امتیاز علی تاج کا ڈراما ”انار کلی “ : ایک تجزیاتی مطالعہ

فضہ پروین

اردو ڈراما کی تاریخ میں امتیاز علی تاج کی تخلیق ڈراما ”انار کلی کو جو مقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ اپنی مثال آ پ ہے ۔یہ ڈراما پہلی بار 1932میں شائع ہوا۔اس کے بعد اب تک اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور اس ڈرامے کی مقبولیت بر قرار ہے ۔بھارت میں انارکلی کی کہانی کی اساس پر ایک فلم” مغل اعظم “ بنائی گئی جسے فلم بینوں نے بہت پسند کیا ۔اپنی نوعیت کے لحاظ سے انارکلی ایک ایسی رومانی داستان ہے جس کے حقیقی مآخذ کے بارے میں اب تک کوئی ٹھوس تاریخی حقیقت یا دستاویزی ثبوت سامنے نہیں آیا۔خرافات،مفروضات،قیاس اور وہم و گمان کا ایک ایسا سلسلہ ہے جس نے تحقیقی منظر نامے کو گہنا دیا ہے ۔ادب کے قارئین اس داستان کے سحر میں اس قدر کھو گئے ہیں کہ حقائق کی تلاش میں پیہم ٹامک ٹوئیے مارتے پھرتے ہیں مگر نشان منزل کہیں نہیں ملتا۔وہی نور جہاں اور جہانگیر کے کبوتروں والا معاملہ ہے جو کبھی تھا ہی نہیں مگر آب حیات کا مطالعہ کرنے والے لوگ اب تک اسے کالنقش فی الجر قرار دیتے ہیں۔انار کلی کی پوری داستا ن ایسے واقعات سے لبریز ہے جو سرے سے کبھی وجود میں ہی نہیں آئے۔سرابو ں کی جستجو میں سرگرداں اور تحقیق سے گریزاں لوگوں کا یہ المیہ یہ ہے کہ وہ آئین نو سے خوف زدہ ہیں اور طرز کہن کی تقلید میں ان کی دلچسپی روز افزوں ہے ۔

