ہماری زندگی پر احادیث کا اثر ( حصہ دوئم )

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
میری ایک تحریر بعنوان "ہماری زندگی پر احادیث کا اثر " گزشتہ روز شایع ہوئی اور میں نے وعدہ بھی کیا تھا کہ انشاءاللہ کسی اور حدیث کے ساتھ کسی تحریر کو لیکر حاضر ہوجائوں گا تو حاضر خدمت ہے اس کا دوسرا حصہ دوسری حدیث کے ساتھ آج کی تحریر جس حدیث مبارکہ سے سجائی گئی ہے وہ بیک وقت کئی کتابوں میں ہمیں ملتی ہے سنن ترمزی میں اس کانمبر ہے 1376 صحیح مسلم میں 4223 سنن ابودائود میں 2880 اور سنن نسائی میں اس حدیث کا نمبر 3681 ہے حدیث کے مطابق سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے ترجمہ کہ " جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ بند ہوجاتاہے سوائے تین چیزوں کے 1۔۔صدقہ جاریئہ 2۔۔ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں 3۔۔نیک اور صالح اولاد جو اس کے لیئے دعا کرے "۔۔
میرے محترم اور معزز ہڑھنے والوں اب ہم اس حدیث کی تشریح یا تفسیر پر نظر ڈالتے ہیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب انسان دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے تو اس کے تمام اعمال وہیں پر رک جاتے ہیں لیکن تین چیزیں تین معاملات ایسے ہیں جو جاری رہتے ہیں یعنی اس کی موت کے بعد بھی اس کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں ان میں سب سے پہلی چیز کا ذکر جو آیا ہے وہ ہے
" صدقئہ جاریہ " یعنی وہ نیک کام جو دنیا سے رخصت ہونے والے انسان نے اپنی زندگی میں شروع کیا اور انتقال کرگیا اب جب تک لوگ اس سے استفادہ حاصل کرتے رہیں گے تب تک اس کا اجروثواب اس کے نامئہ اعمال میں صدقئہ جاریہ کے طور شامل ہوتا رہے گا مثال کے طور پر اگر اس نے اپنی زندگی میں کوئی مسجد تعمیر کروادی تو جب تک وہ مسجد آباد رہے گی جب تک لوگ اس مسجد میں نماز اور قران مجید کی تلاوت کا شرف حاصل کرتے رہیں گے تب تک یہ اس مرحوم کے لئے صدقئہ جاریہ کے طور پراجروثواب کا سامان بن جائے گا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں بلکل اسی طرح اگر کسی نے اپنی زندگی میں مدرسہ تعمیر کروادیا تو وہاں بھی اسی طرح کا معاملہ ہوگا اور دنیاوی اعتبار سے کوئی ایسا کام جس سے لوگوں کو فائدہ ہو جیسے اگر کہیں پانی کا نظام نہ ہو اور وہاں کنواں کھدواکر پانی کا مستقل انتظام کردیا جائے جس سے لوگوں کو فائدہ ہو تو یہ بھی صدقئہ جاریہ میں شامل ہوگا مساجد میں گرمی کی وجہ سے ائیر کنڈیشن لگوآکر لوگوں کے لیئے آسانی فراہم کرنابھی صدقئہ جاریہ ہے۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جیسے میں نے عرض کیا کہ انسان کا دنیا میں اپنی زندگی میں کیا ہوا وہ نیک کام جس سے لوگ اس کے انتقال کے بعد بھی فائدہ اٹھاتے رہیں گے تو یہ اس کے لیے اجروثواب کا باعث ہوگا لیکن اگر کسی کے انتقال کے بعد بھی ہم ان کے لیئے کوئی ایسا کام کرلیتے ہیں تو اس کے نامئہ اعمال میں اس کا بھی اجرو ثواب لکھا جاتا رہے گا جیسے کہ ایک حدیث ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ سعد رضی اللہ عنہ سرکار مدینہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوکر سوال کیا کہ میری والدہ وفات پاچکی ہیں لیکن ان کو کوئی وصیت کرنے کا موقع نہ مل سکا کیا میں ان کے لیئے کوئی صدقہ کروں تو وہ ان کے کام آئے گا آپ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پانی کو لازم پکڑلو یعنی لوگوں کو پانی پلائو اس کا ثواب ان تک پہنچتا رہے گا یعنی پانی کا صدقہ کرو (سلسلہ صحیح 2615 )
