پاکستان میں ہر سال 10 سے 15 ارب ڈالر کا پانی ضائع حکمراں 2 ارب ڈالر کی امداد ے لیے کاسہ لیے پھرتے ہیں


اللہ تعالی نے ہمارے مُلک کو ہر نعمت سے نوازہ ہے. اس میں دریا، سمندر، پہاڑ، ریگستان ، میدان ، برف کے کوہ ہمالیہ ، چٹان ، زرعی زمینیں و زمین کے اندر ان گنت معدنیات اور پھر اس مُلک کا دنیا سے منفرد اس کا جغرافیہ غرض ہر وہ نعمتیں جو دنیا کہ ہر ملک میں کچھ نہ کچھ نہیں ہوتیں. مگر ہم اس مُلک اور اس کی عوام کو وہ نہ دے پارہے ہیں . جو خدا نے اس مُلک کو عطا کی ہیں.

قدرتِ الٰہی کی عظیم نشانیوں میں اہم نشانی آسمان سے بارش کا نزول ہے جو انسانوں کے علاوہ روئے زمین پر بسنے والی دیگر مخلوقات کی زندگی اور بقاء کا ایک اہم عنصر ہے

جب بارش زمین پر گرتی ہے تو ، اس میں سے کچھ زمینی سطح کے ساتھ بہہ کر نہروں ، ندیوں یا جھیلوں میں بہتا ہے ، کچھ زمین کو نمی دیتا ہے۔ اس پانی کا کچھ حصہ پودوں کے ذریعہ استعمال ہوتا ہے۔ کچھ بخارات بن کر ماحول میں واپس آجاتے ہیں۔ پانی کا کچھ حصہ زمین میں بھی جاتا ہے ، غیر سنجیدہ زون سے بہتا ہے اور پانی کی میز تک پہنچ جاتا ہے ، جو ایک خیالی سطح ہے جہاں سے نیچے کی زمین سیر ہوتی ہے زمینی پانی (قدرتی طور پر) بارش کے پانی اور برف کی پگھل سے یا پھر پانی سے نکالا جاتا ہے جو کچھ جھیلوں اور ندیوں کے نیچے سے جاتا ہے۔ پانی کی فراہمی کے نظام کے اخراج کے وقت اور جب فصلوں کو ضرورت سے زیادہ پانی سے سیراب کیا جائے تو زمینی پانی بھی ری چارج ہوسکتا ہے. زمینی پانی دنیا کے تازہ 30 فیصد پانی کی نمائندگی کرتا ہے۔ دیگر 70٪ سے ، تقریبا 69٪ برف کی ٹوپیاں اور پہاڑی کی برف / گلیشیروں میں قید ہے اور محض 1٪ دریا اور جھیلوں میں پایا جاتا ہے۔ زمینی پانی اوسطا humans انسانوں کے ذریعہ کھائے جانے والے تازہ پانی کا ایک تہائی حصہ شمار کرتا ہے ، لیکن دنیا کے کچھ حصوں میں یہ فیصد 100 percentage تک پہنچ سکتا ہے۔ زمینی پانی تقریبا ہر جگہ پایا جاتا ہے اور اس کا معیار عام طور پر بہت اچھا ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے کہ زمینی پانی سطح کے نیچے تہوں میں محفوظ ہے ، اور کسی حد تک بہت زیادہ گہرائیوں پر ، اسے آلودگی سے بچانے اور اس کے معیار کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا و سوشل میڈیا وغیرہ میں آئے دن پاکستان اور کراچی میں پانی کی قلت کا واویلہ مچاتے رہتے ہیں. سیمینار، مناظرے وغیرہ میں ایک دوسرے صوبہ کو الزام دیکر اپنا ہاتھ جھاڑ لیتے ہیں مگر کبھی اس کا مستقل حل نہیں نکالتے کیونکہ ہر مسئلہ پر چاہے سیاست دان ہو یا بیروکریسی یا نام نہاد برساتی صحافتی جنہوں نے ہر سیاست کا ہر ادارہ کا ایسا نقشہ عوام میں بنادیا کہ عوام کی نظر میں اس ملک میں ہر مسئلہ حل ہونے کے بجائے مسئلہ ہی بن جاتا ہے. جب کہ پاکستان میں پانی کی قلت پر اگر تحقیق کی جائے تو یہ مسئلہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں جو حل کی طرف نہ جائے جبکہ پاکستان میں 7,259 گلیشیئرز (جن میں 2,066 مکعب کلومیٹر برف موجود ہے) پر مشتمل اور 11,780 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلے، یعنی ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم، کی موجودگی کی وجہ سے اس ملک میں پانی کی مقدار لامحدود ہے۔ یہ گلیشیئرز دریائے سندھ اور اس کے 11.2 لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے بیسن کو پانی فراہم کرتے ہيں، جس کا 47 فیصد حصہ پاکستان میں، 39 فیصد حصہ بھارت میں، 8 فیصد حصہ چین میں اور افغانستان میں تقریبا 6 فیصد ہے. جبکہ پاکستان میں پانی کی قلت، وسائل کی کمی حتٰی کہ آلودگی کی شکل میں پانی کی کشیدگی کی علامات ہر جگہ موجود ہیں۔ یہ صورتحال ماحولیاتی تبدیلی کے علاوہ پاکستان کے محکمہ موسمیات (پی ایم ڈی) کی ملک میں 2025ء تک پانی کی قلت کے متعلق پیش گوئی کی وجہ سے مزید غیر یقینی ہو جاتی ہے۔ زمین میں پانی کی گنجائش ( کیپیسٹی ) 140 ملین ایکڑ فٹ ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی گنجائش صرف 13 ملین ایکڑ فٹ ہے انفراسٹرکچر بنایا جا رہا ہے جس سے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں 14 سے 15 ملین ایکڑ فٹ اضافہ ہو گا 80 فیصد معیشت کا تعلق زراعت سے ہے لیکن اسے نظر انداز کیا جاتا ہے۔50-60 سال پہلے روپیہ اور ڈالر تقریباً برابر تھے لیکن آج بہت ہی زیادہ فرق ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ اعتماد نہیں کرتے اور دنیا پاکستان کے بارے میں بد اعتمادی ہے اس کی خاص وجہ پاکستان میں کوئی مضبوط جمہوریت اقتدار میں نہیں آسکی . 1994-95 میں کوئلے سے سستی بجلی بنانے کا معاہدہ ہوا تھا لیکن حکومت بدلتے ہی اسے ختم کر دیا گیا۔ سیاست دانوں نے کہا کہ ڈیم ان کی لاشوں پر بنائیں گے، آج ان کے پاس 1200 سے زائد لاشیں ہیں اس لیے مزید تاخیر کیے بغیر ڈیم بنائے جائیں۔ سیلاب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید تباہ کن ہوتا جارہا ہے، پہلے سیلاب اور بعد میں خشک سالی ملک کے ساتھ تباہی مچاتی ہے۔ ایران بلڈوزرز کے ذریعے بنائی گئی جھیلوں سے پانی بچا رہا ہے جبکہ ہم اسے سمندر میں ضائع کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پارلیمنٹ میں معاشی مسائل پر بات ہی نہی ہو رہی. اقتدار میں ہوں جب بھی سیاست اور اقتدار میں نہ ہوں جب بھی سیاست اب تمام سیاستدانوں کو سوچنا اور سمجھنا چاہیے جیو پولیٹکس کا دور ختم ہوگیا، اب جیو اکانومی کا دور ہے۔پاکستان ایک امیر اور وسائل سے مالا مال ملک ہے، اگر اس کی صحیح سمت میں رہنمائی کی جائے تو یہ خود انحصار بن سکتا ہے . کاروباری برادری نے پاکستان کا اس ترقی یافتہ معیشتوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان میں تباہ کن سیلاب نے جو تباہی مچائی تھی اس پر حکومت اور عوام کے لیے بڑے چیلنجز پیدا کیے تھے۔ مگر اللہ تعالی اور کاروباری حضرات کی انتھک محنت اور جوش وجزبے سے اللہ تعالی نے سرخرو کیا.

اس وقت پاکستان میں ڈیم بنانا ناگزیر ہوگیا ہے، اگر آج زیادہ ڈیم ہوتے تو گزشتہ بارشوں اور سیلاب میں پاکستان اعر اس کی عوام کی یہ پوزیشن نہ ہوتی . پاکستان میں اس وقت چھوٹے و بڑے ڈیم بنانا انتہائی ناگزیر ہوگیا ہے. اگر ہمارے حکمرانوں نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو ہم اپنی تباہ ہی کا راستہ خود دے رہے ہیں .پاکستان میں اب گندی سیاست کا کھیل جس طرف سے بھی اس کی شروعات لی اب ایسے ختم کرکے معاشی حب کی طرف لیکر جائیں اور عوام سے یہ مہنگائی اور بے روزگاری کا طوق جو ان کے گلوں میں ذلا ہوا ہے کہ یہ اُتار پھینکے .مُلک میں انرجی مکس بہتر کرتے ہوئے ہائیڈل اور متبادل ذرائع سے پیداوار بڑھانا ہوگی۔
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.