مولانا فاروق خانؒ: وہ بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے

مولانا فاروق خان صاحب کی رحلت نے دل توڑ دیا ۔ مولانا ایک صاحب ِ دل درویش تھے۔ ان کے بچھڑجانے سے اگر دل نہ ٹوٹتا تو کب ٹوٹتا؟ ایک مست قلندر اس دنیا سے ہنستے کھیلتے چلا گیا ۔ حدیث میں آتا ہے کہ :’’ دنیامومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ کافر اپنی جنت سے روتے ہوئے جاتا ہے لیکن بندۂ مومن کو دنیا سے جانے کا ملال نہیں ہوتا ہاں اس کے پسماندگان ضرور مضمحل ہوجاتے ہیں ۔مردِ مومن اس دنیا فرار کے بجائے ہنسی خوشی یہاں رہتا ہے کیونکہ یہ قید خانہ بھی خالق و مالک کی تخلیق ہے۔ رب کائنات بہشت کا راستہ اسی قید خانے کے بیچ سے رکھا اس لیے رضائے الٰہی کا طالب بندۂ مومن اس میں شاداں وفرحاں رہتا ہے۔ اس کونہ تو کوئی انفرادی گلہ ہوتا ہے اور نہ وہ حالات کا شکوہ کرتا ہے کیونکہ ’’آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص سمندر میں انگلی ڈالے، پھر دیکھے کہ اس نے کتنا پانی لے لیاہے۔‘‘(حدیث)۔ یہی تصورِ حیات زہد و تقویٰ کی بنیاد ہے۔ صبر و قناعت کی اعلیٰ منازل اسی پر تعمیر ہوتی ہیں ۔ پنگھٹ کی یہ ڈگر بہت کٹھن ہے۔ کم لوگ اس پر چل پاتے ہیں مگر مولانا فاروق خاں اس راہ کے ایسے روشن چراغ تھے جن سے بے شمار لوگوں نے رسمی اور تنظیمی تعلق سے اوپر اٹھ کر کسبِ فیض کیا ۔

دنیا و ما فیہا سے بے رغبت زاہدوں کے بارے میں بہت کچھ پڑھا مگر دیکھنے کا موقع فاروق خان صاحب کی شخصیت میں ملا ۔ اس حوالے جماعت اسلامی کے اندر مولانا کا کوئی ہمسر یا ثانی نہیں ہے۔ ان کو میں نے پہلی مرتبہ مولانا محمد مسلم صاحب کے جنازے میں دیکھا۔ وہ آگے آگے سب سے الگ تھلگ چل رہے تھے۔ اس زمانے میں جماعت کا مرکز بزرگوں کی ایک ایسی کہکشاں سے منور تھا کہ ان میں سے ہرکوئی اپنی ذات میں انجمن تھا ۔ میں نے استفسار کیا تو لوگوں نے بتایا کہ یہ فاروق خان صاحب ہیں ۔ نہ جانے کیوں ملنے کی اشتیاق ہوا تو پہلی منزل پر واقع ان کی کوٹھری میں پہنچ گیا ۔ دعا سلام کے بعد انہوں نے پوچھا آپ کو چائے پلائی جائے؟ میں بولا ضروری نہیں لیکن پی سکتے ہیں۔ وہ اپنی کرسی سے اٹھے اور کونے میں پڑی میز پر رکھی بجلی کی کیتلی سے پانی گرم کرکے چائے بنانے لگا۔ ان کا خود چائے بنانا یہ میری توقع کے خلاف تھا میں شرمندہ ہوا مگر روکنے کی جسارت نہ کر سکا۔ یہ مختلف مگر خوشگوار تجربہ پہلی اور آخری بار ہوا تھا ۔ اس کے بعد چتلی قبر کے دفتر میں جاکر ان سے ملنا معمول کا حصہ بن گیا۔ اس چائے بسکٹ کے ساتھ مولانا کا خلوس اور تپاک و گرمجوشی ان سے ملاقات کے بغیر لوٹنے کی راہ میں حائل ہوجاتی تھی۔ بقول اقبال ؎
نہ تخت و تاج میں لشکر نہ سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے

