قرآن میں مزکور عورتیں اور عصری معنویت

تحریر: سائرہ نزیر ۔اسلام آباد
1عورت کا مفہوم
عورت عربی زبان کا لفظ ہیجو ''عورہ ''سے نکلا ہے جس کا معنی ڈھانپی ہوئی اور ڈھکی ہوئی چیز ہے دین اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس میں عورت کو ایک خاص مقام حاصل ہے ارشاد ہے؛ ''اے لوگو اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلا دیں ''
قرآن جو ھدایت انسانی کے لیے نازل کردہ کتاب ہے اس میں بہت سی عورتوں کا زکر ہے جو '''عورت ''کے وجود خا ص پر دلالت ہے۔
2 قرآن میں عورت کے ذکر کی اہمیت
قرآن میں ارشاد ہے:
تو ان کے پروردگار نے انکی دعا قبول کر لی اور فرمایا کہ میں کسی عمل کو مرد ہو یا عورت ضائع نہیں کرتا تم ایک دوسرے کی جنس ہو
مزید فرمایا:
اور جس چیز میں خدا نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اس کی ہوس مت کرو مردوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کیے اور خدا سے اس کا فضل و کرم مانگتے رہو کچھ شک نہیں کہ خدا ھر چیز سے واقف ہے۔
قران کی نظر میں عورت کی اہمیت سورہ بقرہ 29 آیت سے سمجھ میں آتی ہے
کہ عورت ایک نعمت کے طور پر دنیا میں آئی ہے اور انہیں شریعت کا مکلف اس لیے بنایا تاکہ ھماری نعمت کمال درجے کی ھو جاے
3قرآن میں مذکورہ عورتوں کی تعداد اور کردار:
قرآن میں مذکورہ خواتین کی تعداد 24 ہیاور کردار 6 ہیں
1 ماں 2 بہن 3 بیوی 4 بیٹی5 ملکہ 6 مالکن
قران میں مذکورہ عورتوں کے احوال اور نام:
1 آدم کی زوج (حضرت حوا):
دونوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جایئں گے۔
عصری معنویت:
حضرت حوا کے وجود سے انسان کی برابری کا سبق ملتا ہے گویا مرد اور عورت برابر ہیں مگر افسوس آج بھی عورت کو پاوں کی جوتی سمجھا جاتا ہے اور کچھ مقامات پر اس دور جدید میں بھی جانوروں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جاتا ہے،
انکے ذکر خاص سے معلوم ہوتا ہے عورت برابری طور پر انسان ہے اور پچھتاوااور ایک امید کا فلسفہ پنہاں ہے کہ جو غلطی کے ر رب سے اچھی امید رکھتے ہیں اﷲ انکی سن لیتا ہے لہزا ضرورت ہے کہ بے راہ روی سے نکل کر راست کی طرف متوجہ ہوں اور رب سے بخشش کے طلب گار ہوں۔ بعد ندامت احساس کے ساتھ پچھتاتے ہیں۔
2 حضرت مریم:
ان کا ذکر قرآن میں نام کے ساتھ آیا ہے بلکہ پوری سورت کا نام 'مریم ' رکھا گیا ہے یہ عورت کے لیے اعزاز کی بات ہے۔یہ ایک پاکیزہ کردار عورت تھیں۔
''اور جب فرشتوں نے کہااے مریم اﷲ نے تجھے برگزیدہ کر لیا اور تجھے اور تجھے پاک کر دیا اور سارے جہاں کی عورتوں میں سے تیرا انتخاب کیا'
یہ بچپن ہی سے اﷲ سے تعلق خاص رکھتی تھیں جب بڑی ہوئیں تو اﷲ نے انہیں حضرت عیسی کی ماں بنایا،
عصری معنویت:
