شہرہ آفاق کالم نگار، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف (نویں قسط)

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
آپ کی گیارہ کتابیں صوبہ پنجاب ، گیارہ خیبرپختونخوا اور گیارہ کتابیں آزاد جموں و کشمیر کے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں اور بپلک لائبریریوں کے لیے منظور ہو ئیں

سوال ۔ لودھی صاحب یہ بات ہمارے لیے انکشاف کا درجہ رکھتا ہے کہ آپ بزرگان دین اور روحانیت کے حوالے سے بھی خاصی جانکار ی اور علم رکھتے ہیں ۔ازراہ کرم ہمارے قارئین کو بتائیں کہ آپ حضرت حاجی شیر محمد دیوان چاولی ؒ کے تاریخی اور مشہور قصبے میں جب گئے تو وہاں آپ نے کیا کیا دیکھا اور وہاں کے بارے میں جو باتیں مشہور ہیں کہ وہاں دماغی امراض کے مریض ( یعنی پاگل ) بالکل صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ حقیقت ہے یا سنی سنائی باتیں ہیں ۔؟ہمارے قارئین یہ سب کچھ جاننے کا شوق رکھتے ہیں ۔؟

اسلم لودھی ۔ شہزاد صاحب حضرت حاجی شیر محمد دیوان چاولی مشائخ ؒ کے بارے میں جو باتیں بتا رہا ہوں ،یہ حقائق پر مبنی ہیں بلکہ ہم نے وہاں جاکر خود ان باتوں کا مشاہدہ بھی کیا ہے ۔جس کی تفصیل آگے آئے گی ۔ہم وہیں سے بات شروع کرتے ہیں جہاں سے پچھلی قسط میں بات ختم ہوئی تھی ۔

حضرت بابا فریدگنج شکرؒ کے والد حضرت جمال الدین سلیمان ؒ کو اس قصبے ( کھوتووال) کا قاضی مقرر کیا گیا تھا ۔پھر حضرت بابا فرید ؒ کے والدین نے یہیں پر وفات پائی اور ان دونوں کے مزارات اسی قصبے میں موجود ہیں ۔آپ ؒ کا اسلامی نام تو شیرمحمدؒ دیوان چاولی ہے لیکن ان کے بارے میں کئی روایتیں تاریخ میں موجود ہیں ۔ بعض روایتوں کے مطابق چاولی "چاولہ"کی بگڑی ہوئی شکل ہے جو کمبوہ ذات کی بگڑی ہوئی شاخ ہے۔ قبول اسلام سے پہلے آپ ؒ کانام رائے چاولہ ہی لیا جاتا رہا ہے ۔ ہندی زبان میں "چاولی"چاؤ کی ہی ایک صورت ہے جس کا مطلب پیار محبت ہے ۔ لیکن مستند روایتوں کے مطابق اصل لفظ "چاہ ولی " ہی ہے جسے عوام الناس نے چاولی کہنا شروع کردیا ۔یہاں ایک کنواں بھی موجود ہے ،جہاں بابا فرید گنج شکرؒ نے چلہ معکوس کاٹا تھا۔ یعنی کچی تند کے ساتھ اس کنویں میں لٹکے رہے تھے ۔لیکن کچھ تاریخ دان چاولی سے چار ولی مطلب بھی لیتے ہیں ۔کیونکہ یہاں چار ولیوں کے آنے اور چلہ کاٹنے کا ذکر تاریخی کتابوں میں موجود ہے ۔ان چار ولیوں میں حضرت بابا فریدگنج شکرؒ ، حضرت بہاؤالدین زکریا ؒ ملتانی، حضرت جلال الدین شیرشاہ ؒ ،حضر ت عثمان مروندی لال شہباز قلندر شامل ہیں ۔یہاں سکھ مذہب کے بانی گورونانک بھی اکتساب فیض کے لیے آتے رہے ہیں ۔

