متبادل

تھکے ماندے وجود لے کر ،بچوں کی انگلی تھامے بندیاں مسجد کی صفوں میں شامل ہورہی تھیں ،تراویح شروع ہوچکی تھی ۔کچھ بچے نماز پڑھتی ماؤں کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے ،کچھ چھوٹے بچے وقتاً فوقتاً رو رہے تھے جنھیں سلام پھیر کر کبھی مائیں بہلا رہی تھیں اور کبھی بڑے بچوں سے چھوٹوں کا خیال رکھنے کو کہہ رہی تھیں۔ پھر اگلی رکعت شروع ہوگئ ۔ایک آیت کو امام صاحب نے ذرا کھینچ کر ،بہت دل گداز انداز سے پڑھا (یہ سورہء المآئدہ کی آیت 54 ہے) :
ترجمہ: اے ایمان والو ،تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لے آئے گا (متبادل کے طور پر ) جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا ۔۔۔۔"

اللہ ہماری جگہ کوئی اور لوگ لے آئے گا ؟
سیدھی چوٹ پڑتی ہے قلب پر !
اشک بہہ نکلتے ہیں ۔
بڑا سخت لفظ ہے "متبادل".
دعا نکلتی ہے کہ یارب ،ہم سے نظر نہ پھیرنا ،ہمیں اپنی بارگاہ میں رد نہ کردینا۔۔۔۔۔
رب العالمین کے لئے دین پر عمل ہی تو معیار ہے ۔جو لوگ دین پر عمل کے تقاضوں سے جی چراتے ہیں تو اللہ قدرت رکھتا ہے کہ ان کے متبادل لوگ لے آۓ ،کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب وہی ہے جو دین سے محبت رکھتا ہے ،صرف محبت کافی نہیں بلکہ آگے اعمال بھی بتادئیے کہ ان میں یہ خوبیاں بھی ہونی چاہئیں
ترجمہ: "وہ مسلمانوں پر نرم خو اور کافروں پر سخت گیر ہوں گے ،اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے .یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطا کرے اور اللہ وسعت والا ،علم والا ہے "-
ہمیں ہماری محبتوں سے بھی آزمایا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ محبت اپنے خالق و مالک سے کرتے ہیں یا کسی اور سے ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان سے سب سے زیادہ محبت اس کا رب کرتا ہے۔جب سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں وہ اس وقت بھی اپنے بندے کا ساتھ نہیں چھوڑتا !
تو پھر یہ شخصیت پرستی کیسی ؟
یہ عارضی مفادات کی نسبت کیسی ؟
کہیں ہم اپنے قلب میں کسی اور کو بسا کر شرک کے مرتکب تو نہیں ہورہے ؟
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا رب کسی اور کو ہمارے متبادل کے طور پر نہ لاۓ تو ہمیں قرآن و سنت کو لازم پکڑنا ہوگا ۔ہمیں دین کا علم سیکھ کر اس کے تقاضوں پر عمل کرنا ہوگا !
اگلی صفت سب مسلمانوں کی خیر خواہی اور حسن سلوک کو اپنانا ہوگا ۔ یہ جو ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنے آپ کو دوسروں سے الگ کردیتے ہیں ،نفرت اور بعض ،حسد اور رقابت کی سیاہی سے اپنے دلوں کو تاریک کردیتے ہیں ،اس سیاہی کو خوف_خدا کے آنسوؤں سے دھونا ہوگا پھر اس میں رب کا نور چمکے گا تو دین کی خاطر جدوجہد کرنے کی توفیق بھی مل جائے گی ۔کافروں کی چالوں کی سمجھ بھی آجاۓ گی اور رد کرنا بھی آجاۓ گا۔
اگلی صفت جو بتائ گئ کہ وہ راہ_خدا میں کسی ملامت کرنے والے کی پروا نہیں کریں گے ،اس پر توجہ کی ضرورت ہے ۔جب کوئی خلوصِ نیت کے ساتھ دین پر عمل کرنا چاہتا ہے تو اس کے قریب لوگ ہی سب سے زیادہ اسے روکنے والے اور ملامت کرنے والے ہوتے ہیں ۔کبھی کہا جاتا ہے کہ اتنے بھی شدت پسند نہ بنو،کبھی کہا جاتا ہے کہ صرف دین کو نہ دیکھو بلکہ دین اور دنیا ،دونوں رکھو (حالانکہ دین پر عمل سے ہی دنیا بھی سنورتی ہے) کبھی ڈرایا جاتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے ؟ بس ماحول کے مطابق کبھی ماڈرن اور کبھی اسلامی ٹچ دے دیا کرو اور انسان اسی طرح ڈبل مائنڈڈ رہتا کہ کیا کرے آخر ۔سوچنے کی ضرورت ہے کہ اللہ کی جنت ڈبل مائنڈڈ لوگوں کے لئے ہے یا خالص مسلمانوں کے لئے؟ کہیں ہم بھی تو اپنے دین کے تقاضوں کو سیکنڈری پوزیشن اور دنیاوی سٹینڈرڈز کو اول ترجیح تو نہیں دے رہے ؟ کہیں انسانوں کو خوش کرنے کے لئے اپنے رب کو ناراض تو نہیں کر رہے ؟
دین پر عمل کرنا ہی کامیابی کا راستہ ہے ۔ غیروں کی نظر میں سافٹ امیج دکھانے کے لئے دین پر معذرت خواہانہ انداز اپنانے کی ضرورت نہیں۔دین تو کہتا ہے کہ فتنہ ختم کرنے کے لئے جہاد کرنا پڑے تو جہاد کرو وگرنہ تہماری جگہ کسی اور کو بھی لایا جاسکتا ہے ،متبادل کے طور پر ۔اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ یہی مطلوب ہے۔
بقول علامہ اقبال:
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان ،نئ آن
گفتار میں ،کردار میں اللہ کی برہان
غفاری و قہاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دیاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے ،حقیقت میں ہے قرآن .

#فکرونظر
#رمضان_کریم
#QuranReflections