فرقہ بندی دین کی سم قاتل

فرقہ بندی سے دین کو نقصان ہوتا ہے۔ گروہ در گروہ بننے سے دین میں بگاڑ کا عنصر پیدا ہو رہا ہے جس سے مسلمان کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تعارف
لفظ فرقہ کے معانی:
لفظ فرقہ کے لغوی معانی:
اس لفظ کا مادہ ہے: ف،ر،ق
لغت میں اس مادہ کے بنیادی معانی ہیں:
1۔کل شیئین فَصّلتَ بینھما فقد فرقت بینھما ۔ یعنی تونے جن دو چیزوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کردیا، اس کا مطلب ہے: تو نے اِن کو جدا کردیا۔ خلاصہ یہ کہ دو چیزوں کا ایک دوسرے سے علیحدہ ہونا، تفرقۃ کہلاتا ہے۔
لفظ فِرقَۃ کے اصطلاحی معانی:
1۔ علامہ راغب الاصفھانی مفردات الفاظ القرآن الکریم میں لکھتے ہیں: الفرق: القطعۃ المنفصلۃ، و منہ الفرقۃ: للجماعۃ المُتفرّدۃِ من النّاسِ ۔
لفظ الِفرقُ کا معنیٰ ہے: جدا کیا ہؤا ٹکڑا، لفظ الفرقۃ بھی اسی میں سے ہے، یہ لفظ عام لوگوں میں سے الگ ہو جانے والے گروہ کے لیئے بولا جاتا ہے۔
2۔ علامہ محمد اسماعیل عودوی، صفوۃ العرفان میں لکھتے ہیں: الفِرقۃُ بالکسر: الطّائفۃ من الناس ۔
3- علامہ ابنُ الاثیر، النھایۃ میں لکھتے ہیں: یُقالُ: فرّقتُ بین شیئین، افرق فرقاً، و فرقاناً - دو چیزوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کے لیئے کہتے ہیں۔ فرّقتُ بین شیئین۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظ فرقہ کے لغوی اور اصطلاحی معانی تقریباً یکساں ہیں۔ ان میں بنیادی طور پر کچھ فرق نہیں ہے۔ اھلِ لغت، مفسرین حضرات، اور غریب الحدیث کے ماہرین نے لفظ فرقہ کے جو معانی بیان کیئے ہیں ان سے یہ ترشح ملتا ہے کہ کسی بڑی اجتماعیت سے علیحدہ ہو جانے والوں کو فرقہ پرست کہا جاتا ہے۔ امام راغب اصبھانی لکھتے ہیں: فریق کے معانی ہیں: عام لوگوں سے الگ ہو جانے والا گروہ۔ صاحبِ صفوۃ العرفان لکھتے ہیں فریق، فرقۃ سے تعداد میں زیادہ لوگوں کے لیئے بولا جاتا ہے ۔
اردو زبان میں اس مفہوم کے لیئے تفرقہ اندازی، تفرقہ پردازی، فرقہ بندی اور فرقہ واریت جیسے الفاظ استعمال ہو تے ہیں ۔

لوگ کب تک ایک اُمت بنے رہے؟
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: کان الناس امۃ واحدۃ فبعث اللہ النبیین مبشرین و منذریں و انزل معھم الکتاب بالحق لیحکم بین الناس فیما اختلفوا فیہ اما اختلف فیہ الا الذین اوتوہ من بعد ما جاءتھم البینات بغیا بینھم فھدی اللہ الذین آمنوا لما اختلفوا فیہ من الحق باءذنہ واللہ یھدی من یشاءُ الی صراط مستقیم۔ (البقرۃ-213)
ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے۔ (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہےہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج رَوی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے، اور ان کے ساتھ کتابِ برحق نازل کی تا کہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہو گئے تھے، ان کا فیصلہ کرے۔ (اور ان اختلافات کے رونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتدا میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا- نہیں) اختلاف ان لوگوں نے کیا، جنہیں حق کا علم دیا جاچکا تھا۔ انہوں نے روشن ہدایات پالینے کے بعد محض اس لیئے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے، پس جو لوگ انبیاء پر ایمان لے آئے۔ اُنہیں اللہ نے اپنے اذن سے اُس حق کا راستہ دکھادیتا ہے۔
اس آیت میں اللہ جل جلالہٗ نے بتایا کہ "ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے" یعنے دین کے معاملے میں متحد و متفق تھے۔ ان کے درمیان دین کے امور میں کوئی اختلاف نہیں تھا، لیکن ان کا دین کیا تھا؟ وہ سب کے سب کافر تھے؟ یا سب کے سب مؤمن تھے؟ اس بارے میں مفسرین کرام کی آراء مختلف ہیں۔ علامہ ابنِ کثیر اور علامہ ابن عاشور نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
"علامہ ابن جریر طبری نے حضرت ابی بن کعب، ابن عبّاس، مجاھد، قتادۃ، اور جابر بن زید سے روایت کیا ہے کہ ایک ہی طریقے، سے مراد یہ ہے کہ لوگ حق و ہدایت کے تابعدار اور ایک ہی ملت پر تھے۔ علامہ زمخشری نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ امام فخرالدین رازی نے کہا ہے کہ اکثر محققین کی رائے بھی یہی ہے ۔ "
اب رہا یہ سوال کہ یہ کون سا دور تھا جب لوگ دین کے امور پر متفق تھے؟
علامہ ابن جریر طبری، علامہ قرطبی اور علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:
"یہ دور حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت نوح ؑ کے درمیان کے زمانے کا تھا جو ایک ہزار سال اور بروایت بعضے بارہ سو سال پر محیط تھا۔ انہں نے یہ بات حضرت ابن عباس۔ مجاھد اور قتادہ کی طرف منسوب کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت نوحؑ کے دور تک کے لوگ دین کے امور میں متفق تھے۔ پھر ان میں اختلافات رونما ہونے لگے تو اللہ نے حضرت نوحؑ کے دور سے پے درپے انبیاء بھیجے ۔"
