حدیث کی اہمیت

اﷲرب العزت نے اپنے مومن بندوں کوحضور اقدسؐ سے محبت، عقیدت اور اطاعت کرنے کے سلسلہ میں جو احکام قرآن کریم میں دئے ہیں وہ اس طرح سے ہیں:
۱۔ ’’اﷲ اور رسولؐ لہ اطاعت کرنے والے کے لیے جنت ہے‘‘ (سو: بقرہ،۱۳،۱۴)
۲۔ ’’آپؐ کی پیروی، اﷲ کی محبت کی پہچان ہے۔‘‘ (سو: بقرہ،۳۱)
۳۔ ’ ’اﷲ اور رسول اﷲؐکی اطاعت کرو‘‘(سو: بقرہ،۳۲)
۴۔ ’’آپ کے فیصلوں کو تمام معاملوں میں بنا کچھ کہے سنے مان لینا ایمان کی شرط ہے (سو:نساء ۶۵)
۵۔ ’’ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں اﷲ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔(سو: توبہ:۷۱)
اس طرح کے احکامات قرآن حکیم میں کئی بار دئے گئے ہیں۔ان احکامات میں اﷲ تعالی واضع حکم دے رہے ہیں کہ اﷲ کے ساتھ ساتھ نبیؐ کے احکامات کی بھی پابندی کرنا ہے۔اپنی ہندی کی کتابچہ میں اس طرح کے ۲۵ احکامات نقل کیے ہیں لیکن یہاں صرف پانچ احکام ہی لکھے جا رہے ہیں۔اﷲ تعالی کا ایک حکم ہی کافی ہے اور کسی حکم کا بار بار دوہرانا اُس حکم کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایاجا سکتا ہے۔ اﷲ تعالی اپنے احکامات کی پابندی کے ساتھ ساتھ اپنے پیارے نبی حضرت محمدؐ کے احکامات کی پابندی بھی چاہتے ہیں۔جس طرح سے اﷲ کے احکامات قرآن میں موجود ہیں، اُسی طرح سے رسولؐ کے احکامات حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔دونوں کے احکامات کی معلومات کے لیے قرآن اور حدیث کی کتابوں کو ساتھ ہی رکھنا پڑیگا لیکن اس فرق کے ساتھ کہ قرآن کلامِ الٰہی ہے حدیث کلامِ بشری۔ لیکن یہ کلام بشری ہی کلام الٰہی کی پہچان کراتا ہے۔قرآن اگر ’’تھیوری ‘‘ہے تو حدیثیں ’’پریکٹکل‘‘، قرآن اگر ’’ٹِکسٹ بُک‘‘ ہے توحدیثیں ان کی’’ کُنجی‘‘۔کچھ لوگ بغیر حدیثوں کے قرآان سمجھنے کا دعوی کرتے ہیں اور حدیثوں کو، نعوذباﷲ،غیر ضروری سمجھتے ہیں۔
حدیث: حضور اقدسؐ کے اقوال، افعال(کرنی و کتھنی)کو حدیث کہتے ہیں۔اﷲتعالی نے آپؐ کو مبعوث فرمایا تھا کہ آپؐ لوگوں کے سامنے قرآن کریم کو صحیح تشریح کے ساتھ کھول کھول کربیان فرما دیں۔چنانچہ آپؐ نے اپنے قول و عمل دونوں سے یہ فریضہ بہ حسن و خوبی انجام دیا اور در حقیقت آپ ؐ کی پوری مبارک زندگی قرآن کی عملی تفصیر ہے۔ اس لیے مفسرین کرام نے قرآن کو سمجھنے کے لیے دوسرے نمبرپر سب سے زیادہ زورر حدیث پر دیا ہے اور حدیث کی روشنی میں اﷲ کی کتاب کے معنی متیعن کۓ ہیں۔ البتہ چونکہ حدیث میں صحیح، ضعیف اور موضوع ہر طرح کی روایت موجود ہے، اس لیے محقق،مفسرین اس وقت تک کسی روایت کو قابل اعتمادنہیں سمجھتے جب تک وہ تنقید روایت کے اصولوں پرپوری طرح نہ اتر تی ہو۔ لہذا جو روایت جہاں نظر آجائے اُسے دیکھ کر قرآن کریم کی کوئی تفسیر متعین کر لینا درست نہیں کیونکہ وہ روایت ضعیف اور دوسری مضبوط روایتوں کے خلاف بھی ہو سکتی ہے۔ در حقیقت یہ معاملہ بڑا نازک ہے اور اس میں قدم رکھناانھیں لوگوں کا کام ہے جنھوں نے اپنی عمریں اِس علوم کو حاصل کرنے میں خرچ کی ہیں۔(معروف القران جلد۱؍ ص۔۵۰،۵۱)
قرآن میں وضو کا طریقہ:
قران کریم میں وضوکے لیے جو ترکیب اور ترتیب دی گئی ہے اُس ترکیب اور ترتیب کو ہماری عقل سمجھنے سے قاصر ہے مثلاً قران میں وضو کا جو طریقہ لکھا ہے وہ اس طرح ہے:
