ظریفانہ : قربانی کےبکرے کی آپ بیتی

جمن سیٹھ نے کلن قصائی سے کہا میرےبھائی چھکن پہلوان کو اچانک اسپتال میں داخل کیا گیا ہے اس لیے میں گاڑی لے کر جارہا ہوں۔
کلن بولا لیکن سیٹھ میں ان بکروں کو لے کر کیا پندرہ کلومیٹر پیدل جاوں گا ۔ یہ مجھ سے نہیں ہوگا ۔
جمن نے بگڑ کر کہا تجھے کس نے کہا کہ انہیں پیدل لے کر جا؟ تو یہاں بلدیہ کی رسید وغیرہ بناکر انتظار کر ایک آدھ گھنٹے میں گاڑی آجائے گی ۔
ٹھیک ہے سیٹھ لیکن گاڑی جلدی بھیجنا ورنہ میں بور ہو جاوں گا ۔
بھائی عید تو پرسوں ہے۔ آج ویسے بھی گھر میں پڑا رہے گا اس سے بہتر ہے منڈی گھوم یا موبائل پر ویڈیو دیکھ ۔ یہ کھانے کے لیے نوٹ پکڑ۔
کھا پی کر فارغ ہونے کے بعد کلن نے سوچا چلو للن چرواہے کے ساتھ ٹائم پاس کیا جائے ۔ وہ اس کے پاس آکر بولا کیوں بھائی کیا حال ہے؟
للن بولا کیا بتاوں کلن وہی ہڈی وہی کھال ہے ؟
کلن نے کہا یار آج کل کھال کا برا حال ہے۔ پہلے مدرسے والے قربانی کی کھال کے لیے لڑتے تھے اب اس سے بھاگتے ہیں۔
ہاں بھائی دنیا بڑی خراب ہے، جس کا بھاو زیادہ ہو اس کے پیچھے بھاگتی ہے اور سستی چیز کی جانب مڑ کر بھی نہیں دیکھتی ۔ یہی حال بکروں کی کھال کا ہے۔
کلن نے کہا یار میرے خیال میں انسانوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ جس کے پاس دولت و شہرت ہو ہر کوئی اس کا دیوانہ ہے ہمیں کوئی پوچھتا ہی نہیں ؟
للن بولا لیکن کوئی پوچھے یا نہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ہم کو اپنے کام سے کام اور اپنے بکروں سے مطلب۔ دنیا سے کیا لینا دینا ؟
اچھا یار یہ بتاو کہ پرسوں میں تمہارے ان خوبصورت بکروں کو ذبح کردوں کا تو تمہیں کیسا لگے گا؟
للن بولا اچھا لگے گا اور کیسا لگے گا؟
یار تم جیسا بے مروّت انسان میں نے دنیا میں نہیں دیکھا ۔
اس میں مروّت آپا کہا ں سے آگئی ۔
کلن نے کہا ارے بھائی میں آپا واپا کی بات نہیں کررہا ہوں ۔ مجھے تو تمہاری سنگدلی اور خودغرضی پر غصہ آرہا ہے۔
اچھے تم لوگ سفاک اور ابن الوقت سیاستدانوں کو انتخاب میں کامیاب کرکے سر پر بٹھاتے ہو اور مجھے سنگدل کہتے ہو؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟
بھیا وہ ہمارے دشمن ہیں اس لیے ان کے سرپر کانٹوں کا تاج رکھ دیتے ہیں لیکن تم ہمارے دوست ہو اس لیے تمہارے گلے میں ہار ڈالنا چاہتے ہیں۔
اچھا ہمارے لیے ہار اور ان کی خاطر جیت؟ بہت ناانصافی ہے؟
کلن بولا ا وہو لگتا ہے تمہاری عقل بھی بکروں کے ساتھ گھاس چرنے گئی ہے۔ میں جیت ہار کی نہیں بلکہ پھولوں کے ہار کا ذکر کررہا تھا ۔
اب زیادہ بات نہ بناو کیا سمجھے ؟ تمہاری زبان تو چھری سے بھی زیادہ تیز چلتی ہے۔
بات میں تھوڑی نا بنا رہا ہوں ۔ تم نے یہ بتایا ہی نہیں کہ جب یہ بکرے کٹ جائیں گے تو تمہیں کیوں اچھا لگےگا؟ اس سوال کو تم گول کرگئے۔
للن بولا سچ پوچھو تو مجھےاس لیے اچھا لگے گا کیونکہ پہلے اوہ بکیں گے ، اس کے بعد ہی نا کوئی قصائی کاٹے گا ۔
اچھا اگر یہ نہیں بکے تو کون سا آسمان پھٹ جائے گا یا زمین دھنس جائے گی ؟
بھیا تم جیسے قصائی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن ہماری تو عمر بھر کی کمائی ڈوب جائے گی اور سال بھر کا گزارہ مشکل ہوجائے گا ۔
کیوں عید کے بعد کیا بکرے نہیں بکتے؟
للن بولا بکتے تو ہیں لیکن ان کی قیمت کئی گنا کم ہوجاتی ہے ۔ یہ خاص بکرے بھی عام بکروں کے بھاو بیچنے پڑتے ہیں ۔ بہت خسارہ ہوتا ہے۔
اچھا ! اگر اس سال نہیں بکے تو اگلے سال بک جائیں گے کیا فرق پڑتا ہے؟
دیکھ بھائی کلن قصائی یہ کہنا بہت آسان ہے مگر کرنا نہایت مشکل ہے ۔
یار للن تیری بات میری سمجھ میں نہیں آئی اس میں مشکل کیا ہے؟
