کوئی اُمید بَر نہیں آتی

کہتے ہیں دُنیا اُمید پر قائم ہے انسان اور اُمید کا گہرا تعلق ہے کسی ناکامی سے بڑی ناکامی،مایوسی ہوتی ہے تبھی کہا جا تا ہے کہ”مایوسی گناہ ہے“پوری پاکستانی عوام اس ”گناہ“میں مبتلا ہے البتہ ہماری حکومت پُر اُمید ہے۔۔۔۔اُمید کیdoseحکومت کے ہر چھوٹے بڑے کام ،فیصلے میں شامل ہوتی ہے حکومت کے تمام فیصلے”حقائق“سے زیادہ ”اُمیدوں“پرکرنے کو ترجیح دیتی ہے(کیونکہ حقائق ہمیشہ تلخ ہوتے ہیں)موجودہ حکومت کی اُمیدوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔۔۔لیکن بے چاری عوام کی اُمیدیں ٹھکانے لگتی جا رہی ہیں۔۔۔!

مسائل چاہے عوامی ہوں یا سیاسی ،عوام کو حکومت کی طرف سے اگر کچھ ملتا ہے تو وہ ”اُمید“ہوتی ہے کئی دہائیوں سے عوام ”اُمیدوں “اکتفا کر رہی ہے انھیں اُمید دلائی جا تی ہے کہ اچھا وقت آیا ہی جا تا ہے۔۔۔۔ جب نہ کوئی بے گناہ قتل ہوگاناہی مجرم دندناتا پڑے گا۔۔ننگ وافلاس کا دُور دُور تک نام و نشان نہیں رہے گا،استحصال سے پاک معاشرہ ہوگا،کرپشن ختم ہو جائے گی،عوام کو صحت وتعلیم سمیت زندگی کی تمام بنیادی سہولیات میّسر ہونگی،بے روزگاری پر قابو پا لیا جائے گا،معشیت مضبوط ہوگی،پاکستان بیرونی قرضہ جات سے نجات پانے میں کامیاب ہو جائے گا،لوڈشیڈنگ ختم ہوچکی ہو گی،انصاف عام ہوگا،ہر ایک کو روٹی،کپڑااور اپنا مکان ہوگاوغیرہ وغیرہ۔۔۔۔الغرض ہر طرف خوشحالی ۔۔۔اور ہریالی کی ان گنت اُمیدوں پر ”سیاست“کی جا تی ہے اور کامیاب سیاست کا راز ہی مایوس عوام میں ”اُمید“ پیدا کر کے ”اقتدار“کی راہیں ہموار کرنا ہے!عوام کی مایوسی کو سبز اُمیدوں سے مِٹا کر الیکشن جیتنے کے بعد ،حکومت اپنی اُمیدوں کے لیے کام کرتی ہے عوام کی ساری اُمیدیں رفتہ رفتہ نا اُمیدی کے بھنور میں پھنستی جا تی ہیں اور بلآخر دم توڑ دیتی ہیں۔۔۔۔63سال سے کوئی اُمید بر نہیں آئی ،ناہی آئندہ آتی دکھائی دیتی ہے!مسائل وہیں کے وہیں موجود ہیں،ننگ و افلاس کا خط تیزی سے بڑھ رہا ہے،عوام صاف پانی سمیت دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہوتے جا رہے ہیں،51%سے زائد آبادی کو تعلیم کی سہولت میسر نہیں،طبقاتی تقسیم ،معاشرتی نا ہمواری تمام تر بھیانک نتائج کے ساتھ موجود ہے،تعلیمی تقسیم بھی نا سور کی طرح اپنا جال پھیلائے ہوئے ہے،امن وامان کی ابتری سب کے سامنے ہے،کرپشن سیاست،معشیت اور روزمرہ زندگی میں جزو لازم ہوچکی ہے۔۔۔۔!

سنا ہے کہ 2013سے سنھ کے تمام تعلیمی اداروں میں چھٹی جماعت سے چینی زبان کی تدریس ،اس ”اُمید“ پر شروع کی جا رہی ہے کہ اس سے ”پا ک چین دوستی“مضبوط ہوگی،ہے نا عجیب بات؟ایک زبان یعنی ایک ملک کی پوری ثقافت کو آپ اپنے نظام تعلیم کا حصہ بنا کر اپنی نئی نسل کواُس ثقافت میں رنگنے جا رہے ہیں صرف ایک ”اُمید“ کے لیے۔۔۔۔؟؟؟؟کہ اس طرح پاک چین دوستی مضبوط ہو نے کی اُمید ہے۔۔۔۔ایک اُمید کی خاطر ناحق اپنی نسل کے بستوں کے بوجھ بڑھانا دانشمندی نہیں اور ایک ایسی زبان جس سے ہمارا نا تو کوئی تاریخی ،ثقافتی،معاشرتی اور مذہبی تعلق ہے۔۔۔ہاں اس سے سیاست کا سیاسی تعلق ضرور ہے اور اس سے عوام کو کچھ ملے یا نا ملے حکومت کو کچھ نہ کچھ ملنے کی ”اُمید“ضرور ہے!