مولانا فنا فی الدین اور فنا فی القرآن تھے ۔ایس آئی ایم کے وجئے واڑہ میں منعقدہ دس روزی تربیتی پروگرام میں ان سے کہا گیا کہ ایک نشست میں پوری سورۂ یٰس کا درس دیں تو وہ تیار ہوگئے ۔ اس چار گھنٹے کی نشست میں سارےشرکاء ایسے ہمہ تن گوش رہے گویا کسی مقناطیس کے ساتھ لوہے کے ذرات چپکےہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ مہابلیشور کیمپ میں ان کو قرآن مجید کے ادبی اعجاز پر دعوتِ سخن دی گئی تو انہوں نے تقریباًڈیڑھ گھنٹے تقریر کی ۔ اس دوران شرکاء کبھی ہنستے تو کبھی رونے لگتے۔ رات گئےنشست ختم ہوئی تو لوگوں نے پروانہ وار انہیں گھیر لیا اور دیر گئے سوالات کی مدد سے استفادہ کرتے رہے۔ اس طرح کے اتنے سارے واقعات ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کسے چھوڑیں اور کس کوبیان کریں۔ ایک مرتبہ دہلی میں ان کو طعام کی دعوت دی تو کہنے لگے جمعہ کے بعد کچھ احباب کے ساتھ جامع مسجد میں ملاقات ہوتی ۔ میں بھی اصرار کرکے اس مجلس میں پہنچ گیا تو پتہ چلا مولانا کے معتقدین کا ایک بہت بڑا حلقہ ہر جمعہ کو یکجا ہوجاتا ہے اور یہ محفل تقریباً چار بجے شام تک چلتی رہی ہے۔ ان کا غیر مسلمین کا بھی ایک حلقہ تھا جہاں مولانا باقائدگی سےدرس دینے جایا کرتے تھے ۔
مولانا فاروق خان صاحب تقریباً پینتیس سال قبل سابق امیر جماعت مولانا ابواللیث صاحب کے ساتھ ممبئی تشریف لائے تھے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ ممبئی کی سیر کرنا پسند کریں گے تو وہ راضی ہوگئے۔ میں انہیں گیٹ آف انڈیا اور وہاں سمندر کا مختصر سفر کرکے الیفنٹا غار میں لے گیا۔ اس سفرمیں میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا مگر وہ بھی خوب لطف اندوز ہوئے اور پھر زندگی بھرجب بھی میں ان سے ملتا رہا تو وہ اس کی یاد دلاتے رہے ۔ یہ بھی ایک دانشور مفسرِ قرآن و حدیث کی زندگی کامنفرد پہلو ہے۔ رام مندر کی تحریک کے دوران ایک قومی چینل کا ترجمان ان کے پاس پہنچ گیا اور رام کی بابت سوال کیا تو انہوں کے کہا کہ وہ تو مریادہ پرشوتم ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ انہوں نے سیتا کے ساتھ نہایت غیر منصفانہ سلوک اور رامائن کے مختلف واقعات بیان کردیئے۔ نیز یہ بھی کہا کہ آئیڈیل کی تلاش میں جغرا فیائی حدود کی بندش درست نہیں ہے ۔ میں نے پوچھا کہ اگر آپ ایسی کھری کھری نہیں سناتے تو آپ کی بات ساری دنیا تک پہنچ جاتی ۔ اس پر ان کا جواب تھا کہ غلط بات کے لاکھوں لوگوں تک پہنچنے سے بہتر ہے ۔یہ حق بات ایک ایسے ماحول میں ببانگ دہل کہی گئی جب سارے ملک کو خوف و دہشت کی آگ میں جھونک دیا گیا تھا اسے سن کر بے ساختہ علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آگیا ؎
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

مولانا کے ساتھ ایس آئی ایم میں ہم لوگوں نے کچھ ایسے تجربات کیے جن کا کسی اور کےہمراہ تصور بھی محال تھا۔ مرکز کے اندر ایک زمانے میں دس روزہ تربیتی اجتماع ہوا کرتاتھا ۔ اس کا پروگرام ترتیب دیتے وقت خیال آیا کہ شرکاء کو ایک دن مولانا کی صحبت میں گزارنے کا موقع دینا چاہیے۔ مولانا فاروق خان سے استدعا کی گئی تو وہ اس کے لیے بلاتردّد تیار ہوگئے ۔ یہ بات کسی اور سے کہی جاتی کہ پندرہ بیس اجنبی نوجوان دن بھر آپ کے ساتھ گزاریں گے ۔ کوئی درس و تدریس یا تقریر و تذکیر نہیں ہوگی ۔ وہ کچھ پوچھنا ہو تو پوچھیں گے ۔ آپ کو اپنا تصنیف و تالیف کا کام کرتے ہوئے دیکھیں گے۔ بالکل غیر رسمی انداز میں آپ کے ساتھ جئیں گے تو وہ اسے اپنے وقت ضیا سمجھ کر ناراض ہوجاتا لیکن مولانا راضی ہوگئے ۔ شرکاء نے تاثرات کے دوران اس سرگرمی کو سب سے زیادہ موثر بتایا ۔ مجھے یقین ہے کہ تقریباًپینتیس سال بعد اب بھی وہ لوگ اس کی تپش محسوس کرتے ہوں گے۔ مولانا سے ہم جیسے لوگوں نے سیکھا کہ تقریر کے بغیر بھی تطہیر قلب کا سامان ہوتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا کہ : ’’جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ اسے دنیا سے بے رغبتی اور کم گوئی دی گئی ہے تواس سے قریب ہواکرو، کیونکہ وہ حکمت کی باتیں کرتاہے۔‘‘