راہ ہدایت دکھانا اللہ کے اور اس پر چلنا انسان کے ذمے ہے
انسان کو ہدایت کی ران دکھانا اللہ کے ذمے ہے اور اللہ نے وہ راہ دکھائی بھی، فرمایا: و علیٰ اللہ قصد السبیل و منھا جائر۔۔۔ (النحل-9)۔ اللہ ہی کے ذمے ہے سیدھا راستہ بتانا، جبکہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں۔
انسان کو راستے بتاکے فرمایا:------- وھدیناہ النجدین (البلد-10) کیا ہم نے انسان کو دو نمایاں راستے (ایک خیر کا اور دوسرا شر کا) نہیں دکھائے؟
اس کی مزید توضیح کرتے ہوئے فرمایا،انا ھدیناہ السبیل امّا شاکراً و اما کفوراً (الدھر-3) ہم نے انسان کو راستہ دکھایا خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا، پھر فرمایا:------ فالھمھا فجورھا و تقواھا (الشمس-8) انسان کے دل میں برائی اور بھلائی کی تمییر کی صلاحیت پیدا کی۔
جی ہاں اپنی مخلوق میں سے اُس مخلوق کے دل میں جس کو اُس نے ہوش و گوش رکھنے والا بنایا جس کے بارے میں فرمایا۔ ----- فجعلناہ سمیعاً بصیراً (الدھر:2) ہم نے اس کو ہوش و گوش رکھنے والا بنایا۔ یعنے اللہ نے انسان کو ہوش و گوش رکھنے والا بنایا تا کہ وہ چیزوں کو دیکھ اور سن کر ان کی حقیقت سے بخوبی واقف ہو جائے اور ان کو پرکھ سکے پھر خیرو شر میں سے جس چیز کو پسند کرے اسے اپنائے۔ انسان کو دونوں راستے دکھاکر اسے ان میں سے کسی ایک پر چلنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ فرمایا جو بھی راستہ انسان اختیار کرے وہ اس کی مرضی پر منحصر ہے۔ فرمایا: فاما من اعطیٰ واتقیٰ و صدّق بالحسنیٰ- فسنیسرہ للیسریٰ- وامّا من بخل واستغنیٰ- و کذب بالحسنیٰ- فسنیسرہ للعسریٰ- سورت اللیل۔
جس نے اللہ کی راہ میں مال دیا اور (اللہ کی نا فرمانی سے) پرہیز کیا، اور بھلائی کو سچ مانا اس کو ہم آسان راستے کے لیئے سہولت دیں گے۔ اور جس نے بخل کیا اور (اپنے رب سے) بے نیازی پرتی، اور بھلائی کو جھٹلایا، اس کو ہم سخت راستے کے لیئے سہولت دیں گے۔
خلاصہ یہ کہ اللہ نے انسان کو عقل دی، خیر و شر اور ہدایت و گمراہی میں تمییر کی صلاحیت دی۔ اسے با اختیار بنایا تا کہ زندگے کے خیر و شر کے راستوں میں سے جس راستے پر وہ چلنا چاہے چلے اور جس راستے پر وہ جانا چا ہے اس پر جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔ پھر ہر راستے کے نتائج بھی اسے بتا دیئے گئے تا کہ انسان اپنی راہ کے نتیجے سے بھی با خبر رہے کہ جس راستے پعر وہ چل پڑا ہے وہ اسے کہاں پہنچائے گا؟!
انسان کو راہ ہدایت یا راہ ضلالت پر چلنے کے لیئے پوری صلاحیت اور اختیار دینے کے بعد اللہ نے فرمایا: ----- ولو شاءَ لھدا کم اجمعین (الانعام-149، النحل-9) اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو راہِ ہدایت پر چلاتا۔ اللہ جل جلالہ مزید فرماتا ہے۔ ------ ولو شاء اللہ لجعلکم امۃً واحدۃً ولٰکن لیبلوکم فی ما آتاکم--- (المائدہ-28)
اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا سکتا تھا۔ لیکن اس نے یہ اس لیئے کیا ہے کہ جو کچھ اس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔
یعنی یہ قانونِ الاہی کے پر عکس ہے کہ وہ اپنی مخلوق میں سے کسی کو ذی شعور اور با اختیار مخلوق بنائے اور ان کے شعور اور اختیار پر جزاو سزا کے نتائج مرتب کرلے پھر انہں جبراً کسی نہ کسی راہ پر خود چلائے اور اس پر جزا یا سزا نافذ کرلے۔ اس لیئے یہ انسان کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی عقل کو بروئے کار لائے اور صحیح راہ ہدایت پر چلے۔
جب انسان اپنی عمل و سوچ کا کھلا استعمال کر کے دنیا کی زندگی میں اللہ کی بتائی ہوئی راہِ ہدایت پر حتی الوسع چلتا ہے تو اس کی دنیا اور آخرت دونو ں سنور جاتی ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں رب کریم فرماتا ہے: فآتاھم اللہ ثواب الدنیا و حسن ثوابِ الآخرۃ۔ ــــ (آل عمران-148)
اللہ نے انہیں دنیا کا ثواب بھی دیا اور اس سے بہتر ثوابِ آخرت بھی عطا کیا۔
لیکن جب قوموں اور امتوں میں کج روی در آتی ہے تو---- فبعث اللہ النبیین مبشرین و منذِرین۔------ (البقرۃ-213)۔

فرقہ بندی کا آغاز کب سے ہؤا؟
ابھی ہم نے "لوگ کب تک ایک امت بنے رہے؟" کے عنوان کے تحت لکھا کہ، "حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت نوحؑ کے دور تک کے لوگ دین کے امور میں متفق تھے پھر ان میں اختلافات رونما ہونے لگے۔"
لیکن ان کے یہ اختلافات اتنے شدید نہیں تھے کہ روحِ دین پر عمل کرنے کی رکاوٹ بنتے، روح دین پر عمل کرنے کی رکاوٹ بننے والے اختلافات اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) کے دور سے نمودار ہوئے۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ولا تکونوا کالذین تفرّقوا واختلفوا من بعدِ ما جاء ھم البینات۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (آل عمران-105)۔ تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ کر اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد اختلافات میں مبتلا ہوئے۔