بہرکیف حضرت حاجی شیر محمد دیوان چاولی مشائخ ؒ 30ہجری بمطابق 650-51عیسوی کو پیدا ہوئے ۔قبول اسلام سے پہلے آپ ؒ کا نام رائے چاولہ تھا ۔مگر قبول اسلام کے بعد آپ ؒ شیرمحمد کہلائے ۔آپ کے والد رائے لکھمن راجپوت قوم کے سردار تھے ۔راجہ ہسپال یا مہی پال ، بدھ مت کے پیروکار اور مہاراجہ سند ھ کے تعلق دار تھے ۔ اس راجہ کی ایک رانی ضلع قصور کی تحصیل چونیاں کی رہنے والی تھی ۔اسی رانی کے بطن سے آپؒ پیدا ہوئے ۔آپ ؒکی ایک بہن کنگن بھی تھی انہی کی مناسبت سے ضلع قصور کے نواح میں ایک قصباتی شہر کا نام کنگن پوررکھا گیا ہے ۔منشی حکم چند نے اپنی کتابوں میں آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قبول اسلام سے قبل بھی آپ نہایت عابد اور صالح انسان تھے ۔ انہی دنوں والی سندھ اور اہل اسلام کے درمیان معرکہ آرائی ہوئی جس میں والی سندھ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔چونکہ آپ بھی اس جنگ میں شریک تھے، اس لیے قیدی بنا کر آپ کو مدینہ منورہ بھیج دیا گیا ۔

سرزمین عرب میں آپ دین حق کی سچائی سے متاثر ہوئے ۔ اس وقت مدینہ منورہ میں حضرت امام حسن ؒ حیات تھے ۔ انہوں نے شیر محمد ؒ کو کلمہ توحید پڑھایا اور اسلام کے بارے میں آپؒ کی رہنمائی فرمائی ۔بعدازاں آپ کو رہا کردیا گیا ۔ رہا ہونے کے بعد آپ ؒ نے حج کیا اور گردو نواح کے مقدس علاقوں کی سیاحت کی ۔پھر آپ ؒ حضرت اویسؒ قرنی کے مزار پر بھی حاضری دی ۔چند روز اعتکاف کرکے وہاں سے بھی روحانی فیض حاصل کیا۔ بعد ازاں جب محمد بن قاسم نے راجہ داہر کو سزا دینے کے لیے دیبل کی بندرگاہ پر حملہ آور ہونے کا فیصلہ کیا تو آپ ؒ بھی لشکر اسلام میں شامل ہو گئے ۔

محمد بن قاسم نے 711ء بمطابق ) ہجری کو دیبل پر حملہ کیا تو راجہ داہر مقابلے کے لیے نکلا لیکن شکست کھاکر موت کے گھاٹ اتر گیا ۔ دیبل فتح ہوگیا لیکن مزید فتوحات کے لیے لشکر اسلام کی پیش قدمی جاری رہی ۔ حتی کہ ملتان کے گردو نواح کا علاقہ جس میں قلعہ کھوتووال بھی شامل تھا ۔ فتح ہوگیا ۔ مسلمانوں کی یلغار میں حضرت حاجی شیر محمد ؒ بھی شریک تھے ۔کھوتووال پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد آپؒ نے اپنے آبائی قصبے میں ہیں سکونت اختیار کرلی ۔آپؒ کے حسن اخلاق کی ہر طرف شہرت پھیلی تو لوگ بڑی تعداد میں مسلمان ہونے کے لیے آپؒ کے در پر حاضر ہونے لگے اور مشرف بہ اسلام ہو کر لشکر اسلام کا حصہ بننے لگے ۔آپؒ کے خاندان کے دوسرے لوگ ابھی ہندو تھے ،انہیں آپؒ کے مسلمان ہونے کا دلی رنج تھا ۔چنانچہ انہوں نے 27 رمضان المبارک 748 عیسوی اور 131ہجری کو آپ ؒ کو اس وقت شہید کردیا جب آپ ؒ نماز پڑھ رہے تھے ۔کہا یہ جاتا ہے کہ آپ کی بہن کنگن کو آپؒ کی موت کا بہت صدمہ ہوا وہ بھی اپنے بھائی کے ساتھ زندہ زمین میں دفن ہو گئیں ۔ آپ ؒ کی بہن کنگن کی قبر کو ایک چوبی پنجرے سے محفوظ کردیا گیا جس پر ہر وقت سبز کپڑا پڑا رہتا ہے تاکہ ان کی قبر بھی غیر محرموں کی نگاہ سے پوشیدہ رہے ۔

