پیسہ تمام برائیوں کی جڑ ہے جو غربت کو جنم دیتا ہے

سماجی برائیاں وہ مسائل ہیں جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر معاشرے کے ارکان کو متاثر کرتی ہیں اور انہیں تنازعہ یا اخلاقی اقدار کے حوالے سے ایک مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ ذات پات کا نظام، غربت، جہیز کا نظام، صنفی عدم مساوات، ناخواندگی وغیرہ وہ عام سماجی برائیاں ہیں جو ہمارے معاشرے میں عام طور پر کثرت سے پائی جاتی ہی۔۔ ان میں پیسے کا حصول انتہائی اہمیت رکھتا ہے اور یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے کیسے حاصل کریں۔ پیسہ محنت سے یا پھر بغیر محنت کے کمایا جا سکتا ہے۔ کسی بھی منزل کو پانے کیلئے بھرپور محنت اور طویل جدوجہدکی ضرورت ہوتی ہے، پیسہ کمانا ہی ہمارا مطمع نظر نہیں ہونا چاہیئے بلکہ پیسے کو صحیح جگہ پر استعمال کرکے اس سے مثبت نتائج حاصل کرنا ہی ہمارا مقصد ہونا چاہئے۔

پیسہ ایسی ضرورت ہے جس کے بغیر زندگی کو آگے بڑھانا بہت مشکل ہے کیونکہ ہمیں اپنی روزمرہ کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو زندگی کے لیے بالکل ضروری ہیں جن میں پیسہ اولین حیثیت رکھتا ہے اگر پیسہ میسر ہو تو ان سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔پیسہ ایک ایسی نعمت ہے اگر اسے صحیح طریقے سے سنبھالا جائے اور استعمال کیا جائے تو یہ بہت سی مشکلات کو ٹال دیتا ہے۔ تاہم، اگر کوئی اس کا غلط استعمال کرتا ہے، تو یہ مصیبت لاتا ہے.
موجودہ زمانے میں پیسے کی محبت انسانوں کو درپیش تمام برائیوں کا سبب ہے۔ یہ پیسے کی محبت ہی تو ہے جو انسان کو جرم کرنے پر مجبور کرتی ہے، پاکستان میں موجودہ مہنگائی نے جرائم میں از حد اضافہ کیا ہے۔ روز بروز بازاروں، محلوں اور گلیوں میں ہونے والی وارداتیں اور ان میں قتل و غارت گری مار دھاڑ کے واقعات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ انسان کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ حد یہ ہے کہ منافع خوری کیلئے غریبوں کی لوٹ مار جاری ہے مگر حکومت نے اپنے کان بند کئے ہوئے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ھے کہ قانون معطل ہو چکا ہے اور سب اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ اس طرح کے مخدوش حالات پاکستان میں پہلے کبھی نہی دیکھے گئے۔مُلکی معیشت کی بدحالی کے سبب جنم لینے والی منہگائی اپنی جگہ، لیکن حالات اگر اچھے ہوں، تب بھی تاجر رمضان المبارک میں نرخوں میں مَن مانا اضافہ ضرور کرتے ہیں، گویا اِس ماہ میں منہگائی اور گاہکوں کی لوٹ مار ایک روایت بن چکی ہے، حالاں کہ دنیا میں تاجر ایسے مذہبی تہواروں کے موقعے پر اشیائے ضروریہ پر خصوصی رعایتی پیکیجز دیتے ہیں، مگر پاکستان میں ماہِ رمضان اور عیدین پر اکثر تاجر، دُکان دار اور دیگر کاروباری حضرات مصنوعی منہگائی پیدا کرکے عوام کے صبر کا امتحان لیتے ہیں اور انکی لوٹ مار جاری ہے۔۔ یہ خود غرضی ہے اور صرف اپنے فائدے کیلئیہے پیسے کی ہوس اورمحبت معاشرے میں بے شمار خرابیوں کا سبب بنتی ہے۔

تمام مُلکی وسائل پر اشرافیہ اور منافع خور تاجروں کا قبضہ ہے، جس کی شرح صرف 15، 20 فی صد ہے، جب کہ باقی 80فی صد لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوں صاف پانی، صحت اور تعلیم تک سیمحروم ہیں۔ اگر پیسہ حلال ذرائع سے کمایا جائے تو پیسے کے بھی اچھے پہلو ہوتے ہیں۔

اسے تعمیری کام کرنے اور قوم کی تعمیر کے منصوبوں میں استعمال کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ضرورت مند اور پسماندہ لوگوں کے لئے بہت زیادہ آرام دہ اور زندگی کو پرسکون بناسکتا ہے.اس طرح پیسہ ایک دو دھاری چھری ہے جو ڈاکٹر کے ہاتھ میں ہو تو زندگی بچانے کے آلے کا کام کرتی ہے لیکن اگر مجرم کے ہاتھ میں ہو تو مصیبت لاتا ہے۔ یہ ذہن ہی ہے جو پیسے کا تعمیری یا تباہ کن استعمال کرتا ہے۔

پیسے کی ایک خاص حد سے زیادہ محبت دماغ کو خراب کر دیتی ہے اور توازن کھو دیتی ہے۔ یہیں سے شیطانی چکر شروع ہوتا ہے جہاں انسان ذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے مزید گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔ساتھی انسانوں کے تئیں ہمدردانہ نظریہ ہی پیسے کی خوبیوں کو سامنے لا سکتا ہے۔ پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتا ہیاور زندگی میں آسانیاں پیدا کرتا ہے۔

پاکستانی سماج کا ایک بڑا طبقہ غربت کا شکار ہے۔ غربت ایک ایسا رجحان ہے جو معروضی بھی ہے اور موضوعی بھی۔ معروضی طور پر، غربت کا مطلب ایک وہ غیر انسانی حالت ہے جس میں لوگ اپنی بنیادی ضروریات کی دیکھ بھال کرنے سے قاصر ہوتے ہیں اور انتہائی دگر گوں حالت میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ موضوعی طور پر، غربت کا مطلب سمجھی جانے والی محرومی ہے۔ غریب لوگوں کے پاس خوراک، رہائش، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ضروری وسائل اور صلاحیت کی کمی ہوتی ہے۔ پاکستان میں تقریباً 12 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ غریب لوگ مشکل حالات میں رہتے ہیں جو ان کی انسانی صلاحیتوں کی نشوونما کے لیے سازگار نہیں ہیں۔ غربت بہت سے طریقوں سے ترقی میں مداخلت کرتی ہے۔ مثال کے طور پر غذا کی کمی یا ناکافی غذا ابتدائی بچپن میں ذہنی نشوونما کو روکتی ہے۔ غریب بچوں کا ایک بڑا طبقہ سکول نہیں جاتا۔ یہاں تک کہ اگر وہ جاتے ہیں تو وہ ڈراپ آؤٹ ہو جاتے ہیں اور اپنی تعلیم مکمل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
 

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 139653 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.