ایک انگریز خاتون کا قبول اسلام کا انوکھا واقعہ

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
تخلیق کائنات سے لے کر آج تک اوراج سے لیکر رہتی قیامت تک اللہ رب العزت اپنے دین کو لوگوں تک پہنچانے اپنی واحدانیت اور اپنی حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کی سچائی کو لوگوں تک پہنچانے اور ان کو اس بات کی سمجھ عطا کرنے کے لیئے اپنے مقرر کردہ بندوں کے ذریعہ اپنے نظام قدرت کو چلانے کے لیئے یہ سلسلہ جاری کیئے ہوئے ہے آپنے دیکھا ، سنا اور محسوس کیا ہوگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے زمانے سے لیکر آج تک اور اب بھی کئی لوگ جن کا تعلق کسی اور مذہب سے ہے لیکن ان کی زندگی میں رونما ہونے والے کسی واقعہ یا حادثہ کی بدولت اللہ تعالی کی مرضی اور منشاء کے تحت وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں اور مسلمانوں کی صف میں آکر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ویسے بھی اللہ رب العزت جس کا دل ایمان کی طرف پھیرنا چاہے تو اسباب بھی خود بنادیتا ہے اب وہ چاہے کافر ہو یہودی ہو ہندو ہو سکھ ہو یا عیسائی ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آج کی اس تحریر میں ہم ایک ایسی انگریز خاتون کی داستان پڑھیں گے جن کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی وجہ اپنے ساتھ ہونے والے کسی واقعہ یا حادثہ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اپنی آنکھوں کے سامنے کسی کے ساتھ ہونے والے کسی واقعہ سے رونما ہونے والے اثرات کے پیش نظر اسلام سے متاثر ہونا بن گیا اور ایک بڑی خوبصورت اور جامع وجہ ان کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی بن گئی ہم آخر میں یہ بھی جائزہ لیں گے کہ ایک صاحب ایمان مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اس داستان سے کیا سبق ملتا ہے

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں تاریخ پاکستان کے تمام پڑھنے والے لوگوں اور اس کے متعلق معلومات رکھنے والوں کو یہ علم ہوگا کہ پاکستان بننے کا خواب دیکھنے والے شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال علیہ الرحمہ ایک وکیل تھے اور یہ انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک انگریز اور اس کی بیوی لیڈی بارنس ایک مقدمہ جس میں انہیں جھوٹے الزامات کی بنیاد بناکر ملوث کردیا تھا اور اس کیس کو عدالت میں ڈاکٹر محمد اقبال نے لڑا اور کوئی واضح ثبوت نہ ہونے پر ان دونوں میاں بیوی کو اس کیس سے بری کردیا گیا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کچھ دنوں کے بعد معلوم ہوا کہ لیڈی بارنس نے اسلام قبول کرلیا ہے کیس سے بری ہونے پر دونوں میاں بیوی ڈاکٹر محمد اقبال کا شکریہ ادا کرنے کے لیئے تشریف لائے داکٹر محںد اقبال نے ان سے سوال کیا کہ آپ کے مسلمان ہونے کا کیا راز ہے ؟ آپ کو کس بات نے متاثر کیا ؟ تو لیڈی بارنس نے کہا کہ
" مسلمانوں کے ایمان کی پختگی " سے متاثر ہوکر تو ڈاکٹر صاحب نے تجسس بھرے انداز سے پوچھا کہ میں سمجھا نہیں ؟ کیا مطلب آپ کا ؟
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ڈاکٹر محمد اقبال کے سوال پر لیڈی بارنس نے کہا کہ میں نے دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں دیکھی جس کا مسلمانوں کی طرح ایمان پختہ ہو بس یہ ہی بات مجھے اسلام کی طرف لے آئی اور پھر ایک واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگی کہ میں ایک ہوٹل کی مالکہ ہوں اور میرے پاس ایک ستر سالہ مسلمان بوڑھا شخص بطور ملازم کام کرتا تھا اس کا ایک بہت ہی حسین اور خوبصورت نوجوان بیٹا تھا ایک دن مجھے اطلاع ملی کہ وہ کسی مہلک بیماری میں انتقال کرگیا تو مجھے بہت صدمہ ہوا میں اس کے گھر تعزیت کے لیئے گئی میں نے اسے تسلی دی اور دلی رنج وغم کا اظہار کیا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں وہ کہنے لگی کہ اس بوڑھے شخص نے بڑی تحمل سے میری باتیں سنی اور پھر آسمان کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے انتہائی شاکرانہ انداز میں بولا کہ میم صاحبہ یہ خدا کی تقدیر ہے اس کی امانت تھی اور وہ لےگیا بس اس میں بھی اس رب کریم کا شکر ہے اور ہمیں تو ہر حال میں اس کا شکر ادا کرنے کا حکم یے لیڈی بارنس یہ بات بتاتے ہوئے تھوڑا رک گئیں جیسے ان کے نزدیک یہ ایک بہت بڑا معجزہ تھا ہھر کیا ہو ؟ ڈاکٹر صاحب نے دلچسپی سے پوچھا تو کہنے لگی کہ اس شخص کا آسمان کی طرف انگلی اٹھانا میرے دل میں ہمیشہ کے لیئے پیوست ہوگیا میں سوچ میں پڑگئی کہ اس دنیا میں ایسے صابر شاکر اور مطمئن دل لوگ بھی موجود ہیں اس کے الفاظ ہر میں غور کرتی رہی کہ اتنی استقامت پسندی کا یہ شخص اس عمر میں کیسے مظاہرہ کرسکتا ہے ؟