حضرت مریم کا کردار آج کی عورت کے لیے کسی رول ماڈل سے کم نہیں اﷲ کے ساتھ مضبوط ربط جو متزلزل نہ ہوا اور پوری دنیا جو ظاہر پر ایمان رکھتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے بالمقابل کھڑی ھوئی مگر حضرت کی استقامت حق اﷲ پر ایمان و یقین ایک لمحے کو بھی راست سے نہ ہٹا سکی یہی جزبہ آج کی عورت کو درکار ہے کہ پاکیزگی اور حیا سے فرشتے بھی مودب ہوں آجکے معاشرے میں مریم کا کردار اور یقین پختہ لازم ہے عورت کے لیے۔
3ام موسے (حضرت موسے کی ماں)
انہہں نے حضرت موسی کو خطرناک دور میں جنم دیا جب مردوں کو شیر خوارگی میں ہی دفن کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔حضرت موسی کی ماں کی طرف بھی وحی کی گئی اور ہدایت دی گئی کہ
''اﷲ کے منصوبوں پر ایمان رکھو اور انکو دریا میں بہا دو
''ہم نے موسی کی ماں کو وحی کی کہ اسے دوددھ پلاتی رہ اور جب کوئی اس کی نسبت کوئی خوف معلوم ہو تو اسے دریا میں بہا دینا۔اور ڈر خوف یا رنج نہ کرنا ہم یقینا تیری طرف لوٹانے والے ہیں اور اسے اپنے پیغمبروں میں بنانے والے ہیں''
ان کا کردار بھی اﷲ کی ذات پر مکمل یقین کا کھلا ثبوت ہے اور اسکے علاوہ ماں کے جزبات کی ترجمانی ہے جو ہر حال میں اپنی اولاد کی بقا چاہتی ہے
عصری معنویت:
والدہ کا وجود اپنی ذات میں پوری دنیا سے لڑنے کی طاقت رکھتا ہے لہزا آج کی ماں اگر اولاد کی تربیت کے لیے شیطانی وسوسوں اور ہتھکنڈوں سے بچانے کے لیے جت جایے تو رحمان رحیم ضرور اسکی رہنمائی فرمائے گا۔یقینا اﷲ پر غیر متزلزل ایمان ''دنیا اور آخرت ' کی منزلوں کو سہل بنا دیتا ہے حضرت موسی کی والدہ اپنے بچے کے لیے تڑپنا بالکل فطری ہے آج کی ماں بھی اپنے بچے کی تربیت کے لیے بیچین ہے۔موسی فرعون کے محل میں پرورش پا کر بھی نبی،کے منصب پر فائز ہوتے ہیں تو آج کی ماں کو بھی رجوع الی اﷲ کرنا ہو گا اس رب رحیم کی مد د اور توفیق سے ہی ماں قابل ہو گی کہ اس کا بچہ آج کے فرعونیت زدہ ماحول سے سچا مسلمان بن کر ابھرے گا۔
4بلقیس(ملکہ سبا):
یہ سبا کی ملکہ تھی اسکو بلقیس کا نام دیا گیا عرب کے لوگ اسکو اسی لقب سے یاد کرتے ہیں،قرآن میں اسکو ایک عقل مند طاقتور عورت کے طور پر دکھاتا ہے
ھم نے حکم دیا کہ اس تخت میں کچھ پھیر بدل کر دو تاکہ معلوم ہو جائے کہ یہ راہ پا لیتی ہی یا ان میں سے ہوتی جو راہ نہیں پاتے
جب اس پر سچائی کھلی تو بلا تاخیر اﷲ پر ایمان لے آئی بیشک ملکہ بلقیس کے پاس عقل اور دانائی اور درست قوت فیصلہ موجود تھی جسکو حق کے تابع کرنا مقصودتھا۔
عصری معنویت:
