اصفہان سے مدینہ منورہ تک

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
میرے یاروں میری یہ تحریر ایک کہانی کی شکل میں آپکو پڑھنے کے لئے ملے گی یہ ایک مذہبی نوعیت کی انتہائی معلوماتی ، یادگار اور دلچسپ تحریر ہے میرے نذدیک جو ہر عمر کے ہر اہل ایمان مسلمان کے لیئے پڑھنا ضروری ہے تاکہ ایمان تازہ ہو اصفہان کے ایک جاگیردار گھرانے میں ایک بچے کی پیدائش ہوتی ہے خاندان بھر میں جشن کا سماع نظر آرہا تھا خوشی کے مارے جاگیردار کے پائوں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے گھر میں دولت کی ریل پیل تھی زمین جائداد ہیرے جواہرات اور کھانے کے لیئے وافر مقدار میں غلہ غرضیکہ گھر میں دنیا کی ہر نعمت موجود تھی بس ایک بیٹے کی کمی تھی جو اللہ رب العزت نے آج وہ بھی پوری کردی تھی۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں دراصل یہ گھرانہ آتش پرست گھرانہ (آگ کی پوجا کرنے والے ) تھا اور جاگیردار اس بستی کا سردار تھا بیٹے کی پیدائش پر بستی والوں کی طرف سے آگ کی پوجا کا ایک خصوصی انتطام کیا گیا جاگیردار نے اپنے بیٹے کا نام سلمان رکھا اولاد اس کی دوسری بھی تھی لیکن وہ سب سے زیادہ پیار سلمان سے کرتا تھا اس لیئے اس کو وہ اپنی آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیتا تھا گھر میں سلمان کو اس طرح رکھا جاتا تھا جیسے لڑکیوں کو رکھا جاتا ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں سلمان نے جب ہوش سنبھالا تو گھر والوں کو آگ کی پوجا کرتے دیکھا گھر میں ایک بہت بڑا آتش دان تھا جو ہمیشہ روشن رکھا جاتا تھا اور وہاں پوجا کا سلسلہ چلتا رہتا سلمان نے جب گھر والوں کو پوجا کرتے دیکھا تو خود بھی آگ کی خدمت میں لگ گیا وہ سارا دن وہاں بیٹھتا اور آتش دان کو روشن رکھتا اس نے اس دوران مجوسیت کی تعلیم بھی حاصل کی جس کی وجہ سے اسے وہاں کا نگران بنادیا گیا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ایک دن جاگیردار نے عمارت کاکام شروع کروانے کا ارادہ کیا تو اس نے سلمان سے کہا کہ بیٹا تم جانتے ہو کہ زمینوں کا سار کام اور دیکھ بھال میری زمہ داری ہے لیکن گھر کی مرمت بھی مجھے ہی کروانی ہے لہذہ میں چاہتا ہوں کہ آج تم زمینوں پر جائو اور کھیتی باڑی کرنے والوں کی نگرانی کرو لیکن یاد رہے میں تمہیں اپنی آنکھوں سے زیادہ دیر اوجھل نہیں رکھتا تم جلدی واپس آجانا سلمان ایک سعادت مند بیٹے کی طرح والد کا حکم مانتے ہوئے زمین کی طرف روانہ ہوگیا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں راستے میں اس نے ایک بڑی عجیب و غریب عمارت دیکھی جہاں سے کچھ آوازیں سنائی دے رہی تھیں وہ حیرت سے عمارت کو دیکھنے لگا پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ عیسائیوں کی عبادت گاہ ہے اور اس وقت وہ اپنی عبادت میں مصروف ہیں وہ رک گیا اور اندر چلاگیا اس نے دیکھا کہ عیسائی اپنی عبادت میں مصروف ہیں تو اسے یہ اچھا لگا اس نے سوچا کہ آگ کی پوجا تو فضول عبادت ہے عبادت کا صحیح اور مناسب طریقہ تو یہ ہی ہے اور کافی بہتر ہے وہ وہیں بیٹھ گیا اور عیسائیت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے لگا یہاں تک کہ سورج کے ڈھلنے کا وقت ہوگیا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جاگیردار سلمان کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا اس نے ہر جگہ دیکھا ڈھونڈا لیکن سلمان اسے نہ ملا آخر تھک ہار کر وہ جب گھر واپس آیا تو سلمان کو موجود پایا اس نے اتنی دیر غائب رہنے کی وجہ پوچھی تو بڑے ادب سے اس نے ساری بات