ڈراما انارکلی ایک رومانی موضوع پر لکھی گئی داستان کی اساس پر استوار ہے ۔مطلق العنان مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر اپنی منظور نظر کنیز انار کلی کے حسن و جمال اور رقص کا شیدائی ہے ۔نادرہ نامی یہ کنیز قصر شاہی میں اس قدر دخیل ہے کہ تما م امور میں بادشاہ اس کی رائے کو اہمیت دیتا ہے ۔اس کنیز سے بادشاہ نے جو پیمان وفا باندھا وہ اس کی زندگی میں بے حد اہم ہے ۔اس کہانی میں ایک اہم موڑ اس وقت آتا ہے جب بادشاہ کا بیٹا اور ولی عہد شہزادہ سلیم بھی اسی کنیز کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو جاتا ہے جو اس کے باپ کے لیے راحت و آرام کا وسیلہ ہے ۔ ایک طرف تو جلال الدین اکبر کی ہیبت و سطوت کے سامنے یہ کنیز بے بس ہے تو دوسری طرف شہزادہ سلیم کی پر کشش شخصیت او رانداز دلر بائی نے اسے تذبذب میں مبتلا کر دیا ہے ۔اس کے لیے جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ بن جاتا ہے ۔ایک طرف تو شہنشاہ جلال الدین اکبر اس کنیز کو اپنی ذاتی ملازمہ سمجھتے ہوئے اس پر بلا شرکت غیرے اپنا استحقاق جتاتا ہے تو دوسری طرف ولی عہد شہزادہ سلیم کی نگاہ انتخاب اس پر پڑ چکی ہے اور اس کہ اپنی شریک حیات بنانے پر تل گیا ہے ۔انارکلی نہایت راز داری سے کام لیتے ہوئے اپنے دونوں عشاق کے دل کی تسکین کا خیال رکھتی ہے ،لیکن عشق اور مشک کبھی چھپائے نہیں چھپ سکتے ۔یہ راز بالآخر ایک اور کنیز دلآرام کی سازش سے طشت از بام ہو جاتا ہے دلآرام جو شہزادہ سلیم سے ٹوٹ کر محبت کرتی ہے ،جب اسے قدر کی نگاہ سے نہ دیکھا گیا تو وہ رقابت کی آگ میں جلنے لگی اور اس نے انار کلی اور شہزادہ سلیم سے بدلہ لینے کی ٹھان لی ۔جلال الدین اکبر اور شہزادہ سلیم میں اس کنیزانار کلی کے حصول کے لیے محاذ آرائی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ دونوں کی افواج آمنے سامنے ہو جاتی ہیں اور ایک جنگ کے بعد شہزادہ سلیم اور انار کلی کو قید کر لیا جاتا ہے ۔شہزادہ سلیم تو محفوظ رہتا ہے مگر انار کلی کو جلال الدین اکبر کے احکامات کے تحت زندہ دیوار میں چنوا دیا جاتا ہے ۔اس طرح اس پوری کہانی کو ایک المیہ قرار دیا جا سکتا ہے جس نے ایک پورے خاندان اور پوری سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا ۔جنرل مان سنگھ جیسے دلیر سپہ سالار اور معاملہ فہم سپاہی،اکبر جیسے سیاست دان اور منتظم کو اس رومانی داستان نے بے بس و لاچار بنا کر اضطراب میں مبتلا کر دیا ۔یہ تمام سوالات ادب کے سنجیدہ قاری کے لیے لمحہ ءفکریہ ہیں۔وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ زیب داستاں کے لیے اس داستاں میں بات کا بتنگڑ بنا دیا گیا ہے ۔یہ سار ا افسانہ کذب و افترا ،بہتان طرازی ،الزام تراشی ،کردار کشی اور بدنیتی پر مبنی شقاوت آمیز نا انصافی کی قبیح مثال ہے ۔خود امتیاز علی تاج نے اس ڈرامے کی حقیقت کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس کو تاریخی واقعات سے متصادم سمجھتے ہوئے اس کی افسانوی حیثیت کو واضح کیا ہے ۔اس سے یہ حقیقت معلو م ہوتی ہے کہ افسانے کبھی حقیقت نہیں بن سکتے ۔اس فرضی ،من گھڑت اور پشتارہءکذب و افترا ڈرامے کے پس منظر کے بارے میں کچھ چشم کشا حقائق پیش خدمت ہیں۔ان کی روشنی میں تا ریخی صداقتوں کی تفہیم اور درست نتائج تک رسائی کی ایک ممکنہ صورت پید ا ہو سکتی ہے ۔

