اصفہان کا کتا

ہمارے معاشرے میں ہر روز کوئی نہ کوئی انوکھا وقعہ رونماء ہوتا ہے ۔ سبب اس کا یہ ہے ۔ یہ پچیس کروڑ نفوس کا ملک ہے ۔ جس میں اعلی تعلیم یافتہ سے لے کر جاہل ترین لوگ بھی بستے ہیں ۔ آبادی قبائل و اقوام کا مجموعہ ہے ۔ روسم و رواج اور روائیات ہر چند کلو میٹر بعد بدل جاتی ہیں ۔ کہیں دوستیاں پالی جاتی ہیں تو کہیں دشمنیوں پر لخت جگر قربان کیے جاتے ہیں ۔ یہاں انسانیت پر زندگی وار دینے والے موجود ہیں تو سیکڑوں بے گناہوں کی جان لینے والے بھی دندناتے پھرتے ہیں ۔ ہمارے ارد گرد لنگر خانے موجود ہیں تو گھر کے اندر گھس کر والدین کے سامنے معصوم بچیوں کی عزت سے کھیلنے والے بھی نایاب نہیں ہیں ۔ معاشرے کے سدھار کے لیے تبلیغی جماعت سرگرم ہے تو شیطانی کاموں کا پرچار کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے ۔ مگر نو مئی کا واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے انوکھا ہی نہیں منفرد بھی ہے ۔اس دن ہم نے خود ہی خود پر حملہ آور ہو کر خود ہی کو لہولہان کر لیا ۔ اور خود ہی اس کی سزا بھی بھگت رہے ہیں ۔

میرے شہر کے مضافات میں ایک زمیندار گھرانے کے اکلوتے لاڈلے نوجوان بیٹے نے باپ کو زمین اس کے نام منتقل نہ کرانے پر اپنے باپ پہ کی گن سے باپ ہی کو قتل کر دیا ۔ اسے قید کی سزا ہوگئی تو اس کی ماں کے آنسو خشک ہوگئے ۔ میرے ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا میں اپنے خاوند کی موت پر آنسو بہاوں یابیٹے کے قید ہونے پر ۔۔۔ اسی محفل میں اس کے خاندان کی ایک جہاندیدہ رشتے دار عورت نے اسے مخاطب کر کے آنسو بہانے کی بجائے اپنی تربیت پر بین کرنے کا طعنہ دیا تو اس ماں کی آنکھیں چھلک پڑہیں۔ زمین اور مکان اکلوتے مجر م بیٹے کو رہا کرانے پرنچھاور کر کے ما ں بیٹے کو لے کر شہر میں کرائے کی کھولی میں آبسی ۔ بیٹا دن میں گاڑیاں دھوتا اور رات کو ماں سے مطالبہ کرتا کہ اس کی شادی کی جائے ۔ پھر بات مار پیٹ تک آئی اور آخر کار ماں کو قتل کر کے کہیں بھاگ گیا ۔

چند سال قبل ماں دیسی دھرتی والی نظم بہت مقبول ہوئی تھی۔ اس نظم کا تعلق وکیلوں کی تحریک سے تھا جو منصفوں کی آزادی کے لیے برپا کی گئی تھی۔ تحریک کامیاب ہوئی منصف آزاد ہوگئے ۔ ایسے آزاد ہوئے کہ اپنے ہی بیٹے کی خرمستیوں پر خود ہی انصاف کرنے بیٹھ جاتے ۔ دوسرے منصف کی عدالت میں جاتے تو موبائل فون اس کے منہ پر دے مارتے ۔ رات کو ناول پڑہتے اور دن کو سسلین مافیا کہہ کر فیصلے دیتے ۔ ذاتی عناد و رنجشوں کا مداوا انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر کرتے اور بضد رہتے کہ اسے انصاف کہا جائے ۔ سیاسی کرسی کے امیدواروں کو ساتھ لے کر ہسپتالوں کے دورے کرتے اور ذاتی تشہیر کے لیے تصویریں شائع کراتے ۔ عوام کو انصاف دینے کی بجائے ڈیم کی تعمیر کے لیے دولت جمع کرتے ۔ اگر حکومت کسی اہلکار کی تعیناتی کرتی تو سٹے آرڈر دے کر حکومت کو زچ کرتے ۔ تبادلے کے مقدمے میں سے انتخابات کی تاریخ برآمد کرکے الیکشن کمیشن پر اپنی دھونسس جماتے ۔کیس کی بجائے فیس دیکھنے کی اصطلاح اسی دور میں سنی گئی ۔شائد اس لیے کہ وکیل کی بجائے جج کر لینے کی اصطلاح پرانی ہو چکی تھی۔انصاف مانگنے والوں کی فائلوں کے جمع ہو جانے والے ڈھیرسے عوام مایوس ہو کر لوگوں نے عدالت کے باہراپنی فائلوں کو جلایا ۔ منصفوں پر ان کے کمرہ عدالت میں کھڑے ہوکر راشی ہونے کا شکوہ کیا ۔اپنے لا پتہ عزیروں کی بازیابی کی فریادیں کیں ۔ مگرجج صاحبان ثروت سیاسی لیڈروں کے مقدما ت تک محدود ہو کر رہ گئی۔ عوام کو ادراک ہو گیا ٹرک کا مطلب بڑی نوٹوں کی گڈیاں ہیں ۔