بتائی سلمان کی بات سن کر جاگیردار طیش میں آگیا اور کہنے لگا کہ دین صرف وہی صحیح ہے جو تمہارے باپ دادا کا ہے وہ لوگ بہکے ہوئے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں والد کی بات سن کر سلمان نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے ہم جس آگ کی پوجا کرتے ہیں اسے جلاتے بھی ہم ہیں اور اگر چھوڑ دیں تو وہ بجھ جاتی ہے جبکہ وہ لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں لہذہ دین ہمارا نہیں ان کا صحیح ہے سلمان کی بات سن کر جاگیردار گھبرا گیا کہ اگر اسے کھلے عام باہر جانے کی اجازت دے دی تو یہ اپنا دین چھوڑ کر نیا دین اپنا لے گا لہذہ اس نے لوہے کی بیڑیاں ڈالکر سلمان کو گھر میں قید کرلیا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں سلمان اب یہاں سے نکلنے کی ترکیبیں سوچنے لگا اس نے یہ معلوم کرلیا تھا کہ عیسائیوں کا اصل مرکز ملک شام ہے لہذہ وہ پیغام دے کر آیا تھا کہ جب بھی کوئی قافلہ وہاں کے لیئے روانہ ہو اسے خبر دی جائے دن گزرتے گئے اور یوں ایک دن ایک تجارتی قافلہ ملک شام کی طرف روانہ ہورہا تھا سلمان کو جب یہ پیغام ملا تو اس نے جیسے تیسے بیڑیوں کو کاٹ کر وہاں سے راہ فرار اختیار کرلی اور یوں مختلف جگہوں سے ہوتا ہوا تجارتی قافلہ جب شام پہنچا تو اس قافلے میں سلمان بھی موجود تھا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں دوران سفر سلمان نے عیسائی مذہب کے بارے میں کافی معلومات حاصل کرلی تھیں اسے یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ اسے اس علم کے حصول کے لیئے کسی پاپ سے ملنا ہوگا گویا شام پہنچ کر وہاں کے اعلی پاپ کے پاس پہنچ کر عرض کی کہ میں آپ کے ساتھ رہکر عبادت کرنا چاہتا ہوں اور اس مذہب کی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں انہوں نے سلمان کی عرضی قبول کرتے ہوئے اسے اپنے پاس رکھ لیا کچھ عرصہ پاپ کے ساتھ ریتے ہوئے اسے اندازہ ہوا کہ یہ پاپ تو انتہائی بدبخت اور بدترین انسان ہے لوگوں کا مال ہڑپ کرجاتا ہے اور اس نے لوگوں کے مال سے سات مٹکے سونے اور چاندی سے بھر لئے ہیں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں سلمان کو غصہ تو بہت آیا لیکن وہ ڈر کی وجہ سے خاموش تھا کہ لوگ اس کی بات نہیں مانیں گے لیکن پھر وہ پاپ فوت ہوگیا تب لوگوں کے سامنے اس نے حقیقت کھول کر بیان کردی اور ثبوت کے طور پر مٹکے بھی دکھادیئے تب لوگوں کو یقین آیا اور المختصر کہ لوگوں نے بجائے دفنانے کے اسے سولی پر لٹکاکر عبرت کا نشان بنادیا اور کچھ عرصہ کے بعد ایک نیا پاپ منتخب کرلیا گیا سلمان نے جب اس کے ساتھ کچھ وقت گزارا تو اسے اندازہ ہوگیا کہ وہ بہت نیک اور پرہیزگار انسان ہے تو وہ اس کے ساتھ عبادت کرنے لگا اور اس کی خدمت کرنے لگا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کچھ عرصہ ہوا تو وہ پادری بیمار ہوگیا اور سلمان کے دل میں خیال آیا کہ اگر اسے کچھ ہوگیا تو اس کا کیا ہوگا اس نے ڈرتے ہوئے پادری سے کہا کہ میں نے اب تک سب سے زیادہ محبت آپ سے کی ہے اور آپ بھی مجھے چھوڑ کر چلے جائیں گے تو میں کہاں جائوں گا تو پادری نے کہا کہ تم موصل چلے جانا وہاں فلاع سے ملنا تمہیں فائدہ ہوگا اس کی وفات کے بعد سلمان نے موصل کا رخ کیا اور وہاں جاکر پادری سے ملا اور اپنی ساری کہانی سنائی تو اس پادری نے سلمان کی باتوں سے متاثر ہوکر اسے اپنے پاس رکھ لیا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کچھ عرصہ کے بعد اس پادری کا بھی انتقال ہوگیا تو اس کہ کہنے پر سلمان روم کے شہر عموریہ روانہ ہوگیا اور وہاں ایک پادری کے پاس رہنے لگا یہ شہر ایک کاروباری مرکز تھا گویا سلمان نے یہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی شروع کردیا اور اللہ رب العزت نے اس کے کاروبار میں اتنی برکت عطا کی کہ وہ چند مہینوں میں کئی گائیوں اور بکریوں کا مالک بن گیا کچھ عرصہ گزرا تو اس پادری کی موت کا وقت بھی قریب آگیا اب سلمان نے اس سے دریافت کیا کہ میرے لئے کیا حکم ہے ؟

