گرعافیہ سوالات کرے تو وہ کچھ یوں ہو شاید۔۔۔

ضمیر کو جھنجھوڑتی، احساسات کے دروازے پر دستک دیتی، دل کو چیرتی اک تحریر--- جو بنی زباں اک بے گناہ، مظلوم صنفِ نازک کی
میں اپنا کوئ طویل تعارف نہیں کرواں گی صرف اپنا نام بتاؤگی کیونکہ اب صرف وہ ہی میری شناخت ہے۔ نہ مذہب، نہ ملک، نہ زباں، کچھ بھی مجھے ان دوسروں سے مختلف نہیں کرتے جو اس عقوبت خانہ میں میرے پڑوسی ہیں کیونکہ ان کا اور میرا دکھ، اذیت اور تکلیف سانجھی ہے۔ میں ہوں ڈاکٹر عافیہ صدیقی۔

لوگوں نے کہانیاں بنائ بہت۔ سنے تو ہونگے آپ نے میرے بارے میں افسانے بہت۔ مگر سچ سننے کا حوصلہ نہیں کسی میں کیونکہ میرا سچ دکھ، تکلیف، رنج و غم، کرب و اذیت میں لپٹا وہ راز ہے جو شاید میری ذات کے ساتھ ہی رخصت ہو جاۓ کیونکہ اس کے بارے میں مجھے لب کشائ کی اجازت شاید کبھی نہ ملے۔ ورنہ اِس ملک کا جو میرا 'مجرم' ہے انسانیت پر طمانچہ مارتا مکروہ، ظالم چہرہ سب پر آشکار نہ ہو جاۓ۔

کچھ سوالات ہیں جو اس کال کوٹھڑی میں میرے ذہن کے سمندر کے خوفناک حد تک پرسکون ماحول میں ارتعاش کا سبب بنتے ہیں۔ سوچتی ہوں اگر میری زباں کو آواز ملی تو شاید میں یہ سوال کر پاؤں:

اعلٰی حکام سے: ضمیر سو گۓ کیا میرے دیس کے حکام بالا کے؟ خود کیسے انداذِ مطمئن لۓ آذاد گھوم سکتے ہیں وہ جبکہ میں ان کی منہ بولی بیٹی ہی سہی بنا قصور 20 سال سے پابند سلاسل ہوں؟ آپ کو نیند کیسے اپنی آغوش میں لے سکتی ہے جبکہ رات کے اس پہر مجھ مظلوم کو اذیت ناک تکالیف پہنچائ جا رہی ہوتی ہیں؟ کیا میرا رونا، چیخنا، مدد کے لۓ پکارنا کبھی خواب میں بھی احساس نہیں دلاتا آپ کو اپنی ذمہ داری کا؟ اگر نہیں تو افسوس صد افسوس۔

عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں سے: میں پوچھتی ہوں کونسا دوہرا معیار ہے ان لوگوں کا کہ جو دہشتگرد ہیں انہیں یہ دہشتگرد کہتے نہیں اور جو بے قصور ہے اسے بے قصور مانتے نہیں۔ مجھے بحیثیت جیتے جاگتے انسان کے کوئ بھی حقوق تو ان جالیوں کے پیچھے میسر نہیں۔ پھر کونسے انسانوں کے حقوق کے تحفظ کا دعوٰی کرتے ہیں آپ؟

حقوق نسواں کے علمبردار اداروں سے: کیا میں ایک عورت نہیں؟ اک مظلوم صنف نازک! تو پھر آپ کی آوازیں میرے حق میں اٹھائ کیوں نہیں جاتیں؟ وہ کونسی طاقتیں ہیں جو آپ کو روک لیتی ہیں میرے حق میں بولنے سے؟ کیا آپ کی طرح میں بھی عزت، احترام و تکریم کی حقدار نہیں؟

علماۓ اسلام سے:وہ جو زور و شور سے نکالتے ہیں جلسے، جلوس و ریلیاں اُن کے خلاف جو رسول پاکؐ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، اپنے ایمان کو ذندہ اور قوی ظاہر کرنے کے لۓ، اک نہایت دلخراش سوال ان کے لۓ بھی ہے میرے پاس۔ وہ کیوں خاموش ہیں، ان کی زباں کیوں حرکت میں نہیں آتی اس بے حرمتی کے خلاف جو میری بند کوٹھڑی میں ہوتی ہے؟ وہ لمحہ کیسے میرے جذبات کو ڈستا ہے، میری روح کو چھنی کرتا ہے، میرے ایمان کا امتحان لیتا ہے، جب میری، آپ کی اور تمام امتِ مسلمہ کی کتابِ مقدس کو جیل کے ننگےفرش پر رکھ کر مجھے مجبور کیا جاتا ہے کہ میں اس پر چلوں۔ اورانکار کی صورت میں مجھے وہ اذیتیں دی گیئں جو بیان کرنا بھی میرے لۓ ذہنی تکلیف کا باعث ہے۔ کیا آپ کی روح تڑپ نہیں جاتی صرف یہ تصورکر کے ہی؟ پھرمیں یہ سوچ کر خود کو مطمئن کر لیتی ہوں شاید آپ اس سب سے بے خبر ہو ورنہ اگر باخبر ہوتے تو غم و غصے کا عوامی طوفان نہ آ چکا ہوتا؟ اس ملک کی بنیادیں نہ ہل جاتی احتجاج سے؟

غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں سے:میرے وطن کے وہ غیرت مند مرد جو صنف نازک کو صرف شک کی بنیاد پر قتل کر دیتے ہیں، ان کی غیرت 'عافیہ' کے نام پر خاموش کیوں ہے؟ کیوں ان کی غیرت جوش نہیں مارتی یہ جانتے ہوۓ بھی کہ ان ہی کے ملک کی اک عورت کی کس طرح آبروریزی کی جا رہی ہے؟ کس بے دردی سے اسکی حرمت کو ہر لحظہ پامال کیا جا رہا ہے؟ کیا کوئ ایک میرا غیرت مند بھائ اس پاک سر زمین پر موجود نہیں جو میرے لۓ کھڑا ہو اور ان ظالموں کو للکار سکے؟

ماؤں سے: جب آپ اپنی اولاد کو لگاتی ہیں سینوں سے، پیار سے ان کے ماتھوں کو چومتی ہیں، دعاؤں کے ساتھ انہیں گھر سے رخصت کرتی ہیں توکیا آپ اس کرب کا انداذہ لگا سکتی ہیں کہ میں اک مجبور ماں جو ہزاروں میل دور ہوں اپنے بچوں کے لمس کو محسوس کرنا تو درکنار، نہ ان سے بات کر سکتی ہوں بلکہ ان کی اک جھلک کے لۓ ترس رہی ہوں خواہ وہ تصویر کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔ کیا آپ کو میری مامتا کی تڑپ کا احساس افسردہ نہیں کرتا؟

شاید شکوے شکایات کی صورت سوالات تو ہو گۓ بہت۔ میں اختتام صرف اِک شعر پر کرنا چاہونگی:

بے حسی کی چادر اوڑھے اُن کو میری فکر کہاں
برسیں مجھ پر کوڑے یا عزت ہو میری تار تار یہاں


 
Asma Ahmed
About the Author: Asma Ahmed Read More Articles by Asma Ahmed: 36 Articles with 30452 views Writing is my passion whether it is about writing articles on various topics or stories that teach moral in one way or the other. My work is 100% orig.. View More