جہاں روٹی زہر سے سستی ہو

بھوک ‘افلاس اور مایوسی کے سایوں تلے پروان چڑھتے زرد چہرے بسا اوقات نہ صرف اپنی راہ بھول جاتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی بھٹکانے میں ابلیس اور اُس کے حواریوں کی خاطر خواہ امداد کرتے ہیں ۔اور یوں یہ سلسلہ سینہ بہ سینہ کئی نسلوں تک پھیل کرکسی بھی ریاست کی بنیادوں کو دیمک لگانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ شاذونادر تو ایسے افراد آسمانی کتب میں غوطہ زن ہو کر ایسا مذہب نکا ل لاتے ہیں جو آفاقی دین کی اصل روح کو ہی مسخ کر دیتا ہے۔ریاست لمحہ بہ لمحہ روبہ زوال کی جانب پیش قدمی جاری رکھتی ہے۔چور‘ڈکیت‘اُچکے‘دہریے اور اخلاقی حدوں سے کوسوں دور بیٹھے افراد مسند اقتدار پر فائز ہوتے رہتے ہیں۔ظلم آخری حدوں کو چھونے لگتا ہے۔انسان تو کُجا جانوربھی وہاں پریشان حال ہوتے ہیں۔کبھی زمین پر پناہ ڈھونڈتے ہیں تو کبھی فلک کی جانب مُنہ اُٹھا کرانسان کی وحشت پر نوحہ کناں ہوتے ہیں۔جس بستی ‘جس شہر‘جس ملک میں انسان کی سانسیں بے دریغ اکھڑ رہی ہوں‘جہاں بنی آدم کا خون پانی سے ارزاں ہو‘جہاں آئے روز بنت حوا کی عصمت دری کی شرح بڑھ رہی ہو‘جہاں اپنے ہی جگر گوشوں کو غُربت سے تنگ آئے دست ذبح کر ڈالتے ہوں‘جہاں سرِشام ودن دیہاڑے سڑکیں ‘گھروہر ہنستی بستی جگہ ذبیح خانہ بنی رہتی ہو‘جہاں کرپشن ‘لوٹ مار‘بھتہ خوری‘اور دہشت گردی کی سرپرستی ”ذی حشم بڑے“ کرتے ہوں‘جہاں جنسی انار کی دس سے بارہ برس کے بچوں میں عود آئی ہو‘جہاں ذرائع ابلاغ واحیات مناظر دکھانے میں شیر سے بھی زیادہ بہادر اور بھیڑئیے سے بھی زیادہ بھیانک ہوں‘جہاں کے فلسفی ودانشور بازار میں بکتے ہوں‘جہاں کے دروبام پر الزام ودشنام طرازی کی کالی گھٹا چھائی ہو‘جہاں کی نیشنل اسمبلی کے ایک ممبر کے ماہانہ اوسط اخراجات 32لاکھ سے تجاوز کر جاتے ہوں‘جہاں کی قومی اسمبلی کا حجم کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی نیشنل کی اسمبلی سے زیادہ ہو‘جہاں کے 543م۔این۔ایز کے ایک اندازے کے مطابق (گوگل)نو ہزار کروڑ کے لگ بھگ رقم پانچ سالہ پروگرامِ جمہوریت میں ہڑپ کرنا اپنا حق سمجھتے ہوں۔وہاں جی ہاں وہاں کمینگی اور وحشت کا راج نہیں ہو گا تو کس کا ہو گا؟؟ایک محتاط اندازے کے مطابق ارضِ وطن کے آٹھ کروڑ سے زائد بشر خوراک کی کمی کا شکار ہیں ۔ایس۔ڈی۔پی ۔آئی کی رپورٹ کے مطابق اس مقدس سرزمین پر 48.6فیصد انسانوں کی حیات کے چراغ غذا کی عدم دستیابی سے ٹمٹمارہے ہیں۔جب کہ عالمی بینک کے 2011کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں 44ملین باشندے غربت کی انتہائی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔اور انہیں اپنے شکم کی آگ کو سرد کرنے کیلئے گندم ُخوردنی تیل اور مکئی وغیرہ جیسے بنیادی اجزائے غذا بھی دشوار گزار مرحلوں سے گزرنے کے بعد میسر آتے ہیں۔بقول نذیر اکبر آبادی
دیوانہ آدمی کو بناتی ہیں روٹیاں
خود ناچتی ہیں ‘سب کو نچاتی ہیں روٹیاں

پیٹ کا جہنم ہی ہے جو جن وانس اور جانوروں کو پورا دن معاشی تگ ودو میں سرگرداں رکھتا ہے۔بھوک مٹانے کی دوڑ میں پاکستان دن بدن پیچھے جارہا ہے۔کہنے کو توپاکستان 2025 میں اٹھارواں بڑا اقتصادی ملک بن جائےگا۔ لیکن ہمارا بھیک کا ہنر اقوام عالم میں طشت از بام ہے۔ملک کے طول واطراف میں اکثر فروٹ اور ترکاریاں کے نرخ سوروپے فی کلوگرام تک جا پہنچے ہیں۔پینتالیس فیصد سے زائد خواتین انیمیا(خون کی کمی) کا شکار ہیں۔ملک کی نصف آبادی معیاری خوراک سے محروم ہیں۔