کراچی شہر میں ( ڈیجیٹل )مردم شماری کی متواتر عزت تار تار

کراچی میں مردم شماری کا عمل تقریباً 90 فیصد مکمل ہوگیا ہے مگر دستاویزات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شہر کی مجموعہ آبادی میں 6 برس قبل کے مقابلے میں 15 فیصد کمی کا امکان ہے جس کے بعد نیا تنازع جنم لینے کا خدشہ ہے۔

شہر قائد کی ڈیڑھ کڑوڑ آبادی کو غائب کردیا گیا ہے اور 2017 ہر شہر قائد کی ڈیڑھ کروڑ آبادی کو غائب کر دیا گیا ہے اور دکھائی گئی ڈیڑھ کروڑ آبادی میں سے اس بار ہونے والی مردم شماری میں 10 لاکھ آبادی کو کم دکھایا جا رہا ہے۔ دنیا میں کے تقریبا 10 بڑے شہروں میں سے کراچی بھی ان میں شامل ہے جن میں تیزی سے اربنائزیشن ہوئی ہے اور مسلسل ہورہی ہے.اس وقت شہر کی آبادی ایک کروڑ 34 لاکھ 71 ہزار 136 افراد پر مشتمل ہے، جو 2017 کی مردم شماری کے 89.93 فیصد کے بعد 15.94 فیصد کم ہے، 2017 میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ 24 ہزار 894 تھی اور حتمی نمبر تقریباً ایک کروڑ 60 لاکھ 50 ہزار بنتا ہے۔ آبادی میں کمی کے حوالے سے کراچی شرقی پہلے نمبر پر ہے جہاں 25 فیصد کمی آئی ہے، شرقی میں تقریباً 85 فیصد مردم شماری مکمل ہوچکی ہے، اسی طرح کا رجحان ضلع جنوبی میں بھی دکھا گیا جہاں 19.7 فیصد کمی آئی اور اب تک 92.64 فیصد مردم شماری ہوچکی ہے۔

ضلع کورنگی میں 2017 کے مقابلے میں ایک فیصد آبادی کم ہوئی ہے، کیماڑی میں 17 فیصد، وسطی میں 11.84 فیصد، غربی میں 9.68 فیصد اور ملیر میں 6.61 فیصد کمی آئی ہے۔ اس لیے اس شہر کو ایک فارمولے کے تحت مردم شماری میں ہمیشہ کراچی کو پیچھے دھکیلا گیا، کراچی تین کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل شہر ہے۔ایک دفعہ پھر اب تو ڈیجیٹل مردم شماری میں بھی کراچی کی 66 فیصد آبادی کو گنا ہی نہیں گیا ہے۔ اس دفعہ ڈیجیٹل مردم شماری میں کراچی کی کچی آبادیوں، سپر ہائی وے کے اطراف آبادیوں کو گنا ہی نہیں گیا ہے۔ اگر کہیں خانہ شماری کی گئی تو وہاں افراد کو پورا نہیں گنا گیا۔ کثیر المنزلہ عمارات میں ہر گھر کو الگ م ش دینے کے بجائے ایک ہی شمار کیا گیا ہے۔ ڈیجیٹل مردم شماری کے عمل میں شامل صوبائی حکومت کے ملازمین ،ماتحت اداروں کے افسران پر شہری سیاسی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں ثبوت کے تحت صوبائی حکومت اور اداروں کی ملی بھگت سے سنگین الزامات لگائے جارہے ہیں یہ سازش کی جا رہی ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اندرون سندھ گھروں کی تعمیرات میں 15 فیصد اضافہ ہوا جب کہ کراچی جیسے میٹرو پولیٹن شہر میں صرف 7 فیصد اضافہ ہوا۔ جبکہ پورے پاکستان میں جتنی کنسٹرکشن میں جتنی کنسٹرکشن مشینری استعمال ہورہی ہے اُس کی اوسط نکالیں وہ 35 فیصد بنتی ہے جبکہ کراچی میں وہ تقریبا 65 فیصد بنتی ہے . یہ کراچی شہر کے ساتھ وفاق اور صوبائی حکمرانوں اور اداروں کا بہت بڑا ظلم نہیں ہے تو کیا ہے. اس شہر قائد کی آبادی بھی کم دیکھاؤ اور اس کے لوگوں کو کے ٹیکس سے مُلک بھی چلاؤ یہ ظلم اور زیادتی نہیں تو کیا ہے. اس آبادی میں صیح نہیں شمار کرنا میں صرف اور صرف سیاسی اور ؟؟؟ بددیانتی ہے. اگر کراچی شہر کی آبادی گنتی میں صیح شمار کی تو اس کی قدرتی قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کی سیٹوں کی تعداد اضافہ ہوگا اور پنجاب کی سیٹ کی تعداد کمی ہوئیگی کیونکہ جو سیٹوں میں کراچی میں اضافہ ہوئیگا وہ آئین کے تحت بڑے صوبہ کی سیٹ کم کرکے جہاں سیٹوں میں اضافہ ہوتا ہے اُس شہر میں یہ سیٹیں ایڈجسٹ کی جاتیں ہیں. اور جب کراچی شہر کی سیٹوں میں اضافہ ہوئیگا تو قدرتی سندھ کی صوبائی سیٹوں یا یہ کہلو پیپلزپارٹی کو سندھ حکومت بنانے میں اعر سندھ کارڈ کھیلنے میں ناکامی نظر آتی ہے. یہی وجہ ہے کہ وفاق اور سندھ کے ادارے اور حکمران کراچی کی مردم شُماری کے اضافہ میں مسلسل چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں . یہ ہے اصل میں کراچی کے ساتھ مسلسل 1947 سے زیادتیوں کی اہم وجہ جو آج تک نہ ہی جماعت اسلامی ، مسلم لیگ (ن ) ، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی اصل سترہ مہری کراچی سے جبکہ متحدہ کے وہ تمام ( گروپ ) جنہوں نے نہ کبھی سندھ کے شہریوں کو بتایا یا انہیں اعتماد میں لیا کیونکہ وہ اب بس اپنا اور اپنی فیملیوں کا مستقبل لندن ، یورپ اور امریکہ وغیرہ کی طرف دیکھتے ہیں ان کو کوئی اب سروکار نہیں کہ کراچی کے پڑھے لکھے طبقہ کے ساتھ کہاں کہاں زیادتی ہورہی ہے اور یہ گروپ نے اب تک چپ سادھ لی ہے. اس ہی لیے 1986 سے یہ شہری جماعتیں اقتدار میں مختلف حوالوں سے کبھی مرکز تو کبھی صوبائی حکمرانوں کی خاص اہمیت میں رہی ہیں مگر پھر بھی مردم شماری کے علاوہ بھی کسی ایک نکتہ پر بھی شہری عوام کے چہروں پر کوئی اُمید کی کرن روشن کی ہو اس ڈیجیٹل مردم شماری سے عام فہم آدمی بھی یہ ہی اندازہ لگاسکتا ہے کہ کراچی شہر کی ڈیجیٹل مردم شماری میں کچھ نہ کچھ تو کیا ہوگا . اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق سندھ کی ٹوٹل آبادی 5 کروڑ 43 لاکھ سے زائد ہے جس میں حیدرآباد ڈویژن کی آبادی 3 لاکھ اضافے کے ساتھ ایک کروڑ 12 لاکھ ہو گئی ہے جبکہ کراچی ڈویژن کی اب تک کی آبادی 1 کروڑ 50 لاکھ سے زائد ہے۔ جبکہ لاڑکانہ کی آبادی 74 لاکھ سے زائد ہے، میرپور خاص کی آبادی 48 لاکھ سے زائد ہے، شہید بینظیر آباد ڈویژن ( نواب شاہ ) کی آبادی57 لاکھ سے زائد جبکہ سکھر ڈویژن کی آبادی 60 لاکھ سے زائد ریکارڈ کی گئی ہے۔ اگر اس پر یقین کریں تو لاڑکانہ ومیرپورخاص، بے نظیر آباد و حیدرآباد ڈویزن ان کی آبادی و گھر کے حساب سے روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی چیزیں جن میں الیکٹرک میٹر، گیس میٹر، ٹیلی فون، اسکولز، کالجز، ٹرانسپورٹس، اسپتال سروسز۔ ایمبولینس سروسز، موبائیل فونز کالز، ٹوٹل پانی کتنے ہزار گیلن کا استعمال، ٹوٹل گھر و اپارٹمنٹس، ٹوٹل شناختی کارڈ جاری ان پانچ سالوں میں رجسٹرڈ، ٹوٹل پرائیوٹ گاڑیاں کار وغیرہ کی رجسٹریشن دس سالوں میں، اس ہی طرح روزمرہ اشیاء شکر ، آٹا ، چاول و خوردنی آئل ان اشیاء کا ڈیٹا فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے پاس موجود ہوتا ہے اس سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اندرون سندھ کی آبادی کے لیے کتنا فوڈ استعمال ہوا اس سے با آسانی نتیجہ نکال سکتے ہیں . آج کل کے دور میں فی آدمی کا اوریج خوراک سے بھی آبادی کا ٹوٹل نکل سکتا ہے. اور اس کے بعد کراچی