آج کی عورت بھی حسن عقل ظاہری اسباب دنیا سے لیس ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی تمام تر خواہشات،صلاحیتوں (ظاہری و باطنی)کو حق کے تابع کر دیا جائے اور یہی عقلمندی جو انسان کا خاصہ ہے،کا ثبوت ہے۔ورنہ یہ حسن عقل اور ظاہری اسباب کسی کام کے نہیں اتنی مدبر اور قابل حکمران ہونے کے باوجود تب تک اہمیت کی حامل نہ ہوئی جب تک اﷲ اور اسکے اسول پر ایمان نہ لائی۔آج کی عورت بھی اﷲ کی نظر میں تبھی معتبر ہے جب تک وہ دین اسلام کو دلو جان سے اپناکر اپنا رہنما بنائے گی۔
5حضرت لوط کی بیوی6 حضرت نوح کی بیوی:
قرآن میں ان عورتوں کا ذکرلمحہ فکریہ ہے یہ انکار کرنے والی عورتیں ہیں جبکہ اﷲ نے ان کے زوج دنیا کے عام اشحاص نہیں بلکہ اپنے محبوب بندے''نبی''بنائے جوبلند مقام با کردار و عمل لوگ تھے مگر دونوں عورتیں ''سچائی'' کو نہ پہچان سکیں۔
''اﷲ نے ان کافروں کے لیینوح کی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی یہ دونوں ہمارے بندوں میں دو شائستہ اور نیک بندوں کے گھر میں تھیں پھر انہوں نے خیانت کی پس دونوں ان سے اﷲ کے عزاب کو نہ روک سکے اور حکم دیا گیا اے عورتو دوزخ میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی چلی جاؤ۔''
بے شک روشنی ان کو ہی ملتی ہے جو اس کی طلب کرتے ہیں۔
عصری معنویت:
مزکورہ عورتوں کا ذکر،قرآن کا کھلا پیغام ہے،اگر ہم روحانی ترقی چاہتے ہیں تو صرف نیک لوگوں کی صحبت ضروری نہیں بلکہ اﷲ کو پہچاننے والی آنکھ درکار ہے،حق کی روشنی دل میں تبھی اترتی ہے جب اسکو جزب کرنے والا دل دیکھنے والی آنکھ ہو۔عقل سلیم کا یہی تقاضا ہے۔آج کی عورت کے لیے بھی کھلا سبق موجود ہے کہ اسلام نا انصافی نہیں کرتالہزا اپنے اعمال کی زمہ دار خود ہیں مزید یہ کہ کسی سے نسبت ظاہری کچھ فائدہ نہ دے گی محض اپنے اعمال ہی کام آئیں گیاپنے ہاتھوں کا بیجا ہوا ہی کاٹنا ہو گا۔آج کی عورت ماحول یا اپنے قوام مردوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتی۔لمحہ فکر و عمل ہے۔
7حضرت لوط کی بیٹیاں (قوم کی بیٹیاں):
حضرت لوط کی قوم جنسی بے راہ روی کا شکار تھی مگر اس ماحول میں بھی ان کی بیٹیاں بہت قابل اور محفوظ تھیں۔
''انہوں نے جواب دیا کہ تو بخوبی جانتا ہے کہ ہمیں تو تیری بیٹیوں پر کوئی حق نہیں ہے۔اور تو اصلی چاہت سے بخوبی واقف ہے''
حضرت لوط کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ انکی بیٹیاں (قوم کی بیٹیاں)عفت و عصمت والی تھیں اس لیے قوم لوط خود کو ان کے قابل نہیں سمجھتی تھی۔
عصری معنویت:
اج کے دور میں بھی بیٹی کو ایسے ہی پاکیزہ کردار رہنا مقصود ہے۔کہ خود معاشرہ انہیں عزت کی نظر سے دیکھے اور وہ پہچانی جائیں تاکہ انکو تنگ نہ کیا جائے،کردار کی مہک ہی وہ خوشبو ہے جو عورت کے لیے خوشبوئے خاص ہیاور خدائی کی نظر میں پسندیدہ ہے۔
8حضرت سارہ (حضرت ابراہیم کی بیوی):
یہ حضرت اسحاق کی والدہ ہیں