تاریخ کے اوراق میں ایک واقعے کا ذکر موجود ہے کہ محمد مراد کھرل جو موضع نور شاہ کا رہنے والا تھا اس نے یہاں اعتکاف کیا تو آپؒ نے خواب میں آکر مراد کھرل کو ہدایت فرمائی کہ اسم "ھو اﷲ الذی لاالہ الاھو " کا ورد اس طرح کرو "ھو" کو سانس ختم ہونے تک کھینچو ۔ اس سے قلب منور ہوجائے گا۔چنانچہ محمد مراد کھرل کا قلب منور ہوگیا ۔ آپؒ کی کرامت یہ ہے کہ آپ کی درگاہ پر آنے والے دماغی مریض چند دنوں میں آپ کی دعا اور نظر کرم سے ٹھیک ہو جاتے ہیں ۔سلطان محمود غزنوی نے 1001عیسوی میں جب ہندوستان پر حملہ کیا تو اس نے آپؒ کی کرامتوں کا شہرہ سنا تو آپؒ کی درگاہ پر خود حاضر ہوااور قبر مبارک پر شاندار روضہ تعمیر کروایا جس پر اس وقت 25ہزار روپے لاگت آئی تھی ۔بعد ازاں جلال الدین اکبر اور شہنشاہ جہانگیر نے مزار شریف کی مرمت کروائی ۔جو اس وقت کافی شکستہ ہوچکا تھا ۔

مقامی لوگوں کی زبانی یہ بات بھی سننے کوملی کہ یہاں نبی کریم ﷺ چار صحابہ کرام کے ہمراہ اپنی اونٹنی پر تشریف لائے تھے ۔ مزارشریف کے قریب ہی ایک چھوٹی سی مسجد ہے جس میں نبی کریم ﷺ کی اونٹنی کے پاؤں اورپیٹ کے نشان اب بھی موجود ہیں ۔ اس چھوٹی سی مسجد میں پنج وقتہ نماز تو نہیں ہوتی لیکن حضرت شیرمحمد دیوان چاولی مشائخ ؒ کے دربار پر آنے والے یہاں تبرک کے طور پر دو نوافل ضرور پڑھتے ہیں ۔مقامی لوگوں کے مطابق نبی کریم ﷺ کی اونٹنی کے نشانوں کو محفوظ کرنے کے لیے یہ چھوٹی سی مسجدبنائی گئی ۔ اس مسجد کے قریب ایک کنواں بھی ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ نے یہاں چلہ معکوس کاٹا تھا ۔وہاں آنے والے لوگ احتراما اس کنویں کا پانی نکال خود بھی پیتے ہیں اور تبرک کے طور پر اپنے گھروں کو بھی لے جاتے ہیں ۔یہاں ہاتھ سے آٹا پیسنے والی چھوٹی چھوٹی چکیاں بھی موجود ہیں ۔ لوگ اپنی اپنی حاجتوں کو پورا کرنے کے لیے ان چکیوں کو چلاتے ہیں اور اس آٹے کی پکی ہوئی روٹی بھی کھاتے ہیں ۔یہاں چوبیس گھنٹے لنگر جاری رہتا ہے ۔دوسرے لفظوں میں دریائے ستلج کے مغربی کنارے پر آبادیہ بستی روحانیت کا گہوارہ دکھائی دیتی ہے ۔یہاں بابا فرید گنج شکر ؒ کے بڑے بیٹے خواجہ نصیر الدین ؒ بھی مدفن ہیں ۔