ڈویزن کی آبادی کو بھی اس ہی سانچے میں جانچیے تو یہ معلوم ہوجائیگا کہ کراچی کے ساتھ گزشتہ مردم شماریوں میں تو زاتیاں ہوتیں آئیں ہیں. اور اب یہ ڈیجیٹل مردم شماری میں تو کُھلم کُھلا کیں جارہی ہیں. جبکہ شہر کراچی کی اسٹیک ہولڈر اس پر صرف بیانات دیکر اپنا پلو جھاڑ کر بہت بڑا تیر مار کر اپنا فرض ادا کررہے ہیں. جبکہ شہری سیاسی جماعتیں جن میں ن لیگ، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، عوامی نیشنل پارٹی، تحریک انصاف، مہاجر قومی موومنٹ ( آفاق ) متحدہ ( پاکستان ) وغیرہ وغیرہ ان میں سے سوائے جماعت اسلامی اور مٹحدہ پاکستان تو پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا میں بیانات داغ کر عوام میں الیکشن کے لیے اپنا اس پر بیانیہ بنانے کی تیاری کی جارہی ہیں. جبکہ کئی دہائیوں سے سندھ کے شہروں کے ساتھ یہ ناانصافیوں پر پہلے بھی ان جماعتوں نے صرف بیان بازی تک ہی مصروفیت کے ساتھ وزارت، و اسمبلیوں کے فلور پر صرف شعلہ بازیاں بیکھرتے رہے اور اسمبلیوں سے باہر پکوڑے تلنے، چوڑیاں و مہندی کے اسٹال و گھنٹہ لگانے کی نوید تو عوام کو آئے دن سناتے رہے، مگر جو شہری عوام کا دیرینہ مطالبہ اور شہر کراچی کے ساتھ جس طرح بہیمانہ طریقے سے ان کو شمار نہ کرکے ان کے سرعام جیتے جی ان کی آدم شماری کے اندراج میں جو بیہمانہ قتل عام کیا جارہا ہے. اس پر پیپلز پارٹی کے شہر کراچی کے عہدیداران رضا ربانی، تاج حیدر، شہلا رضا، مرتضی وہاب، وقار مہدی، مرتضی وہاب و قادر پٹیل وغیرہ جیسے قابل قدر نام جو آئین کا احترام پہلے بعد میں دوسری بات وہ بھی اس کراچی شہر پر مردم شماری پر کاری ضرب لگنے پر ان کی خاموشی کیا معنی رکھتی ہے یہ بھی کراچی شہر کے لوگوں کو مردم شماری میں کم گنا کو اپنی جماعت کا کے ساتھ دینا یہ کراچی شہر کے لوگوں کے لیے افسوس کا مقام ہے کے کراچی شہر کے لوگوں کے لیے کسی بھی سیاسی ، مذہبی ، مسلکی ، لسانی یا سماجی تنظیمیں ایدھی ، جے ڈی سی ، چھیپاء ، عالمگیر ، صارم برنی وغیرہ کے پلیٹ فارم سے اس ظلم پر کوئی آواز آئی ہو سیاسی جماعتیں ووٹ لینے کے لیے اس شہر کراچی میں رات دن ایک کردیتی ہیں اور یہ سماجی تنظیمیں یہ صرف اپنے اداروں کو چلانے کے لیے صرف کراچی شہر کے باسی صرف چندے ، زکاتہ ، فطرہ ، صدقہ وصول کرنے کے لیے ہی یاد آتے ہیں . رہنماؤں نے اپنے اپنے مفادات کے لیے کراچی شہر کے لیے صرف خاموشی پر ہی اتفاق کرلیا ہے. جبکہ شہر کراچی کے باسی پاکستان کے کسی بھی شہر اور دیہات وغیرہ پر جب بھی کوئی مشکل آن پڑے یہ شہر کے باسی اپنا سب کچھ بالائے طاق رکھ کہ اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں. ووٹ سے بھی یہ شہر کراچی کے لوگ نظر آتے ہیں جبکہ اس شہر کے باسیوں کے اُوپر جو ظلم کا بازار بھی مختلف طریقوں سے جاری و ساری ہے. اللہ تعالی سے یہ ہی دعاء ہے پاکستان کی حفاظت فرما . آمین
رہنماؤں نے اپنے اپنے مفادات کے لیے کراچی شہر کے لیے صرف خاموشی پر ہی اتفاق کرلیا ہے.
 

انجئنیر!شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر!شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر!شاہد صدیق خانزادہ: 267 Articles with 83275 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.