اسلام میں عید کا تصور

جس طرح ہر قوم و ملت کی عید اور تہوار اپنا ایک مخصوص مزاج اور پس منظر رکھتے ہیں، بالکل اسی طرح اسلامی عیدین کا بھی ایک حسین، دل کش اور ایمان افروز پس منظر ہے۔رمضان المبارک ایک انتہائی با برکت مہینہ ہے۔ یہ ماہ مقدس اﷲ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں، مغفرتوں اور عنایات و برکات کا خزینہ ہے۔ جب بندہ مومن اتنی بے پایاں نعمتوں میں ڈوب کر اور اپنے رب کی رحمتوں سے سرشار ہوکر اپنی نفسانی خواہشات، سفلی جذبات، جسمانی لذات، محدود ذاتی مفادات اور گروہی تعصبات کو اپنے رب کی بندگی پر قربان کر کے سرفراز و سربلند ہوتا ہے، تو وہ اﷲ کے ہاں مقرب بن جا تا ہے ، اﷲ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور اس بندے کے گناہ معاف کر دیئے جا تے ہیں چنانچہ یہ ماہ ِ مقدس ختم ہوتے ہی یکم شوال کو وہ دن عید الفطر کی صورت میں طلوع ہو جاتا ہے۔رمضان کی آخری رات فرمانِ رسولؐ کے مطابق ’’یومِ الجزاء‘‘ قرار پائی ہے اور اﷲ کے اس اِنعام و اِکرام سے فیض یاب ہونے کے بعد اﷲ کا عاجز بندہ سراپا سپاس بن کر شوال کی پہلی صبح کو یومِ تشکُّر کے طور پر مناتا ہے بس یہی حقیقت ِ عید اور روحِ عید ہے، چنانچہ حضور ﷺ کا فرما ن ہے: ترجمہ: ’’حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’رمضان کی آخری رات میں آپ کی امت کے لیے مغفرت کا فیصلہ (بارگاہِ الوہیت سے) کر دیا جاتا ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ ﷺ! کیا وہ (رات) شبِ قدر ہے؟، حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: شب قدر تو نہیں ہے لیکن عمل کرنے والا جب عمل پورا کر دے تو (رحمت الٰہی کا تقاضا اور سنت جاریہ یہ ہے کہ) اسے پورا اجر عطا کیا جاتا ہے۔نمازِ عید کا ثبوت صحیح احادیث سے ملتا ہے۔ احناف کے نزدیک عید کی نماز ہر اس شخص پر واجب ہے جس پرجمعہ فرض ہے، دیگر ائمہ میں سے بعض کے نزدیک فرضِ کفایہ ہے اور بعض کے نزدیک سنت موکدہ ہے نمازعید بغیر اذان و اقامت کے پڑھنا حدیث سے ثابت ہے۔ نمازِ عید کا وقت چاشت سے لے کر نصف النہار شرعی تک ہے۔ عید الفطر ذرا تاخیر سے پڑھنا اور عید الاضحی جلدی پڑھنا مستحب ہے۔ نمازِ عید کے بعد امام کا دو خطبے پڑھنا سنت ہے۔ احناف کے نزدیک نمازِ عید میں چھ زائد تکبیریں ہیں جو پہلی رکعت میں سور فاتحہ سے پہلے تین اور دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے تین زائد تکبیریں امام کے ساتھ پڑھنی چاہئیں۔ دیگر ائمہ کے نزدیک ان زائد تکبیرات کی تعداد چھ سے زائد ہے۔ عید کی نماز آبادی سے باہر کھلے میدان میں پڑھنا سنت ہے۔ البتہ بارش، آندھی یا طوفان کے سبب مسجد میں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ عیدالفطر میں نماز سے پہلے کچھ کھا پی لینا سنت ہے۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اہلِ مدینہ دو دن بہ طورِ تہوار مناتے اور اُن میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ سلم نے اُن سے دریافت فرمایا’’یہ دو دن، جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟‘‘ تو اُنہوں نے کہا’’ہم عہدِ جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اِسی طرح منایا کرتے تھے۔