کشمیر، ہندوستانی بندوق کی نوک پہ

اطہر مسعود وانی

ہندوستانی حکومت زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ کر رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات ٹھیک ہو گئے ہیں اور وہاں اب ترقی ہو رہی ہے۔ہندوستانی حکومت کا کہنا ہے کہ5اگست2019کو جموں وکشمیر کی خصوصی ریاستی حیثیت ختم کرنے اور اسے ہندوستانی مرکز یعنی نئی دہلی کے زیر انتظام علاقہ قرار دینے کے بعد ہنگامہ خیز خراب حالات بالکل ٹھیک ہو گئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں تقریباچار سال کے بعد متعدد درخواستوں کی سماعت شروع ہوئی ہے جس میں عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ کیا ہندوستانی حکومت کا 5اگست2019کا اقدام آئین کی دفعات کے مطابق تھا یا نہیں۔سپریم کورٹ نے2 اگست سے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹانے سے متعلق مقدمے کی روزانہ سماعت کی بات کی ہے۔وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ میں 19 صفحات پر مشتمل ایک حلف نامہ داخل کیا ہے جس میں 40 نکات میں کہا گیا ہے کہ 2019 میں ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کرنے سے بہت فائدہ ہوا ہے اور حالات پہلے سے زیادہ پرسکون اور نارمل ہو گئے ہیں، امن اور خوشحالی کا دور شروع ہوا ہے، حالات معمول پر ہیں اور روزانہ کی ہڑتالیں،پتھرائو مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے، انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں 45 فیصد تک کمی آئی ہے۔

وائس آف امریکہ، بی بی سی، ڈائوچ آف ویلے اور عالمی میڈیا کے کئی دیگر اداروں نے ہندوستانی زیر انتظام جموں وکشمیر کی صورتحال کی تفصیل سے متعلق متعدد رپورٹس میں ہندوستانی حکومت کے اس دعوے کو جھوٹ ثابت کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں5اگست2019کے اقدام کے وقت متعین ہندوستانی گورنر ستیا پال ملک نے انڈین میڈیا آرگن '' دی وائر'' کے صحافی کرن تھاپر کو دیئے گئے ایک وڈیو انٹرویو میں انکشاف کیا کہ ''ہندوستانی حکومت نے5اگست2019کے اقدام سے پہلے ہی مقبوضہ کشمیر میں ایسے سخت ترین اقدامات کر لئے تھے کہ وہاں نہ کتا بھونک سکے اور نا ہی چڑیا چہچہا سکے''۔اس اقدام سے پہلے ہی ہندوستانی حکومت نے تین مراحل میں تقریبا تین لاکھ کی تعداد میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس مزید مقبوضہ کشمیر میں متعین کی اور علاقے میں فورسز کو اس طرح متعین کیا گیا کہ شہریوں کا اپنے گھروں سے نکلنا بھی ممکن نہیں رہا۔اب بھی چپے چپے پہ ہندوستانی فورسز متعین ہیں جو ہر آنے جانے والی راہگیر، گاڑی کی تلاشی لیتے ہیں اور معمولی شک کی بنیاد پر کسی کو بھی گرفتار کر لیا جاتا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کے بدترین ظلم و جبر کے خلاف احتجاج تو دور کسی کو اس متعلق بات کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ہندوستانی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں شہریوں کے خلاف '' ان لاء فل ایکٹیویٹی پریونشن ایکٹ(UAPA) اور پبلک سیفٹی ایکٹ(PSA) کا بے دریغ استعمال شروع کر رکھا ہے۔' پی ایس اے' کے تحت کسی کو بھی بغیر کوئی الزام عائید کئے دو سال کے لئے جیل میں قید رکھا جا سکتا ہے جبکہ ' یو اے پی اے' کے تحت کسی کو بھی بغیر کوئی الزام عائید کئے برسوں تک بغیر کوئی مقدمہ چلائے جیل میں رکھا جاتا ہے جبکہ اس کے تحت جیلوں میں قید افراد کی ضمانت بھی نہیں ہوتی۔اگر کبھی ' پی ایس اے' کے تحت جیل میں قید کسی شخص کی عدالت ضمانت منظور بھی کر لے تو اسے رہا کرنے کے بجائے اس پر ' یو اے پی اے' عائید کر کے جیل میں ہی قید رکھا جاتا ہے۔جو کوئی بھی ' پی ایس اے' یا ' یو اے پی اے' کے تحت جیل میں قید کر دیا جائے، اس کا جیل سے رہا ہونا ناممکن ہو جاتا ہے۔اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہندوستانی عدالتیں انصاف کے بجائے ہندوستانی حکومت کے لئے سہولت کاری کا کردار ادا کرتی ہیں۔5اگست2019کے بعد سے سینکڑوں کی تعداد میں ان دونوں کالے قوانین کے تحت کشمیریوں کو جیلوں میں قید رکھا گیا ہے۔سیاسی رہنمائوں، کارکنوں، عام شہریوں کے علاوہ بڑی تعداد میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو بھی سالہا سال سے جیلوں میں قید رکھا گیا ہے۔

اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں مزید ایک ایسا قانون بھی نافذ کیا گیا ہے جس کے تحت ہندوستانی حکومت کسی بھی جائیداد کو ہندوستان مخالف سرگرمیوں میں استعمال ہونے کے الزام میں مستقل طور پر سرکاری تحویل میں لیتے ہوئے ضبط کر لیتی ہے۔ اس قانون کے تحت گزشتہ تقریبا چار سال میں سینکڑوں کی تعداد میںرہائشی مکانات اور تجارتی عمارات کو مستقل سرکاری تحویل میں لیتے ہوئے سیل کرکے ضبط کیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی ہندوستان کی' نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی' اور دیگر اداروں کی طرف سے مختلف الزامات میں مقبوضہ کشمیر میں چھاپوں ، تلاشی اور گرفتاریوں کا بھی سلسلہ جاری رکھا گیا ہے ۔

سپریم کورٹ میں 5اگست2019کے اقدام سے متعلق مقدمے کی سماعت کے موقع پر مقبوضہ کشمیر کی ہندوستان نواز سیاسی رہنما، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ، ہندوستان کی حکمران پارٹی ' بی جے پی ' کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں اتحادی حکومت کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ '' ہندوستان کا مقبوضہ کشمیر میں حالات ٹھیک ہونے کا دعوی ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی غنڈہ گھر میں د اخل ہو کر گھر والوں کی پٹائی کرے، ان کی آبرو ریزی کرے، ان کو دھمکائے اور پھر بولے کہ گھر میں سب کچھ ٹھیک ٹھا ک ہو گیا ہے کیونکہ اب گھر میں آواز نہیں آرہی ہے، شور نہیں ہو رہا ہے،جھگڑا نہیں ہو رہا ہے،بالکل وہی حال انہوں نے جموں وکشمیر کا کیا ہے''۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ جموں و کشمیر کو ایک جیل میں تبدیل کیا گیا ہے،یہاں عام انسان کی بات تو دوریہاں صحافیوں ، میڈیا کے لوگوں کو نہ صرف دھمکایا جاتا ہے بلکہ کئیوں کو جیلوں میں قید کیا گیا ہے کیونکہ وہ اپنا فرض انجام دیتے تھے،وہ ہندوستانی حکومت کو آئینہ دکھاتے تھے کہ جموں وکشمیر کے حالات کیا ہیں،اس جے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں ہمارے لوگ جیلوں میں ہیں،جن میں نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد کے علاوہ ہمارے مذہبی رہنما بھی شامل ہیں،ان کی جیلوں میں بری حالت ہے،جموں و کشمیر اور ہندوستان می جیلوں میں قید ان کشمیریوں کا کوئی ٹرائل نہیں ہو رہاہے،کوئی ان کی ضمانت نہیں ہو رہی ہے،کوئی ان سے ملنے بڑی مشکل سے ہریانہ، راجھستان، یو پی کی جیلوں میں جاتا بھی ہے تو وہاں ان کو ملاقات بھی نہیں کرنے دی جاتی۔ ایسے میں یہ کہنا کہ جموں و کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے،ہرروز کشمیریوں پہ مختلف ہندوستانی ایجنسیوں کے چھاپے مارے جاتے ہیں۔،اتنا ظلم ، جبر کرنے کے باوجو د ہندوستانی حکومت نے بیان حلفی کے ذریعے سپریم کورٹ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ جموں وکشمیر میں حالت بہتر ہیں۔

واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر کے ہندوستان نواز سیاستدانوں کو بھی 5 اگست2019کے اقدام سے پہلے ایک سال سے زائد عرصہ مسلسل قید میں رکھا گیا تھا۔ اب ان رہنمائوں کو ہندوستان نواز ہونے کی وجہ سے کسی حد تک بات کرنے کی اجازت ہے تاہم انہیں بھی سخت پابندیوں کا شکار کیا جاتا ہے اور متعددمواقع پہ انہیں ان کے گھروں میں ہی مقید کر دیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ13جولائی کو یوم شہدائے کشمیر کے موقع پہ کیا گیا۔گزشتہ ہفتے ہی مقبوضہ کشمیر میں ایک سرکاری تقریب ، جس میں مقبوضہ کشمیر میں متعین ہندوستانی لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا مہمان خصوصی تھے، ہندوستان کے ترانے کے وقت احترام میں کھڑا نہ ہونے پر بارہ سے زائد افراد کو، جن کی عمریں 21سے54سال ہیں، ' یو اے پی اے' کے تحت جیل میں قید کر دیا گیا ہے۔

