شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف (گیارہویں قسط)

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
آپ کی گیارہ کتابیں صوبہ پنجاب ، گیارہ خیبرپختونخوا اور گیارہ کتابیں آزاد جموں و کشمیر کے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں اور بپلک لائبریریوں کے لیے منظور ہو ئیں
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

سوال ۔ لودھی صاحب آپ نے تو یہ سفر اتنا دلچسپ بنادیا ہے کہ بورے والا سے دربار حاجی شیر محمد دیوان چاولی ؒ تک تمام واقعات کو آپ نے لفظوں کو تسبیح کے دانوں کی طرح اس قدر خوبصورتی سے پرودیا ہے کہ اس داستان کو پڑھنے والا ہر شخص ہمہ تن گوش ہو جاتاہے اور سوچنے لگتا ہے کہ آگے کیا ہوگا ۔ہم اس داستان کے بقیہ حصے کو سننے کے لیے بیتاب ہیں؟
اسلم لودھی ۔ شہزا د چودھری صاحب یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہم ایک ولی کامل حضرت محمد عنایت احمد ؒ نقشبندی مجددی کی سرپرستی میں یہ روحانی سفر اس حالت میں کیا جبکہ قافلے میں شامل تمام افراد باوضو تھے اور درود پاک پڑھنے کا سلسلہ مسلسل جاری تھا ۔میں سمجھتا ہوں پاکستان میں اس سے مقدس سفر اور کیا ہوگا ۔بہرکیف ہم پچھلی قسط سے واقعات کی تفصیل کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہیں جو یقینا قارئین کے لیے اور بالخصوص اولیا ء اﷲ سے محبت کرنے والوں کے لیے ایک بہترین تحفہ ثابت ہو گا ۔ان شا ء اﷲ
..............
جس چھوٹی سی مسجد کا پچھلی قسط میں ذکر آیا ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی اوٹنی پر سوار ہوکر وہاں تشریف لائے تھے ، اس جگہ پر مقامی لوگوں نے چھوٹی سی مسجد بنارکھ ہے ۔اس مسجد میں پنجگانہ نماز تو ادا نہیں کی جاتی لیکن یہاں آنے والے عقیدت مند نوافل ادا کرتے ہیں۔ اس لیے ہم نے پیرومرشد ؒ کی اقداء میں دو دو نوافل ادا کیے اور بعد میں نماز عصر کی جماعت بھی حضرت صاحب نے اسی مسجد میں پڑھائی۔ یہاں نماز اور نوافل پڑھتے ہوئے آنکھیں عجز وانکسار کے آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ اس مسجدکے بالکل پیچھے ایک چھوٹا سا مکان دکھائی دیا جس میں بابا فرید ؒ کے بڑے بیٹے دفن تھے۔ یہ جگہ بھی ہم سب کے لیے دلچسپی کا باعث تھی۔ یہاں سے فراغت پا کر ایک پرانی اور تاریخی مسجد جو مزار مبارک سے ملحقہ تھی، میں پہنچے تو اس کی کھڑکی سے نکل کر ہمیں مزار مبارک میں جانا تھا۔ یہ مسجد بھی پرانی ہونے کی وجہ سے تاریخی اہمیت کی حامل تھی ۔مزار شریف کے بالکل جنوب میں ایک نئی اور خوبصورت مسجد بھی موجود تھی جس میں پنجگانہ نماز باقاعدگی سے ادا ہوتی تھی۔ ایک چھوٹی سی بستی میں اتنی زیادہ مساجد دیکھ کر ہماری حیرانگی چھپی نہ رہی۔ ایک بار پھر ہم مزار مبارک حضرت حاجی شیر محمد دیوان چاولی ؒ پر حاضر ہوئے اور الوداعی سلام کیا۔ وہی اجنبی شخص ہمیں لے کر حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کے والدین کے مزار پر بھی گیا۔ جس کے بارے میں مشہور ہے کہ کسی شخص کو خواب میں یہ بشارت ملی تھی کہ یہ مزارات بابا فرید ؒکے والدین کے ہیں۔ اس دن سے یہ مزارات بابا فرید کے والدین کے نام ہی سے منسوب ہوگئے۔ پھرہم حضرت سلطان فلک شیر ؒ کے سبز گنبد والے مزار پر پہنچے جن کے بارے میں لکھا ہوا تھا کہ یہ بزرگ حضرت حاجی شیر محمدؒ دیوان چاولی کے استاد ہیں۔ اس طرح یہ بھی حضور نبی کرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے ہی کے ہوئے لیکن یہاں صرف ایک مجاور کے سوا کوئی اور انسان نظر نہیں آیا۔ یہاں سے ہم لنگر کھانے کے لیے چلے پڑے ۔تو راستے میں دماغی مریضوں کو سنگلوں سے بندھے ہوئے دیکھا جن کے عزیز و اقارب بھی قریب ہی بیٹھے ہوئے تھے اور ذہنی توازن کھونے والے اپنے عزیزوں کی صحت یابی کے منتظر تھے۔ یہ منظر ہمارے لیے حیرت انگیز تھا۔ اس کا ذہن پر بہت اثر ہوا اور لوگوں کا اعتقاد دیکھ حیرت بھی ہوئی۔ لنگر خانے میں آٹا پیسنے والی چکیاں بھی کافی موجود تھیں، جنہیں چلانے والوں کی دلی مرادیں پوری ہونے کے بارے میں سن رکھا تھا۔ ہم نے بھی یہاں چکی چلائی۔ سب سے زیادہ صوفی (کیراں والوں) نے چکی کو گھمایا۔ ان کے بعد نور الامین نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہاں سے فراغت پا کر تھوڑا سا لنگر کھایا۔ یہاں روٹیوں کے انبار لگے نظر آئے جو زائرین کے لیے تھیں۔ یہاں سے فارغ ہوئے تو نماز مغرب سر پر تھی لیکن بس کے بارے میں یہی خبر تھی کہ وہ کسی وقت بھی آ سکتی ہے اور یہ شاید آخری بس ہو۔ عجیب مخمصے کا شکار تھے۔ نماز پڑھتے ہیں تو بس کے چھوٹ جانے کا ڈر ہے اور اگر بس کا انتظار کرتے ہیں تو نماز قضا ہونے کا خدشہ تھا۔ بالآخر تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد پیرومرشدؒ نے نماز مغرب اطمینان سے پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ بس ہمیں لیے بغیر یہاں سے نہیں جائے گی‘ سب لوگ اطمینان سے نماز پڑھ لیں۔ یوں ہم نے مسجد بہار مدینہ میں انتہائی اطمینان سے نماز مغرب ادا کی۔ یہاں موجود نمازیوں نے بھی پیرومرشد ؒ کی شخصیت میں خاصی دلچسپی لی۔

ٹھیک آٹھ بجے بس آئی اور ہم سب جلدی جلدی بس میں سوار ہوگئے۔ سب دوستوں کو اطمینان سے نشستیں مل گئیں۔ بورے والا تک کا سفر ایک گھنٹے میں طے ہوا۔ سڑک کی دونوں جانب بالکل اندھیرا پھیل چکا تھا ۔ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دے رہا تھا۔ بورے والا ٹیکسٹائل ملز سے لاہور والے اڈے تک پہنچنے کے لیے ہمیں تانگہ درکار تھا لیکن یہاں تو دور دور تک کوئی تانگہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اتفاق سے اندھیرے میں سے ایک تانگہ (جو جانوروں کے لیے چارہ لے کر آ رہا تھا) نمودار ہوا ہم سب اس پر سوار ہو کر لاہور جانے والے بس اڈے پر ساڑھے نو بجے پہنچے۔ یہاں جو بس موجود تھی وہ بھی لاہور جانے والی آخری بس تھی جبکہ پاک پتن کے لیے بسیں بند ہو چکی تھیں۔ یہاں کھڑے ہو کر پیرومرشد ؒ کی اجازت سے خربوزے خرید کر کھائے گئے۔ یقین کیجیے کہ اتنے مزیدار اور میٹھے خربوزے میں نے شاید زندگی میں کبھی نہیں کھائے۔ یہاں سے ایک گھنٹے کی مسافت طے کر کے بس عارف والا پہنچی جہاں سے بس نے اپنا رخ ساہیوال کی جانب کرنا تھا۔ پیرومرشد ؒ کا خیال تھا کہ حضرت حاجی شیر محمد دیوان چاولی ؒ نے اتنا سیر کر دیا ہے کہ اب کہیں اور جانے کی تمنا باقی نہیں رہی لیکن باقی ساتھی اور بالخصوص حاجی شریف صاحب کی خواہش تھی کہ اب اتفاق سے اکٹھے آئے ہیں تو قبولہ شریف اور پاک پتن شریف بھی ضرور جانا چاہیے۔ معلوم نہیں زندگی میں پھر کبھی موقعہ ملے یا نہ ملے۔ باقی زیارتیں بھی کر لی جائیں۔ اب رات کے ساڑھے دس بج چکے تھے۔ میں نے پیرومرشدؒ کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے ماموں ہدایت خاں یہاں عارف والا میں مقیم ہیں ۔ان کے ہاں رات بسرکی جا سکتی ہے لیکن مجھے ان کے گھر کا علم نہیں کہ وہ کس محلے میں رہتے ہیں۔ پیرومرشدؒ نے نیم رضامندی کا اظہار کر دیا۔ اچانک ایک تانگے والا غیر متوقع طور پر ادھر آ نکلا ۔ہم نے اشارہ کیا تو وہ رک گیا ۔میں نے آگے بڑھ کر اسے اپنے ماموں ہدایت خاں کانام بتا یا اور استفسار کیا کہ کیا تم میرے ماموں کے گھر کو جانتے ہو۔ اس فوری طور پر ہاں میں سر ہلا دیا اس طرح ہم سب ماموں ہدایت خاں کے گھرجا پہنچے۔ اس وقت عارف والا شہر کے تمام لوگ اپنے اپنے گھروں میں سو رہے تھے۔ ہر جانب اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔
..................
میں نے ماموں ہدایت خاں کے گھر کا دروزہ زور زور سے کھٹکٹانا شروع کردیا ۔کچھ دیر کے بعد ان کی آواز سنائی دی ۔کون ..............میں نے کہا ماموں جان میں اسلم ہوں لاہور سے آیا ہوں ۔میرے ساتھ ہمارے پیرو مرشد ؒ اور چند پیر بھائی بھی ہیں ۔ہم یہاں رات بسر کرنے کے لیے یہاں آئے ہیں۔ ماموں نے میرا نام سنتے ہی جلدی سے دروازہ کھولا اور مجھے اپنے سینے سے لگا کر پیار کرنے لگے ۔ممانی گلزار بیگم کو جب میری آمد کا پتہ چلا تو انہوں نے بھی مجھے والہانہ پیار سے نوازا ۔اس کے بعد ماموں ہدایت خاں پیرو مرشدؒ اورتمام پیر بھائیوں سے فردا فردا ملے ۔اس وقت ہم سب کو بہت غضب کی بھوک لگی ہوئی تھی ۔ ماموں کے گھر میں ماش کی دھلی ہوئی دال پکی ہوئی تھی، جسے میری ممانی بہت اچھا پکاتی تھیں۔اس سے پہلے بھی میں کئی مرتبہ یہ دال کھا کر ممانی کی تعریف کرچکا تھا ۔ممانی گلزاربیگم نے اسی وقت لکڑیوں والا چولہا جلایا اور روٹیاں پکانی شروع کردیں ۔جلد ہی پیرو مرشد سمیت ہم سب کے سامنے کھانا آراستہ کردیا گیا ۔کھانا تو سب نے پیٹ بھر کے کھا لیا اور چارپائیوں پر بستر بھی لگ چکے تھے ۔اس لمحے رات کے بارہ بج چکے تھے ، پیرومرشدؒ نے سونے کی بجائے فرضی اور نفلی عبادت کے لیے مسجد میں جانے پر اصرار کیا ۔ ماموں ہدایت خاں انہیں اپنے ساتھ لے کر قریبی مسجد میں جا پہنچے ۔مسجد کو تالا لگا ہوا تھا ماموں جان نے امام مسجد کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور انہیں بتایا کہ لاہور سے ایک بزرگ ہمارے ہاں تشریف لائے ہیں ، وہ مسجد میں عبادت کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ سن کر امام صاحب آنکھیں ملتے ہوئے گھر سے باہر آئے اور انہوں نے پیرومرشد ؒ سے گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور مسجد کا دروازہ کھول کر تالا اور چابی ان کے حوالے کردی ۔
...............