‘‘ یہ سن کر نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا’’اﷲ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن مقرّر فرما دیے ہیں،یوم عیدالاضحٰی اور یوم عیدالفطر۔‘‘(ابو داؤد)نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے عیدین کے موقعے پر شرعی حدود میں رہتے ہوئے خوشیاں منانے کی اجازت دینے کے ساتھ، دوسروں کو بھی ان خوشیوں میں شامل کرنے کی ترغیب دی۔ نیز، ان مواقع پر عبادات کی بھی تاکید فرمائی کہ بندہ مومن کسی بھی حال میں اپنے ربّ کو نہیں بھولتا،نبی کر یم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے’’جب یومِ عید آتا ہے، تو شیطان چلا چلا کر روتا ہے،اُس کی ناکامی اور رونا دیکھ کر تمام شیاطین اُس کے گرد جمع ہوجاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ’’تجھے کس چیز نے غم ناک اور اُداس کردیا؟‘‘شیطان کہتا ہے کہ’’ہا ئے افسوس!اﷲ تعالیٰ نے آج کے دن امت محمدیہ کی بخشش فرمادی ہے،لہٰذا تم اُنہیں پھر سے لذّتوں اور خواہشاتِ نفسانی میں مشغول کردو۔‘‘ ہم چاند رات بازاروں اور غل غپاڑے میں گزار دیتے ہیں، جب کہ احادیثِ مبارکہؐ میں اس رات میں عبادت کی تاکید کی گئی ہے۔ حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’جو شخص عید الفطر اور عید الاضحی کی راتوں میں عبادت کی نیّت سے قیام کرتا ہے، اُس کا دِل اُس دن بھی فوت نہیں ہوگا جس دن تمام دِل فوت ہو جائیں گے۔‘‘(ابن ماجہ) حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’جو شخص پانچ راتیں عبادت کرے، اُس کے لیے جنّت واجب ہوجاتی ہے۔وہ راتیں یہ ہیں، ذوالحجہ کی10,9,8ویں رات،شبِ برات،اور عید الفطر کی رات۔‘‘(الترغیب والترہیب)لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ اس رات بے مقصد گھومنے پِھرنے اور گناہ کے کاموں میں گزارنے کی بجائے نوافل، نمازِ تہجّد، تلاوتِ قرآن اور دیگر عبادات میں مشغول رہیں تاکہ اس کی برکات حاصل کر سکیں۔عید کے اس پرمسرت موقع پر ہمارا ایک کام یہ بھی ہونا چاہیے کہ آس پڑوس اور رشتے داروں پر نظر دوڑائیں کہ کہیں اُن میں سے کوئی ایسا تو نہیں، جو اپنی غربت اور تنگ دستی کے سبب عید کی خوشیوں میں شامل ہونے سے محروم ہے۔ اگر ایسا ہے، تو یقین جانئے، ہم خواہ کتنے ہی اچھے کپڑے پہن لیں، طویل دسترخوان سجا لیں، عیدیاں بانٹتے پِھریں، ہماری عید پھر بھی پھیکی ہی رہے گی، بلکہ ایسی عید، عید کہلانے کے قابل ہی نہیں، جس میں دیگر افراد شامل نہ ہوں۔حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کو زمانہ خلافت میں لوگ عید کی مبارک باد دینے گئے، تو دیکھا کہ امیر المومنین خشک روٹی کے ٹکڑے تناول فرمارہے ہیں۔ کسی نے کہا’’آج تو عید کا دن ہے؟‘‘ یہ سن کر آپؓ نے ایک سرد آہ بھری اور فرمایا’’جب دنیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہوں، جنھیں یہ ٹکڑے بھی میّسر نہیں، تو ہمیں عید منانے کا حق کیوں کر حاصل ہے؟دعا ہے کہ مولائے کریم ہم سب کو عید الفطر کی خوشیاں نصیب فرمائے اور اس موقع پر غریب ناداروں کو بھی یاد کھنے کی توفیق بخشے،اﷲ کریم ہمارے پیارے ملک عزیز پاکستان کو تمام خطرات سے محفوظ رکھے اور صبح قیامت تک قائم و دائم رکھے۔آمین

 

Salman Usmani
About the Author: Salman Usmani Read More Articles by Salman Usmani: 182 Articles with 158867 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.