ہم آج تک قومی زبان کے مسئلے میں پھنسے ہوئے ہیں کچھ اردو کو قومی زبان سمجھتے ہیں کچھ اس سے سرے سے ہی انکا ری ہیں۔۔انگریزی زبان کی غلامی سے ہم آزاد نہیں ہوئے کے ایک اور زبان صرف دوستی کو مضبوط کر نے کے لئے شاملِ نصاب کی جا رہی ہے جبکہ میرا خیال ہے کہ دوستی کی زبان تو محبت ہوتی ہے۔۔۔۔!دوستی کی مضبوطی کے لئے کہیں یہ اصول نہیں ہوتا کہ زبان سیکھی جائے دوستی کی اپنی زبان ہوتی ہے۔چین سے ہماری دوستی ضرورت،ہم سے چین کی مفاد کی ہے چین اُبھرتی ہوئی سپرپاور ہے جس کی معشیت تیزی سے پھیل رہی ہے اسے اپنی اشیاءکی کھپت کے لیے پاکستان جیسے ممالک(منڈیاں)درکار ہیں۔۔۔اب اس میں دوستی تو کہیں نہیں ناں۔۔!دوطرفہ تجارت،ضرورت اور مفاد کو کوئی ذبردستی دوستی کا نام دیتا ہے تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔چینی زبا ن کو شا ملِ نصاب کر نے کا فیصلہ اپنے پس منظر میں کیا حقائق ونتائج رکھتا ہے اس با رے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔مجھے نا تو چین سے کوئی غرض ہےکہ وہ ہمارا کتنا بڑا اور سچا دوست ہے اور ناہی اس سے کہ اس میں کتنے ہزار حروفِ تہجی ہیں اور یہ کیسے لکھی جا تی ہے؟ چینی سے آیا پاک چین دوستی مضبوط ہوتی ہے یا نہیں۔سندھ بھر کے سرکاری اسکولوں میں پہلی سے انگریزی،تیسری سے سندھی اور چھٹی سے عربی زبانوں کی تدریس نصاب کا حصہ ہے اگر اردو کو بھی شامل کر لیا جائے تو ہم اپنے بچوں کو بیک وقت چارزبانوں کی تعلیم دے رہے ہیں لیکن اس کے با وجود کسی کو ناہی عربی آئی ،ناہی سندھی اور انگلش کی تو بات ہی نا کی جائے(سرکاری اسکولوں کے حوالے سے) کچھ عرصہ پہلے ایک ٹیم نے لیاری کے چند سرکاری اسکولوں کا سروے کیا تھا جہاں چھٹی ساتویں کے بچوں کو اردو،انگلش لکھنا نہیں آرہی تھی،دو جمع دو کرنا نہیں آرہا تھاان بچوں کو آتش فشاں اور بم میں تمیز پتہ نہیں تھی الغرض تعلیمی معیار نہ ہونے کے برابر تھا(ایسی حالت تقریباََ تمام سرکاری اسکولوں کی ہے)یہ آئینہ حکومت اور تعلیم کے حکام کے لیے کافی ہوگا کہ ہم اپنی نئی نسل کو کیا دے رہے ہیں؟تعلیم کے نام پر کھوٹے سکّے؟؟؟؟ ہمارے سرکاری اسکولوں کا معیار کتنا پست ہے؟ ہمارا طریقئہ تعلیم کتنا موثر ہے؟ہمارا نصاب کی بنیادیں کتنی پائیدار ہیں؟افسوس ہم خود اپنی آنے والی نسل کو ذہنی طور پر مفلوج کر رہے ہیں انھیں ناقص تعلیم دے کر۔۔۔۔۔!اپنے مستقبل کے ساتھ گھناﺅنا کھیل ،کھیل رہے ہے لال پیلے سرکاری اسکول ان پر ائیویٹ اداروں سے زیادہ شرمناک ہیں جو تعلیم کو تجارت سمجھ کر تعلیم کا کچھ نا کچھ معیار قائم کرتے ہیں سر کار کی طرح سرکاری اسکول بھی بے حس ہو چکے ہیں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے بجائے تعلیم کو دوستی نبھانے کا ذریعہ بنانے جا رہے ہیں!مجھے یاد ہے ہمیں سرے سے عربی پڑھائی ہی نہیں گئی کہ معلم نہیں تھا اسی طرح سند ھی اور انگریزی کا حال تھا معلم ہوتے بھی تو پڑھاتے نہیں،پڑھا دیتے تو سمجھانا ان کے جاب میں شامل نہیں تھا! میں سوچھ رہی ہوں کہ جب موجودہ زبانوں کی تدریس سے مﺅثر نتائج برآمد نہیں ہو رہے تو ایک ”اور“ کا اضافہ کیوں؟؟