''اس کی بیوی کھڑی ہوئی تھی۔ وہ ہنس پڑی تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی وہ کہنے لگی ہائے میری کم بختی میرے ہاں اولاد کیسے ہو سکتی ہے میں خود بڑھیا اور میرے خاوند بھی بہت بڑی عمر کے ہیں یقینا بڑی عجیب بات ہے۔''
یہ حضرت ابراہیم کی بیوی جن کو عمر رسیدگی میں حضرت اسحاق کی خوشخبری دی گئی اولاد ہونا عورت کی تکمیل ہے اﷲ نے تمام عالم کے لیے انکو مثال بنایا اور قدرت ظاہر کی۔
عصری معنویت:
حضرت سارہ ثابت قدم اور مضبوط اعصاب کی مالک خاتون نظر آتی ہیں جو ظاہری حالات واقعات کو لے کر مایوس نہیں مگر حقیقت کو کھلے دل سے قبول کرتی ہیں اﷲ کی زات پر یقین اور الحمد ﷲ فی کل حال پر ایمان ہی انکو اﷲ کی رحمت کا حقدار بنا رہا ہے۔آج کل کی عورت کے لیے عمدہ مثال ہیں جو اولاد کی بات لے کر بے چینی اور مایوسی کا شکار ہیں اور جادو ٹونے کے چکروں میں پڑی ہیں کہ اﷲ کی دین پر صبر و شکر ہی نعمت میں اضافہ فرماتا ہے
9عزیز مصر کی عورت(زلیخااور عورتیں):
حضرت یوسف کا ذکر قرآن میں سورت کی شکل میں موجود ہے اس سارے واقعے میں عزیز مصر کی عورت کا ذکر خاص طور پر ہے۔
''بادشاہ نے پوچھا اے عورتو!اس وقت کا صحیح واقعہ کیا ہیجب تم داؤفریب کر کے یوسف کو اس کی دلی منشا سے بہکانا چاہتی تھیں انہوں نے صاف جواب دیا کہ معاذ اﷲ ہم نے یوسف میں کوئی برائی نہیں پائی پھر تو عزیز کی بیوی بول اٹھی کہ اب تو سچی بات نتھر آئی میں نے ہی اسے ورغلایا تھااس کے جی سے اور یقینا وہ سچوں میں سے ہے''
زلیخا کا کردار نفس کے غلام لوگوں کی ترجمانی کرتا ہے مگر سچ اور حقیقت ظاہر ہونے پر اس نے غلطی کا اعتراف کیا اور حضرت یوسف کو اﷲ نے با عزت بری کر دیا اور سرخرو کیا۔
عصری معنویت:
زلیخا کا کردار آج کے معاشرے میں جا بجا نظر آتا ہے جہاں عورت کپڑے پہن کر بھی ننگی نظر آئے تو یہ بھی گناہ کی طرف دعوت کا ایک طریقہ ہے۔ان عورتوں کے لیے سبق ہے جو زمانے کی دوڑ میں اپنی تربیت اور دین کو بھلا کر پھسلے جا رہی ہیں کہ حفاظت نفس ضروری چیز ہے ورنہ دین و دنیا دونوں زائل ہو جایئں گے عزات ہمیشہ سچوں کے حصے میں اتی ہے اور سچ نیکی پر چلنے کا رستہ آسان کر دیتا ہیمکر و فریب دینے والے دراصل خود شیطان کے مکر و فریب میں مبتلا ہوتے ہیں۔زلیخا کے ساتھ عورتیں بھی دھوکے اور بری صحبت کی عکاسی کرتی ہیں وہ برا ساتھ جو نیکی کا حکم نہیں دیتا نہ برائی سے روکتا ہے لہزا دوستی اﷲ کے لیے ہونی چاہیئے۔
10حضرت موسی کی بہن:
''موسی کی والدہ نے اسکی بہن سے کہا تو اس کے پیچھے جا تو وہ اسے دور ہی دور سے دیکھتی رہی اور فرعون کو اس کا علم نہ ہوا''
''ان کے پہنچنے سے پہلے ہی ہم نے موسی پر دائیوں کا دودھ حرام کر دیا تھا یہ کہنے لگی کہ میں تمہیں ایسا گھرانہ بتاؤں جو اس بچے کی تمہارے لیے پرورش کرے او ر ہوں بھی اس بچے کے خیر خواہ ''
