شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی (پندرہویں قسط )

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
آپ کی گیارہ کتابیں صوبہ پنجاب ، گیارہ خیبرپختونخوا اور گیارہ کتابیں آزاد جموں و کشمیر کے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں اور بپلک لائبریریوں کے لیے منظور ہو ئیں
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

سوال۔ لودھی صاحب یوں محسوس ہوتاہے کہ آپ نے اپنی والدہ کے ہمراہ عارف والا اور کہروڑ پکا میں خوب موجیں کی ہیں ، نانی نانا ، ماموں ، ممانیاں اور خالاؤں کے گھروں میں جا کر خوب لطف اندوز ہوئے۔یہ بتائیں کیا آپ کو عارف والا کی نیلی بار کاٹن ملز میں نوکری ملی یا نہیں ۔؟جہاں کے مختار کل آپ کے ماموں طفیل خاں تھے۔
اسلم لودھی ۔شہزاد چودھری صاحب۔عارف والا کی یادیں تو ہمیشہ میرے دامن گیر رہتی ہیں کیونکہ وہاں میری جان سے پیاری نانی کا گھر تھا جو مجھے بے پناہ پیار کرتی تھی ، جن چیزوں کو کھانے کے لیے ہم ترستے رہتے تھے، وہی چیزیں ہمیں نانی جان کے گھر وافر مقدار میں ملتی رہیں۔ اس لیے والدین کے بعد مجھے اپنی نانی سے سب سے زیادہ پیار تھا بلکہ اب بھی ہے ۔حالانکہ وہ بہت سال پہلے دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں ،اور میں خود بھی نانا اور دادا بن چکا ہوں لیکن نانی جان کی یاد سے میں کبھی غافل نہیں ہوا ۔ دونوں ماموں نے بھی مجھے بے حد پیار دیا جن کا میں الفاظ میں ذکر نہیں کر سکتا ۔لیکن ماموں کی فیکٹری میں مجھے ملازمت ملی کہ نہیں ملی اس کا ذکر اسی قسط میں آئے گا۔ان شاء اﷲ
...................
بہرکیف دو تین دن کہروڑ پکا میں رہنے کے بعد ہم واپس عارف والا آ گئے اور لاہور واپس جانے کی تیاری شروع ہوگئی ۔ نانی جان( جن کا اصل نام غلام فاطمہ تھا ) نے اپنی بیٹی کے ساتھ بھیجنے کے لیے گنے ، روئی اور پتہ نہیں کیا کیا چیزیں باندھ کر تیار کرلیں ۔جس دن والدہ نے لاہور واپس جانے کے لیے ٹرین پر سوار ہونا تھا ۔ اس دن انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی طفیل خان کو اپنے پاس بلایا اور کہا یہ بیٹا مجھے اپنی جان سے بھی پیارا ہے، میں اسے آپ کے پاس چھوڑے جا رہی ہوں کیونکہ کوشش کے باوجود لاہور میں اسے نوکری نہیں مل سکی ۔جس طرح تم نے اپنے دوسرے بھانجے اختر کو نیلی بار کاٹن ملز میں ملازم رکھا ہواہے، اسی طرح میرے اس بیٹے کو بھی اپنی کاٹن ملز میں ملازمت دے دواور یاد رکھنا یہ بہت حساس ہے ، اس لیے اس کا اپنے بیٹے سلیم ہی کی طرح ہی خیال رکھنا ۔بہن بھائی کے مابین کیا گفتگو ہوئی اس سے میں بے خبر تھا اور اپنی موج مستیوں میں بھاگا پھیر رہا تھا ۔مجھے کیا خبر کہ مستقل طور پر عارف والا رہنا ہی میرے مقدر میں لکھا جارہا ہے ۔
