مرتبہ ومقام شفاعت ابو حامد محمد امیر سلطان چشتی قادری ہاشمی

مرتبہ ومقام شفاعت
ابو حامد محمد امیر سلطان چشتی قادری ہاشمی
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے ایسی پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں : ایک ماہ کی مسافت تک رعب سے میری مدد فرمائی گئی، میرے لئے تمام زمین مسجد اور پاک کرنیوالی (جائے تیمم) بنا دی گئی لہذا میری امت میں سے جو شخص جہاں بھی نماز کا وقت پائے وہیں پڑھ لے، میرے لئے اموال غنیمت حلال کر دیئے گئے جو مجھ سے پہلے کسی نبی کے لئے حلال نہ تھے، مجھے شفاعت عطا کی گئی، پہلے ہر نبی ایک خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا جبکہ مجھے تمام انسانیت کی طرف مبعوث کیا گیا۔‘‘بخاري ، کتاب : التيمم، باب قول اﷲ : فلم تجدوا ماءً فتيمّمُوا صعيداً طيباً،بخاري، کتاب : التيمم، باب قول اﷲ : فلم تجدوا ماءً فتيمّمُوا صعيداً طيباً،
مسلم، کتاب : المساجد ومواضع الصلوة،..نسائي ، کتاب : الغسل والتيمم، باب : التيمم بالصعيد،

مرتبہ ومقام شفاعت
ابو حامد محمد امیر سلطان چشتی قادری ہاشمی
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے ایسی پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں : ایک ماہ کی مسافت تک رعب سے میری مدد فرمائی گئی، میرے لئے تمام زمین مسجد اور پاک کرنیوالی (جائے تیمم) بنا دی گئی لہذا میری امت میں سے جو شخص جہاں بھی نماز کا وقت پائے وہیں پڑھ لے، میرے لئے اموال غنیمت حلال کر دیئے گئے جو مجھ سے پہلے کسی نبی کے لئے حلال نہ تھے، مجھے شفاعت عطا کی گئی، پہلے ہر نبی ایک خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا جبکہ مجھے تمام انسانیت کی طرف مبعوث کیا گیا۔‘‘بخاري ، کتاب : التيمم، باب قول اﷲ : فلم تجدوا ماءً فتيمّمُوا صعيداً طيباً،بخاري، کتاب : التيمم، باب قول اﷲ : فلم تجدوا ماءً فتيمّمُوا صعيداً طيباً،
مسلم، کتاب : المساجد ومواضع الصلوة،..نسائي ، کتاب : الغسل والتيمم، باب : التيمم بالصعيد،
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اسی طرح قیامت کے دن مومنوں کو جمع فرمائے گا۔ وہ کہیں گے : کاش ہم اپنے رب کے پاس کوئی سفارش لے جاتے تاکہ وہ ہمیں اس حالت سے آرام عطا فرماتا۔ چنانچہ سب لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آ کر عرض کریں گے : اے آدم! کیا آپ لوگوں کو نہیں دیکھتے، اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، آپ کو فرشتوں سے سجدہ کرایا اور آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے لہذا ہمارے لئے اپنے رب سے سفارش کیجئے تاکہ وہ ہمیں ہماری اس حالت سے آرام عطا فرمائے۔ حضرت آدم علیہ السلام فرمائیں گے : میں اِس لائق نہیں، پھر وہ اپنی لغزش کا ان کے سامنے ذکر کریں گے جو ان سے ہوئی البتہ تم لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ، کیونکہ وہ پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ نے زمین والوں پر بھیجا تھا. چنانچہ سب حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے۔ وہ فرمائیں گے : میں اس کا اہل نہیں اور وہ اپنی لغزش یاد کریں گے جو اُن سے ہوئی، البتہ تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ کے خلیل ہیں۔ سب لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی کہیں گے : میں اس قابل نہیں اور اپنی لغزشوں کا ذکر لوگوں سے کریں گے۔ البتہ تم لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ کے بندے ہیں اور اللہ نے انہیں توریت دی تھی اور ان سے کلام کیا تھا. سب لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ فرمائیں گے : میں اس کا اہل نہیں ہوں اور ان کے سامنے اپنی لغزش کا ذکر کریں گے جو ان سے ہوئی، البتہ تم لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ کے بندے، اس کے رسول، اس کا کلمہ اور اس کی روح ہیں۔ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے : میں بارگاہ الٰہی میں لب کشائی کے قابل نہیں، تم سب لوگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ، وہ ایسے محبوب ہیں کہ ان کی عظمت کے صدقے ان کی امت کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دیے گئے ہیں۔