عصری معنویت:
اس تمام واقعہ میں موسی کی بہن ایک رازدار زہین اور موقع شناس کے طور پر سامنے آئیں جو بھائی اور ماں کی خیر خواہ ہیں ضرورت ہے کہ قربت کے رشتوں کی حرمت محبت کے تقاضوں کو بجا لایا جائے اور بہنیں بیٹیاں رب کی رحمتیں ہیں۔
11حضرت موسی کی بیوی(صفورا):
''اتنے میں ان دونوں میں ایک انکی طرف شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی اور کہنے لگی کہ آپ کو میرے باپ بلا راہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے اس کی اجرت دیں۔۔۔۔۔۔۔الخ
''ان دونوں میں سے ایک نے کہا کہا اباجی اپ انہیں مزدوری پر رکھ لیجیے کیونکہ جنہیں آپ اجرت پر رکھیں ان میں سے بہتر وہ ہے جو مضبوط اور امانتدار ہو۔
عصری معنویت:
حضرت موسی کی بیوی صفورہ کا زکر قرآن میں با حیا بااصول'بہترین قوت فیصلہ اور مدلل بات کرنے کاہنر رکھنے والی عورت کا ہیآج کے معاشرے میں بھی بیت سی عورتیں انہی مسائل کا شکار ہیں کہ گھر سے باہرضروریات کے لیے نکنا پڑتا ہیمگر ضروری ہے کہ عزت و عصمت کا خیال رکھں اور شرم و حیا کو کسی طور ضائع نہ کریں جہاں مرد اور عورتوں کے خلط ملط ہونیکااحتمال ہو وہاں سے کنارہ ہوں اور متبادل زرائع اور راستے استعمال کریں زمانے کو جانچنے کی پرکھ رکھتی ہوں۔
12فرعون کی بیوی (آسیہ):
'اور اﷲ نے ایمان والوں کے لییفرعون کی بیوی کی مثال بیان فرمائی جبکہ اس نے دعا کی کہ اے میرے رب میرے لیے اپنے پاس جنت میں مکان بنااور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سیبچااور مجھیظالم لوگوں سے خلاصی دے''
حضرت آسیہ کا بہت درجہ ہیجنت کی عورتوں میں سے ایک عورت جوثابت قدمی استقامت فی دین اور شدائد میں صبر کرنے کی مثال ہیں۔
عصری معنویت:
دور حاضر میں عورتیں اپنے خاوندوں کی وجہ سے بھی اسلام سے دور زندگی گزارتی ہیں کیونکہ انکے میاں کو یہ طرز زندگی(محدودوقیود)پسند نہیں مگر ان عورتوں کوحضرت آسیہ کی مثال کافی ہے جواپنے وقت کے سب سے بڑے درجے پر فائزفرعون کی بیوی تھی مگردین حق کا رستہ چنااور ثابت قدم رہیں رب پر ایمان نے انکوجنت کی عورتوں میں شامل کر لیاَ۔
13۔عمران کی عورت:
عمران کی بیوی سے مراد حضرت مریم علیہ اسلام کی والدہ ہیں۔
'جب عمران کی بیوی نے کہاکہ اے میرے رب میرے پیٹ میں جو کچھ ہے اسے میں نیتیرے نام آزاد کرنے کی نزر مانی تو میری طرف سے قبول فرما۔یقینا تو خوب سننیوالااور پوری طرح جاننے والا ہے۔جب بچی جنی تو کہنے لگی اے پروردگار مجھے تو لڑکی ہوئی ہیاﷲ کو خوب معلوم ہیکہ کیا اولاد ہوئی ہیاور لڑکا لڑکی جیسا نہیں میں نے اس کا نام مریم رکھامیں نے اسے اور اسکی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔''
