ہفت روزہ اخبار پنڈی پوسٹ کی 11سالہ صحافتی خدمات

یوں تو حال احوال،حالات وواقعات سے باخبر رہناانسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیایک جگہ سے دوسری جگہ خبرپہنچانامقصودھویاپھر خبر،حالات وواقعات کی جستجو،آرزو،تمنااورتلاش میں مگن رہناہو یہ سب انسان کی حسرت وفطرت میں شامل ہے اس میں بھی کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ خبر پہنچانے کے مختلف ذرائع انسان شروع سے ہی اختیار واستعمال کرتے چلے آٓرہے ہیں پہلے انسان کسی بلندوبالا پہاڑ پر یاکسی بلندی پرکھڑے ہوکراپناپیغام اپنی آوازجہاں تک ممکن ہوتا پہنچاتاپھر آہستہ آہستہ وقت نے کروٹ بدلی وقت کی تیز رفتار کیساتھ انسان نے بھی اپنی رفتار بڑھادی اور حال احوال خبر وغیرہ پہنچانے کیلیئے مختلف طریقیآزمائے یوں یہ سلسلہ چلتارہاانسان آہستہ آہستہ ترقی کی منازل طے کرتارہااور زمانہ کے ساتھ ساتھ اپنے طورطریقے انداز زندگی تبدیل کرتارہا پھرایک وقت ایسا بھی آیاکہ یہی انسان خبر پہنچانے کے مختلف ذرائع اختیارواستعمال کرنے کے یبعد اپنے ذرائع برق رفتاری سے پہنچانیکاسوچنے لگاپھر تار، ٹیلی گرام، ٹیلی ویژن اور اخبارات کا سہارا لیاجانے لگااور پھرجوخبریں زبانی کلامی پہنچائی جاتی تھی انکو لکھ کر نیوز پیپرز یعنی اخبارات اور نیوز چینلز کی مدد سے آغاز کر دیاگیا پھراس خبرکواخبارات کی زینت بناکرمارکیٹ میں بھیج دیاگیااس سے یہ فائدہ ہواکہ ایک توخبر تحریری شکل میں سامنے آ ٓنے لگی دوسرا وہ صفحات محفوظ کییئے جانے لگے لوگ برسوں بعد بھی اس خبر کو اخباری تحریرکو عرصہ دراز بعد بھی پڑھنے لگے اور پرانی یادیں تازہ کرنے لگے کلرسیداں میں اردو اخبار کی تاریخ بھی پرانی ہے 1929میں کلرسیداں میں سب سے پہلا اخبار زمیندار آیا تھا اسب میں وہ سب مواد موجود تھا جو اس وقت کی ضرورت تھی اس کے بعد ایک مقامی اخبار سنگ پوٹھوار بھی یہاں سے شائع ہوتا رہا ہے جبکہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی پنڈی پوسٹ نیوز پیپر سے جاملتی ہے جوموجودہ دورمیں خطہ پوٹھوار کی اہم ترین ضرورت ہے اس میں اسلامی وسیاسی مضامین،علاقہ بھرکی تصدیق شدہ خبریں،بچوں کیلئے گلدستہ کا اہتمام،خطہ پوٹھوار کی مشہورومعروف سیاسی وسماجی شخصیات کے انٹرویوز،علمائے کرام کی زبانی دینی مسائل بیان کرنا،نعت خواں حضرات کانعتیہ کلام پیش کرنا،مظلوم کی دادرسی کرتے ہوئے اس مظلوم کی آوازکو اعلی حکام تک پہنچا نے کاکام احسن طریقہ سے انجام دینااور صحافتی خدمات کو سرانجام دیناشامل ہے علاقہ بھر کی سیاسی ،سماجی ،مذہبی شخصیات سے اپنے ناظرین کی ملاقات کروانا الحمدﷲ یہ سب کچھ پنڈی پوسٹ کے پلیٹ فارم سے ممکن ہو رہا ہے بلاشک وشبہ اس صحافتی ذمہ داری کونبھانے،کھٹن مراحل کو عبورکرنے اورمسلسل اسکی اشاعت کے تسلسل کو برقرار رکھنے میں چوہدری عبدالخطیب صاحب چیف ایڈیٹرپنڈی پوسٹ اور پنڈی پوسٹ کے دیگرٹیم ممبران کی انتھک محنت کوشش اور جدوجہدشامل ہے یہ کام اتنا آسان نہیں جتنانظرآتاہیکسی بھی اخبار کا بلا ناغہ شائع ہونا کوئی معمولی کام نہیں ہے اس بات کا احساس صرف چیف ایڈیٹر کو ہی ہو سکتا ہے جو اپنا سب کچھ اس اخبار کی