ہر ایک اپنے محاذ پر ہے

ہر ایک اپنے محاذ پر ہے ۔

عثمانی سلطنت کے چونتیسویں حکمران ،سلطان عبد الحمید کی حیات و خدمات پر ترکی نے بہت شاندار عکس بندی کی ہے۔یہ سیریل "پایہء تخت عبد الحمید" جو سینکڑوں اقساط پر مشتمل ہے ،نہ صرف ایک سچے مسلمان حکمران کے عملی کردار کو واضح کرتی ہے بلکہ عوام کے لئے اس کے اخلاص ،فلاح و بہبود کی فکر ،اغیار کی سازشوں سے اپنی قوم کی حفاظت اور اس اعلیٰ منصب کی بھاری کرسی کی قیمت ،خون پسینہ بہانے سے ظاہر ہوتی ہے۔ سلطان عبد الحمید کے دور_حکومت میں جب روٹی بہت مہنگی ہوگئ اور عوام کی قوت_خرید سے باہر ہوگئ تو سلطان نے محل میں موجود شہزادیوں ،ملکہ اور کنیزوں سمیت سب خواتین کو پورے شہر کے لئے روٹیاں پکانے کا حکم دیا اور اگلی صبح سلطان کے کارندوں نے ہر گھر کے باہر روٹیوں کے تھیلے ٹانگ دئیے ،اس طرح نان بائیوں کی طرف سے کی گئی مصنوعی مہنگائی کا توڑ کیا گیا اور جب کسی نے ان سے روٹی نہ خریدی تو وہ قیمت کم کرنے پر مجبور ہوگئے۔سلطان نے عوام کے لئے سکول ،کالج اور ہسپتال بنواۓ،یتیموں اور بیواؤں کی خاطر سرکاری سرپرستی میں ادارے قائم کئے۔شہروں میں سبزہ اور نایاب درخت لگا کر ماحول اور فضا کو بہتر بنایا ۔سلطان بھیس بدل کر عوام میں گشت کرتا تاکہ رعایا کے حالات سے باخبر رہے اور ان کے مسائل حل کرسکے ۔ ترکی کو یورپ سے ملانے والا بحری پل کا منصوبہ تیار کیا۔ حاجیوں کو حجاز_مقدس پہنچانے کے لئے ریل گاڑی اور پٹڑی کے راستے کا ڈیزائن تیار کروایا۔خارجہ امور میں دوست ممالک سے معاہدے کرکے سلطنت کو دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ بنایا۔اسلحہ اور جدید جنگی ہتھیار خرید کر دشمن پر رعب بٹھادیا۔،عثمانیہ ریاست نے ہندوستان اور دیگر ممالک کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئے فوجی دستے بھی روانہ کئے۔ صحافت کے شعبہ پر توجہ دی اور غلط خبروں ،افواہوں اور فیک پروپیگنڈہ کا اثر زائل کرنے کے لئے اہل_قلم ،صحافیوں اور رپورٹرز سے خدمات لی گئیں۔ ریاستی امور کے بارے میں دشمن کی پالیسی جاننے کے لئے جاسوسوں کا بہترین نیٹ ورک قائم کیا جو پل پل کی خبریں سلطان تک پہنچاتے تھے۔ریاست کو درست سمت میں چلانے کے لئے سلطان نے علماء کرام سے مشاورت اور مسائل کے حل کے لئے رہنمائی حاصل کرنے میں کوئی عار نہ سمجھا بلکہ خود اہل_دین کے در پر وقتاً فوقتاً حاضری دی ۔

