جمعہ نامہ : آزمائش اور ایمان کی افزائش

قرآن حکیم میں دومقامات پر ایمان میں اضافہ کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اتفاق سے وہ دونوں مواقع نہ تو ذکرو فکر کے اور نہ تسبیح و تحلیل کے ہیں۔ غزوۂ احد کے اندر ایک فتح دیکھتے دیکھتے شکست میں بدل گئی ۔ ان سنگین ترین صورتحال میں ستر ّ جلیل القدر صحابۂ کرام کی ِ شہادت کے بعد رب کائنات نے اہل ایمان کو ڈھارس بندھائی :’’جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اُس پر خوش و خرم ہیں‘‘۔ اس کے ساتھ باقی ماندہ مسلمانوں کے بارے میں بھی فرمایا وہ:’’ مطمئن ہیں کہ جو اہل ایمان ان کے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں ان کے لیے بھی کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شاداں و فرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا‘‘۔ یہاں شہادت کی سعادت سے محروم رہنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ اس عظیم آزمائش میں مبتلا ہونے کے باوجود وہ نہ خوفزدہ ہیں اور نہ غمگین ۔ یہ آیات ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ وہ کیسے اہل ایمان تھے کہ جنھوں نے آج سے زیادہ سنگین حالات میں اپنے آپ کو خوف و حزن میں مبتلا ہونے سے محفوظ و مامون رکھا ؟

غزوۂ احد میں بہت بڑی تباہی مچانے کے بعد دشمنان اسلام نے اچانک لوٹ جانے کا فیصلہ کیا مگر آگے جاکر انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو واپس آکر اہل ایمان کو پوری طرح کچل دینے کا ارادہ کرنے لگے ۔قربان جائیے نبی کریم ﷺ کی بیدار قیادت پر کہ آپؐ نے گریہ وزاری کے بجائے دشمنان اسلام کے ارادوں اور امکان کا اندازہ لگا کر ان کے تعاقب کا اعلان فرمادیا ۔اس پر ُعزم فیصلے پر جو پاکیزہ نفوس کمر بستہ ہوکر تیار ہوگئے ان سے متعلق ارشادِ قرآنی ہے :’’ جن لوگوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہا اُن میں جو اشخاص نیکوکار اور پرہیز گار ہیں اُن کے لیے بڑا اجر ہے‘‘۔ایسا نہیں ہے کہ اس دورمیں حوصلہ شکنی کرنے والے موجود نہیں تھے ۔ وہ لوگ تو کہہ رہے تھے کہ :’’ تماررے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، اُن سے ڈرو‘‘۔ مگر یہ دیکھیے کہ اس کا اثر کیا ہوا ۔ فرمانِ قرآنی ہے:’’ تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور اُنہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارسا ز ہے ‘‘۔ اہل ایمان کے قلب کی یہ کیفیت نہ ہو تو وہ نہ عزیمت کے فیصلے کرسکتے ہیں اور نہ عزم و حوصلے کے ساتھ ان پر عمل درآمد کر سکتے ہیں کیونکہ عمل کی گاڑی کے آگے ایمان کا گھوڑا ہوتا ہے۔فرسان جس قدر توانا ہوگا سفر اسی قدر آسان اور پرلطف ہوگا۔

اس سے پہلے کہ دشمنانِ اسلام اپنے ناپاک ارادوں کو عملی جامہ پہناتے انہیں پتہ چلا کہ نبی کریم ﷺ نہ صرف اپنی طاقت مجتمع فرما چکے ہیں بلکہ ان کے تعاقب میں آرہے ہیں تو ان کے حوصلے پست ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک امت دفاعی حالت میں رہے گی دشمنوں کے حوصلے بڑھتے چلے جائیں گے لیکن جب وہ اقدامی پوزیشن میں آئے گی تو مخالفین کی ہمت جواب دینے لگے گی ۔ اس کا وہی نتیجہ نکلے گا جو آگے بیان ہوا ہے:’’آخر کار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے، ان کو کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچا اور اللہ کی رضا پر چلنے کا شرف بھی انہیں حاصل ہو گیا، اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے‘‘۔ اس کامیابی و کامرانی کے بعد اہل ایمان کو خبر دار کیا گیا :’’ اب تمہیں معلوم ہو گیا کہ وہ دراصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرا رہا تھا ‘‘۔اللہ رب العزت نے اس کے ساتھ یہ تاکیدبھی فرمائی کہ :’’لہٰذا اگر تم حقیقت میں صاحب ایمان ہو تو انسانوں سے نہیں ڈرنا بلکہ مجھ سے ڈرنا ‘‘۔ اس کسوٹی پر ہمیں اپنے ایمان کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔

مندرجہ بالا نصیحت پر عمل کرکے درست رویہ اختیار کرنے کے لیے اس حقیقت کا ادراک لازم ہے کہ: ’’ جو لوگ آج کفر کی راہ میں بڑی دوڑ دھوپ کر رہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمہیں آزردہ نہ کریں، یہ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ اُن کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے، اور بالآخر ان کو سخت سزا ملنے والی ہے‘‘۔ بظاہر یہ دشمنانِ حق دنیا میں بڑی تباہی مچا رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ:’’ جو لوگ ایمان کو چھوڑ کر کفر کے خریدار بنے ہیں وہ یقیناً اللہ کا کوئی نقصان نہیں کر رہے ہیں، اُن کے لیے درد ناک عذاب تیار ہے‘‘۔ ایسے لوگوں کو خبردار کیا جارہا ہے کہ :’’یہ ڈھیل جو ہم انہیں دیے جاتے ہیں اس کو یہ کافر اپنے حق میں بہتری نہ سمجھیں، ہم تو انہیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بار گناہ سمیٹ لیں، پھر اُن کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے‘‘۔ اس سلسلۂ آیات کا اختتام کس قدر امید افزا ہے کہ فرمایا:’’ اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم اس وقت پائے جاتے ہو وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کر کے رہے گا‘‘۔ اس بابت رب ذوالجلال کی سنت یہ ہے:’’ اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تم کو غیب پر مطلع کر دے غیب کی باتیں بتانے کے لیے تو وہ اپنے رسولوں میں جس کو چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے‘‘۔ اس لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے اس کی اصولی رہنمائی یہ ہے کہ :’’ لہٰذا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو اگر تم ایمان اور خدا ترسی کی روش پر چلو گے تو تم کو بڑا اجر ملے گا ‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اس تلقین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماکر اجر عظیم کا مستحق بنائے۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1227064 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.