حضرت مریم علیہ اسلام کی والدہ انتہائی باکردارعورت تھی اور اﷲ پر سچا یقین رکھنے والی تھیں۔اسکے علاوہ انکی شخصیت مضبوط ہمت والی خاتون کی نظر آتی ہیجو اپنی گود میں بچی دیکھ کروعدے سے نہیں مکری اور نہ ہی دنیا کی باتوں کی پرواہ کی۔
عصری معنویت:
دور حاضر میں بھی بیٹی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے اور خاص کاموں کی حد تک محدود سمجھا جاتا ہیجبکہ مزکورہ آیات میں حضرت مریم کا اﷲ کے لیے وقف ہو جانااور یہ حوالگی والدہ کی طرف سے آنا ماں کاتربیت اولاد پر حق اور فرض بھی بتاتا ہیلہزا آج کی ماں کو بھی عمران کی عورت کی طرح حق دین کی سربلندی کے لیے پر عزم 'پر ہمت رہنے کی ضرورت ہیکہ دنیا کے رویوں کی پرواہ کے بغیر محض اﷲ کی رضا پیش نطر ہو۔
14۔محمد ﷺکی بیویاں بیٹیاں:
اور پیغمبرﷺ کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں ''
''اے نبی (ﷺ)اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکایاکریں اس سے بہت جلد انکی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اﷲ بخشنے والامہربان ہے۔
عصری معنویت:
حضورﷺ کی بیویوں کی حرمت و عزت کا قرآن ثبوت ہے۔''ام لمومنین '' کے لقب سے نوازی گیئں مگر سورت اخزاب میں حکم پردہ تمام عورتوں کے لیے ہیجس میں نام لے کربالخصوص ام لمومنین اورصاحبزادیوں کا کہا گیا ہے مگر عمومی حکم سب کے لیے ہیکہ چہرے پر پردہ اس طرح ہو کہ پہچانی نہ جا سکیں۔آج کی عورت کو بھی یہی حکم ہیکیونکہ پردے سے ہی معلوم ہو گا کہ یہ خاندانی عورت ہیجس سے چھیڑ خانی کی جرات کسی کو نہیں ہو گی اسکے برعکس بے پردہ عورت اوباش کی نگاہوں کا مرکز اور انکی ابوالہوسی کا نشانہ بنے گی۔
15۔خاوند کے بارے میں شکایت کرنے والی عورت(حضرت خولہ رضی اﷲ عنھا):
''یقینا اﷲ نے اس عورت کی بات سن لیجو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اﷲ کے آگے شکایت کر رہی تھی اﷲ تم دونوں کے سوال جواب سن رہا تھا۔بے شک اﷲ سننے دیکھنے والا ہے.
اس میں ظہار کی بات ہو رہی ہیجسکی شکایت حضرت خولہ بنت مالک بن ثعلبہ رضی اﷲ عنہ کر رہی تھیں انے شوہر اوس بن صامت نے ان سے ظہار کیا تھا۔ظہار کو طلاق سمجھا جاتا تھاوہ بہت پریشان ہوئیں اور حضور کے پاس آیئں تو آپ سے بہت بحث و تکرار کی کیونکہ اس وقت کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھاجس پر آیات نازل ہوئیں اور مسئلہ حل ہوا۔کفارے کا حکم دیا گیا۔
عصری معنویت:
اسلام عالم گیر مزہب ہیاور قیامت تک قابل عمل ہییہ دین اپنے اندر وسعت رکھتا ہیاور ہر مسئلے سے نپٹنے کی صلاحیت بھی۔یہ عقل و الہام دونوں طرح سے قابل عمل دین ہیاور مقبول دین ہے۔حضرت خولہ رضی اﷲ عنھا یہاں پر سچے ایمان والی ذی شعور خاتون کی عکاسی کر رہی ہیں جو اپنے خاوند اور بچوں کی وجہ سے پریشان ہیں ہر با شعور عورت اپنے خاوند بچوں اور گھر کی فکر رکھتی ہیاور اگر نیت مسلم اور نظر ایمان کو پورا کرنے پر ہو تو ہو نہیں سکتاکہ رب سبیل نہ نکالے۔لہزا آج بھی عورت کو جو بھی مسئلہ خانگی عائلی درپیش ہوخضرت خولہ کی طرح رجوع الی الاسلام کرنا ہی حکمت'دانشمندی اور وفائے اہل خانہ ہے۔