ہمارے ہاں نوجوانوں کی تعداد 12کروڑ ہے جن کی اکثریت کا تعلق غریب ماں باپ سے ہے جو اول تو انھیں اسکول بھیجنے کی زحمت نہیں کرتے اور جو کرتے ہیں ان کی پہنچ لال پیلے سرکاری اسکولوں تک ہوتی ہے جہاں سے لال پیلے طالب علم ہی نکلتے ہیں جو ملک کی دور اپنی مدد نہیں کر سکتے۔عسرت میں نام پیدا کرنے والے چند لوگ ہمیں نظر آجاتے ہیں ہم ان کروڑوں نوجوانوں کو نہیں دیکھتے جو ناقص تعلیم کی بھینٹ چڑھ کر ہجوم میں کھو جاتے ہے۔۔کیا وہ ذہین نہیں ہوتے یا اُن کی آنکھیں خواب نہیں دیکھتیں؟؟؟ اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ ایمانداری سے نئی نسل کی آبیاری کریں اُن پھولوں کو جو بغیر نُمو کے مناسب ماحول نہ ملنے کی وجہ سے گل سڑ جا تے ہیں ان کو بچاکر پاکستان کا مستقبل محفوظ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔غریب بچوں کی اکثریت ابتدائی جماعتوں میں ہی تعلیم کو خیر باد کہہ دیتی ہے اس میں غربت ایک factorہوسکتا ہے واحدfactorنہیں۔۔۔۔!تعلیم سے دوری کی بڑی وجہ ناقص معیارِتعلیم بھی ہے بچے جانتے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں میٹرک کی سند تو ہے لیکن وہ اہلیت نہیں جو ہونی چاہئے ۔قصوار کون ہوا؟؟سندھ ایجوکیشن منسٹر مظہرالحق کا چینی زبان کی تدریس کے بارے میں کہنا ہے کہ اس سے تجارت مضبوط ہوگی۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اگر تجارت ہی مضبوط کرنی ہے تو چینی زبان بچوں کے بجائے بزنس کیمونٹی کو پڑھانی چاہیے ۔حکومت کو پاک چین دوستی کی فکر ہے،مظہرالحق کو تجارت کی،اس میں تعلیم کا کیا فائدہ؟؟چینی زبان کو سیکھانے کے لیے اساتذہ بھی یقینا چین سے ہی منگوائے جائیں گے جس پر اچھا خاصا روپیہ بھی لگے گا۔۔۔جس کی ضرورت ملک کو ہے،سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو ہے اور نہیں تو پاکستان کا انفراسٹرکچر ہی بہتر بنالیا جائے ان روپوں سے جو چینی زبان کی تدریس کے منصوبے پر خرچ ہونا ہے!چینی زبان پڑھائی جائے یا نہیں،برابر ہے کیونکہ پہلے جو زبانیں پڑھائی جا رہی ہیں ان کے نتائج حوصلہ افزا نہیں۔۔۔چلیے سندھی نہیں آتی تو اچھا ہے ،لسانی تعصب نہیں پھیلے گا،اردو سب کو آتی ہے لیکن ہم اسے قومی زبان بنانے یا ماننے کا فیصلہ نہیں کر پا رہے۔۔۔عربی زبان کی تو سرے سے ہمیںضرورت نہیں کہ ہم نے قرآن ،طاقوں میں رکھا چھوڑے ہیں اور ہمیں احکامِ الہٰی کی اب ضرورت نہیں رہی۔۔۔۔۔۔ہم 21ویں صدی میں جی رہے ہیں جس کے تقاضے وہ نہیں جوچودہ سو سال پہلے تھے اب رہی انگریزی تو یہ آئے یا نا آئے ۔۔۔آنی چاہئے اگر پاکستان میں کسی زبان کا مستقبل روشن ہے تو وہ انگریزی ہے ۔۔۔۔!ہمیں اپنا نظامِ تعلیم کو بہتر کرنا چاہئے تاکہ ہمارے بچے اپنی زبان۔اپنی ثقافت اور اپنے تشخص سے پروان چڑھیں۔۔۔!!

اللہ تبارک وتعالٰی آپ سب کا حامی و ناصر ہو!
Sumaira Malik
About the Author: Sumaira Malik Read More Articles by Sumaira Malik: 24 Articles with 26546 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.