پاکستان کی خارجہ پالیسی اس وقت کہاں کھڑی ہے

جغرافیائی طور پر پاکستان ایک بالکل نیا ملک ہے جو تاریخ میں پہلے وجود نہیں رکھتا تھا۔ چین، افغانستان، بھارت اور ایران کئی ہزار سال تقریباً انہی سرحدوں میں واقع تھے جو آج کل ہیں۔ اس وجہ سے ان کی ایک تاریخی روش ہے جو ان کے خارجہ تعلقات میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔پاکستان کے دو صوبے پنجاب اور سندھ جنوب مشرقی ایشیا کا حصہ رہے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان مرکزی ایشیا کے قریب ہیں۔ یعنی دو صوبے اور ان کی عوام جنوب مشرقی ایشیا کی طرف کھینچتے ہیں جبکہ دوسرے دو مرکزی ایشیا کی طرف۔ صرف یہی نہیں نظریاتی اور ثقافتی کھچاؤ اس کے علاوہ ہیں۔ اسلام سے گہری رغبت ہمیں مشرقی وسطی کی طرف لے جاتی ہے جبکہ ثقافتی طور پر ہم جنوبی اور مرکزی ایشیا کے زیادہ قریب ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ہمیں سکیورٹی کے بحران کو سمجھنا ہے تو پہلے داخلی بحران کا احاطہ کرنا ہوگا کیونکہ داخلی کمزوریاں ہی خارجی کمزوریوں کو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں اور پاکستان میں داخلی کمزوریاں کی وجہ سے ہی پاکستان اپنا ایک حصہ گنوار چکا ہے . لیکن پاکستان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ داخلی مسائل کو نظر انداز کرکے خارجی مسائل یا قومی سکیورٹی کے بحران کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں آواز اس پر جزباتی بیانات اگل دیتے ہیں جو بعد میں دنیا کے سامنے ایک مذاق بنتا ہے ، جو مؤثر حکمت عملی نہیں۔مسئلہ معاملات کے فہم کا ہوتا ہے اور ان معاملات میں ہمیں جذباتی رنگ اختیار کرنے کے بجائے عقل و دانش کے ساتھ مسئلے کو سمجھنا ہوتا ہے، تاکہ مستقبل کی طرف ایک مؤثر اور بہتر پیش قدمی کے عمل کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ جو داخلی اور خارجی مسائل ہمیں درپیش ہیں اس سے ہم کیسے نمٹنے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ اگر ہم مسائل سے نمٹنے کے لئے درست سمت کا تعین ہی نہ کرسکیں تو پھر نتائج بھی ایسے ہی نکلیں گے جو ہمیں مزید مسائل میں الجھا دیں گے یا ہمیں کمزور کرنے کا سبب بنیں گے۔اس میں سب سے اہم اور بڑا کردار ہماری سیاسی قیادت کا ہوتا ہے کیونکہ سیاسی قیادت ہی بنیادی طور پر ایک ایسی سمت کی نہ صرف نشاندہی کرتی ہے بلکہ اس کی قیادت کرتی ہے جو قومی معاملات کی درست عکاسی کرتی ہو۔لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری داخلی سیاست اور قیادت سمیت اس سے وابستہ افراد او رادارے قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر ذاتیات پر مبنی سیاست اور فیصلوں کو تقویت دے رہے ہیں۔جب سیاست قومی مفاد سے نکل کر ذاتی مفاد میں چلی جاتی ہے تو پھر اس کا فائدہ خارجی سطح پر موجود ممالک کو ہوتا ہے جو ہماری کمزوریوں اور ناکامیوں کو بنیاد بنا کر اپنے ایجنڈے کو تقویت دیتے ہیں۔ یہ تمام تضادات ہماری خارجہ پالیسی پر بہت اثر ڈالتے ہیں۔ خارجہ پالیسی بناتے وقت ہمیں ان تمام تضادات، قومی مفادات اور دوراندیشی کو نظر میں رکھنا چاہیے تھا جس میں ہم ناکام رہے جس کی وجہ سے ہماری خارجہ پالیسی ہمیشہ سے انتشار کا شکار رہی ہے اور اس میں مستقبل قریب کا مفاد حاوی ہے۔ ہم داخلی طور پر یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ خارجہ پالیسی بناتے اور لاگو کرتے ہوئے سول اور فوجی پالیسی ساز کیا کردار ادا کریں گے۔ سول منتخب حکومت کی کوشش یہ رہی کہ وہ خارجہ پالیسی پر حاوی رہے جبکہ فوجی ادارہ اس پر اپنی اجارہ داری چھوڑنے کو تیار نہیں۔