’’اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اُٹھو تو اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لیا کرو اور اپنے سروں کا مسح کر لو اور اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک (دھولو)‘‘ سورۃ مائدہ۔۵
R قرآن میں لکھی ہوئی اس ترتیب اور ترکیب سے ہم وضو نہیں کرتے، ہم اُس طریقہ سے وضو کرتے ہیں جو طریقہ حضور اقدسؐ نے بتایا ہے اور وہ طریقہ حدیثوں کی معرفت ہی ہم تک پہنچا ہے۔
قرآن میں نماز کے اوقات:
قرآن کریم میں نماز کے جو اوقات دئے ہیں وہ ذیل میں درج ہیں، انہیں آپ دیکھیں اور غور کریں:
۱․ اور نماز قائم رکھو دِن کے دونوں حصوں میں اور رات کے کچھ حصوں میں۔ (سورۃ حود۔۱۱۴)
۲․ سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرو ۔(سورۃ بنی اسرائل۔۷۸)
۳․ سورج نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے اور رات میں نماز پڑھو۔ (سورۃ قاف ۔۳۹)
۴․ صبح و شام اﷲ کا نام لیتے رہواور رات میں نمازپڑھو۔ (سورۃ ادّھر۔۲۵،۲۶)
قرآن میں نماز کے اوقات مندرجہ بالا طریقہ سے لکھے ہوئے ہیں لیکن ہم جن اوقات میں نماز پڑھتے ہیں وہ حضور اقدسؐ کے بتا ئے ہوئے اوقات ہیں۔ اسی طرح سے نماز پڑھنے کا طریقہ بھی حضور اقدسؐ کا ہی بتایا ہوا ہے جو حدیثوں کی معرفت ہی ہم تک پہنچا ہے۔
یہ بات صاف ظاہر ہے کہ حدیثوں کی مدد کے بغیرنہ تو ہم وضو کی ترتیب اور ترکیب سمجھ پاتے اور نہ نمازوں کا وقت متعین کر سکتے تھے اور نہ نماز پڑھنے کا طریقہ معلوم کر سکتے تھے۔
یہ مختصر دلائل ہی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ حدیثو کے بغیرقرآن کا پڑھناآسان تو ہو سکتا ہے لیکن قرآن کا سمجھنا آسان نہیں ہے۔
حضور اقدس ؐ کی ذات گرامی ایسی تھی کہ آپؐ نے آج سے چودہ سو سال پہلے ارشاد فرمایا کہ اﷲ ایک ہے لوگوں نے کہا بیشک اﷲ ایک ہے۔آپؐ نے فرمایا کہ میں اﷲ کا بھجا ہوا رسول ہوں۔ جو ایمان والے تھے انھوں نے مان لیا بیشق آپؐ اﷲ کے رسول ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’قرآن اﷲ کی کتاب ہے اور اس کتاب میں اﷲ تبارک تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے احکامات فرمائے ہیں۔ ایمان والوں نے آپ کی اس بات کو بھی مانا اور اﷲ کے احکامات کو حضوراقدسؐسے سمجھنا اور سیکھنا شروع کیا۔ (معروف القرآن جلد اول ص۵۴)
وکالت پاس کرنے والے لوگ سیدھے عدالت میں نہیں پہنچ جاتے ہیں کیوں کہ وہ صرف ’’تھیوری(Theory)‘‘پڑھ کر آتے ہیں۔ قانون کی باریکیاں اُسی وقت کھلتی ہیں جب تک وہ کسی ماہر قانونداں کی نگرانی میں پریکٹس نہ کر لیں۔ اس کے لیے وہ اپنے سینئیر کا کئی سالوں تک بستہ ڈھوتے ہیں تب کہیں جا کر وہ وکالت کے لائق ہو پاتا ہے۔
کوئی شخص اپنے کسی معاملے کا قانونی پہلو سمجھنے کے لے خود وکالت نہیں پڑھنے لگتا بلکہ وہ کسی ماہر قانونداں کے پاس جاتا ہے اور اس سے قانونی مشورہ لیتا ہے۔
جن علماء حضرات نے حدیثوں پر کام کیا ہے اور صحیح،ضعیف اور موضوع حدیثوں کی پہچان کی ہے اور فرائض عبادت کی مناسبت سے ترتیب دی ہے، انہیں کن اندیشوں کے تحت نظر انداز کیا جاتا ہے؟ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ ’اﷲتعالی اور اﷲ کے رسولؐ دونوں کی اطاعت ہی ہمارا ایمان ہے۔بار بار یہ کہا گیا ہے کہ ‘‘اﷲ اور رسولؐ کی اطاعت کرو‘‘اتنا ہی نہیں بلکہ سورۃ ’المائدہ‘ کی آیت ۹۲ میں ارشاد باری ہے’’اﷲ اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور نا فرمانی سے بچو‘‘
