وقت کی قدروقیمت

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
گناہوں کی معافی مانگیں بھی
تو کیسے وقت نہیں ہے
اس رب کے سامنے جھکیں بھی
تو کیسے وقت نہیں ہے
وہ خالق جو ستر مائوں سے بھی
زیادہ ہمیں پیار کرتا ہے
ہم اسے یاد بھی کرتے ہیں تو ایسے
جیسے وقت نہیں ہے
موت کا وقت مقرر ہے اس نے آنا ہے
وہ تو آئے گی یوسف
ملک الموت سے تم کہوگے بھی تو
کیسے وقت نہیں ہے
میرے محترم یاروں ہماری آج کی اس تحریر کا عنوان دنیا کے سب سے بڑے استاد دنیا کے کامیاب ترین انسان جس کی بڑی قدر کرتے ہیں اور جو ہر انسان کو بہت کچھ سکھانے کی مہارت رکھتا ہے یعنی " وقت کی قدر و قیمت " ہے وقت اور انسان کا تعلق تخلیق کائنات سے لیکر روز محشر کے برپا ہونے تک ساتھ ساتھ رہے گا ایک وہ بھی دور تھا جب انسان سورج اور ستاروں کی چال سے تو دیواروں پر پڑنے والے دھوپ کے سائے کے آنے جانے سے وقت کا تعین کرتا تھا انسان کی یہ فطرت رہی ہے کہ کبھی وہ وقت کے ساتھ ساتھ چلنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی پیچھے رہ جاتا ہے اور تیز دوڑ کر اگر آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ ہی وقت اسے منہ کے بل زمین پر گرا دیتا ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں وقت کے بارے میں متقدمین ، متاءخرین اور فلاسفروں کی اپنی اپنی سوچ اور تحقیق ہے اب ایک فلسفی کے نزدیک زمانے صرف دو ہی ہیں ایک ماضی جو گزر چکا اور ایک مسقبل جو آنے والا ہے جبکہ حال کا کوئی وجود نہیں کیوں کہ کل کبھی نہیں آتی کل ایک دھوکہ ہے جو کام کرنا ہے کر گزرو کل کا انتظار نہ کرو ایک امیرزادے نے ایک صالح انسان کی دعوت کی لیکن اس نے یہ کہکر معازرت کرلی کہ میرا روزہ ہے تو امیرزادے نے کہا کہ کوئی بات نہیں افطاری کرلو پھر یہیں رک کر صبح روزہ رکھلینا تو اس صالح انسان نے کہا کہ اگر اپ اس بات کی گارنٹی دے سکتے ہیں کہ میں اور آپ کل تک زندہ و جاوید رہ پائیں گے تو میں ایسا کرلیتا ہوں یہ بات سن کر اس امیرزادے کو تو جیسے چپ سی لگ گئی اور وہ شرمندہ ہوکر خاموش ہوگیا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی وقت کی قدر نہیں کی اب دیکھیں اللہ تبارک وتعالی نے کرہ ارض پر موجود ہر انسان کو دو نعمتیں عطا کیں ہیں لیکن ہم ان نعمتوں کا اللہ تبارک وتعالی کے احکامات کے ذریعے سے استعمال کرکے اس رب العلمین کا شکر تک ادا نہیں کرتے ان میں سے ایک اچھی صحت اور دوسری فرصت کے لمحات اب آپ غور کریں کہ فرصت کے لمحات کا مطلب کیا ہے ؟ وقت کا آپ کے پاس ہونا لیکن ہم اس وقت کو بجائے اللہ تبارک وتعالی کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر اس کے ذکر میں گزاریں اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرکے گزاریں ہم اسے اپنے فضول کاموں میں صرف کرکے اسے ضایع کردیتے ہیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ایک بات ہمیشہ یاد رکھیئے آپ ماضی کو چھوڑ دیں اور مستقبل کی امید نہ رکھیں بس جو وقت آپ گزار رہے ہیں وہ لمحات ہی اہم اور قیمتی ہیں آپ کے لئے اگر ہم اپنا وقت نیک کاموں میں یعنی اللہ رب العزت کے احکامات پر عمل کرکے گزاریں تو ہمارا آگے آنے والا ہر وقت ہر دن اچھا ہوگا ورنہ روزانہ صبح اٹھتے ہی ہم اپنی زندگی کا ایک دن کم تو کر ہی رہے ہیں جو نقصان میں جا رہا ہے اللہ رب العزت نے قران مجید کی سورہ العصر میں واضح تنبیح بھی کی ہے اور خوشخبری بھی سنائی ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں سورہ العصر میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ " اس زمانئہ محبوب کی قسم بیشک آدمی نقصان میں یے مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی "حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اگر لوگ اس سورہ کے ترجمہ کو سمجھ کر اس پر یقین کرلیں تو یہ ہی ان کے لئے کافی ہے ( ابن کثیر )۔ ایک بزرگ نے اس سلسلے میں ایک بہت ہی پیاری بات فرمائی ہے کہ ایک دفعہ میں ایک برف بیچنے والے کی دوکان پر گیا اس کا کاروبار دیکھکر سورہ العصر کی مکمل تفسیر سمجھ میں آگئی کیوں کہ اگر برف بیچنے والے نے زرا سی بھی غفلت کی تو اس کا سرمایہ پانی بن کر ضایع ہوجائے گا اور یہ ہی وجہ ہے کہ قران نے سورہ العصر میں انسان کو اس طرف توجہ دلائی تاکہ وہ خسارے سے بچنے اور کامیابی تک پہنچنے کے لئے ایمان ، عمل صالح ، حق کی نصیحت اور صبر کی وصیت کو وظیفئہ زندگی بنالے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ارشاد ہے کہ تیری زندگی چند گنی چنی سانسوں کا نام ہے جب ان میں سے ایک سانس گزرجاتی ہے تو تیری عمر کا ایک حصہ کم ہوجاتا ہے (دیوان علی بن ابی طالب جمع و ترتیب عبدالعزیزکرام ص10 ) خالق کائنات نے ہر شخص کو چاہے وہ بادشاہ ہو یا وزیر ،تونگر ہو یا تنگدست ،تندرست ہو یا بیمار ،تاجر ہو یا مزدور ، تعلیم یافتہ ہو یا جاہل ، طاقتور ہو یا کمزور ہر ایک کو وقت کی دولت یکساں عطا کی ہے۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہر انسان کو اس کی عمر کے اوقات ایک سرمایہ کے طور پر عطا کردیئے گئے ہیں تاکہ پھر وہ اس سے تجارت کرے یا تو وہ عقل و شعور کا استعمال کرتے ہوئے ان اوقات کو نفع بخش کاموں میں لگائے یا پھر غلط کاموں میں لگاکر سرمایئہ وقت کو ضایع کردے یہ انسان پر منحصر ہے میرا اپنا ماننا یہ ہے کہ جب ہم صبح نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو اللہ رب العزت کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمیں اپنی طرف رجوع کرنے کا موقع فراہم کرنے کے لئے اپنی چلتی پھرتی سانسوں کے ساتھ زندہ رکھا ہوا ہے اور پھر اپنے گزشتہ دن کے بارے میں سوچنا چاہیئے کہ ہم نے گزشتہ کل کے دن کا پورا وقت کس طرح گزارا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اگر ہم نے اپنے گزشتہ کل کا وقت اللہ رب العزت کے احکامات پر عمل کرکے گزارا تو اس رب الکائنات کا شکر ادا کریں اور اگر فضولیات میں گزارا تو شرمندہ ہوکر اس رب سے توبہ کریں اور آج کا دن اس کے بتائے ہوئے راستوں پر چل کر گزارنے کی توفیق مانگے وقت کی قدر کرنا سیکھیں کیوں کہ یہ رکنے والی چیز نہیں ہے بلکہ اس کے گزرنے کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے اورکیوں نہ ہو کہ یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ایک مشہور مقولہ ہے کہ وقت سونے سے بھی قیمتی شہ ہے اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ قیمتی چیز کی حفاظت نہ کرنا محرومی اور بدنصیبی ہے بلکہ وقت کا ضیاع خودکشی کے معنی میں آتا ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں یہ وقت بھی بڑی عجیب چیز ہے کوئی کہتا ہے کہ اس سے طویل کوئی شہ ہی نہیں کیوں کہ یہ ابدیت کا پیمانہ ہے اور کسی نے کہا کہ اس سے سست اور مختصر کوئی شہ نہیں ہے کیوں کی یہ ہمارے منصوبوں کی تکمیل کے کئے ہمیشہ ناکافی ہوتا ہے اب زرا سوچیئے کہ جو وقت کو برباد کرتا ہے کیا وہ اپنی زندگی کی بربادی کا سامان نہیں کرتا ؟ وقت کی قیمت کا ابھی تک نہ تو کوئی اندازہ لگا سکا ہے اور نہ ہی اس کا اندازہ لگانے کے لئے کوئی پیمانہ ایجاد ہوا لیکن یہ ضرور سوچا جا سکتا ہے کہ اس دنیا میں اگر کوئی کسی جگہ بڑی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس کے اندر وقت کی پابندی اور اس کی قدر و قیمت کا احترام لازمی ہوگا ورنہ وہ اتنا کامیاب نہ ہوتا۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں وقت کی اہمیت کے بارے میں ایک معروف واقعہ تحریر کرنا چایوں گا ایک شخص نے بادشاہ ہارون رشید کے دربار میں ایک جادو کا کرتب دکھانے کی اجازت مانگی اجازت ملنے پر وہ دربار میں حاضر ہوا اور فرش کے بیچ و بیچ اس نے ایک سوئی کھڑی کردی اور کچھ فاصلے پر اپنے ہاتھ میں کئی سوئیاں لیکر کھڑا ہوگیا پھر ایک سوئی کو ہاتھ میں لیکر کھڑی ہوئی سوئی کا نشانہ لگایا پھر لوگوں کے حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب وہ سوئی کھڑی ہوئی سوئی کے ناکہ سے یعنی سوراخ سے گزر کر کر آرپار ہوگئی اور اس طرح اس نے دس سوئیاں اس طرح گزار کر لوگوں کی داد حاصل کی ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں بادشاہ ہارون رشید نے جب یہ حیرت انگیز کمال دیکھا تو حکم دیا کہ اسے دس دینار انعام کے طور پر دیئے جائیں اور ساتھ میں دس کوڑے بھی لگائیں جائیں حاضرین محفل میں سے اس عجیب وغریب اعلان پر سوال ہوا تو ہارون رشید نے کہا کہ دس دینار اس کے نشانے کی سچائی اور ذہانت کے صحیح استعمال کا انعام ہے اور دس کوڑے کی سزا اس لئے ہے کہ اس نے اپنی خداداد صلاحیت اور قیمتی وقت کو ایسے کام میں صرف کیا جس کا دین اور دنیا دونوں میں کوئی فائدہ نہیں ہے(اسلام اور جدت پسندی )۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں انبیاء کرام علیہم السلام کی دنیا میں آمد کا مقصد بھی یہ ہی تھا کہ انسان وقت اور اپنی عمر عزیز کو خالق کائنات کے منشور کے مطابق استعمال کرکے دونوں جہاں کی کامیابی اور کامرانی حاصل کرلے اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکے گا جب وقت کی قدروقیمت عمر عزیز کی اہمیت اور اس کا مقصد ہم انسانوں کے پیش نظر ہو بس جتنا ہوسکے وقت کی قدر کریں بروز محشر ہمارے ایک ایک عمل کا گواہ یہ وقت ہی ہوگا اگر ہم نے اسے فضول اور گناہوں کے کاموں میں صرف کیا ہوگا تو یہ گواہی بھی یہ ہی دے گا اور اگر اللہ رب العزت کے فرمان کے مطابق ہم نے وقت کو ضایع کیئے بغیر صرف اس کے احکمات پر عمل کیا ہوگا تو یہ اسی کی گواہی دے گا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں وقت کا کام چلتے رہنا ہے یہ نہ رکنے والی چیز ہے اور نہ ہی اسے کوئی روک سکتا ہے وقت چاہے غم ہو یا خوشی آتا ہے اور گزرجاتا ہے وقت کی قدر خود بھی کریں اور اس کی قدروقیمت کی اہمیت اپنے بچوں کو بھی سکھائیں کیوں کہ یہ اللہ رب العزت کی طرف سے ہمارے لئے بہت بڑی نعمت ہے اس نعمت کا صحیح استعمال کرکے اس خالق کائنات کا شکر ادا کریں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو وقت کے صحیح استعمال کی توفیق عطا کرے اسے ضایع ہونے سے بچانے میں ہماری مدد کرے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم ( وقت کے سائے میں دنیا اور آخرت سے متاثر ہوکر لکھی گئی تحریر )۔
 

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 112 Articles with 78109 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.