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہماری زندگی کے روزمرہ کے معمولات میں کئی چھوٹے چھوٹے عمل ایسے ہیں جو صدقئہ جاریہ کے ضمرے میں آتے ہیں لیکن ہمیں علم ہی نہیں کسی سے اچھی اور اخلاقی بات کرنا بھی صدقہ ہے کسی سے مسکرا کر حسن اخلاق سے پیش آنا بھی صدقہ ہے کسی سے اچھی بات سن کر آگے بڑھانا بھی صدقئہ جاریہ ہے اگر کوئی انسان آپ کی کسی بات سے متاثر ہوکر اس پر عمل کرکے اپنی زندگی کو اللہ تبارک وتعالی کے احکامات پر عمل پیرا کرلے تو یہ بھی آپ کے لیئے صدقئہ جاریہ بن جائے گا اس لیئے کہتے ہیں کہ زندگی کے کسی بھی لمحہ پر کوئی چھوٹا سا چھوٹا نیک کام کرنے کا موقع ملے تو کرلو ہو سکتا ہے وہ بروز محشر ہمارے لیئے نجات کا ذریعہ بن جائے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حدیث مبارکہ میں جو دوسری بات کا ذکر ایا ہے وہ ہے
" ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں " مطلب یہ کہ اگر آپ کے پاس اللہ رب الکائنات کی عطا سے کوئی علم ہے اور اس کی بدولت آپ اپنے اس علم کو دوسروں تک منتقل کرکے کچھ شاگرد بنالیتے ہیں اور پھر وہ شاگرد آپ کے علم کو آگے بڑھائیں گے تو یہ بھی ایک مستقل صدقئہ جاریہ بن جائے گا اسی طرح اگر آپ نے اپنے علم کی بدولت کوئی اچھی اور سبق اموز تحریر کو کتاب کی شکل میں لکھ کر چھوڑ دی تو جب تک لوگ اسے پڑھکر اس سے استفادہ حاصل کرتے رہیں گے تب تک وہ صدقئہ جاریہ کے طور پر آپ کے لئے اجروثواب کا باعث ہوگی ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اسی طرح اگر کوئی استاد ، عالم ، مفتی یا امام مسجد ایسا ہے جس کے کسی عمل سے متاثر ہوکر کوئی غیر مسلم دائرئہ اسلام میں داخل ہوجائے یا گناہگار انسان صحیح راستے پر آجائے تو یہ بھی صدقئہ جاریہ ہے آپ کے کسی بھی علم کے ذریعے آپ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اگر پیچھے لوگوں کو فائدہ پہنچے تو یہ صدقئہ جاریہ ہے اور یہ ہی اس حدیث کے دوسرے حصہ کا ذکر ہے کہ آپ کے بعد آپ کے علم سے لوگ فائدہ اٹھاسکیں ۔۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس حدیث میں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے جو تیسری بات ارشاد فرمائی وہ یہ تھی کہ
" نیک اولاد جو اس کے لیئے دعا کرتی رہے "
مطلب یہ کہ حدیث کے اس حصہ کے مطابق اولاد کا نیک ہونا شرط ہے فی زمانہ جب والدین دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں تو کچھ دنوں کا سوگ مناکر ہماری آج کی نوجوان نسل اپنی دنیا میں ایسے مست ہوجاتی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور سال میں ایک یا دو بار ان کی قبر پر حاضری کے لیئے اگر جاتے ہوں تو بڑی بات ہے لیکن اس معاملے میں ان کا قصور نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق آپ کی تربیت پر ہے میں نے جس طبقہ کا ذکر کیا ہے اگر اس کے علاوہ دیکھا جائے تو ہمارے درمیان ایسے نوجوان بھی موجود ہیں جو باقائدہ اپنے والدین کی قبروں پر حاضری دیتے ہیں اور ان کے لیئے صدقہ و ثواب پہنچانے کا اہتمام بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لہذہ کوشش کریں کہ اپنے بچوں کو نیک اور صالح بنائیں اور انہیں اس قابل بنادیں کہ انہیں دین کی ایسی باتوں کا علم ہو اور وہ آپ کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد بھی آپ کے لیئے دعا واستغفار کا سلسلہ صدقئہ جاریہ کے طور پر جاری رکھیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قبر میں میت کی مثال ڈوبنے اور فریاد کرنے والے آدمی کی طرح ہے جو اپنے کسی بھی عزیز کی دعائوں کا منتظر رہتا ہے جب اسے دعا پہنچتی ہے تو وہ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ اسے محبوب ہوتی ہے بیشک اہل ایمان کی دعا سے اہل قبور کو اللہ تعالی پہاڑوں کے برابر اجروثواب عطا فرماتا ہے اور مردوں کے لیئے زندوں کا بہترین تحفہ دعا و استغفار ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ تبارک وتعالی جنت میں کسی نیک آدمی کا درجہ بلند فرمائے گا تو وہ عرض کرے گا کہ اے مالک و مولا یہ درجہ مجھے کیوں کر نصیب ہوا تو اللہ رب العزت فرمائے گا کہ تیرے بیٹے نے تیرے لئے دعا و استغفار کی ہے جس کے سبب تیرا درجہ بلند کیا گیا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ایک تو ہے صدقئہ جاریہ جو کسی نیک کام کے سبب انسان کے ساتھ ساتھ روز محشر تک اجروثواب کی شکل میں چلتا ہے لیکن ایک صرف صدقہ ہوتاہے جو عام طور پر زندگی میں آنے والے پریشانیوں اور تکلیفوں سے بچنے کے لیئے ہم ادا کرتے ہیں اور جن کا فائدہ اس عارضی دنیا میں ہمیں اپنی جان مال اور اولاد کی حفاظت کی غرض سے کام آتا ہے یہ صدقہ بھی ضروری ہے اور آحادیث میں اس کی بھی کئی جگھوں پر تلقین نظر آتی ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ جب عرض کیا گیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر ہمارے پاس مال و اسباب نہ ہوں تو صدقہ کیسے کریں تو آپ علیہ وسلم نےفرمایا کہ " بھلائی کے دروازے بہت زیادہ ہیں " لوگوں کو نیکی کا حکم دو ، بہرے انسانوں کو بلند آواز سے اچھی بات سنائو ، برائی سے منع کرو ، نابینائوں کو راستہ بتائو ، راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹائو اور حاجت مند کی مدد کرو یہ سب کچھ تمہاری طرف سے تمہارے جان مال اور اولاد کا صدقہ ہوگا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آج کی اس حدیث میں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تین باتوں کا تفصیلی طور پر ہم نے جائزہ لیا اور دیکھا کہ ان معاملات کے ہماری زندگی پر کتنے گہرے اثرات مرتب ہوتےہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ احادیث مختلف راویوں سے ہوتی ہوئی دراصل ہمیں اپنی زندگی کو صحیح راستے پر گامزن کرنے میں مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں اور اگر ہم نے ان احادیث کو سمجھکر ان پر عمل کرنا شروع کردیا تو ہماری زندگی بھی اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کرنے اور سرکار علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف عمل ہوجائے گی اور اس وجہ سے ہماری یہ دنیاوی زندگی اور آخرت کی زندگی دونوں سنور جائیں گی انشاءاللہ ۔
 

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 112 Articles with 78083 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.