تجھے تو معلوم ہے کہ ہم ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے کرکے یہاں آتے ہیں ۔ ان بکروں کو لانے لے جانے پر اچھی خاصی رقم خرچ ہوجاتی ہے ۔
جی ہاں لیکن تم نے خوب کمائے بھی تو ہیں اس میں سے کچھ حمل نقل پر خرچ ہوجائے تو کیا فرق پڑتا ہے؟
یار تو بھی عجیب آدمی ہے ۔ ہم نے اس لیے تھوڑی نا کمائے کہ ساری کمائی پٹرول میں جھونک دیں ۔
ارے بھیا دھندے میں آمدنی کے ساتھ تھوڑا بہت خرچ بھی تو ہوتا ہے؟
بھیا جب سے پٹرول کے نرخ میں آگ لگی ہے ٹرانسپورٹ کا خرچ آسمان پر پہنچ گیاہے۔ کیا سمجھے؟
خیرمیں نے توپہلے ہی کہہ دیا کہ تم تو سنگدل آدمی ہے یہ بتا وکہ ان بکروں پر کیا گزرتی ہوگی؟
تو یہ سوال مجھ سے کیوں پوچھ رہا ہو؟ جا بکروں سے پوچھو ؟؟
کلن نے بگڑ کرکہا اوئے بیوقوف تو بکرے پالتا اور یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ بات نہیں کرتے ۔میں ان سے کیا پوچھوں ؟
جی ہاں وہ تو ہے لیکن اس منڈی میں ایک بکرا بات کرتا ہے ۔
اچھا تب تو وہ سب سے پہلے بِک گیا ہوگا؟
للن بولا جی نہیں ۔ اس کا بھاو سن کر کوئی قریب نہیں پھٹکتا ۔ سلمان اور شاہ رخ بھی اسے نہیں خرید سکے ۔
تو کیا اس کا مالک اسے بیچنا نہیں چاہتا ؟
چاہتا تو ہے ۔ اسی لیے بازار میں لے کر آیا مگر اپنے بھاو پر بیچنا چاہتا ہے۔
کلن نے پوچھا اور اگر نہیں بکا تو کیا ہوگا؟
وہ اس کو واپس لے جائے گا لیکن بھاو کم نہیں کرے گا۔
یاریہ تو ہٹ دھرمی ہے۔
للن بولا بھائی اپنے بکرے کاوہ مالک ہے اس لیے اس کی مرضی۔ ہم بھلا اس معاملہ کیا کرسکتے ہیں ؟
کلن نے کہا یار انسان بھی عجیب مخلوق ہے وہ اپنے بکرے پر تو اپنی مرضی چلاتا ہے لیکن خود اپنے مالک کی نہیں مانتا ۔
ہاں بھیا سبھی کا یہ حال ہے؟ ہم آپ بھی تو یہی کرتے ہیں۔
کلن تائید میں سرہلاکربولا جب تک ہمارا دنیوی فائدہ ہو اپنے مالک کی مرضی پر چلتے ہیں اور نقصان نظر آئے توبغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔
للن نے کہا دیکھ اب میں تیری بکواس سے بور ہوگیا ہوں تو جاکر بکرے سے بات کر ۔ اس کا بھی ٹائم پاس ہوجائے گا۔باڑہ نمبر بارہ میں وہ بندھا ہے۔
وہاں پہنچ کر کلن نے بولتے بکرے کے مالک تلک دھاری مگن کو سلام کیا اور پوچھا بھیا کیا میں تمہارے بکرے سے بات کر سکتا ہوں ۔
وہ بولا یہ تم مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو؟ اس سے پوچھو اگر موڈ ہوگا تو بات کرے ورنہ سینگ مار کر بھگا دے گا ۔
کلن نے نے ڈر کر پوچھا اچھا تو کیا وہ اس قدر مغرور ہے ؟
اس میں گھمنڈ کی کیا بات ۔ ہر انسان یا بکرے کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ چاہے تو بولے یا ہمارے پردھان جی کی طرح مونی بابا بن جائے۔
کلن نے ہنس کر کہا یار ہمارے پردھان جی پر مونی بابا کا لقب صادق نہیں آتا ۔ وہ تو اتنا بولتے ہیں سننے والوں کا موڈ خراب ہوجاتا ہے۔
مگن نے کہا جی ہاں سو تو ہے مگر پہلوانوں کا احتجاج ہو یا منی پور کا فساد ،اس پر ان کی زبان گنگ ہوجاتی ہے ۔
ارے بھائی بکرے کی مانند ان کی مرضی چاہےکسی موضوع پر بولیں یا خاموش رہیں ۔
اچھا یہ بتاو کہ تم میرا بھیجا کھانے کے لیے آئے تھے یا بکرے سے بات کرنے کے لیے ؟
کلن کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ۔ وہ بولا ویسے تو میں بکرے سے گفتگو کے لیے آیا تھا مگر آپ بھی بہت دلچسپ انسان ہیں ۔
مگن بولا اب چاپلوسی چھوڑو اور یہاں سے دفع ہوجاو ۔ مجھےموبائل پر آدی پوروش دیکھنی ہے۔ جئے شری رام ۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری )
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1224663 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.