ایک اور مقام پر فرمایا: و ما تفرّق الذین اُوتوا الکتاب الّا من بعد ما جاءتھم البینۃ۔ (البینۃ-4)۔ پہلے جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی ان میں تفرقہ برپا نہیں ہؤا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس راہِ راست کا بیانِ واضح آچکا تھا۔
یعنی سب سے پہلے تفرقہ باز وہ لوگ بنے جو اھلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) تھے۔ اور وہ اپنے دین پر عمل کرنے میں اس لیئے متفرق نہیں ہوئے تھے کہ ان کے پاس اللہ کی طرف سے واضح ہدایات نہیں آئی تھیں۔ اور ہر شخص اور ہر گروہ نے اپنے طور پر جس فکروخیال کو بہتر سمجھا اس کو اپنا عقیدہ بنا لیا اور جس عمل کو بہتر جانا اس پعر کار بند رہا۔ بلکہ تفرقہ ان مین، اللہ کی طرف سے علم آجانے کے بعد رونما ہؤا۔ پھر انہوں نے کچھ مدت کذرنے کے بعد دین کی اساسی تعلیمات کو چھوڑ کر غیر متعلق ضمنی و فروعی مسائل کو دین کی بنیاد بنا ڈالا، اور اسی بنیاد پر فرقے ایجاد کرلیئے۔ ان باتوں کو حتمی اور یقینی مسائل بنانے میں ایسے مشغول ہوئے کہ انہیں نہ تواصل احکامِ الاہی پر سوچنے اور عمل کرنے کا موقعہ ملا اور نہ عقیدہ و اخلاق کے پاکیزہ اصولوں کو اپنا سکے۔ نتیجۃ، اصل دین سے بے خبر رہے اور بعض اوھام کو اصل دین گرداننے لگے۔
فرقہ بندی کے آغاز کی کیفیت
انسان کی سوچ اور عقل محدود ہوتی ہے، اس لیئے اھلِ ایمان کو حکم ہؤا کہ احکام و مسائل میں کرید مت کیا کرو۔ بس جو حکم ملے اس پر عمل کیا کرو۔ اس میں حسب ذیل ہدایات دی گئی ہیں۔
1۔ ارشاد ربانی ہے: یٰا یھا الذین آمنوا لا تسئلوا عن اشیاء ان تبد لکم تسؤکم ا ان تسئلوا عنھا حین ینزل القرآن تبدلکم، عفا اللہ عنھا۔ واللہ غفور حلیم۔ 101۔ قد ساءلھا قوم من قبلکم ثم اصبحوا بھاکافرین۔ (المائدۃ-101، 102) اے ایمان والو ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کردی جائیں تو وہ تمہیں ناگوار ہوں۔ لیکن اگر تم انہیں اس وقت پوچھوگے جب کہ قرآن نازل ہورہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی۔ اب تک جو کچھ تم نے کیا اسے اللہ نے معاف کردیا۔ وہ درگذر کرنے والا اور بردبار ہے۔ تم سے پہلے ایک گروہ نے اسی قسم کے سوالات کیئے تھے پھر وہ لوگ انہی باتوں کی وجہ سے کفر میں مبتلا ہوگئے ۔
2۔ ایک مرتبہ آپﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا: ایھاالناس، قد فرض اللہ علیکم الحج، فحُجُّوا، فقال رجل: اکل عام یا رسول اللہ؟ فسکت، حتیٰ قالھا ثلاثاً، فقال رسول اللہ: "لو قلتُ: نعم، لوجبت و لما استطعتم۔" ثم قال: ذرونی، ما ترکتُکم، فانما ھلک مَن کان قبلکم بکثرۃ سؤالھم و اختلافھم علیٰ انبیائھم، فاذا امرتکم بشیء فاءتوا منہ ما استطعتم، و اذا انھیتکم عن شیء فدعوہ ۔ لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے۔ لھٰذا حج ادا کرو یہ سن کر کسی صحابی نے پو چھا: اللہ کے رسولﷺ کیا ہر سال حج کریں؟ آپﷺ نے ان کا سوال سن کا کچھ خاموشی اختیار کرلی اور اس شخص نے اپنا سوال تین مرتبہ دہرایا، پھر آپﷺ نے فرمایا: اگر میں کہتا: "ہاں" تو حج ہر سال فرض ہو جاتا اور تم ہر سال حج نہ کر پاتے، پھر فرمایا: جب تک میں تمہیں کوئی حکم نہ دوں تب تک مجھ سے کوئی بار نہ کرو، تم سے پہلے کے لوگ محض اس لیئےتباہ ہوئے کہ وہ اپنے انبیاء کے پاس بار بار آکر ان سے بکثرت سوال و جواب کرتے تھے۔
اس لیئے میں جب تمہیں کوئی حکم دوں تو تم حتی الوسع اسی پر عمل کرو اور جس چیز سے تمہیں منع کروں تو اس کو چھوڑدو۔
3- عن عبد اللہ بن عَمرو قال ھجَّرتُ الیٰ رسول اللہ ﷺ، یوماً، قال: فسمع اصوات رجُلَینِ اختلفا فی آیۃ، فخرج علینا رسول اللہ ﷺ یعرف فی وجھہ الغضب فقال: انَّما ھلک من کان قبلکم باختلافھم فی الکتابِ ۔
حضرت عبداللہ بن عَمرو بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں گرمی کے وقت میں نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت دو آدمی قرآن مجید کی کسی آیت کی تشریح میں اختلاف کررہے تھے۔ ان کا شور سن کر آپﷺ باہر تشریف لائے اس وقت آپﷺ کے چہرے انور پہ غصہ ٹپک رہا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے لے لوگ محض اس لیئے تباہ ہوئے کہ وہ اپنی اپنی کتابوں کی تشریح میں اختلاف کرتے تھے۔
علامہ نووی اور علامہ ابی نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا کہ، سابقہ امتوں کے لوگ دین میں بدعات بکھیرنے اور اس میں شدت پسندی کے نتیجے میں اصل دین کا انکار کرنے کی وجہ سے تباہ ہوئے۔
4- شیخین (بخاری اور مسلم) ایک روایت بیان کرتے ہیں: کسی شخص نے حاضر ہو کر آپ ﷺ سے ارکانِ اسلام کی تعلیم حاصل کی جب آپﷺ نے اسے ارکانِ اسلام کی تعلیم سے نوازا تو وہ شخص جاتے وقت کہنے لگا: "اللہ کی قسم میں اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کرونگا" اس کی یہ بات سن کر آپ ﷺ نے فرمایا: اگر اس نے ایسا کیا تو جنت میں جائے گا ۔
