بِنا جہیز کے نکاح کو درکار تحفظِ عزت نفسِ نسواں

زیر نظر تصویر اسلام آباد کی ایک مسجد کی ہے یہاں لگا ہؤا یہ بینر تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں اور اس پر تحریر کردہ عزائم بھی اور ساتھ ہی بہت سارے دستخط بھی ۔ اس طرح کے وعدے دعوے کرنے والے مردانِ مجاہد کو اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ شادی کے بعد ان کی منکوحہ کو سسرال میں طعن و تشنیع کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا اسے اس کی پرائیویسی اور کمفرٹ سے محروم نہیں کیا جائے گا جو کمرہ اسے رہائش کے لئے دیا جائے گا وہ اسی کے تصرف میں رہے گا اور وہاں کسی کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا اس کی عزت نفس کو مجروح نہیں کیا جائے گا ۔ بھائی ایک عام سا مشاہدہ ہے کہ ہمارے سماج میں بغیر جہیز خاص طور پر فرنیچر کے بغیر بیاہی جانے والی لڑکی کی سسرال میں دو کوڑی کی حیثیت نہیں ہوتی لڑکے کی ماں بہنیں اپنی طنزیہ گفتگو سے جینا حرام کر دیتی ہیں اور جو سامان لڑکا لے کر آتا ہے اپنے کمرے کے لئے، اسے اپنے بچے کا مال سمجھ کر دھڑلے سے خود استعمال کرتی ہیں بلکہ کمرہ انہی کے قبضے میں ہوتا ہے لڑکی کا کوئی اختیار نہیں ہوتا ۔ اور جہیز کے بغیر بیاہنے والا لڑکا بعد میں ایک بےبس خاموش تماشائی بنا ہؤا اپنی منکوحہ کی تذلیل دیکھتا رہتا ہے اس میں ذرا ہمت نہیں ہوتی بیوی کو اپنی ماں بہنوں کے شر اور فتنے سے محفوظ رکھنے کی ۔ اور نہ ہی اس کی اتنی اوقات ہوتی ہے کہ وہ الگ رہائش مہیا کر سکے بعض اوقات ماحول میں اتنی بدمزگی اور کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے کہ پھر اس بیچارے کو اپنی نیک نیتی پر ہی پچھتاوا ہونے لگتا ہے ۔

ہمارے دیسی سماج میں تو لڑکی اچھا خاصا جہیز ساتھ لے کر آتی ہے تو پھر بھی کسی نا کسی بہانے اسے طعنے دینے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا ۔ تو بغیر جہیز کے آنے والی لڑکی کی تو جتنی بھی ناقدری اور بےوقعتی ہو کم ہے ۔ ایک کیس تو خود ہمارے اپنے خاندان میں ہؤا ایک کزن کی شادی ہوئی شوہر بیرون ملک ملازمت کرتا تھا اس نے اپنے والدین سے مشورہ کیے بغیر ان کو پیشگی مطلع کیے بغیر لڑکی والوں کے لاکھ اصرار کے باوجود ان سے جہیز لینے سے انکار کر دیا اور کمرے کے لیے ضروری فرنیچر وغیرہ خود لے آیا اور تین مہینے میں بلا لینے کا وعدہ کر کے خود چوتھے روز چلتا بنا ۔ اس کے گھر سے روانہ ہوتے ہی اس کے گھر والوں نے الماری میں اپنے کپڑے بھر دیئے اور چابیوں کا ایک سیٹ بھی خود اپنے پاس رکھ لیا ڈریسنگ ٹیبل کی درازوں میں بھی اپنا سامان ٹھونس دیا ۔ روزانہ وہ لڑکی سویرے ناشتہ بنانے کے لئے اٹھ کر کچن میں جاتی اور پیچھے سے کوئی دیور آ کر اس کے بستر میں گھس کر سو جاتا اور یہ رُلتی پھرتی ۔ مہمانوں کو بھی اسی کے کمرے میں ٹھہرایا جاتا جس بستر میں اس کا شوہر چار دن بھی نہیں لیٹا تھا اس میں سارے خاندان کے مرد آرام فرماتے غرض کمرے میں سسرال والوں کے ہی ڈیرے ڈلے رہتے اور یہ تین دن کی دلہن اچھے دنوں کی آس میں کہ تھوڑے دنوں کی بات ہے پھر مجھے تو اپنے شوہر کے پاس چلے ہی جانا ہے، اس نے نہ تو شوہر سے کوئی شکایت کی اور نہ ہی اپنے گھر والوں کو اس صورتحال سے مطلع کیا ۔ جبکہ شوہر نے پاس بلانا تو درکنار کئی برس تک خود بھی واپس نہیں آیا اور محض فرنیچر نہ لانے کی پاداش میں اس لڑکی نے برسہا برس تک وہ خواری اور ذلت جھیلی ۔

