بغاوت کا قانون سیکشن A-124 کالعدم قرار

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے30مارچ کو متفرق درخواستوں پرمحفوظ فیصلہ سناتے ہوئے بغاوت کے قانون یعنی مجموعہ تعزیرات پاکستان کے سیکشن 124 اے کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا ہے۔یہ قانون کیا ہے؟کب بنا؟اسکے تحت مجرم کو کیا سزا تجویز کی گئی ہے؟ماضی میں اس قانون کے تحت کون کون زیر عتاب آتے رہے؟آئیے ان تمام معلومات کی کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ124-Aکے تحت"جوفرد قانون کے ذریعے قائم کردہ وفاقی یا صوبائی حکومت کےبرخلاف الفاظ کے ذریعے، یا تو بولے یا لکھے، یا اشاروں کے ذریعے، یا ظاہری نمائندگی کے ذریعے، یا دوسری صورت میں، نفرت یا تحقیر لانے کی کوشش کرتا ہے، یا عدم اطمینان پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔تو ایسے فرد کوتین سال سے عمر قید تک کی سزا اور جرمانہ بھی شامل کیا جاسکتا یا قید بمع جرمانہ کی سزا دی جائے گی"۔یاد رہےبغاوت کا یہ قانون سال 1870میں مجموعہ تعزیرات ہند ، 1860میں ترمیمی بل کے ذریعہ شامل کیا گیا۔برصیغر میں یہ سامراجی قانون متعارف کروانے والے برطانیہ نے عرصہ دراز سے خود اپنے دیس میں اس قانون سے جان چھڑوالی مگر پاکستان کی بدقسمتی کہ ہم نے ابھی تک ان سامراجی قوانین کو اپنے سینوں سے لگایا ہوا ہے۔ درخواست گزار ہارون فاروق نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ بغاوت کی دفعہ 124 اے غداری کے نام پر اظہار رائے کی آزادی سلب کرنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔درخواست میں بغاوت کے مقدمات کا اندراج روکنے کی استدعا کی گئی تھی۔جبکہ حکومت وقت کی جانب سے عدالت میں اس قانون کا بھرپور دفاع کیا گیا۔دوران سماعت حکومتی وکلاء نے سکیشن 124 اے کا دفاع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ سیکشن قانون کا حصہ ہے، اس دفعہ پر قانون کے مطابق عمل ہونا چاہیے اور یہ سیکشن صرف بغاوت پر اکسانے یا کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں مدد دیتا ہے۔مزید یہ کہ حکومت کے پاس بغاوت روکنے کے لیے کارروائی کا اختیار اسی دفعہ کے تحت موجود ہے۔ لہٰذا اس کو کالعدم قرار نہ دیا جائے بلکہ درخواست خارج کی جائے۔7اپریل کوجسٹس شاہدکریم نے ابوذرسلمان نیازی کی درخواست کا 48 صفحات کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں بغاوت کے قانون کوغیرآئینی اور کالعدم قرار دیا ہے۔فیصلہ کےمطابق بغاوت کا قانون 124 اے آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے سے متصادم ہے، 124 اے بنیادی حقوق کے خلاف ہے اس لئےغیرقانونی قراردیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بغاوت کے الزام میں مقدمات کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ کئی سیاسی رہنماؤں اور صحافیوں نے بغاوت کے الزام میں مقدمات کا سامنا کیا ہے۔حال ہی میں کینیا میں قتل کیے جانے والے سینیئر صحافی اور اینکرپرسن ارشد شریف اور پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کے خلاف یہ مقدمات درج کیے گئے تھے۔پاکستان کے قیام کے کچھ عرصہ بعد بغاوت کے الزام میں مقدمے درج ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ پہلا مقدمہ مارچ 1951 میں درج ہوا جو ’پنڈی سازش کیس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس مقدمہ میں میجر جنرل اکبر خان، شاعر فیض احمد فیض، بائیں بازو کے رہنما سجاد ظہیر اور میجر اسحاق سمیت دیگر افراد کو نامزد کیا گیا تھا۔سابق صدر ایوب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کی ایک سازش کا انکشاف ہوا اور اس پر بغاوت کا مقدمہ شیخ مجیب الرحمان سمیت دیگر افراد کے خلاف درج کیا گیا۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اپوزیشن لیڈر خان ولی خان کی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگی اور سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کی توثیق کی۔ ولی خان سمیت ان کی جماعت کے دیگر رہنماؤں میرغوث بخش بزنجو، سردار عطااللہ مینگل، نواب خیر بخش مری اور سابق گورنر ارباب سکندر خان سمیت دیگر کے خلاف حیدر آباد جیل میں ٹرائل شروع ہوا اور اسی وجہ سے اسے ’حیدر آباد سازش کیس‘ کا نام ملا۔اس مقدمے کے بعد بغاوت کے الزام میں مقدمات کے اندراج کا سلسلہ رک گیا لیکن نواز شریف کے تیسرے دورے حکومت میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی ایک تقریر کی بنا پر ان کے خلاف بغاوت اور اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں مقدمہ درج ہوا اور اسی مقدمے میں الطاف حسین کو سزا سنائی گئی۔مسلم لیگ ن کے وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف کو بھی ریاست مخالف بیان دینے پر لاہور میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں ضمانت مسترد ہونے پر گرفتار بھی کیا گیا۔بغاوت کا الزام پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر پر بھی لگا ہے۔پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر پر بھی متنازع بیان پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا۔ اس مقدمے میں سابق وزیراعظم نواز شریف بھی نامزد ہوئے۔ تاہم یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا۔ مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید ہاشمی کے خلاف اکتوبر 2003 میں درج کیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں جاوید ہاشمی کو 23 برس قید کی سزا ہوئی تھی تاہم سپریم کورٹ کے حکم پر انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔پاکستانی تاریخ میں تقریبا ہر سیاسی و غیر سیاسی حکومت نے اپنے مخالفین کے خلاف بغاوت کے مقدمات بنوانے کے لئےاس قانونی شق کا بھرپور استعمال کیا۔ ان مقدمات کے نتائج ماسوائے مخالفین کو دبائو میں لانے کچھ اور برآمد نہ ہوسکے۔لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے اس قانون کو کالعدم قرار دینے پر متعدد سینئر قانون دانوں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت فی الفور قانون سازی کرکے مجموعہ تعزیرات پاکستان میں ترمیم کرے اور دفعہ 124-Aکو نکال باہر کرے۔اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ مجموعہ تعزیرات پاکستان، 1860کا نام بدل کر مجموعہ تعزیرات پاکستان، 2023رکھ دیا جائے تاکہ پاکستانیوں کو کچھ تو احساس ہو کہ ہم نے انگریز سامراج سے آزادی حاصل کرلی ہے۔ بلا مبالغہ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے بغاوت کے قانون کو کالعدم قرار دینا انتہائی احسن اقدام ہے۔
 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 182 Articles with 117432 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.