کہا جاتا ہے کہ انار کلی کا واقعہ 1599میں وقو ع پذیر ہوا ۔یورپی سیاح ولیم فنچ جو 1618میں لاہور پہنچا،اس نے اپنی یاد داشتوں میں اس المیے کا ذکر بڑے دردناک انداز میں کیا ہے ۔اس نے پوری کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح اس من گھڑت واقعے کے ذریعے مغل شہنشاہ اکبر کو بد نام کیا جائے ۔اس نے اکبر کی توہین ،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔انگریزوں کا یہ وتیرہ ہے کہ وہ مشرقی تہذیب و تمدن کی رسوائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔اس کے بعد 1618میں ایک اور یورپی سیاح ایڈورڈ ٹیری لاہور آیا ،اس نے بھی اپنے پیش رو سیاح ولیم فنچ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اس فرضی داستان کو خوب نمک مرچ لگا کر پیش کیا۔دراصل یہ ایک سازش تھی جسے مسلسل آگے بڑھایا جا رہا تھا ۔چار سال بعد یعنی 1622میں یورپ سے سیاحت کی غرض سے آنے والے ایک اور سیاح ہربرٹ نے بھی اس قصے کو اپنی چرب زبانی سے خوب بڑھا چڑھا کر بیا ن کیا ۔اس کے باوجود کسی نے ان بے سروپا الزامات اور ہف وات پر کان نہ دھر ا ۔اس زمانے میں ادب کے سنجیدہ قارئین نے اس قسم کے عامیانہ نوعیت کے بیانات کو کبھی لائق اعتنا نہ سمجھا۔ پورے دو سو سال تک بر صغیر کے لوگ اس قصے سے لا علم رہے کسی غیر جانب دار مورخ کے ہاں اس کا ذکر نہیں ملتا ۔نور الدین جہانگیر نے تزک جہانگیری میں کہیں اس کا ذکر نہیں کیا۔اس عہد کے ممتاز مورخ والہ داغستانی اور خافی خان جو اکبر اور جہانگیر کی معمولی نوعیت کی لغزشوںپر بھی نظر رکھتے تھے ،انھوں نے بھی کسی مقام پر اس قصے کو ذکر نہیں کیا۔اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام قصہ محض تخیل کی شادابی ہے ۔یورپی سیاحوں نے اپنی منفی سوچ کو بروئے کا لاتے ہوئے سازش کا جو بیج بویاوہ رفتہ رفتہ نمو پاتا رہا ۔1864میں مولوی نور احمد چشتی نے اپنی تصنیف ” تحقیقات چشتی “ میں انار کلی اور اکبر کے اس رومان کا ذکر کیا ہے ۔1882میں کنہیا لال ہندی نے اپنی تصنیف ”تاریخ لاہور “ میں انار کلی ،اکبر اور سلیم کے اس المیہ قصے کا احوال بیان کیا ہے ۔یہ سلسلہ مقامی ادیبوں کے ہاں ایک طویل عرصے کے بعداس قصے کی باز گشت سنائی دینے لگی ۔سید محمد لطیف نے بہت بعد میں انار کلی اور اکبر کے اس المیے کا ذکر اپنی تصنیف (History of Lahore )میں کیا ہے ۔یہ انگریزی کتاب 1892میں شائع ہوئی۔تاریخ حقائق سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انار کلی ،اکبراور سلیم کا یہ رومانی المیہ جسے ابتدا میںیورپی سیاحوں نے محض تفنن طبع کے لیے اختراع کیا ،آنے والے دور میں اس پر لوگوں نے اندھا اعتماد کرنا شروع کر دیا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حقیقت کو خرافات کے سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے ۔دروغ گوئی کے اس طوفان بلا خیز میں بسیط حقائق اب عنقا ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔اس لرزہ خیز اعصاب شکن حالات میں ادبی تحقیق پر مائل ادیب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ دیکھیے اب خفاش ، افسانہ طراز ،چربہ ساز او رکفن دزد عناصر کیا گل کھلاتے ہیں اور نتائج کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے ہاںتحقیق کی روشنی میں موضوعات کو جانچنے کی روایت اب توجہ طلب ہے ۔
خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے

آثار قدیمہ،تاریخی حقائق اور دستاویزی ثبوت اس تمام المیہ ڈرامے کو جھوٹ کا پلند قرار دیتے ہیں ۔وہ دیوار جس کے بارے میں یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ اس میں انار کلی کو زندہ دفن کیا گیا ۔اس کے آثار لاہور شہر
میں کہیں موجود نہیں ۔انار کلی کے تنازع پر جنرل مان سنگھ اور شہزادہ سلیم کی مسلح افواج کے درمیان جو خونریز جنگ ہوئی اس کے میدان جنگ ،مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد کا کوئی علم نہیں۔یہ بھی معلوم نہیں کہ شہزادہ سلیم اپنے ساتھ جو لشکر جرار لایا اس کی فوری بھرتی کیسے ممکن ہو سکی ۔جنرل مان سنگھ تو مغل افواج کی کمان کر رہا تھا شہزادہ سلیم نے ایک بڑی فوج کہاں سے حاصل کی او راس کی تنخواہ اور قیام و طعام کا بندوبست کیسے ہوا ؟جنرل مان سنگھ کی کامیابی کے بعد شہزادہ سلیم کی حامی اور اکبر کی مخالف فوج پرکیا گزری؟کیا اکبر کی سراغ رسانی اس قدر کم زور تھی کہ اسے دلآرام کے علاوہ کسی سراغ رساں نے اس بات کی مخبری نہ کی کہ ولی عہد شہزادہ ایک کنیز کے چنگل میں پھنس کر بغاوت پرآماد ہ ہو سکتا ہے ۔کیا اکبر اعظم کا نظا م سلطنت اس قدر کم زور تھا کہ اسے اپنے خلاف سازش اور بغاوت کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔یہ سب سوال ایسے ہیں جو اس قصے کو نہ صرف من گھڑت ثابت کرتے ہیں بلکہ اسے یورپی سیاحوں کی بد نیتی اور ذہنی افلاس پر مبنی ایک صریح جھوٹ قرا ردیتے ہیں ۔