اسی دھرتی ماں کی گود میں پل کر جوان ہونے والوں میں سے کچھ نے دھرتی کے لیے اپنا خون پیش کیا ۔ عوام نے انھیں شہید کا رتبہ دیا ۔ تمغوں اور نشانوں سے نوازا ۔ ا نکے لیے ترانے گائے اور وسائل مہیا کیے ۔ ان ہی ہونہار سپوتوں میں مارشل لائی جرنیل پیدا ہو گئے ۔ جو آئین کو ردی کاغذ پکارتے اور عوام کی خواہشات کو جوتے کی نوک پر رکھتے ۔ بیرون ملک اثاتے بناتے اور اندرون ملک عوام کو ان پڑھ اور جاہل کے طعنے سے نوازتے ۔سیاسی رہنما ٰوں کو دم ہلا کر پیچھے چلنے والے بتاتے ۔ انھوں نے مسلح ہو کر ہر غیر مسلح فرد اور ادارے پر قبضہ کر لیا ۔عوامی وسائل پر قابض ہو کر عوام کو مہنگائی ، بے روزگاری اور بدامنی کی دلدل میں جھونک دیا۔ سوال اٹھانے والوں کو اٹھانے کی روائت چل نکلی ۔

ان حالات میں ایک سیاسی لیڈر انصاف کا جھنڈا اٹھائے ٹی وی کی اسکرینوں پر نمودار ہوا۔ اس نے نوے دن میں کرپشن ختم کر کے ، ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں دینے اور پچاس لاکھ گھر تعمیر کر کے دینے کا وعدہ کیا۔ پولیس اصلاحات کا چکمہ دیا، انصاف تک دسترس کا نعرہ لگایا،معاشی ، اخلاقی، معاشرتی بہتری کی نوید سنائی۔ رشوت اور سفارش کا خاتمہ کر کے میرٹ پر کام ہو جانے کی خوش خبری سنائی، تعلیم کو عام کرنے کا نعرہ لگایا ۔عوام کی عزت نفس کی بحالی کی وعدہ کیا۔ بیرون ملک سے آمدہ فنڈز کے بل بوتے پر پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اپنی ذات کی تشہیر کر کے عوام کو پکے ہوئے میووں کے شاداب اور سرسبز باغ دکھائے ۔ مگر صرف ساڑہے تین سالوں میں ملک کی معیشت کا دیوالیہ نکال دیا ۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پھنس گئی ۔ عدلیہ، فوج ، پولیس سمیت ہر ادارے کوبے وقعت کر دیا گیا ۔ کرپشن اور لوٹ مار کے باعث ہر طرف بدامنی اور بے روزگاری نے بھنگڑے ڈالنے شروع کر دیے تو عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے اسے ایون اقتدار سے اٹھا کر باہر پھینک دیا ۔ تو اس نے معاشی طور پر تباہ ملک کے لیے بین الاقوامی اداروں سے قرض لینے کی حکومتی کوششوں کو سبوثاز کرنے کی کوشش کی ، لانگ مارچ اور ریلیوں کا ڈول ڈالا۔ سیکڑوں پولیس اہل کاروں کو زخمی کیا اور جان سے مارا۔ عدالتی فیصلوں کی بے توقیری کی روائت قائم کئی۔اور بالاخر نو مئی کو ملکی فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہو گیا ۔

ماں رحمدل اور مہربان ہوتی ہے ۔ لاڈلا بیٹا باپ کو قتل بھی کر دے تو ماں ممتا سے مجبور ہو کر ساری جائیدا د بیچ کر بیٹے کو تو بچا سکتی ہے مگر مگر بیٹے کی انتہا پسند اور قاتل فطرت کو تبدیل نہیں کر سکتی ۔

پاکستان پچیس کروڑ لوگوں کی دھرتی ہے ۔ چند لاکھ انتہا پسندوں اور قاتل فطرت لوگوں کو ملک کا امن و امان تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ ملک آئین و قانون پر عمل کر کے ہی ترقی کر سکتے ہیں ۔ مگر اپنی آزادی کی خوشی میں ایسی انگڑائی کی اجازت نہیں دی سکتی جو دوسرے شہری کی ناک ہی توڑ کر رکھ دے ۔۔

اس شر پسند ٹولے کو ان ہی ہتھ کنڈوں سے نتھ ڈالی جا سکتی ہے ۔جو وہ دوسروں پر آزماتے ہیں

فارسی زبان کی کہاوت ہے ﴿اصفہان کے بھیڑے سے اصفہان کا کتا ہی نمٹ سکتا ہے ﴾

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 150581 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.