اشاعت پر خرچ کر رہے ہیں اس میں شائع ہونے والی خبراورلکھاجانیوالاایک ایک حرف پوری ذمہ داری سے لکھاجاتاہے جس میں غفلت کی گنجائش باقی نہیں پھراسکے تسلسل کورواں دواں کوبرقرار رکھنابھی آسان نہیں ان 11سالہ صحافتی ذمہ داریاں نبھاتے اورقلمی طاقت آزماتے ہوئے،پنڈی پوسٹ اخبار کی جدوجہدمیں کئی اتارچڑھاؤ آئے لیکن اﷲ تعالیٰ کے خصوصی فضل وکرم کی بدولت اﷲ نے پنڈی پوسٹ کی ٹیم کو صحافتی ذمہ داری نبھانیکی توفیق بخشی،انکو حوصلہ واستقامت عطاء فرمایا،اس جدوجہد میں چوہدری عبدالخطیب صاحب اورپنڈی پوسٹ کی پوری ٹیم کاایک ایک ممبر بھی مبارکبادکامستحق ہے جنہوں نے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے پنڈی پوسٹ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے ،قلم کے ذریعہ سے جدوجہدجاری رکھی علاقائی مسائل کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا،حق وسچ کے علم کوبلندکیئے رکھاہمیشہ حق وسچ کی آوازبلندکی اور مظلوم کاساتھ دیاجسکی بدولت ہفت روزہ پنڈی پوسٹ کی اشاعت جاری بھی ہے اوراپنے عروج کی طرف رواں دواں بھی ہے اب یہ اخبارصرف خطہ پوٹھوار تک محدود نہیں رہابلکہ ڈیجیٹل میڈیا پراس اخبارکو،اسکی خبریں اور اسکے پروگرام نشرہونے کی وجہ سے اس کوپل بھرمیں دنیابھرمیں کہیں بھی اور کسی بھی وقت پڑھااور دیکھاجاسکتاہے اس سے بڑھ کراسکے پروگرام کوسوشل میڈیا پربھی دیکھااورسناجاسکتاہے خطہ پوٹھوار کے اس نمائندہ اور مقبول ترین اخبارکو آئے روز مقبولیت ملتی جارہی ہے اور بڑوں اورپچوں کایہ پسندیدہ اخباربنتاجارہاہے اسکی کامیاب اشاعت،صحافتی اصول،اورقلمی جدوجہد نے قارئین کے دلوں میں اپنی جگہ بنالی ہے جس وجہ سے یہ بچوں اوربڑوں کاپسندیدہ اخبار تصورکیاجاتاہے پنڈی پوسٹ کی ابتداء مئی2012کوہوئی جب چیف ایڈیٹرچوہدری عبدالخطیب اور ان کی محنتی ٹیم نے اس کی ابتدائمشکل وقت میں مشکل فیصلہ سے کی تھی کیوں کہ اس وقت سوشل میڈیا کا دور دورہ تھا جو اب بھی بہت زیادہ ترقی کر چکا ہے اخبارات کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے لیکن پنڈی پوسٹ نے اس تاثر کو بھی بلکل رد کر دیا ہے سوشل میڈیا کے اس پر طاقت دور میں بھی پنڈی پوسٹ علاقے کے قارئین کے دلوں کی دھڑکن بن چکا ہے اس کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے علاقائی،قومی اور خاص کر خطہ پوٹھوار کے حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے پنڈی پوسٹ نے اپنی صحافتی زندگی،صحافتی خدمات،اورذمہ داری کا آغاز کیاجو الحمدﷲ جاری ہے ہماری دعائیں ہیں پنڈی پوسٹ اور پنڈی پوسٹ کی ٹیم کے ایک ایک رکن کیلئے کہ اﷲ تعالیٰ انکی حفاظت فرمائے،حق وسچ کی آوازکوقائم ودائم رکھے،اسکی ترقی میں جدجہدکرنیوالوں کے حوصلوں کو بلند رکھے اور اس اخبارکو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطاء فرمائے اور میری پنڈی پوسٹ کے ساتھ اس وابستگی کو قایم و دائم رکھے آمین یارب العالمین
 

Muhammad Ashfaq
About the Author: Muhammad Ashfaq Read More Articles by Muhammad Ashfaq: 244 Articles with 145085 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.