لاہورسول سیکرٹیریٹ میںجو انارکلی کے نام سے موسوم ہے وہ انار کلی کا مقبرہ نہیں بلکہ زین خان کوکہ کی صاحب ذادی ”صاحب جمال “کی آخری آرام گاہ ہے۔ یہ شہزادہ سلیم کی منکوحہ تھی ۔ اس کا مقبرہ شہزادہ سلیم نے اپنے عہد میں تعمیر کروایا ۔امتیاز علی تاج نے ولیم فنچ کے بیان کو بنیاد بنا یا ہے ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ اور تخلیق ادب کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں ۔ فرد کی اجتماعی زندگی مختلف نوعیت کے حالات کی امین ہوتی ہے ۔ زندگی میں تغیر و تبدل کا ایک نظام موجود ہے اور اجتماعی زندگی انہی قوانین کے زیر اثر رہتی ہے ۔وادی ءخیال کو مستانہ وار طے کرنے والوں کہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں رہنا چاہیے کہ شعور و ذہن کا ارتقاتاریخ کے ایک ایسے مسلسل عمل کی جانب متوجہ کرتا ہے جو فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرنے کا مﺅثر ترین وسیلہ ہے ۔سید امتیاز علی تاج نے تاریخ او ر تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں بلاشبہ مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کی سعی کی ہے ۔ان کے اسلوب میں تاریخی شعور کا جو منفرد انداز جلوہ گر ہے وہ زندگی کی ایسی معنویت کا مظہر ہے جو نئی بصیرتوں کی امین ہے ۔ہیگل نے لکھا ہے۔

”چونکہ انسانی آزادی اور حساس آزادی ایک چیز ہے لہذا آزادی کا ارتقا کا شعور ذہن کا ارتقا ہے۔ اس عمل میں ہر قسم کے افکار تشکیل پاتے ہیں ۔ اس لیے فلسفہ تاریخ صرف انسانی عمل ہی کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ وہ کائناتی عمل سے بھی پردہ اٹھاتا ہے۔“(1)

تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہو ا کرتا ہے یہ ڈراما اسی جانب توجہ مبذول کراتا ہے کہ سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے اس کے بعد تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے نیست و نابود ہو جاتے ہیں ۔سکندر ،دارا اور اکبر سب تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں ۔اور ان کے نام پر ابلق ایام کے سموں کی گرد پڑ جاتی ہے اور سب کچھ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے ۔

ڈرامہ انارکلی امتیاز علی تاج نے 1922میں مکمل کیا۔ اس کی اشاعت دس سال بعد ہوئی۔اس ڈرامے کو تاریخ کا معتبر حوالہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اس ڈرامے کے اہم پہلو حسب ذیل ہیں:

پلاٹ
سید امتیاز علی تاج کو زبان و بیان پر خلاقانہ دستر س حاصل تھی ۔ ڈراما انارکلی کا پلاٹ سادہ اور مؤثر ہے۔ تخلیقی عمل میں ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے ہوئے امتیاز علی تاج نے نہ صرف کہانی کا تسلسل برقرار رکھا ہے بلکہ پلاٹ کی ضروریات کے مطابق کشمکش، حیرت و استعجاب اور جستجو کا بھی خیا ل رکھا ہے ۔قاری ہر لمحہ اس فکر میں رہتا ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے ۔ امتیاز علی تاج کو مورخ سمجھناایک غلطی ہوگی۔ایک ڈراما نگار اور فکشن رائٹر سے تاریخی حقائق کی چھان پھٹک اور سچے واقعات کی تحقیق کی توقع رکھنا نہ صرف نا مناسب ہے بلکہ ادبی اسلوب کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے ۔وہ ایک صاحب طرز نثر نگار تھے ۔انھوں نے اپنے منفرد اسلوب کے اعجاز سے ڈراما انار کلی میں جس طرح تخیل کی جولانیا ں دکھائی ہیں وہ اس ڈرامے کو لا زوال بنا چکی ہیں ۔اگرچہ ڈراما انار کلی کا پلاٹ تاریخی صداقتوں سے معرا ہے مگر اسلوبیاتی حوالے سے یہ پلاٹ اس قدر پر تاثیر اور جان دار ہے کہ قاری اس کی گرفت سے بے نیاز نہیں رہ سکتا ۔

مکالمہ نگاری
ڈراما انار کلی کے مکالمے پتھروں سے بھی ااپنی تاثیر منوالیتے ہیں۔مثلاً اکبر کا یہ کہنا ” آہ ! میرے خواب ۔ وہ ایک عورت کے عشووں سے بھی ارزاں تھے ۔ فاتح ہند کی قسمت میں ایک کنیز سے شکست کھانا لکھا تھا ۔“

مکالموں میں جذبات کا ایک سیل رواں ہے جو امڈا چلا آتا ہے ۔ قاری اس سیل رواں میں بہتا چلا جاتا ہے ۔ کرداروں کا دبنگ لہجہ بادل کی طرح کڑکتا ہے اور بجلی کی طرح چمک کر نگاہوں کو خیرہ کر دیتا ہے ۔کرداروں کی خود کلامی قاری کو مسحورکردیتی ہے ۔یہ خود کلامی داخلی کرب اور جذباتی شکست و ریخت کا پورا احوال سامنے لاتی ہے ۔ مثلاً:

انارکلی : ” میری ا ماں ! میں خوش ہونے والاسے دل کہاں سے لاﺅں ؟ تمھیں کیسے سمجھاﺅں کہ میں کیوں غمگین ہوں؟“
سلیم : سب کچھ ہو چکا ، انھیں سب معلوم ہوگیا ۔ محبت بچھڑ گئی ، آرزوئیں اجڑ گئیں“

انارکلی کی ایک اور خود کلامی قابل توجہ ہے،اس میں وہ اپنے گلے میں اپنی ہی باہیں ڈال کر مرگ آرزو کا ماتم کرتی نظر آتی ہے ۔اس کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ جاتا ہے اور تڑپ کر پکار اٹھتی ہے :
”ٹوٹ جا۔ نیند ٹوٹ جا ، میں تھک گئی ، سانس ختم ہو جائیں گے“

اکبر کی خود کلامی میں اندیشہ ہائے دور دازاور مستقبل کے حادثات اور تفکرات کے متعلق نہایت پر اسرار گفتگو ہے جو قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔سید امتیاز علی تاج نے اس قسم کی خود کلامی کے ذریعے اپنے اسلوب کی تاثیر کو دو آتشہ کر دیا ہے ۔قاری پہلے تو اس تما م کیفیت کو حیرت سے دیکھتا ہے س کے بعد وہ گہری سو چ :میں ڈوب جاتا ہے ۔سید امتیاز علی تاج نے اکبر کی خود کلامی کالفظی مرقع جس انداز پیش کیا ہے وہ اس بادشاہ کے اندرونی کرب اور ذہنی پریشانی کو صحیح کیفیت میں سمجھنے میں مدد دیتی ہے :

” میرے دماغ میں شعلے بھڑک رہے ہیں ۔میں نہیں سمجھتا کیا کر بیٹھوں گا،مگر وہ اس صدمے کی طرح مہیب ہو گا ۔“