مولانا کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے بزرگوں کے ساتھ بلا کی عقیدت کے باوجود کسی مرعوب نہیں تھے ۔ وہ بڑے سے بڑے عالم دین کے ساتھ اپنے علمی اختلاف کا برملا اظہار کردیا کرتے تھے لیکن کسی کے تئیں کوئی کینہ پروری یا حقارت کا شائبہ تک نہیں تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی عالم دین سے ایک مسئلہ پر اختلاف کرتے تو دوسرے پر اتفاق کرکے کھلے دل کھول سے تعریف و توصیف بھی کرتے۔ مولانا کا معاملہ آسانی پیدا کرنے کا ہوتا تھا ۔ تین طلاق کے بارے میں ایک مرتبہ فرمایا کہ دہلی کے میں ایک بہت بڑے حنفی عالم دین ہوا کرتے تھے۔ ان کے پاس کوئی ایک نشست میں تین طلاق کا تنازع لے کرآتا تو پہلے پوچھتے کہ تمہیں اپنی بیوی کو رکھنا ہے یا چھوڑ دینا ہے۔ اس کا جواب ساتھ نہ رکھنا ہوتا تو اپنا فتویٰ دیتے اور اگروہ کہتا کہ جوش میں طلاق دے دی مگر ساتھ رکھنا چاہتا ہوں تو اسے اہلحدیث مفتی کے پاس بھیج دیا کرتے تھے۔ نبیٔ کریم ﷺ نے بھی یہی فرمایا:’’ آسانی پیدا کرو، مشکل میں نہ ڈالو ،خوش خبری دو، متنفر نہ کرو“۔

کیا کسی انقلابی تحریک کا رہنما دنیا سے بے نیاز ہوسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب میں نے مولانا کی زندگی میں پایا مگر سیکھ نہیں سکااور نہ برتنے کی ہمت کی لیکن پھر بھی جب دہلی جا نے کا اتفاق ہوتا تو دنیا کی آلائشوں سے دل کو پاک کرنے کے لیے مولانا سے کی خدمت میں حاضر ہوجاتا ۔ مولانا ہم جیسے دنیا داروں کی روح کا چارجر تھے ۔ ان کی صحبت میں گزرنے والی کچھ ساعتیں مہینوں تک قلب و روح ترو تازہ رکھتی تھیں یہاں تک کہ پھر سے شرف نیاز حاصل ہوجاتا۔ مولانا سے جو بھی ملتا وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا ۔ایسا کیوں ہوتا ہے اس سوال کا جواب مجھے نبیٔ کریم ﷺ کی ایک حدیث میں مل گیا۔ ایک آدمی نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ!مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جب میں وہ کروں تواللہ مجھ سے محبت کرے اور لوگ مجھے پسند کریں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’دنیاسے بے رغبت ہوجاؤ، اللہ تم سے محبت کرے گا۔ اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے بے نیاز ہوجاؤ، لوگ تم سے محبت کریں گے۔‘‘

مولانا فاروق خاں کی بے نیازی نے ایک عالم کو ان کی محبت میں گرفتار کر دیا تھا۔ ان کی رحلت کے بعد دل گواہی دیتا ہے کہ دنیا سے بے رغبتی کے سبب وہ اللہ تبارک و تعالی کی محبت کے بھی سرفراز ہورہے ہوں گے۔ ان کی زندگی پر یہ حدیث صادق آتی ہے کہ:’’کامیاب وہ ہے جو اسلام لے آئے اور اسے بقدرضرورت روزی مل جائے اور ملی ہوئی دولت پر اللہ تعالیٰ اسے قناعت کرنے والا بنادے۔‘‘ مولانا کو دیکھ کر ہم جیسے شوریدہ سروں کو حوصلہ ملتا تھا ۔ ہم لوگ سوچتے اگر ان جیسا مرنجان مرنج طبیعت کا مالک بھی جماعت میں رہ سکتا ہے تو ہم جیسے ناقص عقل و عمل لوگوں کے لیے بھی جماعت کی کشادگی میں گنجائش نکل آئے گی ۔ مولانا فاروق خان صاحب نہ تو ناپ تول کر جماعت میں آئے اور نہ حساب کتاب سے دین کی راستے پر چلے ۔ وہ تو بس چلے تو چلتے چلے گئے یہاں تک کہ رب کائنات کی جانب سے یہ نوید سنائی گئی :’’ اے نفس مطمئن! چل اپنے رب کی طرف، اِس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے ۔شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں‘‘ ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ مرحوم مولانا فاروق خان صاحب کے درجات کو بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1224609 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.