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ کیا اس نوجوان کے علاوہ کوئی اور بھی اس کے اہل وعیال میں موجود تھا ؟ تو کہنے لگی کہ ہاں اس نوجوان کی بیوی اور ایک چھوٹا بچہ انہیں دیکھکر میں یہ سمجھی کہ اب اس بوڑھے شخص کی زندگی ان دونوں کی زندگی سے تھی لیکن تھوڑے عرصے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ اس نوجوان کی بیوی بھی دنیا سے چل بسی یہ خبر میرے لیئے نہ صرف ایک بجلی بن کر گری مجھے انتہائی گہرہ صدمہ ہوا بلکہ اس کے انتقال سے میرے دماغ میں کئی سوالات نے جنم لینا شروع کردیا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں انہوں نے کہا میں اس بوڑھے شخص کے اس غم کی تعزیت کے لیئے روانہ ہوئی تو سارے راستے میرے دماغ میں سوالات گردش کرتے رہے کہ اب اس چھوٹے بچے کا کیا ہوگا ؟ اس کی کفالت کس طرح ہوگی ؟ اگر وہ روئے گا چلائے گا تو اس کی ماں کی ممتا کی کمی ایک بوڑھا شخص کیسے پوری کرے گا ؟ اس بچے کی تعلیم و تربیت کا کیا ہوگا ؟ وی شخص عمر کے اس حصے میں بلکل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ہوگا ؟ یہ سارے سوالات ذہن میں لیکر میں پریشان ہوگئی اور فرط جذبات سے میرے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور اسی حالت میں جب میں وہاں پہنچی تو میں نے سب سے پہلے اسے تسلی دی اور تعزیتی جملوں سے اس کو دلاسہ دے رہی تھی اور وہ برے تحمل سے میری باتیں بغور سن رہا تھا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں لیڈی بارنس نے کہا کہ جب میں اپنے دل کی ساری بھراس نکال چکی تو میں دیکھنا چاہتی تھی کہ اب ان دو اموات سے اس بوڑھے شخص کے دل کی کیفیت کیا ہے اس نے جواب میں پہلے کی طرح آسمان پر انگلی اٹھائی اور کہنے لگا کہ میم صاحبہ اس رب کی مرضی اور منشاء کے ہاتھوں ہم مجبور ہیں یہ اس کی تقدیر کا فیصلہ تھا اس کی امانت تھی اور وہ لے گیا ہم تو صرف اس کا شکر ادا کرسکتے ہیں اور بس لیڈ ی بارنس نے کہا کہ میں نے محسوس کیا کہ جیسے اس نے اپنے دونوں بچوں کو دفنایا نہیں تھا بلکہ زمین کی مٹی کے حوالے کرکے جیسے اپنا فرض پورا کیا ہو ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں وہ کہنے لگی کہ میں محو حیرت تھی کہ صبر و استقلال کا یہ عالم کہ میں جتنی دیر وہاں بیٹھی رہی نہ ان کی آنکھ سے ایک آنسو کا قطرہ گرا نہ آہ نکلی اور نہ زبان سے کوئی افسوس کا گلہ شکوہ میں اس بوڑھے شخص کے ایمان کی پختگی پر حیران تھی میں کچھ دیر کے بعد واپس آگئی لیکن مجھے میرے دماغ میں انے والے اس سوال کا کوئی جواب نہیں مل رہا تھا کہ اتنے بڑے سانحہ سے دوچار ہونے والے ایک بوڑھے شخص کے زبر و استقلال کا پیمانہ اتنا مظبوط کیسے ہوسکتا ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں لیڈی بارنس نے اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر محمد اقبال سے کہنا شروع کیا کہ ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ وہ چھوٹا اور کمسن بچہ بھی اپنے ماں باپ کے پاس جا پہنچا اور دنیا سے رخصت ہوگیا ایک بار پھر مجھے ایک جھٹکا لگا اور میں اس کے پاس پہنچ گئی یہ سوچ کر کہ اب تو اس کی پوری دنیا ختم ہوگئی اب اس کے لیئےصرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے لیکن جب میں وہاں پہنچی تو میں نے دیکھا کہ وہ پہلے کی طرح اتنے ہی اطمنان سے بیٹھا تھا میرے حسب معمول تعزیتی الفاظوں کو ہمیشہ کی طرح بڑے ٹھنڈے اندا سے سن رہا تھا اور پھر اپنے مخصوص انداز سے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھاکر کہنے لگا کہ میم