5- ایک مرتبہ حضرت عمر بن الخطاب خود کلامی کرنے لگے اور اکیلے میں اپنے آپ سے کہنے لگے: "یہ امت کیسے اختلاف کرسکتی ہے جبکہ اس کا نبی ایک ہی ہے؟"
حضرت ابن عباس نے ان کی بات سن کر جواباً کہا: امیر المؤمنین! سنو، قرآن براہ راست ہم پر اُترا اور ہم نے ہی اِسے سمجھا کہ کس مقصد سے اس کے احکام نازل ہوئے۔ لیکن ہمارے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن مجید کی تلاوت تو کریں گے لیکن اس پس منظر کو نہیں جانتے ہونگے جس میں یہ نازل ہؤا تھا۔ اس وجہ سے ہر گروہ اس میں اپنی اپنی رائے سے باتیں کرے گا یوں وہ آپس میں اختلاف کریں گے۔
اس روایت کے ایک راوی سعید نے کہا: ہر گروہ کی اپنی اپنی رائے ہوگی، جب ہرگروہ کی اپنی اپنی رائے ہوگی تو اختلاف کریں گے۔ جب اختلاف کریں گے تو آپس میں الجھ جائیں گے یہ سن کر حضرت عمر نے حضرت ابن عباس کو ڈانٹا اور حضرت علی نے (جو اس وقت موجود تھے) حضرت ابن عباس کو جھڑکا تو حضرت ابن عباس واپس تشریف لے گئے، لیکن حضرت عمر مسلسل اس مسئلہ پہ سوچتے رہے۔ بالآخر انہیں حضرت ابن عباس کی بات سمجھ میں آگئی اور انہیں بلا کر کہا: اپنی بات ایک بار پھر سنا، حضرت ابن عباس نے انہیں وہی بات پھر سنائی تو حضرت عمر کو ان کہ بات اچھی طرح سمجھ میں آئی اور پسند بھی ہوئی ۔
6- ایک شخص امام مالک کی خدمت میں حاضر ہؤا اور پوچھا: اللہ نے فرمایا: الرحمان علی العرش استویٰ (طہ:5) (اللہ) رحمان کائنات کے تخت پر جلوہ فرما ہے۔
رحمان عرش پر کیسے جلوہ فرما ہے؟ یہ سوال سن کر حضرت امام مالک اتنے غمزدہ ہوئے کہ پسینہ سے شرابور ہوئے اور ایک تیلی سے زمین پر کھودنے لگے کچھ دیر بعد سر اٹھاکر تیلی پھینک دی اور فرمیا: جلوہ فرمائی کی کیفیت ہماری سمجھ میں آنے والی نہیں ہے، جلوہ فرمائی چھپی ہوئی بات نہیں ہے، کائنات کے تخت پر اللہ کی جلوہ فرمائی پر ایمان لانا فرض ہے، اور اس بارے میں کریدنا بدعت (نئی بات پیدا کرنا) ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ تو بدعت پسند ہے۔ اس کے بعد امام مالک نے حکم دیا کہ اس لو مجلس سے نکال دو۔ چنانچہ اس کو مجلس سے نکال دیا گیا ۔
فرقہ بندی کے آغاز کی کیفیت کے حوالے سے میں نے ابھی جن چھ باتوں کا ذکر کیا ہے ان میں قدر مشترک یہ ہے کہ عام طور پر لوگ اصلِ دین پر عمل کرنے کے بجائے، دین ہی کے حوالے سے ان باتوں کو اہمیت دینے لگتے ہیں جن کو خود دین دینے والے ( اللہ) نے اہمیت نہیں دی، ایسے لوگوں کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا : ان اللہ فرض فرائض فلا تضیعوھا و حرم حرمات فلا تنتھکو ھا ا حدّ حدوداً فلا تعتدوھا اسکت عن اشیاء من غیر نسیان فلا تبحثوا عنھا ۔ اللہ نے کچھ احکام حتمی طور پر مقرر کیئے ہیں ان سے بے اعتنائی نہ برتنا، کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، ان کی خلاف ورزی نہ کرنا کچھ پابندیاں عائد کی ہیں ان کو نہ توڑنا، کچھ چیزوں کا ذکر جان بوجھ کر نہیں کیا، تم ان کو نہ چھیڑنا۔
آپﷺ نے دین پر عمل کرنے کا حتمی اور واضح طریق کار بیان فرمایا کہ فرائض پر عمل کرنے کے پابند بنو، حرام کی ہوئی چیزوں کا ذکر اللہ نے جان بوجھ کر نہیں کیا ان کو مت چھیڑو۔ (یہ ہے اصل دین پر عمل پیرا ہونے کا خاکہ) یعنی جو شخص:
1۔ فرائض اللہ کی پابندی کرتا ہو
2۔ اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے اجتناب کرتا ہو۔
3۔اللہ نے جو پابندیاں اس پر عائد کی ہیں وہ ان کو نہ توڑتا ہو، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ
4۔ جن چیزوں کا حکم اللہ نے جان بوجھ کر نہیں دیا وہ ان کو نہیں چھیڑتا۔
تو ایسا شخص صحیح معنوں میں اللہ کا بندہ ہے اور اس کے عطا کیئے ہوئے دین پر عمل کرنے والا حقیقی دیندار ہے، یہ شخص اپنے ذاتی رجحانات کا نہیں بلکہ احکامِ الاہی پر چلنے والا بندہء خدا ہے۔

فرقہ بندی کیا ہے؟
انسان کی فطرت میں یہ بات ودیعت کردی گئی ہے کہ اس کے دنیوی یا دینی مفادات میں اس کو جو چیز اچھی لگتی ہے اسے اپنالیتا ہے، خواہ عقلا، شرعاً یا اخلاقا وہ اچھی نہ بھی ہو پھر اس پر عمل درآمد کے لیئے اور اس کو تقویت پہونچانے کے لیئے سوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے اور اپنے گِرد جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب اس طرح کی کاوش دینی امور میں کی جاتی ہے اس کو "فرقہ بندی" کہا جاتا ہے، دینی امور میں اختلافِ رائے ہو تا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ولا یزالون مختلفین (ھود:118)۔ لوگ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے۔ لیکن اختلاف کی اجازت کن امور میں اور کس حد تک ہے، اس سلسلے میں علماء کی آراء حسبِ ذیل ہیں:
1-علامہ نووی فرماتے ہیں؛ قرآن مجید (جو دینِ اسلام کی تعلیمات کی بنیاد ہے، اس) کے بعض احکام کی تعبیر و تشریح میں جس اختلاف کو علماء نے ناجائز قرار دیا ہے، وہ یہ ہے کہ خود قرآن مجید کے بارے میں یا اس کے اُس بیان میں کرید کرید کر اختلاف کا ذکر کیا جائے دو لوگوں کو شک میں ڈالے یا فتنہ بپا کردے اور جھگڑا کھڑا کردے یا قرآن مجید کی کسی بات کی غلط تعبیر یا تفسیر کی جائے جس کا دین کی اصل تعلیمات سے کوئی تعلق نہ ہو اور نہ اس پر کوئی ٹھوس اور واضح دلیل ہو۔ (یہ تو ہوئی اصول دین کی بات)۔ لیکن فروعِ دین میں استنباط و اجتھاد اور اھلِ علم کے ساتھ اس میں تبادلئہ آراء کرنا تا کہ صحیح بات واضح ہو جائے اور حق بات کو دلائل سے شمجھا جائے اور اس میں ایک دوسرے سے بغیر کسی انتھا پسندی اور ہوائے نفس (بغیردلیل کے محض ذاتی رجحان کی بنیاد پر) کے اختلافِ رائے کیا جائے۔ یہ سب کچھ ممنوع نہیں ہے۔ بلکہ مستحسن ہے۔ یہ امتِ مسلمہ کی واضح شان ہے کہ وہ مسائل پر کھلے دل سے غور کرتے ہیں۔ صحابہ کرام کے دور سے آج تک مسلمان اس بات پر متفق چلے آرہے ہیں ۔
2- صاحبِ عون المعبود نے بھی علامہ طاھر البغدادی (متوفی 429ھ) کے حوالے سے تقریباً ایسی ہی حقیقت بیان کی ہے ۔
3- کچھ مختصراً لیکن یہی بات علامہ ابو اسحاق شاطبی (متوفی 790ھ) نے بھی فرمائی ہے ۔
4- علامہ شاطبی مزید فرماتے ہیں:
اپنے ذہن کے اختراعات کو دین کی اصل تعلیمات قرار دینا یا اس میں نئی نئی باتیں ملادینا یا دین کے اصل احکام و عقائد میں اپنے اوھام و قیاسات نیز عقلی فلسفیاتی دلائل کی بنیاد پر اس میں کمی بیشی کرنا یا احکام کی اہمیت میں ردوبدل کرنا اہم کو غیر اہم اور غیر اہم کو اہم قرار دینا یا دین کے کسی مستقل حکم کو دین ہی سے نکال دینا۔ فروعی اور جزوی فقہی مسائل میں موشگافیاں کرکرکے ان کے لیئے کھینچے تانے کے دوران کار دلائل و تاویلات ڈھونڈ نکالنا۔ مقدس ہستیوں اور مقدس مقامات کے احترام میں غلوّ سے کام لینا اور اس کی بنیاد پر جماعت بندی کرکے اپنی ہی جماعت کو اسلامی جماعت قرار دینا اور دوسروں دو اسلام سے خارج قرار دینا یا دنیا کے تغیّرات سے متاثر ہو کر کسی غیر مباح چیز کو مباح قرار دینا، یا مباح چیز کو غیر مباح قرار دینا۔ اسی طرح عقائد و عقیدت نیز ذکرو اذکار میں ایسی ملاوٹیں کردینا جو قرآن و سنت سے ثابت نہیں ہیں عام علماءِ حق کی تعلیمات کے برعکس رائے زنی کرنا اور ان پر زور دینا اور ان پر دھڑے بندی کرنا یہ اور اس قسم کی دوسری چیزیں فرقہ بندی کے زمرے میں آتی ہیں ۔
5۔ اس کی مزید وضاحت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے یوں فرمائی: اصل دین ہمیشہ سے یہ رہا ہے اور اب بھی یہی ہے کہ ایک خدا کو اِلٰہ اور ربّ مانا جائے۔ اللہ کی ذات، صفات، اختیارات اور حقوق میں کیسی کو شریک نہ کیا جائے۔ اللہ کے سامنے اپنے آپ کو جوابدہ سمجھتے ہوئے آخرت پر ایمان لایا جائے اور ان وسیع اصول و کلّیات کے مطابق زندگی بسر کی جائے جن کی تعلیم اللہ نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعے سے دی ہے ۔
مذکورہ پانچ آراء کا احاطہ سید ابوالاعلی مودودی نے اپنی حسب ذیل رائے میں کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
قرآن مجید (جو اسلامی تعلیمات کا اصل ماخذ ہے) اس صحت بخش اختلافِ رائے کا مخالف نہیں ہے جو دین میں متفق، اور اسلامی نظامِ جماعت میں متحد رہتے ہوئے محض احکام و قوانین کی تعبیر میں مخلصانہ تحقیق کی بنا پر کیا جائے، بلکہ وہ مذمت اُس اختلاف کی کرتا ہے جو نفسانیت اور کج نگاہی سے شروع ہو اور فرقہ بندی و نزاعِ باہمی تک نوبت پہچادے۔ یہ دونوں قسم کے اختلاف نہ اپنی حقیقت میں یکساں ہیں نہ اپنے نتائج میں ایک دوسرے سے کوئی مشابہت رکھتے ہیں کہ دونوں کو ایک ہی لکڑی سے ہانک دیا جائے۔ پہلی قسم کا اختلاف تو ترقی کی جان اور زندگی کی روح ہے، وہ ہر اس سوسائٹی میں پایا جائےگا جو عقل و فکر رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ہو۔ اس کا پایا جانا زندگی کی علامت ہے اور اس سے خالی صرف وہی سوسائٹی ہو سکتی ہے جو ذہین انسانوں سے ہیں بلکہ لتڑی کے کندوں سے مرکب ہو۔ رہا دوسری قسم کا اختلاف، تو ایک دنیا جانتی ہے کہ اس نے جس گروہ میں بھی سر اٹھایا اس لو پراگندہ کرکے چھوڑا اس کا رونما ہونا صحت کی نہیں بلکہ مرض کی علامت ہے اور اس کے نتائج کبھی کسی امت کے حق میں بھی مفید نہیں ہو سکتے۔
ان دونوں قسم کے اختلافات کا فرق واضح طور پر یوں سمجھ لیجیئے: ایک صورت تو وہ ہے جس میں خدا اور رسول ﷺ کی اطاعت پر جماعت کے سب لوگ متفق ہوں۔ احکام کا مآخد بھی باالاتفاق قرآن اور سنت کو مانا جائے۔ اور پھر دو عالم کسی جزوی مسئلے کی تحقیق میں، یا دو قاضی کسی مقدمے کے ایک فیصلے میں ایک دوسرے سے اختلاف کریں۔ مگر ان میں سے کوئی بھی نہ تو اس مسئلے کو اور اس میں اپنی رائے کو مدارِ دین بنائے اور نہ اس سے اختلاف کرنے والے کو دین سے خارج قرار دے۔ بلکہ دونوں اپنے اپنے دلائل دے کر اپنی حد تاک تحقیق کا حق ادا کریں۔ اور یہ بات رائے عام پر، یا اگر عدالتی مسئلہ ہو تہ ملک کی آخری عدالت پر، یا اگر اجتماعی معاملہ ہو تو نظامِ جماعت پر چھوڑیں کہ وہ دونوں رایوں میں سے جس کو چاہیں قبول کریں، یا دونوں کو جائز سمجھیں۔