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس پادری نے سلمان سے کہا کہ اب ہمارے مذہب کے فروغ کے لیئے کوئی شخص نہیں بچا جو ہمارے دین پر ہو لیکن عرب میں ایک نبی آنے والا ہے جو دین ابراھیمی کی دعوت دے گا لیکن اسے یہاں سے نکال دیا جائے گا اور پھر وہ ایسی سرزمین پر ہجرت کرے گا جہاں سیاہ پتھروں کے درمیان کھجوروں کے باغات ہوں گے تم وہاں چلے جانا سلمان نے کہا کہ میں اسے کیسے پہچانوں گا تو پادری نے کہا کہ اس کی تین نشانیاں ہوں گی
وہ صدقہ کی چیز نہیں کھائے گا
وہ ہدیہ لے لیگا
اس کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں سلمان نے پادری کی نصیحت اپنے پلے باندھ لی اور انتظار کرنے لگا کہ کب کوئی قافلہ اس طرف جائے اور وہ روانہ ہو کچھ عرصہ گزرا تو بنو قلب کے عرب تاجروں کا ایک قافلہ وہاں سے گزرا سلمان نے ان سے کہا کہ اگر تم مجھے عرب لیجائو تو میں اپنی ساری گائیں اور بکریاں معاوضے کے طور پر دے دوں گا انہوں نے یہ سودا منظور کرتے ہوئے سارا مال لے لیا اور سلمان کو اپنے قافلے میں شامل کرلیا

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں چلتے چلتے جب یہ قافلہ وادی القری پہنچا تو قافلے والوں نے سلمان کے ساتج دھوکا کیا اور اسے ایک یہودی کے ہاتھوں بیچ دیا وہ یہودی سلمان کو اپنے گھر لے گیا اور مختلف کاموں میں لگا لیا ایک دن اس یہودی کا کزن جس کا تعلق بنو قریظہ جو یہودیوں کے ایک قبیلے کا نام ہے سے تھا ملنے آیا اسے سلمان اچھا لگا اور اس نے سلمان کو خرید لیا اور اسے اپنے ساتھ مدینہ منورہ لے آیا عرب میں کھجوروں کے باغات دیکھے تو اسے پادری کی نصیحت یاد اگئی اس نے سوچا کہ ہوسکتا ہے یہ ہی اس کی منزل ہو ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں سلمان ہر وقت اپنے کام میں مصروف رہتا اور اس وقت کا انتظار کرتا کہ وہ نبی کب تشریف لائیں گے سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کا جب وقت آیا اور آپ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو ہر طرف آپ علیہ وسلم کی باتیں ہونے لگیں ایک دن سلمان کھجور کی چوٹی پر بیٹھا کام میں مصروف تھا کہ اس کے مالک کا کزن دوڑتا ہوا آیآ چہرے پر گھبراہٹ تھی اور سلمان کے مالک سے کہنے لگا کہ اللہ بنو اوس اور خزرج کو تباہ کرے وہ آج قباء میں ایک ایسے شخص کا استقبال کرنے جارہے ہیں جو مکہ سے ہجرت کرکے آیا ہے اور اپنے آپ کو اللہ تبارک وتعالی کا نبی ہونے کا دعوہ کرتا ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں سلمان نے جب یہ سنا تو اس کے دل کی کیفیت بدل گئی اور وہ کھجور کی چوٹی سے اتر کر نیچے آگیا اور بےتابی سے اپنے مالک سے پوچھنے لگا کہ کیا خبر ہے ؟ تو اس کے مالک کو غصہ آگیا اور اس نے سلمان کو دو تین تھپڑ رسید کردیئے اور کہا کہ تمہارا کیا واسطہ اس بات سے جائو تم کام کرو مگر اب سلمان کی بےچینی ختم کیسے ہو اتنا عرصہ جس ہستی کا انتظار تھا وہ پہنچ گئے تو اب برداشت کیسے ہو جونہی شام ہوئی تو کھجور کا تھیلا بغل میں دبائے اپنے مالک سے بچتا ہوا سرکار علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوگیا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں سرکار علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ساتھ تشریف فرماتھے پہنچتے ہی سلمان نے عرض کیا کہ آپ علیہ وسلم ایک خدا ترس اور صالح انسان ہیں اور آپ علیہ وسلم کے ساتھ مسافر بھی ہیں تو میرے پاس کچھ صدقہ کی کھجوریں ہیں جو میں آپ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا ہوں آپ علیہ وسلم نے وہ کھجوریں لیکر ساتھیوں سے فرمایا کہ یہ تم لوگ کھالو تو سلمان سمجھ گیا کہ پادری کی ایک نشانی پوری ہوگئی ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں دوسرے دن سلمان کھجوروں کا تھیلا لیئے دوبارہ پہنچ گیا اور عرض کیا کہ کل آپ علیہ وسلم نے صدقہ کی کھجوریں نہیں کھائی تو آج تحفہ کے طور ہر لایا ہوں تو آپ علیہ وسلم نے وہ کھجوریں خود بھی تناول کیں اور دوسروں کو بھی دی تو سلمان نے سوچا کہ پادری کی دوسری نشانی بھی صحیح ثابت ہوگئی اب تیسری نشانی یعنی مہر نبوت کی باری تھی گویا سلمان اب تیسری مرتبہ اس وقت پہنچا جب آپ علیہ وسلم جنت البقیع میں موجود تھے سلمان کبھی آپ علیہ وسلم کے دائیں طرف تو کبھی بائیں طرف ہوتا کہ کہیں سے مہر نبوت کا دیدار ہوجائے آپ علیہ وسلم سمجھ گئے کہ سلمان کیا چاہتا ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اپنے کاندھے سے چادر مبارک ہٹادی تو مہر نبوت صاف اور واضح دکھائی دینے لگی سلمان اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکا اور آگے بڑھ کر اسے چومنے لگا اور بے ساختہ روپڑا جب زاروقطار رونے لگا تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے تھپکی دی اور فرمایا کہ روتے کیوں ہو ؟ سلمان نے اپنی پوری کہانی سنائی کہ وہ کس طرح مختلف جگہوں سے ہوتے ہوئے اس کھجوروں کی سرزمین تک پہنچا ہے اور یوں اپنی حقیقی منزل یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اب زرا غور سے سنیئے کہ یہ سلمان جو اتنی تکالیف کے بعد مختلف لوگوں کے ہاتھوں بکتے بکاتے اپنی منزل یعنی مدینہ منورہ تک پہنچے وہ کوئی اور نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالی کے مبارک اور برگزیدہ نبی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ تھے صحابہ کرام حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی بہت عزت کیا کرتے تھے جو حق کی تلاش میں گھر سے نکلے تھے اور اپنی منزل یعنی مدینہ منورہ ( کھجوروں کی سرزمین ) تک سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچے ۔( ایمان کی روشنی سے ماخوذ )

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں یہ کہانی آپ لوگوں کو کیسی لگی امید ہے حضرت سلمان فارسی کی یہ کہانی سن کر آپ کا ایمان بھی تازہ ہوگیا ہوگا یہ کہانی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی پیدائش سے کے کر سرکار علیہ وسلم تک پہنچنے کی تھی وہ ایمان کیسے لائے اور انہیں نبوت کا رتبہ کیسے ملا اور دوسرے معاملات بعد کے ہیں ہمیں یہاں تک کی کہانی میں یہ معلوم ہوا کہ جب انسان حق کی تلاش میں اپنے گھر بار اور مال و اسباب سب کچھ چھوڑ کر نکلتا ہے تو اللہ رب العزت اس کی رہنمائی اور مدد کے لئے دوسروں کو وسیلے کے طور پر بھیج دیتا ہے اور پھر پکے یقین پختہ ارادے اور نیک لگن کی بدولت اسے اپنی منزل مل ہی جاتی ہے
انشاءاللہ پھر کسی دلچسپ اور سبق آموز کہانی کے ساتھ حاضر ہوں گا ۔
 

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 112 Articles with 78174 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.