خیر پھر معاملے کا ایک اور بھی پہلو ہے ہم سب کو معلوم ہے کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنی پیاری صاحبزادی سیدہ فاطمہ زہرہ ؓ کو ان کی شادی کے موقع پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے مہیا کی گئی رقم سے ہی روزمرہ استعمال کا کچھ ضروری گھریلو سامان بطور جہیز دیا تھا جس میں ایک چارپائی اور بستر کا بھی ذکر ملتا ہے گدا تکیہ وغیرہ، تو نوجوانوں کو بہت زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے بہتر ہے کہ وہ بھی جہیز لینے سے منع کرنے کی بجائے حق مہر سے کچھ رقم پیشگی ادا کر دیں تاکہ کچھ ضروری اسباب لڑکی والے خود ہی مہیا کر لیں کچھ برادریوں اور قبائل میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔ لیکن لڑکی کے ماں باپ اگر اپنی خوشی اور مرضی سے اور خود اپنی جیب سے ایسی دو چار ضروری چیزیں بیٹی کو دیتے ہیں تو انہیں منع مت کریں اسے سنت رسول ﷺ سمجھ کر قبول کریں اور اسی سنت سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مردوں کو بیوی کے جہیز کے بیڈ پر سونے کا طعنہ دینا کس قدر غلط بات ہے ۔ نکاح کو آسان بنانے کے لئے زیادہ ضروری یہ ہے کہ طرح طرح کی رسومات و خرافات کا قطعی بائیکاٹ کیا جائے اور لڑکی والوں پر سے بارات کے نام پر پورے ایک لشکر کی مدارات اور پورا ایک ٹرک بھر کر ساز و سامان اور پہناؤنیوں وغیرہ کی فراہمی کا بوجھ ہٹا لیا جائے ۔ ان فضولیات کا خاتمہ کیا جائے اور اسی طرح لڑکی والے بھی بری میں ہزاروں لاکھوں کے لہنگوں بہت ڈھیروں طلائی زیورات کی توقعات و مطالبات پر قابو پائیں کم یہ بھی نہیں ہوتے ۔ مالی حالات جیسے بھی ہوں مگر بارات اور ولیمے والے دن پچاس پچاس ہزار کا میکپ بھی بدترین اسراف ہے مگر کوئی لڑکی یہ قربانی دینے کے لئے تیار نہیں ہو گی کہ وہ گھر میں ہی تیار ہو جائے ۔ حق مہر لڑکے کی مالی حیثیت کے مطابق طے کیا جائے جسے وہ باآسانی ادا کر سکے ۔ لڑکیوں کو جہیز کی بجائے ان کا حق وراثت ادا کر دیا جائے تو شاید انہیں سسرال میں طعنے نہ ملیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ انہیں شادی پر ان کی پسند کا سامان ہی چاہیے ہوتا ہے چاہے ابا پر قرض چڑھ جائے یا بڑا بھائی ان کے چکر میں بوڑھا ہو جائے ۔ اسی طرح کئی برسوں سے برسر روزگار نوجوان اپنی شادی پر اگر قرض کے بوجھ تلے دب جاتا ہے تو یہ کسی المیے سے کم نہیں ۔ دونوں ہی طرف فریقین کو توازن و اعتدال سے کام لینا ہو گا تبھی نکاح سہل ہو گا اور اس میں برکت آئے گی ۔ کوئی شک نہیں کہ بیشتر نوجوانوں کے دل اور ظرف بڑے ہیں وہ سادگی کے ساتھ نکاح کر کے اپنا نصف ایمان مکمل کرنا چاہتے ہیں اور یہ کام ان کے بڑوں بزرگوں کے تعاون اور اعلیٰ ظرفی کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔
Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 225 Articles with 1689481 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.