دوری صورت یہ ہے کہ اختلاف سرے سے دین کی بنیادوں ہی میں کر ڈالا جائے، یا یہ کہ کوئی عالم یا صوفی یا مفتی یا متکلّم یا لیڈر کسی ایسے مسئلے میں جس کو خدا اور رسولﷺ نے دین کا بنیادی مسئلہ قرار نہیں دیا تھا۔ ایک رائے اختیار کرے اور خواہ مخواہ کھینچ تان کر اس کو دین کا بنیادی مسئلہ بنا ڈالے، اور پھر جو اس سے اختلاف کرے اس کو خارج اس دین و ملت قرار دے، اور اپنے حامیوں کا ایک جتھا بناکر کہے کہ اصل امتِ مسلمہ بس یہ ہے، اور باقی سب جھنمی ہیں، اور ہانک پکار کہے کہ مسلم ہے تو بس اس جتھے میں آجا ورنہ تُو مسلم ہی نہیں ہے۔
قرآن مجید نے جہاں کہیں بھی اختلاف اور فرقہ بندی کی مخالفت کی ہے اس سے اس کی مراد یہ دوسری قسم کا اختلاف ہی ہے۔ رہا پہلی قسم کا اختلاف تو اس کی متعدد مثالیں خود نبی ﷺ کے سامنے آچکی تھیں۔ اور آپ ﷺ نے صرف یہی نہیں کہ اس کو جائز رکھا، بلکہ اس کی تحسین بھی فرمائی، اس لیئے کہ وہ اختلاف تو اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ جماعت میں غور و فکر اور تحقیق و تجسّس اور فہم و تفقّہ کی صلاحیتیں موجود ہیں اور جماعت کے ذہین لوگوں کو اپنے دین سے اور اس کے احکام سے دلچسپی ہے۔ اور ان کی ذہانتیں اپنے مسائل ِزندگی کا حل دین کے باہر نہیں بلکہ اس کے اندر ہی تلاش کرتی ہیں۔ اور جماعت بحیثیت مجموعی اس زرّین قاعدے پر عامل ہے کہ اصول میں متفق رہ کر اپنی وحدت برقرار رکھے اور پھر اپنے اہل علم و فکر کو صحیح حدود کے اندر تحقیق و اجتھاد کی آزادی کے کر ترقی کے مواقع بھی باقی رکھے ۔ خلاصہ یہ کہ صحت مند اختلاف، جس میں کج نگاہی نہہو، خلوصِ دل سے مسائل کی اصل حقیقت کو سمجھنا مقصود ہو اور اپنی رائے دوسروں کو منوانا مقصود نہ ہو اور جو نہ مانے اس کو خارج از ملت قرار دینے کا فتویٰ نہ ہو اور اپنی رائے کو منوانے کے لیئے جتھہ بندی نہ ہو تو اس قسم کا اختلاف صحت مند اختلاف ہے اس لو امت کے لیئے رحمت قرار دیا جاتا ہے، اور یہ فرقہ بندی کے زمرے میں نہیں آتا۔

فرقہ بندی کے محرّکات
1۔ اگرچہ فرقہ بندی کے محرکات میں کئی چیزوں کو شمار کیا جاتا ہے تاہم اس کی اہم وجہ اللہ رب العزۃ نے باہمی کشمکش اور ایک دوسرے پر فوقیت حاصل کرنے کو قرار دیا ہے۔ لوگ حق و باطل کو پوری طرح سے جاننے کے باوجود یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دین سے متعلق جو کچھ ہم نے سمجھا ہے وہی حق ہے۔ اس میں ہمیں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ لوگوں کے اس طرز عمل کو اللہ جل جلالہ نے لفظ "بغیاً" سے تعبیر کیا ہے۔ اس مفہوم کے لیئے یہ لفظ سورت البقرۃ کی آیت 213، سورت آل عمران کی آیت 19، سورت الشوریٰ کی آیت 13، 14، اور سورت الجاثیہ کی آیت 16، 17 میں وارد ہؤا ہے۔
سورت البقرۃ میں پہلے یہ بتایا گیا کہ لوگ شروع میں ایک ہی ملت پر قائم تھے۔ پھر دینی طور پر مختلف آراء و عقائد اپنانے لگے، تو اللہ نے اپنے پیغمبر بھیجے جنہوں نے ان کو اصل دین کی حقیقت واضح کرکے بتائی اور سمجھایا کہ تم نے جو خیلات و عقائد اپنائے ہیں اور ان پر عمل پیرا ہونے لگے ہو وہ سب کے سب باطل ہیں اصل دین کی حقیقت تمہارے عقائد و اعمال سے یکسر مختلف ہے، لہذا اب جولوگ ہماری ہدایات کے مطابق چلیں گے انہیں ان کا رب اپنی نعمتوں سے نوازے گا اور جو لوگ ہماری ہدایات سے سرتابی کریں گے، انہیں ان کا رب سخت ترین سزادی گا۔
انہیں ان کے پیغمبروں نے عقائد و اعمال پوری طرح سے واضح کر کے بتائے پیغمبروں نے اللہ کے احکام انہیں تحریری (کتاب کی شکل میں) بھی دیئے اور عملاً کرکے بھی دکھائے۔ جو لوگ پیغمبروں پر ایمان لائے سہ اصل دین پر عمل کرنے لگے۔ لیکن کچھ ہی مدت گذرنے کے بعد ان کے درمیاں دین سے متعلق عقائد و احکام کے بارے میں اختلافات رونما ہونے لگے جو رفتہ رفتہ بڑھتے رہے اور ان میں فرقہ بندی اور دوری ہوتی گئی۔ فرقہ بندی کی بینیا دی اور اہم وجہ یہ تھی کہ لوگ ایک دوسرے پر ہر طرح سے زیادتے کے خواہش مند تھے۔ دنیوی عزّوجاہ کے اعتبار سے بھی اور اُخروی اور مذھبی اعتبار سے بھی۔ ہر گروہ اپنے آپ کو دوشروں سے اونچا اور برحق تسلیم کروانے پر تُلا ہوا تھا۔ وہ اللہ جل شانہ کی اطاعت اس کی دی ہوئی ہداتات کے بجائے اپنے ایجاد کردہ طور طریقوں سے کرنے اور کروانے لگے تھے۔
ان کے اس رویئے کو بیان کرتے ہوئے اللہ جل شانہ نے فرمایا:--- وما اختلف فیہ الا الذین اوتوہ من بعد ما جاء تھم البینات بغیا بینھم۔۔۔۔ البقرۃ-213۔ – اختلاف ان لوگوں نے کیا، جنہیں حق کا علم دیا جاچکا تھا۔ انہوں نے روشن ہدایات پالینے کے بعد محض اس لیئے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتے کرنا چاہتے تھے۔
سورت آل عمران کی آیت 19 میں بتایا گیا کہ: ان الدین عند اللہ الاسلام: اللہ کے نزدیک قابل اعتبار دین اسلام ہی ہے۔