روحانیت سے بھرپور اس عظیم بستی کا نہ صرف ہم نے اپنے پیرو مرشد محمد عنایت احمد نقشبندی مجددی ؒ کے ہمرہ دورہ کیا بلکہ اس بستی کے حوالے سے بتائے جانے والے تمام مقامات اور واقعات کا بذات خود مشاہدہ بھی کیا ہے ۔اس دورے میں پیرو مرشد ؒ کے حوالے واقعات تواور بھی کافی ہیں کیونکہ قبولہ شریف بھی تشریف لے گئے تھے جہاں کے ایک بزرگ ایک دیوار پر سوار ہوکر پاکپتن شریف گئے تھے ۔قبولہ شریف کے بعد پیرو مرشدنے پاکپتن میں نوگزکے مزار پر بھی حاضری دی ۔اس کے بعد بابافرید گنج شکر ؒ کے دربار پر کچھ وقت قیام بھی کیا تھا ۔روحانی دنیا کے جو معاملات دونوں ولیوں کے مابین طے پائے ہم سے تو وہ باتیں مخفی رہیں لیکن مجھے اتنا یاد ہے کہ جب ہم بابا فرید گنج شکر ؒ کے دربار میں ہم سب بیٹھے ہوئے تھے تو ہم سب کو سخت بھوک لگی ہوئی تھی ۔پیرو مرشدؒنے سب کو حوصلہ دیتے ہوئے فرمایا پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔ بابا فرید ؒ ہم سب کے کھانا بھجوارہے ہیں ان سے میری بات ہوچکی ہے ۔ اس بات کوابھی پانچ سات منٹ ہی گزرے ہونگے کہ دو افراد جن کے ہاتھوں میں کھانا اور پینے کے لیے ٹھنڈا پانی تھا وہ ہمارے پاس آئے اور ایک کپڑا بچھا کر اس پر کھانا آراستہ کردیا ۔ جب کھانا آراستہ ہو گیا جو مقدار میں کافی تھا تو پیر ومرشدؒ نے ہم سب سے فرمایا پیٹ بھر کر کھاؤ ۔ ہمارے پیٹ میں جتنی گنجائش تھی ہم نے خوب کھایا اور ٹھنڈا پانی بھی پیا اور رب کا شکر ادا کیا ۔ روحانی دنیا کا یہ دورہ تو لاہور آکر اختتام پذیر ہو گیا لیکن اپنے پیچھے بیشمار یادیں چھوڑ گیا ۔

بہرکیف جب بھی ہم خالہ اقبال بیگم کے گھر جاتے تو وہ بہت محبت سے پیش آتیں لیکن چاہنے کے باوجود ہمیں اختربھائی کی بیٹھک میں جانے کی اجازت نہ ہوتی ۔کیونکہ اختربھائی نے اس بیٹھک کو فلمی اداکاروں کی تصویروں سے سجایا ہوا تھا وہ کسی کو بھی اجازت نہیں دیتا تھا کہ کوئی اسکی اجازت کے بغیر اس کی بیٹھک میں داخل ہو ۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ جب ہم ابھی واں رادھا رام ( حبیب آباد ) میں ہوا کرتے تھے ،تو نانی جان کو ملنے کے لیے عارف والا جانے کا پروگرام بنایا گیا تو ایک پڑوسیوں کا لڑکا (جس کا نام شریفی تھا) وہ بھی اپنے والدین سے اجازت لے کر ہمارے ساتھ عارف والا جانے کے لیے تیار ہوگیا ۔ہم جب عارف والا پہنچے تو خدمت مدارت کے بعد ہمیں سونے کے لیے خالہ اقبال بیگم کے گھر بھیج دیا گیا ۔ بڑا کمرہ تو خالہ اور خالو کے لیے مخصوص تھا ۔اس باامر مجبوری مجھے ، بھائی اکرم اور شریفی کے لیے بیٹھک میں سونے کا انتظام کیا گیا ۔ ہم سب سفر سے تھکے ہوئے تھے، رات تو بہت مزے کی نیند آئی۔ جب صبح آنکھ کھلی تو شریفی بلند آواز میں ورد کرتا ہوا سنائی دیا ۔
(جاری ہے)
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 666089 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.