27رمضان المبارک۔۔۔نزول قرآن مجید و ملائکہ کی شب

قر آن مجید اﷲ کی ایسی مقدس کتاب ہے جس میں کو ئی شک نہیں،قرآن مجید دنیائے انسانیت کیلئے رشدوہدایت کا وہ سر چشمہ ہے جس کو اﷲ رب العزت نے 23 برس کے عرصہ میں جناب نبی کریم ﷺ پر وحی کی صورت میں نازل ہوا۔ایک دن حضورﷺغار حرا میں اپنے رب کی عبادت میں مشغول تھے کہ اچانک آپ ؐ پر وحی نازل ہوئی اور فرشتہ نے آکر کہا۔ ’’پڑھو(اے نبیﷺ)اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتاتھا(سورہ العلق آیت نمبر 1 تا 5)اور وحی کا اختتام عہد رسالت کے آخر میں اس آیت کے ساتھ ہوا۔’’آج کے دن میں نے مکمل کردیا تمہارا دین تمہارے لئے اور میں نے پوری کردی تم پر اپنی نعمت اور پسند کیا میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے‘‘(سورۃ المائدہ3)قرآن مجید انسانوں کے نام اﷲ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے جو اُس نے اپنے آخری نبیﷺ کے ذریعے نسل انسانی تک پہنچایااس کے بھیجنے والے کی کبریائی و بزرگی اور جن پر بھیجا گیا اُن کی عظمت و سر بلندی اور خود اپنے موضوع کی اہمیت و خوبی کے باعث اس کا نام لیتے وقت اسکو قرآن مجیدکہتے ہیں،چونکہ اﷲ کی یہ آخری کتاب عزت بزرگی اور دانائی کی باتوں سے بھری پڑی ہے اسلئے اسکے ساتھ اس کی خوبیوں کو بھی ملا کر نام لیا جاتا ہے قرآن کریم اﷲ کے احکام و ہدایات کو لیکر نا زل ہوا اور اسکی حفاظت بھی اﷲ نے خود اپنے ذمہ لے رکھی ہے، قرآن مجید کی اولین آیات غار حرامیں حضرت جبرائیل ؑ لیکر رمضان المبارک میں لیلۃ القدر میں جناب نبی کریمﷺپر نازل ہوئیں،جس رات میں اﷲ کا آخری پیغامِ ہدایت نازل ہونا شروع ہوا اس سے بڑھ کر خیر و برکت والی رات دور فلک نے نہ دیکھی ہوگی اور نہ دیکھے گا۔ سورۃالبقرہ کی آیت نمبر 185میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘شب قد ر کی فضیلت سورۃ دخان آیت نمبر3 میں فرمائی گئی ہے۔ترجمہ:۔’’ہم نے اسے ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے‘‘۔یعنی رمضان المبا رک کی ایک رات جس میں قرآن نازل کیا گیا اْسے لیلۃ القدر یا شب قدر کہتے ہیں،اﷲ تعالیٰ نے اس سورہ مبارکہ میں لیلۃ القدر (شب قدر) کی عظمت کی چار بنیادی خصوصیات بیان کی ہیں۔(1) نزول قرآن،(2) نزول ملائکہ،(3) ہزار مہینوں سے افضل رات، (4) پوری شب سلامتی اور رحمت۔واضح رہے کہ یہ شب مبارک اس قدر اہمیت وفضیلت والی ہے کہ اس کی ایک رات کی اخلاص کے ساتھ عبادت اہل ایمان کے لیے83 برس چار ماہ کی عبادتوں سے بھی افضل ہے۔ یہ تو صرف کم از کم حد بیان ہوئی ہے۔ ہزاروں مہینوں سے کس قدر افضل ہے اس کی مقدار اﷲ تبارک وتعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔’’لیلۃ القدر‘‘ عربی زبان کے لفظ ہیں۔ لیل کے معنی ’’رات‘‘ اور قدر کے معنی ’’بزرگی اور بڑائی‘‘ کے ہیں۔ لیلۃ القدر (شب قدر) یعنی بڑائی اور بزرگی والی رات۔ امام زہریؒ فرماتے ہیں: ’’قدر کے معنی مرتبے کے ہیں، چوں کہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف ومرتبے کے لحاظ سے بہت بلند ہے، اسی لیے اسے لیلۃ القدر کہتے ہیں۔اس رات کو شب قدر کے نام سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس رات میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی نہایت قابل قدر کتاب (قرآن مجید)، قابل قدر امت کے لیے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی معرفت نازل فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ سورۃ القدر میں لفظ ’’قدر‘‘ تین مرتبہ آیا ہے۔