صاحبہ اللہ رب العزت کے حکم اور اس کی مرضی کے آگے انسان کا کیا دم اس نے دنیا میں بھیجا اور واپس لےلیا اب ہمیں کس بات کا غم اور دکھ ہمیں تو صرف اس کا شکر ادا کرنے کا حکم ہے ہر حال میں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں لیڈی بارنس کہنے لگی کہ اس بار مجھ پر یہ بات عیاں ہوگئی اور میری آنکھوں سے بےساختہ آنسو نکل گئے اور مجھے یقین ہوگیا کہ اس بوڑھے شجص کا صبرواستقلال کوئی مصنوعی نہیں بلکہ حقیقی ہے اور میں نے اس کے ایمان کی پختگی پر اپنا سر ہمیشہ کے کیئے جھکا دیا میں نے اسے آفر کی کہ اب وہ اس سنسان اور بیابان جگہ پر اکیلا کیا کرے گا میرے ساتھ ہوٹل چلے اور وہیں رہے سکون کے ساتھ زندگی گزارے اس نے میری دعوت شکریہ کے ساتھ قبول کرتا ہوا میرے ساتھ چل دیا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں انہوں نے کہا کہ وہ بوڑھا شخص سارا دن ہوٹل کی صاف صفائی کرتا اور رات کو تھک کر سوجاتا ایک دن اس نے مجھے کہا کہ قبرستان جانا ہے تو میں نے خود اسے ساتھ لیجانے کا فیصلہ کیا میں دیکھنا چاہتی تھی کہ اپنے بچوں کی قبروں پر اس کی کیا حالت ہوتی ہے میں بھی تو دیکھوں قبرستان پہنچ کر میں باہر کھڑی رہی اور دیکھ رہی تھی کہ وہ مختلف جگہوں سے مٹی اٹھاکر لاتا اور اپنے بچوں کی قبروں پر ڈال کر ان کی مرمت کرتا پھر پانی کا چھڑکائو کیا اور وضو کرکے فاتحہ خوانی کی میں جب یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی تو سوچ رہی تھی کہ اس طرح کے صبرو استقلال میں اس بوڑھے شخص کا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ یہ جس رب کا کلمہ پڑھتا ہے اس کے اور اس کے دین کا کمال ہے بس میں اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ میں مسلمان ہوجائوں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں لیڈی بارنس نے کہا کہ ہم جب گھر واپس آئے تو میں نے اس بوڑھے شخص کے سامنے مسلمان ہونے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے کسی ایسی عورت کی تلاش ہے جو مجھے اسلام کی تعلیم سے آراستہ کرسکے تو مجھے کیا کرنا ہوگا ؟ وہ فی الفور اٹھا اور اپنے مولانا صاحب کی لڑکی کو لے آیا اس نے مجھے خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا سبق سکھایا اور لاالہ اللہ محمد الرسول اللہ کا مطلب بتایا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں لیڈی بارنس نے حضرت ڈاکٹر محمد اقبال کو کہا کہ ڈاکٹر صاحب الحمداللہ میں اب مسلمان ہوں اور اسی قوت ایمان جس سے اس بوڑھے شخص کا دل سرشار تھا اپنے اندر محسوس کرتی ہوں اب مجھے اپنے خدا پر اتنا پختہ یقین ہے کہ خواہ کس قدر بھی مصیبت اور پریشانی آیے میرے قدموں کو کبھی بھی لغزش نہیں ہوسکتی انشاءاللہ ۔( سعید احمد عباسی کی کتاب قبول اسلام سے ماخوذ )

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس انوکھے اور دلچسپ واقعہ کو پڑھکر ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی میں اگر ہمیں کسی مصیبت یا پریشانی کا سامنا کرنا پڑے تو اللہ رب العزت کی مرضی ، منشاء اور مصلحت کے پیش نظر صبر و استقلال کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیئے اور ہمیشہ اس کی رضا میں راضی رہتے ہوئے ہر حال میں اس کا شکر ادا کرنا چاہیئے اسی میں ہماری زندگی کی بقا ہے اور عارضی دنیاوی زندگی اور ہمیشہ قائم رہنے والی آخرت کی زندگی میں بھلائی ہے ۔
 

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 112 Articles with 78124 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.