16۔ابو لہب کی عورت:
ابولہب حضور کا چچا تھا مگرآپ پر ایمان لانا نصیب نہ ہوا اور محروم ٹھہرا۔''اور اسکی بیوی بھی جائے گی جولکڑیاں ڈھونے والی ہے''
یعنی اپنے خاوند کی آگ پر لکڑیاں لا لا کر ڈالے گی تا کہ مزید آگ بھڑک سکییہ اﷲ کی طرف سے ہو گا یعنی جیسے خاوند کی معاون ہر کفر و عناد کے کام میں رہی ایسی ہی اسکو آخرت میں عزاب دینے میں معاون ہو گی۔
عصری معنویت:
آج بھی جو عورت اپنے زوج اور خاندان کی مدد اور حمایت غلط کام پر کرے گی وہ ام جمیل کا حشر قرآن میں دیکھ لے۔لہزا ہر قدم سوچ کر اٹھائیں ورنہ اخرت کا عزاب پہنچ کر رہے گا۔اﷲ نے ہر انسان مرد عورت کو شعور عقل دی ہیلہزا ہر عمل ذرہ برابر نیکی ذرہ برابر برائی تولی جائے گی فکر آخرت رکھ کر زندگی گزارنے کی ضرورت ہے۔
قرآن کا مطلوب عورت:
قرآن میں بہت سی عورتوں کا نام کے ساتھ ذکر آیا ہے جنکی تعداد تقریباً 24ہے جنکو اﷲ نے مخاطب کر کے نام لے کر بات کی. جنکا ذکر کیا جا چکا ہے مگر ان تمام کا ذکر کرنے کے بعد لازم ہے کہ یہ چیز بھی واضح ہو کہ قرین جو راہ ہدایت کی طرف لے جانے والی روشنی ہے ہمیں کس عورت کا تصور پیش کر رہی ہے. قرآن کا مطلوب عورت ان تمام عورتوں(قرآن میں مذکور عورتیں) کو سامنے رکھ کر کیا مجسم اختیار کرتی ہے. قرآن کی مطلوب عورت میں یہ صفات لازمی ہیں.
1حیا اور پاکیزگی (موسی کی عورت)
2با وفا, ہر حال میں ساتھ دینے والی (حضرت حوا)
3بد کرداری ' بے وفاء ' بری صحبت سے بچنے والی (حضرت لوط, حضرت نوح کی عورتوں سے ماخذ)
4با پردہ, باوقار (حضرت محمد کی بیویاں, بیٹیاں)
5تابع حق اور والدین (حضرت لوط کی بیٹیاں)
6 ہر حال میں اﷲ کی جانب رجوع کرنے والی(حضرت آسیہ)
7پاکیزہ.کردار, اﷲ کی اطاعت گزار (حضرت مریم)
8اﷲ پر توکل اور تکیہ رکھنے والی (آم موسی)
9موقع شناس اور بروقت درست فیصلہ کرنے والی (حضرت موسی کی بہن)
10اپنے گھر, خاوند, عیال کی فکر اور خیر مانگنے والی (حضرت خولہ)
11اﷲ کی اطاعت گزار قوت عقل وداناء کو استعمال کرنے والی (ملکہ سبا)
12اپنی غلطی پر نادم ہو کر رجوع الی اﷲ کرنے والی (عزیز مصر کی عورت سے ماخذ)
13امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے والی, جائز کام میں معاونت کرنے والی, آخرت کی تیاری میں خاوند کی معاونت کرنے والی(ام جمیل سے ماخذ)
سفارشات:
مذکورہ صفات اور قرین میں مذکور عورتوں کے حالات و واقعات بتانے سے مقصود آج کی عورت کو راست کی طرف رہنماء کرنا ہے. اسلام نے عورت کو امن دیا.