سری نگر میں ہونے والے جی20 اجلاس سے ایک ہفتہ قبل اقوام متحدہ کے ایک خودمختار ماہر نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ 2019 کے بعد جب سے انڈین حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کیا ہے، اس کے بعد سے وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔اقوامِ متحدہ کے اقلیتوں کے حقوق کے خصوصی رپورٹر فرنینڈ ڈے وارینس نے ٹوئٹر پر جاری کرہ ایک بیان میں کہا کہ 22 تا 24 مئی کو جی20 کے سیاحت پر ورکنگ گروپ کے اجلاس کے انعقاد سے انڈین حکومت اسے معمول کی بات بنانے اور اسے بین الاقوامی منظوری کی تصدیق ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے جسے کچھ لوگوں نے فوجی قبضہ قرار دیا ہے، حالانکہ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے اقوام متحدہ کو بتایا کہ ہیومن رائٹس کونسل نے چند ہفتے قبل کشمیر کے علاقے میں انسانی حقوق کی صورت حال کو تشویش ناک قرار دیا تھا۔عالمی ماہر نے مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا جس میں تشدد، ماورائے عدالت قتل، کشمیری مسلمانوں اور اقلیتوں کی سیاسی شرکت کے حقوق سے انکار، جمہوری حقوق کی معطلی بھی شامل ہے۔انہوں نے کہا، وہاں کی صورت حال اس وقت سے بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے جب سے میں اور اقوام متحدہ کے ساتھی آزاد ماہرین نے 2021 میں انڈین حکومت کو ایک مراسلہ بھیجا تھا۔ اس وقت ہم نے شدید تشویش کا اظہار کیا تھا کہ ڈومیسائل کے نئے قوانین اور دیگر قانون سازی سابقہ ریاست جموں و کشمیر کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کر سکتی ہے، جس کے نتیجے میں سیاسی محرومی پیدا ہو سکتی ہے، اور کشمیر میں بسنے والے کشمیریوں اور دیگر اقلیتوں کی سیاسی شراکت داری اور نمائندگی کی شرح کو نمایاں طور پر کم ہو سکتی ہے اور اس سے ان کی لسانی حیثیت کو نقصان پہنچے گا، اور ثقافتی اور مذہبی حقوق متاثر ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ہر لحاظ سے ایسا لگتا ہے کہ ایک جابرانہ اور بعض اوقات بنیادی حقوق کو دبانے کے سفاکانہ ماحول کے دوران اصل میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔خصوصی رپورٹر فرنینڈ ڈے وارینس نے مزید کہا کہ خطے کے باہر سے ہندوں کی کافی تعداد میں کشمیر میں منتقل ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں اور جموں و کشمیر میں آبادی میں ڈرامائی تبدیلیاں آ رہی ہیں تاکہ مقامی کشمیریوں کو ان کی اپنی سرزمین پر مغلوب کیا جا سکے۔

یوں دنیا میں کوئی بھی ہندوستان کے زیر بد انتظام جموں وکشمیر میں حالات بہتر ہونے کے ہندوستانی دعوے پہ یقین کرنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال ہندوستانی حکومت کی طرف سے چھپانے کی بھر پور کوششوں کے باوجوددنیا کے سامنے آ ہی جاتی ہے۔کشمیریوں کو ہندوستانی ظلم ، تشدد، جبر کے خلاف بات کرنے پہ بھی سالہاسال تک جیل میں قید کر دیا جاتا ہے، ہر کشمیری کے سر پہ ہندوستانی فوج اور نیم فوجی دستوں کی بندوق تنی ہوئی ہے،خوف و دہشت کے اس ماحول کو ہندوستان کس طرح '' سب اچھا'' قرار دے سکتا ہے؟ہندوستان کشمیریوں کو بندوق کی نوک پہ رکھتے ہوئے عوامی مزاحمت اور کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو کچلنے میں پہلے بھی ناکام رہا ہے اور اب انتہائی نوعیت کے غیر انسانی اقدامات کے باوجود ناکام ثابت ہوا ہے۔

اطہر مسعود وانی
03335176429


Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614334 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More