سید امتیاز علی تاج کو نفسیاتی کیفیات اور قلبی احساسات کے بیان پر جو قدرت حاصل ہے وہ ان کے اسلوب کا نمایاں ترین وصف ہے ۔مثال کے طور پر خود کلامی کرنے والے کردار در اصل اپنے داخلی کرب اور اندرونی کش مکش کو اپنے مکالمات کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔شہزادہ سلیم کی خود کلامی سن کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شہزادہ کن اندیشوں کے نرغے میں ہے :

”کیسی گہری اور اندھیری کہر ،جس میں خون کے جلتے ہوئے دھبے ناچ رہے ہیں او راس پار زرد چہرہ،پھٹی ہوئی آنکھیں اور سلیم !سلیم !کی فریاد “

جس وقت انار کلی کو اکبر کے حکم کے تحت قلعہ لاہور کے زندان کے عقوبت خانے میں قید کیا جاتا ہے تو وہ بے بسی کے عالم میں سلیم کو پکارتی ہے ۔اس کی یہ دردناک آواز قاری کی روح پر گہرا اثر مرتب کرتی ہے ۔سید امتیاز علی تاج نے ان ہراساں شب و روز کا احوال بیان کرتے ہوئے تمام نفسیاتی پہلوﺅں کہ پیش نظر رکھا ہے :

”آجاﺅ!تمھاری انار کلی تمھیں دیکھے بغیر نہ گزر جائے “

سید امتیاز علی تاج نے ڈراما انار کلی میںمکالمہ نگاری کے فن کو اوج کمال تک پہنچا دیا ہے ۔تمام کردار موقع اور محل کی مناسبت سے جو گفتگو کرتے ہیں وہ نہ صرف ان کے حسب حال ہوتی ہے بلکہ اسے سن کر قاری کی آنکھیں بھی پر نم ہو جاتی ہیں۔سید امتیاز علی تاج نے فنی تجربوں کے اعجاز سے ڈراما نگاری کو نئے امکانات سے آشنا کیا ۔کردار نگار ی اور مکالمہ نگاری میں انھوں نے جو منفرد تجربات کیے ہیں ان سے اردو ڈراما کی ثروت میں اضافہ ہوا ہے ۔ڈرامہ نگاری میں نت نئے تجربات ان کی ادبی زندگی کا عشق قرار دیئے جا سکتے ہیں۔انھوں نے ڈرامہ نگاری میں پائے جانے والے جمود اور یکسانیت کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا اور افکار تازہ کی ایسی شمع فروزاں کی جس کی ضیاپاشیوں سے جہان تازہ تک رسائی کے امکانات روشن تر ہوتے چلے گئے ۔ شہنشاہ ہند جلال الدین اکبرکی خود کلامی اور ذہنی کیفیت کے بیان میں ایک بلند پایہ تخلیق کار کی حیثیت سے سید امتیاز علی تاج نے اپنے نادر اسلوب سے قاری کو محو حیرت کر دیا ہے ۔جب شہزادہ سلیم انار کلی کی محبت میں اپنے باپ سے آمادہءپیکار ہو جاتا ہے تو اکبر کے دل پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔اسے یہ دیکھ کر شدید رنج ہوتا ہے کہ ایک رقاصہ نے اس کے بیٹے کو بغاوت پر آمادہ کر لیا ۔وہ فرط غم سے نڈھال ہو کر اپنے بیٹے سے کہتا ہے ؛

”کیا معلوم تھا یوں ہو گا شیخو !میرے مظلوم بچے !میرے مجنون بچے !اپنے باپ کے سینے سے چمٹ جا!اگر ظالم باپ سے دنیا میں ایک بھی راحت پہنچی ہے تیرے سر پر اس کا ایک بھی احسان باقی ہے تو میرے بچے اس وقت میرے سینے سے چمٹ جا اور تو بھی آنسو بہا اور میں بھی آنسو بہاﺅں گا“