عارف والا میں ماموں ہدایت خاں کے گھرہم سب نے رات بسر کرلی ۔جبکہ پیرومرشدؒ ساری رات عبادت میں مصروف رہے ۔صبح جیسے یہ خبر لوگوں تک پہنچی کہ ایک لاہور سے ایک پیرکامل بزرگ عارف والا میں ہدایت خاں کے گھر تشریف لائے ہیں تو ملاقات کا شرف حاصل کرنے اور دعا کروانے کا والوں کا تانتا بندھ گیا ۔پیرو مرشد ؒ اورپیر بھائیوں نے چائے اور رسوں سے پیٹ بھر کے ناشتہ کیا ہوگا کہ زیارت کے لیے آنے والوں کی تعداد جب حد سے بڑھنے لگی تو پیرومرشدؒ نے فرمایا اگر یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو ہم اگلی منزل کی جانب روانہ نہیں ہوسکیں گے ۔ اس لیے جتنی جلدی ممکن ہو یہاں سے اجازت لینی چاہیئے۔ناشتہ تو ہم سب نے کرہی لیا تھا ۔ماموں ہدایت خاں سے اجازت لی اور ان کے توسط سے ایک ٹانگہ منگوایا گیا جس میں سوار ہو کر ہم سب ایک بار پھر عارف والا کے بس اڈے پر جا پہنچے ۔

پیرو مرشد ؒ تو لاہور واپس جانا چاہتے تھے لیکن حاجی شریف صاحب نے قبولہ شریف جانے کے لیے پیرو مرشدؒ کو راضی کرلیا جو عارف والا سے بہاولنگر جانے والی سڑک پر آٹھ دس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔اس طرح ہم ایک بس پر سوار ہو کر قبولہ شریف پہنچے۔ یہ ایک تاریخی قصبہ ہے، جس میں حضرت سید شاہ موسیٰ گیلانی رحمتہ اﷲ علیہ اور حضرت محمد شفیع رحمتہ اﷲ علیہ کے مزارات ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں۔ کافی بلندی پر موجود حضرت سید شاہ موسیٰ گیلانی رحمتہ اﷲ علیہ کے دربار پر حاضری دی۔ یہاں پر پیرومرشد ؒ اور کچھ ساتھیوں نے غسل بھی کیا۔ ان بزرگوں کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کا سلسلہ گیارہویں پشت میں حضرت غوث پاک شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اﷲ علیہ سے جا ملتا ہے اور یہ بزرگ ان کی اولاد میں سے ہیں۔ یہاں ان لوگوں کی بہت بڑی تعداد منت مانگنے کے لیے آتی ہے جو بے اولاد ہوتے ہیں اوراولاد کی تمنا رکھتے ہیں۔ ان بزرگوں کے بارے میں یہ بھی سنا گیا کہ ان کے مزار شریف کا پورا نقشہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اﷲ علیہ کے روضہ مبارک جیسا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی ہی میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے مزار مبارک جیسی عمارت کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ جب مستریوں نے کہا کہ حضرت صاحب جب تک ہمارے سامنے حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی ؒ کا مزار نہ ہو تو ہم کیسے ان جیسا مزار بنا سکتے ہیں ۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ حضرت سید شاہ موسی گیلانی ؒ نے فرمایا میں تمہاری آنکھوں کے سامنے اپنے جد امجد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا مزار کردیتا ہوں آپ اسے دیکھتے جاؤ اور میرے لیے مزار کی عمارت بناتے جاؤ ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ان مستریوں نے جب مزار شریف کی عمارت مکمل کرلی ۔ تو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ان کا انتقال ہوتارہا اور وہ بھی سب مزار شریف کے قریب ہی دفن ہیں۔
( جاری ہے)
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 666256 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.