یعنی بندہ، اپنی بندگی میں بہرطور اللہ ہی کے حکم کا پابند ہے، بندگے کے طور طریقوں میں ان لوگوں نے اختلافات پیدا کیئے جنہوں نے اپنی جائز حد سے بڑھ کر حقوق، فائدے اور امتیازات حاصل کرنے چاہے، اور اپنی خواہشات کے مطابق اصل دین کے عقائد، اصول اور احکام میں ردوبدل کر ڈالا۔
سورت الشوریٰ میں پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ تمہارے (اس آخری امت) کے لیئے وہی دین مقرر کیا گیا ہے جو اس سے پہلے نوحؑ، ابراھیمؑ، اور موسیٰؑ کو دیا گیا تھا، ان کو یہ تاکید بھی کی گئی تھی کہ اس دین پر ثابت قدم رہو اور اس میں فرقہ طرازی نہ کرو، لیکن (اس امت کے) مشرکین کو یہ بات سخت ناگوار ہوئی، اللہ تعالیٰ اپنی رسالت کے لیئے جسے چاہے چن لیتا ہے۔ اور جو اللہ کی طرف مائل ہوتا ہے، اللہ اسے راہِ ہدایت سے نوازتا ہے۔ اب رب کی طرف سے ہدایات آجانے کے بعد لوگ، ہدایاتِ الاہی کے بارے میں متفرق باتیں کررہے ہیں۔ جبکہ ان کے پاس اس کا علم بھی ہے، ان کی اس ہٹ دھرمی کی اصل وجہ، ایک دوسرے پر فوقیت حاصل کرنا ہی ہے۔
سورت الجاثیہ میں پہلے یہ بتایا گیا کہ بنی اسرائیل کو کتاب دی گئی اور اس پر عمل کرنے کا حکم (طریقہ) سمجھانے کے لیئے انبیاء بھیجے گئے جنہیں دین کے واضح احکام دیئے گئے تا کہ وہ اپنی اپنی امتوں کو دین کی تعلیم دیں۔ لیکن ان کے پاس دین کی تعلیم آجانے کے بعد کہ لوگ تفرقہ بازی میں اس لیئے لگ گئے کہ وہ ایک دوسرے پر زیادتی کرتے تھے۔
مطلب یہ کہ اللہ کے بندوں پر اللہ کی اطاعت فرض ہے، اور وہ بھی اُس طریقے سے جو اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے انہیں بتایا ہے۔ وہ اصلِ دین پر عمل کے پابند ہیں۔ فروعاتِ دین سے متعلق جس شخص یا جس گروہ نے جس چیز کو حق سمجھا ہے وہ اس پر عمل کا پابند ہے اس میں کسی شخص یا گروہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کو دین سے متعلق اپنی رائے کا پابند بنانے کی کوشش کرے یا اس پر عمل کرانے کے لیئے فرقہ سازی کرے۔ یہ دین کے معاملے میں اس کی زیادتی شمار ہوگی جو بالآخر اصلِ دین پر عمل کے بجائے ان کے ذاتی رجحانات پر عمل کا موجب ہوا۔ اور اسی چیز کی اللہ تعالیٰ نے مذمت کی ہے۔
2۔ فرقہ بندی کا دوسرا محرک، اِتّباعِ ھویٰ ہے۔ اِتّباع ھویٰ کا مطلب ہے ذاتی رجحان کو فوقیت دینا اور وہ راہ اپنانا جس کی پشت پر نہ دلیل و حجت ہو اور نہ اس میں کوئی معقولیت نظر آتی ہو۔ حکمت و دانائی اسے رد کرتے ہوں اور دین اس سے روکتا ہو، وہ راہ، راہگیر کو بالآخر ہلاکت میں ڈالتی ہو۔
ایسے لوگ شریعت کے احکام کی تحسین و تقبیح کو اپنی عقل و دانش کے معیار پر پرکھتے ہیں پس اگر انہیں کسی چیز میں دوئی خوبی نظر آتی ہے اور شریعت بھی اس کی خوبی بیان کرتی ہے تو وہ اس خوبی کو اپنی عقل کا فیصلہ باور کرتے ہیں اور شریعت کو اس فیصلہ کی تائید کنندہ گردانتے ہیں بنا بریں یہ لوگ شریعت مطھرہ کے حتمی قواعد و احکام کو مان مانی تاویلات سے وقتی مصلحتوں اور تقاضوں سے منسلک کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب چونکہ وہ مصلحتیں باقی نہیں رہیں یا ان میں تبدیلی آگئی ہے جن کے پیشِ نظر یہ قواعد و احکام وضع کیئے گئے تھے اس لیئے اب یہ احکام سرے سے باقی نہیں رہے یا ان میں ازخود ردوبدل آگیا ہے۔ اس طرح وہ شریعت کے حتمی احکام تک کا تیا پانچا کردیتے ہیں۔ پھر اپنی اس کاوش کو معاشرے میں پھلانے اور اس کو رواج دینے کے لیئے تنظیم سازی کر کے عملاً ایک فرقہ بنا لیتے ہیں۔ اور اپنی تنظیم کو مضبوط و مؤثر بنانے کے لیئے لوگوں میں جا پہنچتے ہیں اور انہیں مجتمع کر کے ایک مضبوط ٹولا بنا لیتے ہیں، جو اصل اور حتمی شرعی احکام کے بدلے (بدلتے حالات کے بہانے) تبدیل شدہ شریعت پیش کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ جل جلالہ فرماتے ہیں: و من اضلّ ممن اتبع ھواہ بغیر ھدیً من اللہ۔۔۔ (القصص-50) اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا لے جو کہ اللہ کی عطا کی ہوئی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کرتا ہے؟!۔
دینی امور میں غور و فکر کی راہ میں بڑی پھسلن ہؤا کرتی ہے۔ اس لیئے بسا اوقات نہایت نیک جذبے سے سوچنے والے مفکرین بھی اس راہ میں پھسل جاتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: انّی اخاف علیٰ امّتی من بعدی من اعمال ثلاثۃ، قالوا و ماھی یا رسول اللہ؟ قال اخاف علیکم من زلّۃ العالم و من حکم جائر و من ھویً متبع ۔ میں اپنے بعد اپنی امت کے تین کاموں سے خائف ہوں، لوگوں نے عرض کی: اللہ کے رسول وہ تین کام کون سے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (علمی کام میں) عالم کے پھسلنے سے، (حکمرانی میں) حاکم کے جبر سے اور (عامی کے) خواہشاتِ نفس کی پیروی سے۔ اس حدیث کی رو سے ان تینوں خطروں میں سے دو داخلی ہیں یعنی عالم کی لغزش اور خواہشاتِ نفس کی پیروی، اور تیسرا یعنی حاکم کا جبر خارجی ہے، جس کا مقابلہ بسا اوقات کیا جا سکتا ہے، لیکن عالم کی لغزش اور خواہشاتِ نفس پر کیونکر قابو پایا جا سکتا ہے؟!