۔ اس بات کا مجھے اس وقت پتہ چلا جب ماموں طفیل مجھے اپنے ساتھ لے کر فیکٹری میں جا پہنچے ۔ میں نے پوچھا ماموں مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو ۔ ماموں نے بتایا تمہاری والدہ نے کہا ہے کہ میرے بیٹے کو اپنی کاٹن ملز دکھا کر لاؤ۔میں نے کہا یہ بات تو بہت ٹھیک کی میری والدہ نے ۔ مجھے نئی سے نئی چیز دیکھنے کی جستجو ہمیشہ رہتی ہے ۔یہ قدرت کا مجھ پر احسان سمجھ لیں یا میرے ذہن کی ایک خوبی ۔ابھی ہم دونوں فیکٹری کے گیٹ کے پاس ہی کھڑے تھے کہ بڑے ماموں ہدایت خاں میری والدہ کا سامان اٹھا کر عارف والا ریلوے اسٹیشن کی جانب جارہے تھے۔ اس وقت میرے دونوں چھوٹے بھائی اشرف اور ارشد والدہ کے ساتھ ساتھ پیدل ہی چل رہے تھے ۔حسن اتفاق سے میں نے جب پیچھے مڑ کے دیکھا تو میری نظر اپنی والدہ پر پڑگئی ، جو اسٹیشن کا پلیٹ فارم چڑھ رہی تھیں۔لاہور جانے والی ٹرین بھی اسٹیشن پر روانگی کے لیے تیار کھڑی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ والدہ مجھے عارف والا چھوڑ کر خود لاہور چھاؤنی جا رہی ہیں۔میں نے ماموں طفیل سے ہاتھ چھڑایا اور اپنی والدہ کے پیچھے بھاگنا شروع کردیا ۔ میں جب اسٹیشن پر پہنچا تو والدہ ٹرین میں سوار ہوچکی تھی اور ماموں ہدایت خاں خدا حافظ کہہ کر اپنے گھر واپس جا رہے تھے کہ میں بھی چھلانگ لگا کر ٹرین پر سوار ہو گیا اور اپنی والد ہ کو جا کر چمٹ گیااورزور زور سے رونے لگا ۔والدہ نے مجھے پیار کرتے ہوئے کہا میں تو تمہیں اپنے بھائی طفیل خان کے سپرد کرکے آئی تھی کہ وہ تم کو اپنی ملز میں آسان سی نوکری دے دے گا۔ تمہیں کیسے پتہ چل گیا کہ میں لاہور جا رہی ہیں ۔ اس لمحے مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں والدہ کو کیا جواب دوں ۔صرف زبان سے اتنا نکلا کہ امی جان میں آپ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ۔بیشک مجھے ماموں طفیل اور ماموں ہدایت خاں بہت پیار کرتے ہیں لیکن یہ پیار آپ کی محبت کا متبادل نہیں ہوسکتا ۔ لاہور میں اگر مجھے کوئی ڈھنگ کی نوکری نہ ملی تو میں کہیں مزدوری کرلوں گا ۔
جب والدہ کے ہمراہ ہم تینوں بھائی لاہور چھاؤنی پہنچے تو والد گرامی اور دونوں بڑے بھائیوں نے ہمیں بہت پیار کیا ،یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ بھی ہمارے بغیر اداس ہو چکے تھے ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے بتاتا چلوں کہ ہمارے ریلوے کوارٹروں سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر میاں میرریلوے پل ہے ۔یہ پل لاہور سے کراچی اور کراچی سے لاہور آنے والی ٹرینوں کی بہ سہولت آمد رفت کے لیے بنایا گیا ۔ اس پل کے اوپر کشادہ سڑک گزرتی ہے وہ کینٹ اور شہر کے علاقوں کو ملانے کا اہم ترین ذریعہ ہے ۔
