خواجہ فضل الدین کلیامیؒ

میں خطوطہ پو ٹھوہار کے کامل بزرگ جذب و سکر کے بادشاہ ساری زندگی حق کے جلوؤں میں مستغرق ثانی صابر کلیر بایزید بسطامی ؒ کے مزار پر انوار پر حاضری سلام کی غرض سے حاضر تھا جیسے ہی ہم لوگ جی ٹی روڈ سے نیچے اُتر کر کلیام شریف کی طرف محو سفر ہوئے تو عجیب سے مسحور کن مدہوشی نے گھرے میں لے لیا ہمارے چاروں طرف لہلہاتے سر سبز شاداب کھیت تھے ٹھنڈی مسحور کن ہواؤں کے دوش پر اڑتے ہوئے ہم اِس سر زمین کے بہت بڑے بزرگ حضرت خواجہ فضل الدین صابری کلیامی کی بارگاہ میں جا رہے تھے ہدیہ عقیدت اور اپنی محبت کے اظہار کے لیے گوجر خان سے ہی بہت سارے گلاب موتیوں کے پھولوں اور زری سبز رنگ کی چادر لے لی تھی جب ہم جا رہے تھے تو رگ رگ میں خوشی اشتیاق اور عقیدت ٹھاٹھیں مار رہی تھی کیونکہ میں پہلی بار جذب و سکر کے اِس عظیم سلطان کی حاضری میں حاضر ہو رہا تھا چند کلومیٹر کے سفر کے بعد ہم شہباز لامکاں کے مزار پر انوار کے سامنے تھے جوتے اتار کر پھول چادر ہاتھ میں تھامے غلاموں کی طرح گردنیں جھکائے ہم لوگ ثانی صابر کلیر ؒ کے قدموں کی طرف بڑھ رہے تھے چاروں طرف روحانیت کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی دوپہر کے بعد کا وقت تھا دربار شریف پر زیادہ لوگ نہیں تھے چند لوگ عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ جذب کے سلطان کو سلام کرنے کے لیے حاضر تھے اگر بتیوں اور مختلف پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی شیشے کی میناکاری درو دیوار پر چمک رہی تھی ہم دروازے سے گزر کر اندر داخل ہوئے تو شہزادہ پوٹھو ہار پھول اوڑھے سو رہا تھا میں عقیدت کا بت بن کر قدموں میں کھڑا ہو گیا اور خود بخود دعا کے لیے ہاتھ کھڑے ہو گئے فاتحہ خوانی اور بہت ساری دعاؤں کے بعد چادر مبارک ڈال کر پھولوں کا نذرانہ پیش کر کے نشے میں دھت باہر آکر بیٹھ گیا اور در و دیوار کو دیکھنے لگا علاقے کی قسمت پر رشک کر نے لگا کہ کیسا جذب کا سلطان اِس دھرتی پر آسودہ خاک ہے شیشے کی مینا کاری سے باباجی کا نام اور مختلف اشعار میں غرق تھا کہ اچانک میرے اوپر مراقباتی کیفیت طاری ہو نا شروع ہو گئی میں درو دیوار کو غور سے دیکھا محسوس کر نا چاہتا تھا لیکن مدہوشی نشہ سرور مجھ پر غالب آتا جارہا تھا میں ہوش میں رہنے کی پوری کو شش کر رہا تھا لیکن مدہو شی میرے اعصاب کو کیف سرور کے سمندر میں غرق کرتی جارہی تھی میں ہو ش میں رہنے کی کو شش کر رہا تھا لیکن کوئی نادیدہ قوت مجھے دوسری دنیا میں لے جارہی تھی آخر میں نے ہتھیار ڈال دئیے خود کو مدہوشی کے حوالے کر دیا اور اِس حال کی دنیا سے بے خبر ہو گیا آنکھیں بند ہو تی گئیں پھر اچانک تاریکی کی چادر ہٹنے لگی باطن روشن ہونے لگا اور ایک منظر آنکھوں کے سامنے آگیاجس میں مالٹے رنگ کا فقیری لباس اور ہاتھوں میں کشکول ننگے پاؤں حضرت صابر کلیر ؒ کے مزار شریف کے سامنے گو لڑ کے درخت کے نیچے سراپا التجا بنا کھڑا ہوں چند سال پہلے جب میں بھارت اولیاء اﷲ کے مزارات کی زیارت کے لیے گیا تو میرے دوست بزرگ نے فرمائش کی تھی کہ میں اُس کی طرف سے صابر کلیر ؒ کے مزار پر اِس لباس میں کشکول پکڑ کر غلام بن کر حاضر ہوں یہ وہی گولر کا درخت تھا جس کو پکڑ کر حضرت صابر کلیر ؒ کتنے کتنے دن رات جلوہ حق میں مستغرق رہتے دنیا و مافیا سے بے خبر ہو جاتے آج بھی متلاشیان حق صابر کلیر ؒ کے مزار پر گولر کے درخت کی شاخ پکڑ کر نذرانہ عقیدت پیش کر تے ہیں میں کتنی دیر اِس روح پر