3۔ فرقہ بندی کا تیسرا محرک، صدیوں سے رائج مذھبی طور طریقوں پر جمے رہنے کا جوش و جذبہ، غفلت اور دین کی طرف عدم توجھی کے باعث اہم دینی حقائق پر غلط سوچ کی گرد وغبار، دین کی غیر حقیقی چیزوں کو حقیقی اور حقیقی چیزوں کو غیر حقیقی بنا دیتی ہے۔ اور وہ اس طرح کہ جب لوگ کین کی پیروی کو اہمیت نہیں دیتے اور دین سے متعلق حق و باطل میں تمییز نہیں کرتے تو ہر کس و ناکس کے ان اعمال و عقائد کی طرف متوجہ ہونا شروع کرتے ہیں جو دین سے قطعاً متعلق نہیں ہوتے، جبکہ ان کا مجموعی تصور یہ ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں، ان کے جو خیالات و عقائد ہین بس وہی دین ہے یہ سوچے سمجھے بنا کہ یہ دین آیا کہاں سے ہے؟ اس پر کوئی دلیل و حجت بھی ہے؟ جب اِن سے دلیل و حجت کی بات کی جاتی ہے تو کہتے ہیں: بل وجدنا آبائنا کذٰلک یفعلون۔ (الشعراء:74) ہم تو آباء و اجداد سے یہی دین دیکھتے آرہے ہیں۔
بغیر کسی دلیل و حجت کے اپنے گردو پیش کے مروّج خیالات و عقائد کو دین سمجھ بیٹھنا اور ان پر جم جانا اور اس طرزِ عمل کو اتنا پھیلانا کہ اصل دین جو دلیل و حجت کی بنیاد پر مبنی ہوتا ہے اسے پسِ پشت ڈال دینا اور اپنے اعمال و عقائد جن پر کوئی دلیل و حجت نہ ہو اس کو دین سمجھنا اصل گمراہی ہے۔
4۔ ان تینوں محرکات کی اصل اور بنیادی وجہ، دین کے مقصد سے غفلت ہے، اور وہ ہے دینِ اسلام کو سب ادیان پر غالب کردینا، فرمانِ الاہی ہے: ھو الذی ارسال رسولہ بالھدیٰ و دین الحقِ لیظھرہ علیٰ الدّین کلّہ۔ ۔۔۔۔ (التوبہ:33، الفتح، 28، الصف: 9) وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر اس لیئے بھیجا تا کہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کردے۔ اللہ جل جلالہ کا یہ ارشاد قرآن مجید میں تین مرتبہ واقع ہؤا ہے، جس سے معلوم ہؤا کہ دین اسلام کے دوسرے ادیان پر غلبہ کی اللہ کے نزدیک کتنی اہمیت ہے اور ہر مرتبہ اللہ نے اپنے رسول کی بعثت کا اصل مقصد، دین اسلام کا دوسرے ادیان پر غلبہ کو قرار دیا۔ لیکن یہ مقصد کیسے حاصل ہوگا؟ اس کا جواب اللہ جل جلالہ نے کچھ اس طرح دیا ہے: و قاتلوھم حتیٰ لا تکون فتنۃ و یکونَ الدین کلہ للہ۔۔۔ (الانفال:39) اے ایمان والو، ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ (یعنی دین، اللہ کے بجائے کسی اور کے لیئے ہو) باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیئے ہو جائے۔ ۔۔
یعنی دنیا کے نظامِ زندگی میں بالا دستی دین اسلام کی ہو، رسول اللہ ﷺ کی بعثت اس غرض کے لیئے نہیں ہوئی کہ جو نظامِ زندگی لے کر وہ آئے ہیں اس کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائشوں میں سمٹ کررہے، بلکہ وہ بادشاہِ ارض و سماء کا نمائندہ بن کر آتا ہے اور اپنے بادشاہ کے نظامِ حق کو غالب دیکھنا چاہتا ہے، اگر کوئی دوسرا نظامِ زندگی دنیا میں رہے بھی تو اسے خدائی نظام کی بخشی ہوئی گنجائشوں میں سمٹ کر رہنا چاہیئے۔
اللہ تعالیٰ نے دوسرے ادیان پر دین اسلام کو غالب کرنے کے لیئے، مخالفینِ اسلام سے جنگ کا حکم دیا، اب ظاہر ہے کہ جنگ باہمی جدل و جدال کی حالت میں نہیں لڑی جا سکتی، اسی لیئے اللہ رب العزۃ نے فرمایا: یٰا یھا الذین آمنوا اذا لقیتم فئۃً فاثبتوا واذکرواللہ کثیراً لعلکم تفلحون۔45۔ و اطیعوا اللہ و رسولہ و لا تنازعوا فتشلوا و تذھب ریحکم واصبروا ان اللہ مع الصابرین۔46۔ (الانفال:45-46)
اے ایمان والو، جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہوگی اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائےگی اور تمہا ری ہوا اکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اللہ جال جلالہ نے آپﷺ کی بعثت کا مقصد، دینِ اسلام کو دوسرے تمام ادیان پر غالب کردینا قرار دیا، پھر یہ غلبہ، کافروں سے جنگ کر کے حاصل کرنے کا حکم دیا پھر فرمایا کافروں سے جنگ میں ثابت قدم رہو، اور آپس میں نہ جھگڑو کہ تم کمزور ہو جاؤ اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے۔ اب ظاہر ہے کہ جو لوگ دین کے بنیادی مقصد (غلبہء اسلام) سے پوری طرح سے واقف ہونگے اور ان میں یہ مقصد حاصل کرنے کا جذبہ ہوگا وہ آپس ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ




 

LIAQAT ALI KHOSO
About the Author: LIAQAT ALI KHOSO Read More Articles by LIAQAT ALI KHOSO: 18 Articles with 26900 views Remained Law officer in Culture Department Govt: of Sindh, remained Deputy Director Law and Assets investigation Narcotics Control Division Government.. View More