اعتکاف حقیقی قرب الٰھٰی کا ذریعہ

 اعتکاف لفظ عکف سے بنا ہے جس کا مطلب ہے ٹھہرنا قرآن کریم میں( پارہ نمبرنو میں سورۃ الاعراف ،آیت نمبر138 )اور اﷲ تعالٰی فرماتا ہے اور تم مسجد میں اعتکاف کررہے ہویعنی بغرض اعتکاف ٹھہرے ہوئے ہو۔اعتکاف سنت ِ موکدہ علی الکفایہ ہے جس کیلئے روزہ شرط ہے اعتکاف کا مطلب کچھ وقت کیلئے دنیا داری کے مشغلے چھوڑ کرخود کواﷲ کیلئے وقف کردینا ہے اس حوالے سے حضورنبی اکرم ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے ’’جوشخص ایک دن بھی اﷲ کی رضااورخوشنودی کیلئے اعتکاف کرتاہے تواﷲ پاک اس شخص کے درمیان اوردوزخ کے درمیان تین خندقیں قائم فرما دیتے ہیں اورہرایک خندق کا فاصلہ زمین اورآسمان سے بھی زیادہ ہوگا۔۔ یہ تو تھا اعتکاف کا لغوی معنی اس کا شرعاً معنی یہ ہے کہ مسجدمیں اﷲ کیلئے بہ نیت ٹھہرے اپنے اہل وعیال گھربار سب چھوڑکر اﷲ کے گھرگوشہ گیرہوجائیں اعتکاف کا حاصل یہ ہے کہ انسان کی ساری زندگی ایک ہی سانچے میں ڈھل جائے اور اﷲ کو اور اسی کی بندگی کو ہرچیز فوقیت اورترجیح حاصل ہواعتکا ف کی تین قسمیں ہیں (۱) جس کی منت مان لی جائے چاہے وہ کسی شرط پر ہی کیوں نہ ہو مثال کے طور پر میرافلاں کام ہوگیا میں اتنے دن اعتکاف کروں گا (۲)مسنون اعتکاف ۔رمضا ن کے آخری عشرہ کا اعتکا ف مسنون اعتکا ف سنت موکدہ اگرکوئی کرے تو مستحب ہے یہ اعتکاف ایک منٹ کا ایک دن کا ایک ماہ کا ایک سال کا چاہے جتنا مرضی کرلو اب اس اعتکا ف کی فضیلت ملاحظہ فرمائیں نبی آخرالزماں ﷺ نے فرمایا’’جوشخص رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرے تواسے دوحج اوردوعمرہ کے برابرثواب ملے گااس حدیث سے اعتکاف کی ثواب واہمیت کا پتہ چلتا ہے کہ حج وعمرہ کرنے کیلئے لوگ لاکھوں روپے لگاتے ہیں مگران کا حج عمرہ قبول ہوایانہیں یہ بھی نہیں پتہ مگرمیرے آقاحضرت محمدﷺ نے اعتکاف کی وجہ سے مقبول حج عمرہ کے ثواب عنایت فرمائے۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں ضرور اعتکاف فرماتے تھے جب تک کہ آپ اس دنیا سے پردہ نہ کرگئے اس کے بعد آپکی ازواج مطہرات نے اعتکاف کا معمول جاری رکھا(بخاری ۶۲۰۲) اس دنیا کے پردہ کرنے کے آخری سال آپ ﷺ نے پورے رمضان کا اعتکاف بھی کیا حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا معتکف گناہوں سے بچارہتا ہے جس کا اس کو انعام ملے گا(ابن ماجہ)اعتکاف رمضان کی بیسویں کو غروب آفتاب سے رمضان کی انتیس یا جب عید کا چاند نظر آئے اس تاریخ پر عورتوں کیلئے اپنے گھرمیں جہاں زیادہ لوگ نہ آتے جاتے ہوں اور مردوں کیلئے ایسی مسجد جس میں پانچ وقت نماز جمعہ اور غسل کی سہولت موجود ہو اور مسجدمیں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کو اعتکا ف کہتے ہیں۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓمعتکف کے بارے میں فرماتی ہیں معتکف کیلئے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ نہ مریض کی عیادت کیلئے جائے،نہ کسی جنازے میں شریک ہو،نہ کسی ناگزیر مسجدسے باہرنکلے، روزے کے بغیراعتکاف نہ کرے اورکسی جامع مسجدمیں اعتکاف کرے۔رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرکوئی ایک شخص بھی اعتکاف میں بیٹھ جائے تو سنت ادا ہو جائے گی اگرکوئی بھی نہ بیٹھے گا توپورے محلے کے ذمہ گناہ آئے گا ۔