ڈاکٹر عبد القدیر خان کا SMS اور پاکستان کے حالات

ہمارے دوست شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ فارغ ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہو گا لیکن تمہارا ذہن شیطان کا مستقل اڈا ہے ، جب تک دو چار پنگے نہ لے لو اور بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ نہ ڈال لو تب تک چین نہیں آتا ۔اب شاہ صاحب کا تجزیہ ٹھیک تھا یا ویسے ہی ہمیں کسر تھی کہ اس عید پر خیبر پخونخواہ کے رکن اسمبلی ارباب خضر حیات کی طرف سے عید مبارک کا SMS آتے ہی اچانک خیال آیا کہ دیکھتے ہیں ”عوامی نمائندے“ عوام سے کتنا رابطے میں رہتے ہیں ؟ اس خیال کے آتے ہی ہم نے موبائل اٹھایا اور بے شمار عوامی نمائندوں کو عید مبارک کا میسج بھیج دیااور ایک مرتبہ پھر سے ذوالفقار مرزا کے بیانا ت کی ریکارڈنگ دیکھنے لگ گئے۔سچ پوچھیں تو ہر مرتبہ ان بیانات کا ایک نیا پہلو سامنے آتا ہے اور اگر ان بیانات کو مسلسل دیکھتے رہیں تو مرزا صاحب کے نئے بیانات میں ایسے ایسے پہلوﺅں کی وضاحت بھی ہوتی چلی جاتی ہے جو بظاہر سامنے نہیں آتے۔ابھی ہم یہ ریکارڈنگ دیکھ ہی رہے تھے کہ ہمارے اصلی ہیروڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب کا sms آگیا ۔ڈاکٹر صاحب کا عید مبارک اور دعاﺅں بھرا میسج پڑھ کر ایک لمحہ کے لیے آنکھیں اشک بار ہو گئیں ۔ میں کتنی ہی دیر موبائل ہاتھ میں تھامے یہ سوچتا رہا کہ وطن عزیز جن حالات سے گزر رہا ہے اس میں ہمارے یعنی عام پاکستانیوں کے دل پر جو گزر رہی ہے وہ ہم ہی جانتے ہیں لیکن ڈاکٹر عبد القدیر خان جنہوں نے اس وطن کے دفاع کو مضبو ط کرنا چاہا اور قید و بند سمیت ان گنت قربانیاں دیں ، ان کی کیا حالت ہو گی؟ جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بناتے ہوئے سوچا ہو گا کہ اب پاکستان کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکے گا ،لیکن موجودہ حالات میں ان کے دل پر کیا گزر رہی ہو گی؟

ذوالفقار مرزا کے انکشافات، رحمن ملک اور پیپلز پارٹی کے بیانات، اے این پی کی شکایات، اور کراچی سمیت پورے پاکستان کے حالات۔۔، ان سب نے اس شخص کو کس عذاب سے دوچار کیا ہو گا جس نے اپنا سب کچھ صرف اس مقصد کے لیے قربان کر دیا کہ اسے پاکستان کا دفاع مضبوط کرنا تھا اور پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا تھا۔وہی شخص جسے ہم نے ایک عرصہ تک نظر بند رکھا ۔ جس پر الزامات لگائے، کیچڑ اچھالا گیا، جس کے ساتھ مجرموں کا سا سلوک کیا گیا، جس سے معافی تک منگوائی گئی ۔ذرا سنیے! وہی ڈاکٹر عبد القدیر آج بھی ہمارے لیے دعاگو ہیں ۔شاید انہیں احساس ہے کہ قوم ان کی مجرم نہیں ، بالکل ویسے ہی جیسے قوم ان اربوں ڈالر کی مقروض نہیں جو حکمرانوں کی عیاشیوں کے لیے لیئے گئے اور ایوانوں سے نیچے ان کا استعمال نہیں ہوا ۔۔

میں کافی دیر ڈاکٹر عبد القدیر کا میسج دیکھتا رہا ، عید کے ان تین دنوں میں زید حامد اور قاضی حسین احمد کی دعاﺅں سمیت قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر چودھری نثار، جسٹس وجیہ الدین ، خواجہ سلیمان رفیق،میاں مرغوب احمد،واسع جلیل، خواجہ آصف، او جنرل حمید گل کے صاحبزادے اورمحسنان وطن فاﺅنڈیشن کے چیئرمین عبداللہ گل سمیت ادبی صحافتی اور سیاسی حلقوں سے اہم شخصیات کے sms موصول ہوتے رہے لیکن میں ڈاکٹر عبد القدیر کی دعاﺅں کے حصار سے باہر نہ آسکا ۔یہاں تک کہ عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے جب عید کے بعدعمرے سے واپسی پراپنے گھر عید ملن پارٹی میں شرکت کے لیے بلایا تب بھی میں خالی ذہن تھا لہذا اس تقریب میں بھی نہ جا سکا۔عید کے بعد کئی دن تک مجھے یہ احساس شدت سے رہا کہ جس شخص نے ہمیں پابندیوں اور سختیوں سے نکال کے سر اٹھا کر جینے کا راستہ دکھانا چاہا ، وہ شخص تو آج بھی پابندیوں اور سختیوں کی زد میں ہے، لیکن پھر بھی دعاگو ہے۔۔۔

ڈاکٹر صاحب ہم آپ سے شرمندہ ہیں !!! یہ جانتے ہوئے بھی کہ مجرم قوم نہیں بلکہ وہ حکمران ہیں جنہوں نے سیاست کی وادی میں قدم رکھنے سے پہلے غیرت اور عزت کی چادر کو بوٹوں تلے کچل ڈالا تھا۔۔
Syed Badar Saeed
About the Author: Syed Badar Saeed Read More Articles by Syed Badar Saeed: 49 Articles with 49958 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.