جہاں تک خارجی سطح کے مسائل کا تعلق ہے اس میں بھارت، افغانستان، ایران او رامریکہ کی جانب سے ہمیں جو سنگین مسائل دیکھنے کو مل رہے ہیں اس پر بھی قومی اتفاق رائے اشد ضروری ہے، اس کا فقدان ہے۔ہماری سیاسی قیادت کے درمیان جاری محاذ آرائی خود ان خارجی سطح کے معاملات کو خراب کرنے کا سبب بن رہی ہے۔سفارت کاری کے محاذ پر ہم اپنا مقدمہ عالمی دنیا میں اس انداز سے پیش نہیں کرسکے جو ہماری قومی ضرورت کے زمرے میں آتا ہو۔ ہمارے اپنے اندر ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو عملی طور پر وہی کچھ کہہ رہے ہیں جو دیگر ممالک ہم پر الزامات لگاتے ہیں۔ یہ مسئلہ سمجھنا ہوگا کہ کیا وجہ ہے کہ ہم عالمی دنیا میں دہشت گردی سے نمٹنے میں ایک بڑے کردار کے ساتھ کام کررہے ہیں، لیکن ہم پر ہی انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔آج کی گلوبل دنیا میں ہر محاذ پر ڈپلومیسی کو فوقیت دی جاتی ہے۔ اسی کو بنیاد بنا کرریاستی او رحکومتی نظام اس پر بڑی سرمایہ کاری کرتا ہے، تاکہ وہ اپنے بیانیے کو دنیا کے سامنے زیادہ بہتر اور مربوط انداز میں پیش کرکے ریاستی ساکھ کو بہتر بنا سکے۔ یہ سوچ بھی ہمیں داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر ختم کرنا ہوگی کہ پاکستان میں سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان مختلف امور پر خلیج یا بداعتمادی پائی جاتی ہے۔ اس مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اور اب وقت ہے کہ ہم سول ملٹری تعلقات کو مؤثر اور فعال کرنے سمیت اتفاق رائے سے آگے بڑھنے کے لئے نیشنل سکیورٹی کونسل جیسے ادارے پر اتفاق کریں۔ کیونکہ جس طرز کے ہمیں خارجی مسائل، اور دیگر ممالک سے تعلقات، یا ان کی مداخلتوں کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے وہ ایک آواز اور اتفاق رائے یا مشترکہ سوچ و حکمت عملی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس وقت بھارت اور افغانستان کی خفیہ انٹیلی جینس ایجنسیوں نے مشترکہ طور پر پاکستان دشمنی یا ہمیں کمزور کرنے کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا ہے، اس کے آگے بند باندھنا ہوگا۔بھارت ایک سے زیادہ مرتبہ پاکستان کو کمزور کرنے او رسی پیک منصوبے کو کمزور کرنے کا اعتراف کرچکا ہے، اس کھیل میں اسے افغانستان اور دوسرے ممالک کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔افغانستان کو ہمیں اپنے قریب لانا ہوگا او رایسی پالیسی سے گریز کرنا ہوگا جو افغانستان کو بھارت کے قریب لے جائے۔اسی طرح ہمیں خود آگے بڑھ کر علاقائی تعلقات میں اپنے دائرہ کار کو بڑھانا ہوگا، اور علاقائی ممالک کو یہ باور کروانا ہوگا کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی سے نمٹنا کسی ایک ریاست کے بس کی بات نہیں، اس میں مشترکہ حکمت عملی اور میکنزم بناکر ایک مشترکہ حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنا ہوگاکیونکہ خارجہ پالیسی میں دشمن بنانے کے بجائے دوست بنانے پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف بھارت سے تعلقات ٹھیک کرنا چاہتے تھے لیکن فوج نے اس بات کو پسند نہ کیا جس کی وجہ سے دونوں ملکوں میں تناؤ کی کیفیت برقرار رہی۔ فوجی حکمران جب خود حکومت میں رہے تو تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن اس وقت بھارت نے زیادہ دلچسپی نہ دکھائی۔ ایران، افغانستان اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں بھی سول اور فوجی لیڈروں میں مفاہمت نہ ہوسکی جس کا نقصان پاکستان کو ہوا۔سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں ایرانی صدر روحانی کے دورہ پاکستان کے دوران ایک ادارہ کی طرف سےایک سخت بیان جاری کیا جو کسی طرح بھی سفارتی آداب کے خلاف تھا۔ کوئی ملک اپنے گھر آئے ہوئے مہمان کی ہر طرح سے تکریم کرتا ہے چاہے تعلقات کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ عمرانی ادوار میں تمام آثار اسی بات کے ہیں کہ خارجہ پالیسی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ چلا رہی ہے۔ ہر غیرملکی مہمان جو ہمارے ملک کا دورہ کرتا تھا پہلے ایک ادارہ میں جاتا تھا اور پھر اگر وقت بچے تو وزیر خارجہ سے بھی مل لیتا ہے۔ شاہ محمود قریشی جیسا کمزور وزیر خارجہ رکھنے کی بھی بنیادی وجہ یہی تھی ۔ وزارت خارجہ ایک کمزور ادارہ ہے۔ اس وزارت کے پاس نہ صرف وسائل کی کمی ہے بلکہ صلاحیت کا فقدان بھی نظر آتا ہے۔ ہمارے سفیروں کی تعیناتی بھی ذاتی پسند نہ پسند کے مطابق کی جاتی ہے۔ پیشہ ور سفیر بھی ہیں ان کی صلاحیت بھی بہت زیادہ پراعتماد نظر نہیں آتی ہے۔ وزیر اعظم کو سال میں کم از کم ایک بار تمام سفیروں کی کانفرنس بلانی چاہیے جو آج تک باقاعدگی سے نہیں ہوئی ہے۔ چند ممالک کا ہماری خارجہ پالیسی پر گہرا سایہ ہے جس کا اثر ہمارے فیصلوں پر بھی پڑتا ہے۔ امریکہ، چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وہ چند ممالک ہیں جو بہت اہم ہیں۔ امریکہ اور چین بڑے ملک ہیں اس لیے ان کا اثر ایک قدرتی امر ہے۔ ترکی نے بھی پچھلے سات آٹھ سال میں پاکستان میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی ہماری خارجہ پالیسی کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس پر سوچنا چاہیے اور آئی ایس آئی کی یہ ذمہ داری ہونی چاہیے کے اس معاملے پر حکومت کو مطلع رکھے اور ایسے لوگوں کو جن کے بارے میں شواہد ہوں کے وہ دوسرے ملکوں کے زیرے اثر ہیں انہیں فیصلہ سازی کے عمل سے دور رکھا جائے۔ اس میں زیادتی، ناانصافی، انتقام اور ذاتی پسند نہ پسند نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان ایک کمزور ریاست ہے جس کا الزام ہم کسی اور کو نہیں دے سکتے۔ ہماری کمزوری ہماری اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہے۔ کوالالمپور کی میٹنگ کا بائیکاٹ ہماری کوتاہی تھی کے اس بات کو نہ سنبھال سکے اس کا الزام سعودی عرب کو نہیں دیا جا سکتا۔ دوسرے اداروں کی طرح وزارت خارجہ کو بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اب حل یہی ہے کہ اس ریاست کو نئے سرے تعمیر کرنا ہوگا۔

اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کے داخلی اور خارجی مسائل کو بنیاد بنا کر ہم اپنے تمام تر معاملات کو نئے سرے سے جانچیں، سمجھیں، پرکھیں اور پھر ایک نئی سمت کا تعین کریں کہ ہمیں کیسے آگے بڑھنا ہے۔ لیکن یہ کام ایک مضبوط سیاسی نظام کے ساتھ جڑا ہوا ہے کیونکہ جب قیادت خود معاملات کو لیڈ کرتی نظر نہیں آئے گی تو قوم بھی تقسیم ہوگی اور ملک کے معاملات کو بھی نقصان ہوگا۔
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 291 Articles with 98462 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.