حالت اعتکاف میں مسجدکے آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے دنیاوی گفتگواور فضول باتوں سے پرہیز اور وقت ضائع کرنے سے اﷲ کا ذکرکرنا چاہیے اس اوقات میں ذکرالٰہی،کلمہ طیبہ،نوافل،دورود،تلاوت قرآن پاک میں وقت بتانا چاہیے تاکہ اﷲ کو راضی کرسکیں جب اپنے آپ کو اﷲ کے حضور اعتکا کیلئے حاضرکردیا ہے تو عبادات کرکے اپنے لیے اور اپنے اہل وعیال اور امت مسلمہ کیلے دعائیں کریں رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف مسنون ہے امام شعرانی نے ’’کشف الغمہ‘‘میں لکھا ہے کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا جس نے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا اس کو حج اور دوعمروں کا اجرملتا ہے اور جو شخص مغرب سے عشاء کی نماز تک کا اعتکا ف کرے اور اس دوران کسی سے کوئی بات نہ کرے تواﷲ اس کیلئے جنت میں محل بناتا ہے کشف الغمہ)حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضور پا ک اعتکاف کے دوران جب قضائے حاجت کیلئے مسجد سے باہر نکلتے تو کسی سے بات نہ کرتے یہاں تک کے مریض کی عیادت کیلیئے بھی نہ رکتے پر چلتے چلتیمزج پرسی فرمالیتے تھے۔معتکف کیلئے باہرکے لوگوں کے حال احوال پوچھنا جائز ہے کیونکہ حضرعمرفاروق نے لوگوں کا شور سنا تو حضرت عبداﷲ بن عمرسے ماجراپوچھا تھا(صحیح بخاری)اعتکاف کا رکن اعظم یہ ہے کہ انسان مسجدکے احاطہ میں رہے اور کسی ضروری حاجت کے بنا باہر نہ جائے ورنہ اعتکاف ٹوٹ جائے گا بہت سے لوگ حدود مسجدکا مطلب نہیں سمجھتے جس وجہ سے وہ لاعلمی میں اپنا اعتکاف توڑ بیٹھتے ہیں اسی لیے اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ حدودمسجد کا کیا مطلب ہے عام بول چال میں مسجد کے پورے احاطے کو مسجد ہی کہتے ہیں لیکن شرعی اعتبار سے پورے احاطے کا مسجدہونا ضروری نہیں بلکہ شرعاً وہ حصہ مسجد ہوتاہے جسے بانی مسجد نے مسجد کیلئے وقف کیا ہوزمین کے کسی حصہ کا مسجد ہونا الگ چیزہے اورمسجد ہونا الگ یعنی جہاں نماز پڑھتے ہیں وہ جگہ معتکف کیلئے ہوتی ہے باقی وضو خانہ،غسل خانہ ،استنجا کی جگہ نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ،امام کا حجرہ اور گودام وغیرہ میں معتکف کا اعتکاف ٹوٹ جائے گامگراگرجانا ضروری ہے تو نہیں ٹوٹے گا مثلاً پیشاب کرنے کیلئے جانا جب مسجد کے احاطے میں سہولت نہ ہوغسل وغیرہ تو اس سے اعتکاف نہ ٹوٹے گا مگر اس جگہ پر کسی سے بھی بات نہ کرے۔مفتی منیب الرحمان لکھتے ہیں اگرکسی شخص نے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا اورکسی عذریابنا عذرکے توڑاتواس کی قضالازمی ہوگی اوراس کی قضا ایک دن کا اعتکاف ہے اورورمضان میں ہویا کسی اورمہینے میں اعتکاف کیلئے روزے کا ہونا لازمی ہے۔ اگریہ آپ نہیں کرسکتے تو مسجد میں داخل ہوتے وقت اعتکاف کی بھی نیت کرلیں آپ جتنی دیرمسجد میں رہیں گے آپ کا اعتکا ف ہوتا رہے گا اور اس کا ثواب بھی آپ کو ملتا رہے گا(۳)نفل اعتکاف مسجد میں جاتے ہی نیت کرلیں آپ کا اعتکاف ہوجائیگا جب آپ مسجد سے باہر آئیں گا آپ اعتکاف آٹومیٹک رد ہوجائیگا اس طرح آپ مسجد میں جتنی بار جائیں گے آپ کواعتکاف کا ثواب ملتا رہے گا اب مسجد میں آکر آپ نماز پڑھیں ورد کریں قرآن پڑھیں آپکو اعتکاف کا ثواب بھی ملتا رہے گا اس اعتکاف کیلئے روزے کی کوئی شرط نہیں۔ بہترتویہ ہے رمضان کے آخری عشرہ میں تین 10دن نہیں 3دن یہ بھی نہیں توکم از کم ایک دن تواعتکاف کریں ۔اﷲ پاک ہمیں باقی رمضان میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے اوراعتکاف کرکے نیکیاں سمیٹنے کی توفیق عطافرمائیں تاکہ دنیاوآخرت میں چہرے پرمسکان رہے آمین۔
 

Rukhsana Asad
About the Author: Rukhsana Asad Read More Articles by Rukhsana Asad: 47 Articles with 25019 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.