جس طرح لاہور کی ایک وسیع و عریض تاریخ ہے ،اسی طرح مال روڈ جسے اب شاہراہ قائد اعظم بھی کہا جاتا ہے اس کی بھی اپنی الگ تاریخ ہے ۔ یہی شاہراہ جب کینٹ ایریا میں پہنچتی ہے تو اس کا نام 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے عظیم ہیر و میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر کے نام سے منسوب کردیا گیا ہے۔ یہ شاہراہ میاں میرپل سے گزر کر فورٹریس سٹیڈیم کے قریب سے ہوتی ہوئی ایوب سٹیڈیم ، ایئرپورٹ اور آرمی میوزیم کے پاس سے گزرتی ہوئی جوڑے پل تک پہنچ کر ختم ہو جاتی ہے ۔جبکہ شہر کی جانب اس شاہراہ کا سفر میاں میر پل سے شروع ہوکر پی ایم جی آفس تک ختم ہوجاتا ہے۔اس کے راستے میں قربان پولیس لائن ، واپڈا کالونی، لاہور جم خانہ کلب ، گالف کلب، سٹیٹ گیسٹ ہاؤس ،نیپا ، پل نہر ، جی او آر ون ، ایچی سن کالج ، حبیب بنک لمیٹڈ کا زونل آفس، وزیراعلی پنجاب کا دفتراور گھر ، پاکستان ایڈمنسٹریٹو سٹاف کالج ، کارکنان تحریک پاکستان ، پرل کانٹی نینٹل ہوٹل ،گورنر ہاؤس، باغ جناح ، الحمرا آرٹس کونسل ،چڑیا گھر ،آواری ہوٹل ، لاہور کی پہلی کیثرالمنزلہ تاریخی عمارت واپڈا ہاؤس ، پنجاب اسمبلی ہال ، الفلاح بلڈنگ ، شاہ دین کی تاریخی بلڈنگ ،پینوراما ، 1965ء کے شہداء کی یاد میں بنائی جانے والی جامع مسجد ( مسجد شہداء ) الیکٹرونکس مصنوعات کی لاہور میں سب سے بڑی مارکیٹ ( بیڈن روڈ اور ہال روڈ) سٹیٹ بنک آف پاکستان کا لاہور آفس ، لاہور ہائی کورٹ ،جنرل پوسٹ آفس ،سائیکلوں کی سب سے بڑی مارکیٹ ( نیلا گنبد )،پاک ٹی ہاؤس ، نئی اور پرانی انارکلی ،لاہورکا تاریخی عجائب گھر ،پنجاب یونیورسٹی (اولڈ کیمپس) نیشنل کالج آف آرٹس ، ٹاؤن ہال ، ناصر باغ اور پی ایم جی آفس ۔یہ سب کچھ اسی عظیم شاہراہ پر موجود ہیں۔ جسے لاہور کی سب سے بڑی شاہراہ قرار دیا جاسکتا ہے۔تاریخی اعتبار سے اسے ٹھنڈی سڑک بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ہزاروں درختوں نے اس سڑک کو اپنے سائے میں ڈھانپ رکھا ہے ۔ریلوے کوارٹروں میں رہنے والوں کے لیے میاں میر پل کسی نعمت سے کم نہیں تھا کیونکہ ریلوے کوارٹروں کے و ہ لوگ جنہیں نیم کے درختوں کے نیچے گرمیوں کی دوپہر گزارنے کے لیے جگہ نہ ملتی ،وہ اپنے سروں پر چارپائیاں اٹھا کر میاں میر پل کے نیچے بنے دروں میں جاکر آرام سے سو جاتے تھے، جہاں سے گزرنے والی ہوا کی ٹھنڈک اتنی تھی کہ سونے والوں کو پرسکون نیند آجاتی ۔چار پانچ بجے جب گرمیوں کی دوپہر ڈھل جاتیاور موسم کی تلخی بھی ختم ہو جاتی توپل کے نیچے سونے والے اپنے سر پر چارپائیوں کو اٹھا کر اپنے کوارٹر میں آجاتے ۔گرمیوں کے پانچ چھ مہینوں میں کوارٹروں میں رہنے والوں کا یہی روٹین ہوا کرتا تھا ۔
..............