'' اور جب زندہ گاڑھی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم میں ماری گئی ''
اور آج عورت اسلام کا احسان بھلا کر بے راہ روی کاشکار ہے. اپنی اصلی منزل کی طرف قدم اٹھانے کے بجائے دیکھادیکھی اوروں کی نقالی میں بھٹکتی چلی جا رہی ہے. امر لازم ہے کہ قرآن کی تعلیمات کو جو عورتوں کے لئے مخصوص ہیں ان پر عمل پیرا ہوا جائے قرآن کا انداز تبلیغ ہے کہ اوروں کے قصے سنا کر تمثیلی انداز میں رہنماء فرماتا ہے اور انسان کی بھی خصلت ہے کہ تجربے اور واقعے سے سیکھتا ہے لہذا وقت کا بھی تقاضا ہے کہ قرآن کی تعلیمات کو مضبوطی سے پکڑا جائے اور اس کردار کی حامل عورت سامنے آئے کہ '' وہ پہچانی جائیں '' اور اﷲ سے اس قدر تعلق مضبوط ہو کہ شیطان کا کوء حربہ کوء چال کارگر نہ ہو. یہ تبھی ممکن ہے جب '' قرآن کی مطلوب عورت'' قرین سے منسلک ہو کر علم و عمل میں یکسو ہو گی. اس ضمن میں حکومت پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.
1نصاب میں عورتوں کے متعلق اسباق شامل ہوں اور صحابیات کے ساتھ قرآن میں موجود عورتوں کا تذکرہ ادب(اردو,انگریزی) میں بھی شامل ہو. نیز اسلامیات کے مضمون میں ''مشاہیر اسلام'' کے ساتھ'' مشاہیرات اسلام''کے عنوان بھی شامل تدریس کیا جائے.
2سرکاری سطح پر '' ہفتہ آگاہی امہات المومنین ''منایا جائے تاکہ طلباء و طالبات دونوں کو اسلامی تشخص ہو اور اپنی اصل کی طرف لوٹنے کا سفر آسان ہو.
3''سورہ نور'', سورہ النساء, سورہ الاحزاب کی منتخب آیات کو شامل نصاب کیا جائے تاکہ طلباؤ طالبات گمراہی سے محفوظ رہ سکیں.
4فادر ڈے. اور مدر ڈے, کو منانے کے بجائے قرآنی آیات کے تناظر میں '' حقوق نسواں '' اور '' حقوق والدین '' کی اصطلاح کو استعمال کھا جائے تاکہ اسلامی تشخص اور قرآنی تصور کو پنپنے کا موقع مل سکے.
5دینی مدارس, خاص طور پر مسجدوں کو حکومتی سطح پر پابند کیا جائے کہ معاشرے میں '' عورت'' کو تحفظ, عزت,حرمت ملے. اسی تناظر میں خطبات جمعہ اور روزانہ درس حدیث یا درس قرآن ہو تاکہ معاشرتی بے راہ روی سے بچنے کے لئے مردوں کو جو '' قوام'' بنایاگیاہے وہ بھی اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں.
حاصل کلام:قرآن نے پاکیزہ اور خبیث عورتوں کے اذکار سیعبرت اور نصیحت کا سبق رکھا تاکہاتمام حجت ہو جائے۔اور اس دنیا میں عورتیں اپنے اعمال کا احتساب کر کیوقت مقررہ تک دی گئی مہلت میں عمل خیر کر لیں۔کیونکہ بہتری اسی میں ہے کہ ہم بروقت اصلاح کر لیں۔اور فاطمہ'خدیجہ'مریم اور آسیہ کے نقش قدم پر چلیں اسی میں ہماری دنیا اور آخرت میں بھلائی ہے۔
 

Aasia Muneer
About the Author: Aasia Muneer Read More Articles by Aasia Muneer: 28 Articles with 22486 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.