیا۔ اس مرتبہ نئی کابینہ کیلئے وزیر گورنر جنرل غلام محمد نے خود فائنل کیئے۔ جن میں ڈاکٹر خان صاحب، حسین شہید سہروردی، میجر جنرل اسکندر مرزااور جنرل ایوب خان کو بھی اس کابینہ میں بحیثیت وزیر شامل ہوئے۔ اسطرح پہلی دفعہ فوج بھی براہ ِراست سیاست کاحصہ بن کر سیاسی اقتدار کی میوزیکل چیئر میں شامل ہو گئی۔
٭(جاری ہے)٭
Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 310354 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More