سید امتیاز علی تاج نے ڈراما کے اسلوب اورہیئت کے جمالیاتی پہلوﺅں پر بھر پور توجہ دی ہے ۔ان کے اسلوب میں جدت ،تنوع اور صد رنگی کی کیفیت قاری کے قلب و نظر کو مسخر کر لیتی ہے ان کی انفرادیت کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔یہ انفرادیت کئی لحاظ سے ایک دلکش تجربے کے روپ میں ڈرامے کو معراج کمال تک پہنچا دیتی ہے ۔اس میں عصری آگہی ،اجتماعیت ،لفظی مرقع نگاری اور نفسیاتی شعور کے اعجاز سے قاری کے دل میں تخلیق کار کے ساتھ ایک گہرا ربط پیدا ہو جاتا ہے ۔اکبر کا یہ مکالمہ کس قدر کرب ناک ہے ۔اس کو سید امتیاز علی تاج نے کس قدر پر تاثیر انداز میں پیش کیا ہے :

”آہ !میرے خواب ۔وہ ایک عورت کے عشوﺅں سے بھی ارزاں تھے ۔فاتح ہند کی قسمت میں ایک عورت سے شکست کھانا لکھا تھا ۔“

سید امتیاز علی تاج نے ڈراما انار کلی کو موضوع ،مواد ،حسن بیان ،مکالمہ نگاری اور کردار نگاری کے انتہائی دلکش انداز کی بدولت ابد آشنا بنا دیا ہے ۔ان کی نیت طیبہ نے اس تخلیق کو وہ منفرد مقام عطا کیا ہے کہ انھیں شہرت عام اور بقائے دوام نصیب ہو گئی ہے ۔سید امتیاز علی تاج نے معاشرتی زندگی کی بے سمتی اور فکری کجی کے متعد د پہلوﺅں کو اس ڈرامے میں ہدف تنقید بنایا ہے ان کی موزوں طبع نے ہر کردار کو لا زوال بنا دیا ہے ۔اکبر جو اس ڈرامے کا سب سے بڑا المیہ کردار ہے اس کے بارے میں یہ طے ہے کہ سید امتیاز علی تاج نے اسے اس تمام المیے میں اہم ترین مقام دیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ پورا ڈراما ہی اکبر کا المیہ بن کر سامنے آتا ہے ۔اس ڈرامے میں حسن و رومان کے تذکرے اپنی جگہ ،رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارو ں کی دلکشی بجا لیکن ایک مطلق العنان شہنشاہ کی ہزیمت اور وہ بھی ایک ا دنیٰ کنیز اور اپنے لخت جگر کے ہاتھوں اسے اکبر کا لرزہ خیز اعصاب شکن المیہ بنا دیتا ہے ۔اکبر کے ان الفاظ پر غور کریں جو وہ اپنے لخت جگر سے کہتا ہے :

”مجھے چھو مت !ایک دفعہ باپ کہہ دے ۔صرف ابا کہہ کر پکار لے !میں تجھے خنجر لا دوں ۔ہاں خنجر لا دوں ،بیٹا یہ بد نصیب باپ جسے سب شہنشاہ کہتے ہیں،اپنا سینہ شگاف کر دے گا ،خنجر اس کے سینے میں گھونپ دینا،پھر دیکھ لے گا اور دنیا بھی دیکھے گی کہ اکبر باہر سے کیا ہے اور اندر سے کیا ہے۔“

سید امتیاز علی تا ج نے ڈراما انار کلی میں المیہ کی جو کیفیات پیش کی ہیں ان میں نفسیاتی ،اخلاقی اور تاریخی المیہ کو بہ طور خاص اجا گرکیا گیا ہے ۔یہ ڈراما ہر اعتبار سے اکبر کا المیہ ہے جو قدم قدم پر غم و اندہ سے دوچار نظر آتا ہے ۔اس کا سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہجوم یاس کو اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر اس کا دل گھبرا گیاہے ۔جب اس کی کوئی امید بر نہیں ٓاتی اور سکون قلب کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو وہ جھنجلا جاتا ہے اور بے رحمانہ انتقام پر اتر آتا ہے ۔یہی اس کا المیہ ہے ۔جب وہ یہ فیصلہ صادر کرتا ہے تو وہ کس قدر شکست خوردہ ذہنیت کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے :

”جس طرح اس نے میری اولاد کو مجھ سے جدا کیا ،یوں ہی وہ اپنی ماں سے جدا ہو گی ۔جس طرح اس نے مجھے عذاب میں ڈالا یوں ہی وہ عذاب میں مبتلا کی جائے گی ۔جس طرح اس نے میرے ارمانوں اور خوابوں کو کچلاہے ،یوں ہی اس کا جسم کچلا جائے گا ۔لے جاﺅ!اکبر کا حکم ہے ،سلیم کے باپ کا ،ہندوستان کے شہنشاہ کا ،لے جاﺅ اس حسین فتنے کو ،اس دل فریب قیامت کو لے جاﺅ!گاڑ دو، زندہ دیوار میں گاڑ دو۔“

ڈراما انار کلی کو اردو ڈراما کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے ۔سید امتیاز علی تاج نے اپنے تجربات ،احساسات اور مشاہدات کو جس کامیابی کے ساتھ قارئین ادب کو منتقل کیا ہے وہ لائق تحسین ہے ۔ان کے اسلوب میں متعدد معروضی حقائق کی جانب اشارے ملتے ہیں ۔وہ ہوائے جور و ستم میں بھی رخ وفا کو بجھنے نہیں دیتے ۔وہ جبر کا ہرا نداز مسترد کرنے کے قائل ہیں اور ظالم کے خلاف قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کرتے ہیں۔ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا ان کا شعار ہے ۔اس ڈرامے میں سید امتیاز علی تاج نے ایک انتہائی اہم بات کی جانب توجہ دلائی ہے کہ انسان کی قسمت میںیہ لکھ دیا گیا ہے کہ اس کے تمام معا ملات میں تقدیر ہی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے ۔تقدیر اگر ہر لمحہ ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں فضا میں نہ بکھیرے تو اسے تقدیر کیسے کہا جا سکتا ہے۔اس ڈرامے میں بھی تقدیری عنصر نے اکبر کے جاہ و جلال اور قوت و
ہیبت کی پوری بساط ہی الٹ دی ہے۔وہ آلام روزگار کے مہیب بگولوں کی زد میںآکر چاروں جانب ہمدردی کا متلاشی نظر آتا ہے مگر کوئی اس کی مدد نہیں کرتا ۔ اور یو ں یہ ڈراما اکبر کا المیہ بن جاتا ہے ۔یہ ایک ایسا المیہ ہے جو زندگی کی حقیقی معنویت کے بارے میں فکر ہ نظر کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے ۔اکبر نے جو فصیل جبر تعمیر کی زمانے نے اسے بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا۔یہ ڈرما ہر اولی الامر کو یہ صدا دیتا ہے کہ وہ اپنی فرد عمل سنبھالے ۔اسے اپنے سلسلہ ءروز و شب کا حساب دینا ہو گا ۔مظلوموں کے آنسو ،آہیں اور سسکیاں جبر کے ایوانوں اور قہر کے فرمانوں کو دریا برد کر دیتے ہیں۔قلعہ لاہور کا یہ ایوان زبان حال سے یہ کہہ رہا ہے کہ نامیوں کے نشان مٹ جاتے ہیں ۔اکبر کا یہ المیہ ہر فرعون کے لیے تازیانہءعبرت ہے ۔مجید امجد نے سچ کہا تھا :
مرمریں قبر کے اندر تہہ ظلمات کہیں
ملخ و مور کے جبڑوں میںسلاطیں کے بدن
آج بھی قہقہے جشن مناتے ہوئے نادانو ں کے
جب کسی ٹوٹتی محراب سے ٹکراتے ہیں
مرقد شاہ کے مینار لرزجاتے ہیں

حوالہ
(1)مبارک علی ڈاکٹر :تاریخ اور فلسفہ تاریخ ،فکشن ہاﺅس ،لاہور ،1993،صفحہ 140۔
Dr. Ghulam Shabbir Rana
About the Author: Dr. Ghulam Shabbir Rana Read More Articles by Dr. Ghulam Shabbir Rana: 80 Articles with 238002 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.