ور منظر میں غرق رہا صاحب مزارکلیام شریف مجھے میری نسبت بتا رہے تھے کہ تم اُن کے مرشد محبوب کے دربار پر اِس روپ میں گئے تھے پھر کلیام شریف میں عصر کی اذان کے فضاؤں کو ارتعاش بخشا تو میں کلیر شریف سے کلیام شریف آگیا اِس طرح صاحب مزار نے اپنا روحانی مقام اور تصرف بھی بتا دیا فضل الدین سرکار ؒ کی صابر کلیر ؒ سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ ساری زندگی آپ کے نام کی مالا جپتے رہے ہر سال بابا فرید گنج شکر ؒ کے عرس مبارک پر تشریف لے جاتے جا کر صابر کلیر ؒ کے مزار پر بیٹھ جاتے ٹکٹکی باندھے مزار شریف کو دیکھتے رہتے جذب شکر میں اپنے حال سے جذب میں چلے جاتے تو نماز کا بھی ہوش نہ رہتا ایک عرس پر آپ صابر صاحب ؒ کے سامنے بت بنے بیٹھے تھے دنیا کی ہوش نہیں تھی کہ انہی دنوں شاہ سلیمان تو نسوی کے پوتے اﷲ بخش تو نسویؒ بھی سلام کرنے آئے تھے آپ نماز کی بہت پابندی کراتے تھے جب لوگوں نے آپ کو بتایا کہ ایک درویش نماز کے وقت بھی جماعت بانماز میں حاضر ہونے کی بجائے حجرہ مبارک کو دیکھتا رہتا ہے تو تونسوی بزرگ ؒ نے آپ کو ظہر کے وقت پیغام بھیجا کہ نماز میں آکر شامل ہو جاؤ لیکن کلیامی درویش نہ آیا آپ ؒ کو عصر کی نماز میں پیغام بھیجا گیا لیکن آپ نہ آئے اِسی طرح مغرب کی نماز بھی گزر گئی تو غصے میں اﷲ بخش تونسوی نے اعلان کیا کہ اگر عشاء کی نماز میں بھی وہ درویش نہ آیا تو میں اُس کو لے کر آؤں گا لیکن جب عشاء کی نماز کے بعد سلام پھیرا تو دائیں طرف خواجہ فضل الدین ؒ کو بیٹھے پایا بائیں طرف دیکھا تو ادھر بھی ان کو پایا سامنے دیکھا تو ادھر بھی جذب کا سلطان نظر آیا تو دوڑتے ہوئے فضل الدین ؒ کے حضور حاضر ہوئے اور معافی مانگی تو کلیامی سر کار ؒ بولے اگر مجھے تیرے دادا کا پاس نہ ہو تا تو تم کو ایسا ناچ نچاتاکہ لوگ دیکھتے آپ راہ حق کے لیے اِس قدر جنونی تھے کہ نفس کشی کے لیے سردی میں خود پر برف ڈالتے اور گرمی میں آگ جلد کے پاس بیٹھ جاتے آپ کے آباؤ اجداد گجرات سے یہاں پر قیام پذیر ہوئے یہاں پر آپ ؒ کی پیدائش ہوئی یہاں پر حضرت شریف خان کا مدرسہ تھا جن سے دینی تعلیم حاصل کی آپ پیدائشی ولی تھے بچپن میں انگارے ہاتھ میں پکڑ لیتے ایک بار ماں کو دیکھاوہ سخت دھوپ میں تنور پر روٹیاں لگا رہی تھی تو ان کے ہاتھ سے روٹیاں بنانے والا بیلنا پکڑ کر زمین میں گاڑ دیا جو تنا آور درخت بن گیا جس کے نیچے لوگ بیٹھتے ایک مریدنی آپ کے لیے دودھ لارہی تھی تو سانپ نے روک لیا اُس عورت نے شیش ناگ کو بتایا میں کلیامی سرکار ؒ کے پاس جارہی ہوں تو سانپ نے راستہ چھوڑ دیا آج بھی اگر کسی کو سانپ کاٹ لے اور وہ دربار شریف کی طرف چلنا شروع کر دے تو اُس کی موت زہر سے نہیں ہو گی آپ کی پیر مہر علی شاہ ؒ صاحب سے بہت دوستی تھی آخری وقت میں جذب سکر میں نماز کی ہوش نہ رہتی تو مقامی علمانے کہا ہم جنازہ نہیں پڑھائیں گے تو آپ ؒ نے فرمایا میرے جنازے میں دہلی کے قافلے آئیں گے اور جنازہ پڑھانے والا بھی آئے گا پھر جب آپ کا وصال ہو ا تو پیر مہر علی شاہ ؒ کے خواب میں جا کر اطلاع دی اور پھر لوگوں نے دیکھا شہنشاہ گولہڑہ شریف ؒ خود آپ ؒ کے جنازے میں شریک ہوئے اور دہلی کے قافلے بھی شریک ہو ئے پیر مہر علی شاہ ؒ گھوڑے پر بیٹھ کر جنازے کی صفیں درست کراتے رہے پھر اہل دنیا نے سلطان جذب و سکر کو آسودہ خاک ہو تے دیکھا ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 656549 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.