اﷲ تعالی کی نا فرمانی سے بچنے کے لیے حضور اقدسؐ کے احکامات کی بھی پابندی کرنا ہے اور اس کے لیے ہمیں حدیثوں کی مدد لینی ہی پڑے گی۔
قرآن آسان ہے:
قرآن میں اﷲ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
’’اور بلا شبہ ہم نے قرآن کریم کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کر دیا ہے‘‘(۱۷:۵۴)
’’قرآن کریم کی آیتیں دو قسم کی ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جسمیں عام نصیحت کی باتیں۔ سبق آموزواقعات اور عبرت و موعظت کے مضامین بیان کیے گۓ ہیں مثلاً دنیا کی ناپائداری، جنّت و دوزخ کے حالات، خوفِ خدا اور فکر آخرت پیدا کرنے والی باتیں اور زندگی کے دوسرے سیدھے سادے حقائق۔ اس قسم کی آیتیں بلا شبہ آسان ہیں اور جو شخص بھی عربی زبان کی واقف ہو وہ انہیں سمجھ کر نصیحت حاصل کر سکتا ہے۔مذکورہ بالا آیت میں اسی قسم کی تعلیمات کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ’’ان کو ہم نے آسان کر دیا ہے‘‘۔
اس کے بر خلاف دوسری قسم کی آیتیں وہ ہیں جو احکام و قوانین، عقائد اور علمی مضامین پر مشتمل ہیں۔ اس قسم کی آیتوں کا کماحقہ سمجھنا اور ان سے احکام ومسائل مستنبط کرنا ہر شخص کا کام نہیں ہے جب تک اسلامی علوم میں بصیرت اور پختگی حاصل نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کی مادری زبان اگرچہ عربی تھی اور عربی سمجھنے کے لیے انہیں کہیں تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن وہ حضور اقدسؐ سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے میں طویل مدّتیں صرف کرتے تھے۔‘‘
اﷲ تبارک تعالی اور رسول اقدسؐکی اطاعت میں ہماری رہنمائی کے لیے قرآن اور حدیث دونوں ہمارے ایمان کا حصّہ ہیں۔ بغیر حدیثوں کے سہارے قران کو پوری طرح سے نہیں سمجھا جا سکتا ہے جیسا کہ اُوپر آچکا ہے، اگر چہ ’نصیحت حاصل کرنے کے لیے قرآن آسان ہے‘ لیکن فرائض اور مسائل، ہم لوگ جنہیں ٹھیک طرح اردو بھی نہیں آتی ہے،ٹھیک سے سمجھ سکتے ہیں؟ قطعی نہیں سمجھا جا سکتا، جب تک حضور اقدسؐ کے ارشادات نہ پڑھے جائیں اور یہ ارشادات حدیثوں سے ہی ملیں گے۔
حدیثوں کے مستندہونے یا نہ ہونے کا بھی سوال اُٹھتا رہتا ہے۔ہم لوگوں کی دینوی اور علمی تمیز اس قدر نہیں ہے کہ حدیثوں کی سند تلاش کرتے رہیں لہذا جن عالموں نے یہ کام کر رکھا ہے اُسکا فائدہ نہ اُٹھانااپنے کو دھوکہ دینا ہے۔
مضمون کے شروع میں جو آئتیں نقل کی گئی ہیں وہ صرف اتنی ہی نہیں ہیں بلکہ اور بھی ہیں جن میں اﷲ کے کھلے احکام ہیں کہ رسولؐ سے سچی محبت،عقیدت اور فرما برداری اﷲ کو راضی کرنے کا ذریعہ ہے۔اسی سلسلہ میں علاما اقبالؒنے اﷲ کے وعدے کو اپنے شعر میں بیان کیا ہے ؂

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
´ لہذا رسولؐ سے محبت اور اطاعت کے لیے حدیثوں کا سہارا لینا پڑیگا کیونکہ اس کے بغیر نہ تو اﷲ کے احکامات کی تعمیل میں رسولؐ کے احکامات کی معلومات نہیں حاصل کی جا سکتی ہے اور نہ ہی قرآن کو حدیثوں کے بغیر سمجھا جا سکتا ہے۔

Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 4 Articles with 2172 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.