جنسی استحصال بچوں کے مستقبل کا قاتل


کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے میں اُس کی نوجوان نسل کا اہم کردار ہوتا ہے۔ قوم کا مُستقبل بچوں سے بنتا ہے۔ کیا ہمارے بچے ہمارے ہی معاشرے میں محفوظ ہیں؟

یہ سوال بہت اہم ہے اور معاشرے میں موجود بہت سی چیزوں پر سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ یوں تو دُنیا کے ہر مُلک اور ہر معاشرے میں بچوں کا تحفظ بہت ضروری ہے مگر میں پاکستان میں موجود بچوں کے تحفظ پر سوال اُٹھانا چاہوں گی۔

یہ سوال والدین سے، اساتذہ سے، رشتہ دار، عزیز احباب سب سے ہے؛ کیا ہمارے بچے واقعی ایک محفوظ زندگی گُزار رہے ہیں؟ کیا اُنکا بچپن اُتنا ہی خوشگوار ہے جتنا ہونا چائیے؟

ہم کبھی نہیں جان سکتے کہ ہمارے بچے اپنے دلوں اور ذہنوں میں کیا طوفان لے کر چلتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ جنسی تشدد اور زیادتی ایک بہت اہم مسئلہ ہے اور اس کا حل نکالنا بہت ضروری ہے۔

ساحل ایک تنظیم ہے جو بچوں کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہے اور ساحل کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں۲۰۲۱ میں اوسطاً دس سے زائد بچے زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔۲۰۲۲ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ۴۲۵۳ بچے زیادتی کا شکار ہوۓ ہیں۔ یہ اعداد ہی دل دہلا دینے کے لئے کافی ہیں۔ عموماً جو بچے استحصال کا شکار ہوتے ہیں انکی عمر ۱۱-۱۵ سال کے درمیان ہوتی ہے مگر اس سے کم عمر والے بچے بھی زیادتی کا نشانہ بناۓ جاتے ہیں۔ حال میں ہی ساہیوال میں ایک ۱۱ سال کے بچے کومدرسے میں جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔ اور تحقیق کے مطابق پاکستان میں عموماً ہر روز ۱۲ سے زائد بچے جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔

اپنے بچوں کو ایک محفوظ مستقبل اور زندگی فراہم کرنے کے لیے ہر انسان کو جنسی تشدد اور زیادتی کے بارے میں علم ہونا ضروری ہے۔ کچھ ایسے اقدامات ہیں جن پر عمل کر کے ہم اپنے بچوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
۱- زیادتی کی بہت سی اقسام ہیں جیسے جسمانی تشدد، جنسی ہراسگی، جذباتی زیادتی وغیرہ۔ ان میں سے ہر قسم ہی بہت اہم ہے۔ زیادہ تر والدین کو یہ لگتا ہے کہ بچے رشتہ داروں کے ساتھ محفوظ ہیں مگر ایک تحقیق کے مطابق بچہ ایک رشتہ دار کے ساتھ بھی اُتنا ہی غیر محفوظ ہے جتنا کہ کسی اجنبی کے ساتھ۔ اپنے بچوں کے معاملے میں کسی پر بھی بھروسہ کرنا بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ کوئی بھی بچوں کو درندگی کا نشانہ بنا سکتا ہے۔
۲- اپنے بچوں کو آسان لہجے میں سمجھائیں کہ جسم کے کونسے حصے ایسے ہیں جن کو اگر کوئی چھوۓ تو وہ استحصال کی ایک قسم ہے۔ اس سے پہلے کہ بچوں کو کہیں اور سے پتہ چلے، اپنے بچوں کو یہ تعلیم لازمی دیں تا کہ وہ اچھے اور بُرے کی پہچان کر سکیں۔
۳- اگر کسی بھی بچے کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو والدین کو چائیے کہ اپنے بچوں کے لئے آواز اُٹھائیں نہ کہ معاشرے کے ڈر سے چُپ کر جائیں کیونکہ اس طرح کرنے سے زیادتی کرنے والے شخص کو مزید شہ ملتی ہے۔
۴- اپنے بچے کے رویے میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کا جائزہ لیں۔ آپکا بچہ کس عمل پہ خوف کا اظہار کرتا ہے اور کس شخص کو دیکھ کر اُس کا رویہ بدل جاتا ہے۔ ایسی چیزوں کا جائزہ لینے سے ہم اپنے بچوں کو درندوں سے بچا سکتے ہیں۔
۵- ایسا ممکن ہے کہ آپکا بچہ اس طرح کے کسی سانحے کے بعد اپنے جسم پر موجود زخم اور نشانات چُھپانے کی کوشش کرے؛ تو ایسے سلسلے میں والدین کو چاہیے کہ بچے کے جسم پر موجود نشانات دیکھیں۔
۶- اگر آپکا بچہ معمول کے خلاف چُپ ہے اور گھر میں ہونے والی کسی بھی سرگرمی میں حصہ نہیں لے رہا تو اُس کو اعتماد میں لے کر اُس سے دریافت کریں۔
۷- بچوں کو اُن کے حقوق کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔ ایسا کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ ایسا کرنے سے بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی اپنے حقوق کا پتہ ہو گا۔
یہ چند اقدامات ایسے ہیں جن پر عمل کرنے سے ہم اپنے بچوں کے محفوظ مُستقبل کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
اپنے بچوں کو بچانا ہمارا فرض ہے تا کہ وہ ایک بہتر مستقبل اور زندگی گزار سکیں۔
 

Aiman Malik
About the Author: Aiman Malik Read More Articles by Aiman Malik: 2 Articles with 470 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.