فورٹریس سٹیڈیم سے ملحقہ ایک وسیع و عریض کھلا میدان بھی پہلے ہوا کرتا تھا ،اس میدان میں نہ صرف ہماری کرکٹ ٹیم( ون مون ٹین سٹار) کے کھلاڑی میچز کھلا کرتے تھے ، بلکہ بستی سیدن شاہ کے کھلاڑیوں کی ٹیم بھی اسی کھلے اور کشادہ میدان میں میچ بھی کھیلتی اور روزانہ پریکٹس بھی کیا کرتی ۔ لاہورچھاؤنی ریلوے کوارٹروں کی کرکٹ ٹیم میں محمد اسلم لودھی ، محمد اکرم لودھی ، محمد رمضان لودھی ،عبدالشکور ( جو قربان لائن کے پولیس کانسٹیبل کے بیٹے تھے) محمد زبیر ( جو قربان لائن کے لائن آفسر کے بیٹے تھے ) بھی ہمارے ساتھ ہی کھیلا کرتے تھے ۔ شکور اور زبیر کی دوستی بے مثال تھی ۔ شکور چھوٹی چھوٹی بات پر ناراض ہوجایا کرتا تھا اور ہمیشہ منانے کا فریضہ محمد زبیر ہی انجام دیا کرتے تھے ۔شکور بہترین فاسٹ باؤلر تھا جبکہ زبیر سپین باؤلر کی حیثیت سے ہماری ٹیم میں شامل تھا ۔ایک حیدری نام کا نوجوان بھی ہماری ٹیم کا کبھی حصہ ہوا کرتا تھا، وہ چھکے مار کھلاڑی تھا۔ لیکن وہ مہینے میں ایک دو بار ہی ہمارے ہاتھ میں آتا ۔
انہی دنوں کوٹ رادھا کشن سے ایک خاندانکچی آباد ی قربان لائن میں آکر آباد ہوا ۔ ا س خاندان کے سربراہ کا فرزند علی تھا جبکہ اس گھر میں دو جوان بیٹے بھی تھے جن کا نام محمد اختر اور محمد منیر تھا ۔یہ دونوں نوجوان بھی بہت جلد ہماری کرکٹ ٹیم کا حصہ بن گئے ۔حکیم زادہ ، علیم دین کا بیٹا عرفان ( بہت لیچڑ کرکٹر تھا وہ جب میچ کھیلنے کے لیے میدان میں اترتا تو نہ وہ سکور کو آگے بڑھتا اور ہی وہ جلدی آؤٹ ہوتا۔ اس لیے سب اسے لیچڑ کھلاڑی کہا کرتے تھے) ، علی بخش کا بیٹا امین ( مینا گھسی مار)اسٹیشن ماسٹر کے تین بیٹے بھی کرکٹ میں گہر ی دلچسپی رکھتے تھے، ان کا نام اب مجھے یاد نہیں ۔سب سے چھوٹے کا نام چاند تھا ۔حکیم زادہ چونکہ پولیو کی بیماری کی وجہ سے ایک ٹانگ سے معذور تھا اس لیے وہ کہیں ملازمت وغیرہ نہیں کرتا تھا۔ اس لیے سب نے اس کو پریکٹس کا کپتان بنارکھا تھا ۔ اس وقت پریکٹس کپتان کی یہ ذمہ داری ہوا کرتی تھی کہ وہ کرکٹ کے سامان سے بھرا ہوا تھیلا اٹھا کر گراؤنڈ میں جائے اور وکٹ کے ارد گرد جال وغیرہ بھی لگائے ۔ پھر جیسے جیسے کھلاڑی آتے جائیں۔ تو وہ بھی اپنی اپنی ذمہ داریا ں پوری کرتے جائیں ۔ سیدن شاہ کالونی کی کرکٹ ٹیم میں تنویر ، ارشد ، بابر ،پرویز ،حفیظ ، نثار اور ارشدکے علاوہ اور بھی کافی نوجوان شامل تھے ، جن کے نام میں بھول چکا ہوں ۔ اسی طرح شورہ کوٹھی کی کرکٹ ٹیم بھی اپنا الگ وجود رکھتی تھی جس میں شکور، شریف ، اختر اور دیگر کئی کھلاڑی شامل بھی تھے ۔ جہاں آجکل شیر پاؤ پل ہے ، پہلے وہاں ایک کھلا میدان ہوا کرتا تھا ۔وہاں کبھی کبھار ہم بھی میچز بھی کھیلا کرتے تھے اور نٹ پریکٹس کے لیے بھی وہیں جمع ہوتے ۔گنگا آئس فیکٹری کی بھی ایک کرکٹ ٹیم ہوا کرتی تھی جس میں مرزا انور بیگ ، اسلام الدین ، احمد علی کھلاڑیوں میں نمایا ں تھے ۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہماری ٹیم کا میچ گنگا آئس فیکٹری کی کرکٹ ٹیم سے ٹیکنیکل ٹریننگ سکول میں طے تھا، جو آج کل بھی اسی حالت میں شیرپاؤ پل کے قریب ہی واقع ہے ۔ بلکہ وہی اسلام الدین اس ٹیکنیکل ٹریننگ سکول کا پرنسپل رہ کر اب ریٹائر بھی ہوچکا ہے ۔ یاد رہے کہ یہی اسلام الدین ، بابا ماشکی کا بیٹا تھا ۔
( جاری ہے )
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 666267 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.