جب سلطان اپنے لکڑی کے کارخانہ میں خود اپنے ہاتھ سے آری وتیشہ استعمال کرکے مختلف چیزیں تیار کرتے تھے تو ان کے کمرے میں خوبصورت خطاطی میں ایک پینٹنگ آویزاں نظر آتی ہے جس پر "یا حضرت نوح" لکھا ہوا ہے۔یہ پینٹگ جو حضرت نوح علیہ السلام کی پیروی کرتے سلطان عبد الحمید کی لکڑیوں کی کاٹ چھانٹ کے ساتھ ،پرانے دور کی مماثلت کو ظاہر کرتی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام ،اپنی قوم کو طوفان اور سیلاب سے بچانے کے لئے ایک عظیم الشان کشتی بنارہے تھے ،عین اسی طرح سلطان عبد الحمید، امت_مسلمہ کو کفار کی سازشوں سے بچانے میں مصروف_عمل تھے ۔حصرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کے اہل_ایمان کو کشتی میں بٹھا کر بچا لے گئے لیکن ان کا بیٹا "کنعان" اپنے والد کی تربیت و تبلیغ کے باوجود ایمان نہیں لایا ۔اولاد کیا ہوتی ہے ،والدین کی جان ہوتی ہے ۔ حضرت نوح ،اسے پکارتے رہ گئے لیکن وہ پہاڑ پہ چڑھ گیا اور پھر ایک موج باپ بیٹے کے بیچ حائل ہوگئ، وہ اپنے بیٹے کو بچا نہیں سکے ! نجانے وہ کتنا تڑپے ہوں گے ؟ قوم کو بچانے کی فکر کرنے والے کا دل اپنے بچے کے لئے کتنا پھٹ رہا ہوگا ،سواۓ اللہ تعالیٰ کے کون ان کا دکھ جان سکتا ہے ؟ تقدیر پر ایمان لانا ہی پڑتا ہے۔
لیکن کیا ہم انھیں نعوذ باللہ ،ناکام سمجھیں گے ؟نہیں وہ اپنے حصے کا کام کر گئے اس لئے کامیاب ہیں۔ سلطان عبد الحمید نے ساری زندگی ،امت_مسلمہ کے غم و فکر میں گذاری لیکن ان کا اپنا بیٹا شہزادہ عبدالقادر ،اپنی ریاست کی مخالف تنظیم "ینگ ٹرکس" میں شامل ہوکر تبدیلی اور آزادی کے نعرے لگاتا رہا اور باپ کی پریشانی کا سبب بنا رہا حتیٰ کہ ایک وقت آیا جب سلطان نے بیٹے کو محل چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ کیا ہم سلطان کو ایک غیر زمہ دار باپ کہیں گے ؟( نعوذباللہ) نہیں جس طرح حضرت نوح علیہ السلام اپنے مشن میں کامیاب رہے ،اسی طرح سلطان عبد الحمید کا نام بھی کامیاب اور سچے حکمران کے طور پر تاریخ کے سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ ایمان اور ھدایت کے لئے ہر انسان خود زمہ دار ہے،ھدایت اسی کو ملتی ہے جو ھدایت کا طلب گار ہوتا ہے ،کوئ کسی کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔ تاریخ میں ایسی کئ مثالیں موجود ہیں مثلآ حضرت آسیہ مومنہ بیوی اور فرعون جیسے کافر شوہر کے ساتھ زندگی گزارنا پڑی ، حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے پیغمبر کے والد آزر بت پرست بلکہ بت بنانے والے تھے ،حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی ،کافر قوم کی ہمدرد تھی اس لئے اس نے مڑ کے اپنی قوم کی طرف دیکھا اور بت بنادی گئ، محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب ،باوجود آخری وقت تک کی تبلیغ کے ،ایمان نہیں لاۓ،قابیل نے کیا کیا تھا ہابیل کے ساتھ ؟ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے واقعات قرآن پاک میں موجود ہیں تو پھر کسی دین دار اور سچ بولنے والے کو خواہ مخواہ کیوں مجرم بنادیا جاتا ہے اور ناکام قرار دے دیا جاتا ہے ؟اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔بے شک گھر والوں کو ہم خیال بنانا بھی بعض جنگیں جیتنے کا سبب بن جاتا ہے اور ہر باشعور انسان یہ چاہے گا کہ اس کے اہل_خانہ اس سے فکری طور پر ہم آہنگ ہوں لیکن اگر باوجود کوشش کے ایسا نہ ہوسکے تو وہ قصور وار نہیں۔ قصور وار تو تب ہے کوئی کہ اگر اس نے اپنی فیملی کو سمجھایا ہی نہ ہو ،درست اور غلط کی نشان دہی نہ کی ہو لیکن اگرکوئ جان بوجھ کر غلط راستہ ہی اپناتا ہے،کسی اپنے کی اپنائیت کا ادراک بھی نہیں کرتا تو پھر یہ اس کی سمجھ کا قصور ہے ،سمجھانے والے کو خواہ مخواہ جرم کا طوق نہ پہنایا جاۓ کہ تم تو اپنے گھر میں ہی ناکام ہو کہ وہ مایوس ہوکے جو کچھ اچھے کام کرسکتا ہو ،وہ بھی چھوڑ بیٹھے ! احساس کرنا چاہئیے ،حق کے علمبردار نجانے کہاں کہاں چومکھی لڑائی لڑ رہے ہوتے ہیں !

صداقتوں کے دئیے جلا کر
ہر ایک اپنے محاذ پر ہے
گواہ رہنا،
وطن کی مٹی گواہ رہنا
گواہ رہنا !