ہماری زندگی پر احادیث کا اثر ( حصہ پنجم )

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
" ہماری زندگی پر احادیث کا اثر " کا حصہ پنجم لیکر حاضر خدمت ہوں یہ حدیث صحیح بخاری سے لی گئی ہے جس کا نمبر 5186 ہے اس میں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ
" میں تمہیں عورتوں سے بھلائی کا حکم
دیتا ہوں کیوں کہ وہ پسلی سے پیدا کی
گئی ہے اور پسلی بھی جوسب سے زیادہ
ٹیڑھا اس کے اوپر کا حصہ ہے اگر تم اسے
سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑڈالو گے اور
اگر اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی باقی
رہ جائے گی اس لئے میں تمہیں عورتوں کے
بارے میں اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں "
اس حدیث مبارکہ میں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے در حقیقیت عورتوں سے بھلائی کی وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی بھی وہ جس کا ایک حصہ ٹیڑھا تو ہے لیکن وہ اوپر کا بالائی حصہ ہے جسے اگر ایک مرد سیدھا کرنا چاہے تو وہ ٹوٹ جائی گی یعنی اسے وہ توڑ ڈالے گا مفسرین نے اس کی تفسیر میں یوں لکھا ہے کہ جب بندہ عورت سے زیادہ بحث و مباحثہ کرتا ہے تو بات بڑھ جاتی ہے اور بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے جو پسلی کے ٹوٹنے کے مترادف ہے کیوں کہ یہ عورت کی فطرت میں شامل ہے اس لئے اس کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ نباہ کرتے ہوئے برداشت کرو ۔
میرے واجب الاحترام ہڑھنے والوں میرے پیارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو عورتوں کے حقوق کی اتنی فکر تھی کہ آپ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ میں بھی عورتوں کے بارے میں تاکید فرمائی آپ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
" سنو تم عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت قبول کرو کیوں کہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں ( تم ہی ان کے سب کچھ ہو اور وہ تمہارے رحم و کرم پر ہیں ) اس کے علاوہ تم ان کی کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتے ہاں اگر وہ کھلی بے حیائی ( بدزبانی و بدسلوکی ) کا ارتکاب کریں تو تم ان سے بستروں میں علیحدگی اختیار کرلو اور ان کو اتنی ہلکی مار مارو کہ ضرب نہ لگے (کسی حکمت عملی سے ٹھیک ہوجائیں ) تمہاری بات مان لیں تو تم ان کے لئے کوئی اور راستہ ڈھونڈو (طلاق نہ دو ) یاد رکھو تمہارے تمہاری عورتوں ہر حقوق ہیں بلکل اسی طرح تمہاری عورتوں کے بھی تم ہر حقوق ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں پر تمہارا حق یہ ہے کہ تمہارے بستروں پر ایسے لوگوں کو نہ آنے دیں جن کو تم پسند نہیں کرتے اور اچھا نہیں سمجھتے اور سنو تم پر عورتوں کا حق یہ ہے کہ تم ان کے لباس اور خوراک کا میں ان کے ساتھ اچھا برتائو کرو ( اس میں کوتاہی نہ کرو ) ۔ان تمام احکامات اور نصیحتوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ میاں بیوی کی زندگی میں آنے والے نشیب و فراز میں اگر ان باتوں پر عمل کیا جائے تو یہ بہت مفید ہوگا یعنی صدق دل سے آپ علیہ وسلم کی باتوں پر عمل پیرا ہونے سے زندگی میں انے والی تمام پیچیدگیاں ختم ہوسکتی ہیں اور آسانیاں پیدا ہوسکتی ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر میاں بیوی دونوں اپنے اپنے حقوق کا بخوبی خیال رکھیں تو ان کی ازدواجی زندگی میں کبھی کوئی ناخوشگوار مرحلہ آئے گا ہی نہیں اور اگر کسی وجہ سے آ بھی جائے تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی حکمت عملی کو بروئے کار لاکر اس کا حل آسانی سے نکالا جاسکتا ہے ہمارے گھروں میں عام طور ہر معاملات اس وقت خراب ہوتے ہیں جب ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرکے انہیں مناسب حکمت عملی سے سلجھانے کی بجائے سخت اور نامناسب رویہ اختیار کرلیتے ہیں اور بات بگڑ جاتی ہے ایک چنگاری شعلہ کا کام کرتی ہے ہھر اچھے بھلے چلتے پھرتے گھر جل کر بھسم یوجاتے ہیں یعنی اجڑ جاتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تبارک و تعالی نے مرد کو عورت پر قوام بنایا ہے یعنی نگہبان بنایا ہے اور اس بات کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ عورت کے صنف نازک ہونے کی فطری کمزوری کو اپنی حکمت اور دانائی سے بداشت کرے ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی مردانہ قوت کا بے جا استعمال کرے کیوں کہ اس قوت کا بے جا استعمال بھی کئی گھروں کو اجاڑنے کا کام کرتا ہے اور گھروں کا ارام و سکون برباد ہوجاتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہماری اج کی حدیث میں یہ ہی نقطہ باور کروانے کی کوشش کی کی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں زیادہ عقل و شعور اور جسمانی قوت زیادہ عطا کی ہے اس اعتبار سے اس کی ذمہ داری گھر کے چلانے اور آباد رکھنے میں زیادہ بنتی ہے اس کو عقلمندی اور حکمت سے عورت کی کمزوری کو برداشت کرکے اس کی خوبیوں کو سامنے رکھتے ہوئے گزارا کرے تو اس کی زندگی بڑی پرسکون اور اچھی طرح گزرے گی اور اس کا گھر جنت کا گہوارہ بن جائے گا اور جو لوگ اپنی من مانی کرکے ٹیڑھی پسلی کو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ پھر پسلی توڑدیتے ہیں اور اپنے ہنستے بستے گھر کو اجاڑ دیتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دیکھیں یہ ضروری نہیں کہ دنیا میں موجود ہر مرد کو اس کے پسند اور مرضی کی بیوی مل جائےاور نہ ہی کسی عورت کو اپنی ہسند کا مرد مل جائے لیکن جو بھی مل جائے اس کی کمزور اور ناپسند آنے والی باتوں کو اگر نظر انداز کردے تو دونوں کے لئے اچھا ہوگا اگر کوئی بات ناپسند یوگی تو ہوسکتا ہے کوئی بات پسند بھی ہو جیسے سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ " کوئی مومن مرد مومنہ عورت ( بیوی ) بغض یا دلی نفرت نہ کرے اگر اس کے اندر کوئی ناپسندیدہ عادت ہے بھی تو کوئی عادت ایسی بھی ہوگی جو پسندیدہ ہوگی "
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس عارضی دنیا میں ہر انسان کے اندر خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی اگر ہمیں اپنی زندگی کو خوشگوار طریقے سے گزارنا ہے تو خامیوں کو نظر انداز کرکے خوبیوں کی طرف دیکھنا ہوگا اور یہ رویہ صرف میاں بیوی میں ہی نہیں بلکہ ہر رشتہ میں ہمیں یہ ہی رویہ اختیار کرنا چاہیئے اسی طرح ہم اپنی زندگی اور اپنے گھر کو اچھے ماحول کی طرف لیجانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں ورنہ تباہی اور بربادی ہمارا مقدر ہوجائے گی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سچ بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے عورت اور مرد دونوں کو الگ الگ مقصد کے لئے تخلیق کیا ہے اور اسی وجہ سے دونوں کو جسمانی ،ذہنی اور دماغی صلاحیتیں بھی مختلف عطا کی ہیں دونوں کو اپنی اپنی حدود میں رہنے کا پابند کیا ہے عورت کی حدود یہ ہے کہ وہ گھر کی چاردیواری میں رہے جہاں امور خانہ داری یعنی کھانا پکانا صفائی ستھرائی بچوں کی دیکھ بھال انکی تربیت و نگرانی گھر کی حفاضت کا خیال رکھنا شوہر کے مال کی حفاظت اور خرچ میں میانہ روی رکھنا اور خاوند کی خدمت کے فرائض کی انجام دہی عورتوں کے انہی فرائض کا ذکر کرتے ہوئے قران مجید کی آیت نمبر 33 کے شروع میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ ترجمعہ کنزالایمان : " اپنے گھروں میں ٹھری رہو " یعنی گھروں میں رہو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جبکہ مردوں کی حدود کا دائرہ کار گھر کے باہر رکھا گیا ہے گھریلوں نظام چلانے کی غرض سے ضروریات زندگی کی فراہمی اور معاشی جدوجہد کرنا اس کی ذمہ داری ہے اب وہ تجارت کرے یا کھیتی باڑی یا کوئی ملازمت کوئی بھی کام کرے لیکن گھر کا سارا سودا سلف لانا اس کہ ہی ذمہ داری ہے عورت پر مرد کو حاکم بنانے کا جو مقصد اللہ رب العزت نے رکھا اس کی ایک وجہ اس کا ذریعہ معاش کے حصول کی خاطر گھر سے باہر نکلنا بھی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مرد کا اپنے بال بچوں پر خرچ کرنے کی بھی تلقین کی گئی ہے یعنی مرد جو حلال روزی کماکر اہنی بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے تو اس میں اسکے لئے بڑی برکت رکھی گئی ہے صحیح مسلم کی ایک حدیث میں سرکار علیہ وسلم نے فرمایا کہ ترجمعہ " ایک دینار وہ ہے جسے جہاد پر خرچ کیا گیا ایک دینار وہ جسے غلام کی آزادی پر خرچ کیا گیا ایک دینار وہ ہے جسے کسی مسکین پر صدقے کے طور پر خرچ کیا گیا اور ایک دینار وہ جسے اپنے بیوی بچوں پر خرچ کیا گیا ان تمام دینار میں سب سے زیادہ اجروثواب کمانے والا دینار وہ ہے جسے بیوی بچوں پر کرچ کیا گیا "
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہماری آج کی مذکورہ حدیث کو پڑھ کر یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ میاں بیوی ایک خوشگوار اور پرسکوں گھر کو چلانے والی گاڑی کے دو پہئیے ہیں اور دونوں کو متوازن ہوکر گھر گھرستی میں اپنا اپنا رول ادا کرنا چاہیئے بس مرد کو عورت کا خیال رکھنے کی تلقین زیادہ کی گئی ہے صبر و تحمل برداشت اور ایک دوسرے پر مکمل بھروسہ ایک اچھی زندگی کی ضمانت ہے لہذہ بال بچوں کے بہتر مستقبل کے لیئے میاں بیوی کو مل کر اور ایک دوسروں کی کمزوریوں کو نظر انداز کرکے صرف خوبیوں کی طرف دیکھنا چاہیئے تاکہ گھر جنت کا نمونہ بن جائے آج کی اس تحریر کو ہڑھکر مجھے اپنی دعائوں میں یاد رکہیئے گا انشاءاللہ اگلی تحریر میں پھر کسی حدیث کے ساتھ حاضر خدمت ہوجائوں گا اپنا خاص خیال رکھییئے گا ۔
 

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 112 Articles with 78126 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.