ہم وطن جا بجا محرومیوں اور ہوشربا مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آکر اپنے ہی جسم کے اعضاءکٹوا کٹوا کر فروخت کر رہے ہیں ‘چند غربت زدہ مسیحا(ڈاکٹرز)بھی اندھیرے میں مریضوں کے اعضاءکاٹ کر اسمگل کے ذریعے اپنی معاشی پسماندگی کا غم غلط کرنے میں مصروف ہیں‘سینکڑوں خواتین مایوسی کے اندھیروں میں عصمت فروشی جیسا قبیح فعل اختیار کر چکی ہیں اور یہ شرح روز بروز بڑھ رہی ہے‘لوڈشیڈنگ کا اژدھا پھن پھیلائے ہماری صنعت و زراعت کو نگل رہاہے‘ ‘ مگر پچاس فی صد پانی کو رائیگاں کرنے پر ہم مصر ہیں ‘امن وامان کی ناقص صورتحال کی بناءپر ملکی سرمایہ باہر منتقل ہو رہاہے مگر مجال ہے جو امراءہوش کے ناخن لیں ۔اُن کے کان پر تک تو جُوں تک نہیں رینگتی۔اگر غذائی بحران کی راہیں مسدود نہ کی گئیں اور خوراک کی فراہمی کیلئے انقلابی بنیادوں پر اقدام نہ اُٹھائے گئے اور محض دعوے لہرانے اور حلف بیچنے کا کاروبار ہوتا رہا تو ملکی سرحدیں غیرمحفوظ ہوجائیں گی۔آج بچے سے لے کر جوان و ادھیڑ عمر افراد تک کی زندگی میں وہ رمق دکھائی نہیں دیتی جو ایک جیتے جاگتے انسان کی زندگی کا خاصہ ہوتی ہے۔اسی ضمن میں کسی غمگسار شاعرنے چند الفاظوں کو آگے پیچھے کر کے شاعری کا رنگ دیاہے۔الفاظ کی نشست بدلنے سے تو بڑے بڑوں کے رنگ بدل جاتے ہیں۔جیسے مرزا کی شعلہ بیانی پر کراچی کی صاحبہ موردالزام ٹھہری ہے۔اب سچا کون ہے اور کاذب کون ؟یہ تو آپ کو اُن کے اسلو ب گفتاری‘طرز اداکاری‘گلوکاری اوراندازِضرب کاری سے معلوم ہو ہی گیا ہوگا۔لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ مطعون و معدوم کون ہوتا ہے۔اور وقت کس کس سے وطن کے جوانوں کے لہوکی قیمت وصول کرتا ہے۔اچھا تو بات ہو رہی تھی اشعار کی ۔قافیہ ‘ردیف‘اور وزن وبحر سے تو میں نابلد ہوں (لہذا اگر اشعار میں غلطی ہو گئی ہو تو درگزرکیجئے گا ویسے تو آپ دریا دل قوم ہیں امراءکے غلطان بھی جزا وسزاکے بغیر خوش دلی سے معاف کردیتے ہیں)۔کیونکہ دین مبین میں شاعری سے رغبت کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔مثبت وحکمت سے بھرپور شاعری الگ شہ ہے مگر سب سے افضل تلاوت قرآن مجید ہے۔حدیث شریف میں ہے”تم میں سے کسی کا پیٹ پیپ سے بھر جائے وہ اس کیلئے بہتر ہے کہ شاعری سے بھرے“(حدیث نمبر 5009‘باب الادب۔ابوداﺅد)۔مزید برآں بیہقی کی روایت کے مطابق آپ ﷺنے پورا شعر کبھی نہیں پڑھا۔زیادہ سے زیادہ ایک مصرعہ پڑھ لیتے تھے۔چونکہ بیشترشاعری میں کذب ومبالغہ‘تخیلاتی پرواز‘اور فرضی نکتہ آفرینی سے کام لیا جاتا ہے اس لیئے سرورکائناتﷺ کی ذات اقدس اس سے مبرا تھی اور یہ آپ کہ شایان شان بھی نہ تھا۔وگرنہ قریش تو کجا ان کی لونڈیاں بھی بہترین اشعار کہنے کے ہنر سے واقف تھیں۔عربی میں کہتے ہیں”اعذب الشعر اکذبہا“یعنی بہتر اور عمد شعر وہ ہے جس میں زیادہ سے زیادہ جھوٹ کی شمولیت ہو۔بہر طور ہم نظم کی بحث میں اصل موضوع سے پردہ نشیں ہوگئے۔درحقیقت شاعری کے متعلق دلائل کے لئے ایک مفصل تحریر کی ضرورت ہے جسے ہم کسی مناسب وقت کیلئے اُٹھا رکھتے ہیں۔فی الحال وطن کے دکھ درد اور مفلوک الحال حالات کی ترجمانی کرتے ہوئے پُرامید اشعار پیش خدمت ہیں۔
اُمید ابھی کچھ باقی ہے
اک بستی بسنے والی ہے
جس بستی میں کوئی ظلم نہ ہو
اور جینا کوئی جرم نہ ہو
وہاں پھول خوشی کے کھلتے ہوں
اور موسم سارے ملتے ہوں
بس رنگ اور نور برستے ہوں
اور سارے ہنستے بستے ہوں
امید ہے ایسی بستی کی
جہاں جھوٹ کا کاروبار نہ ہو
دہشت کا بازار نہ ہو
جہاں منصف سے انصاف ملے
دل سب کا سب سے صاف ملے
اک آس ہے ایسی بستی ہو
جہاں روٹی زہر سے سستی ہو
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 175782 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.