(تفسیر کبیر)شب قدر کے حصول کا سب سے اہم سبب رحمۃ للعالمین،حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی امت کو سابقہ امتوں کے لوگوں کی عمروں سے آگاہ فرمایا جو کہ بہت طویل تھیں،آپﷺ نیسوچا کہ پہلی امتوں کی عمریں بہت لمبی ہیں، جب کہ میری امت کے لوگوں کی عمریں بہت تھوڑی،اگر وہ نیک اعمال میں ان (پہلی امتوں) کی برابری بھی کرنا چاہیں تو ناممکن ہے،تو اسی کی تلافی میں یہ رات عطا کی گئی، حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں قرآن نازل کرنے کے دو مطلب لئے ہیں ایک تویہ کہ پورا قرآن پاک حامل وحی فرشتوں کے حوالہ کردیا گیا او ر حالات و واقعات کے مطابق حضرت جبرائیل ؑ اﷲ کے حکم سے وقتاً فوقتاً اسکی آیات اور سورتیں حضور نبی کریمﷺ پر نازل فرماتے رہے۔ جبکہ امام شعبی ؒکے قول کے مطابق قرآن کے نزول کی ابتدا لیلۃ المبارکہ سے ہوئی۔سورہ القدر آیت 1تا 5 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ۔’’ہم نے اس (قرآن)کو شب قدر میں نازل کیا ہے اور تم کیا جانوکہ شب قدر کیا ہے۔شب قدر ہزار مہینو ں سے زیادہ بہتر ہے۔فرشتے اورروح اس میں اپنے رب کا ہر حکم لے کر اُترتے ہیں۔وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک‘‘لیل کے معنی عربی میں رات کے ہیں اور قدر کے معنی بعض مفسرین نے تقدیر کے لیئے ہیں۔لیلۃ القدر کے معنی یہ ہوئے وہ رات جسمیں رب العزت تقدیر کے فیصلے نا فذ کرنے کیلئے اپنے فرشتوں کے سپر د کرتے ہیں۔اس مطلب کی تاکید سورۃ دخان کی آیت۔5سے بھی ہوجاتی ہے۔’’اس رات میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے‘‘جبکہ امام زہری ؒقدر کے معنی تقدیر کے بجائے عظمت و شرف بتاتے ہیں۔وہ اسلئے کہ وہ رات ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔یعنی اس رات کا عمل ہزار مہینوں کے عمل سے افضل ہے۔ملائکہ سے مراد فرشتے اور روح سے مراد حضرت جبرائیل ؑ ہیں۔جن کے فضل و شرف کے باعث ان کا ذکر فرشتوں سے علیحدٰہ کیا گیا ہے۔البتہ فرشتے اور جبرائیل امین ؑ خود نہیں آتے بلکہ وہ اپنے رب کے بھیجے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ خیر و برکت کا سلسلہ شام سے لے کر صبح تک پوری رات جاری رہتا ہے۔شب قدر کی سب سے بڑی فضیلت تو وہی ہے جو قرآن پاک نے بیان کی ہے اس ایک رات کی عبادت تراسی سال اور چار ماہ کے عبادت سے بھی بہتر ہے۔لیکن اسکی بھی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔حضرت عبداﷲ بن عباس ؓسے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ لیلۃ القدر میں وہ تمام فرشتے جن کا مقام سد رۃا لمنتہٰی ہے جبرائیل ؑکے ساتھ دنیا میں اُترتے ہیں اور کوئی مومن مرد یا عورت ایسی نہیں جس کو وہ سلام نہ کرتے ہوں۔سوائے اس شخص کے جو شرابی ہو، شرک کرتا ہو۔ایک دن صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺ !پہلی امتوں کی عمریں زیادہ ہوتی تھیں اس لئے ان کو عبادت کا وقت زیا دہ مل جاتا تھا جبکہ ہماری عمریں نسبتاًکم ہیں اسلئے عبادت کیلئے وقت کم ملتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا ’’آپ لوگوں پر رب العزت نے بے حد فضل وکرم فرمایا ہے کہ رمضان المبارک کی شب قدر کی عبادت کا درجہ ایک ہزارمہینوں کی عبادت کے برابر رکھا ہے،اﷲ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک میں شب قدر کی تلاش اور اس میں دل جمعی کے ساتھ عبادات کر نے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین
 

Salman Usmani
About the Author: Salman Usmani Read More Articles by Salman Usmani: 182 Articles with 158868 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.