’’چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں ان کے ساتھ چلوں گا اور اپنے رب سے اِذن چاہوں گا تو مجھے اذن دے دیا جائے گا۔ پھر اپنے رب کو دیکھتے ہی اس کے لئے سجدہ میں گر پڑوں گا اور اللہ تعالیٰ جتنی دیر چاہے گا اسی حالت میں مجھے رہنے دے گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اٹھ کر کہیں، آپ کو سنا جائے گا، مانگیں، عطا کیا جائے گا، شفاعت کریں آپ کی شفاعت منظور کی جائے گی، پس میں اپنے رب کی تعریف ان کلماتِ تعریف سے کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا۔ پھر میں شفاعت کروں گا، میرے لئے حد مقرر کی جائے گی تو میں اس کے مطابق لوگوں کو جنت میں داخل کروں گا۔ پھر میں دوسری بار لوٹوں گا اور اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدے میں گر جاؤں گا، اللہ تعالیٰ جتنی دیر تک چاہے گا مجھے اسی حالت میں رہنے دے گا۔ پھر کہا جائے گا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اٹھ کر کہیں، آپ کو سنا جائے گا، مانگیں آپ کو دیا جائے گا، شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ پھر میں اپنے رب کی حمد ان کلماتِ حمد سے کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا۔ پھر میں شفاعت کروں گا تو میرے لئے حد مقرر کر دی جائے گی پس میں انہیں جنت میں داخل کروں گا۔ پھر میں تیسری بار لوٹوں گا تو اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدہ میں گر جاؤں گا۔ اﷲ تعالیٰ جب تک چاہے گا اسی حالت پر مجھے برقرار رکھے گا، پھر کہا جائے گا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھیے! کہیے آپ کو سنا جائے گا، سوال کیجئے عطا کیا جائے گا، شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی تو میں اپنے رب کی ان کلماتِ حمد سے تعریف کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا، پھر میرے لئے ایک حد مقرر کر دی جائے گی تو میں انہیں جنت میں داخل کروں گا پھر میں لوٹ کر عرض کروں گا : اے رب! اب جہنم میں کوئی باقی نہیں رہا سوائے ان کے جنہیں قرآن نے روک دیا ہے اورانہیں ہمیشہ وہیں رہنا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جہنم سے وہ نکلے گا جس نے لَاِالٰهَ اِلَّا اﷲُ کا اقرار کیا ہوگا اور اس کے دل میں جَو کے دانے کے برابر بھی خیر ہو گی، پھر جہنم سے وہ بھی نکلے گا جس نے لَاِالٰهَ اِلَّا اﷲُ کہا ہو گا اور اس کے دل میں گیہوں کے برابر بھی خیر ہو گی، پھر جہنم سے وہ بھی نکلے گا جس نے لَاِالٰهَ اِلَّا اﷲُ کا اقرار کیا ہوگا اور اس کے دل میں ذرہ برابر خیر ہوگی۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری نےکتاب : التوحيد، باب قول اﷲ : لما خلقت بيدي، کتاب : التفسير، باب قول اﷲ : وعلّم آدم الأسماء کلها، کتاب : الرقاق، باب : صفة الجنة والنار مسلم نے کتاب : الإيمان، باب : أدنی أهل الجنة منزلة فيها ، ابن ماجہ نے کتاب : الزهد، باب : ذکر الشفاعة، میں اور احمد نے روایت کیا ہے۔

حضرات ابوہریرہ اور حذیفہ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن تمام لوگوں کو جمع فرمائے گا تو مؤمنین کے کھڑے ہونے پر جنت ان کے قریب کر دی جائے گی، پھر وہ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جا کر عرض کریں گے : اے ہمارے ابا جان! ہمارے لئے جنت کا دروازہ کھلوائیے۔ وہ فرمائیں گے : تمہارے باپ کی ایک لغزش نے ہی تم کو جنت سے نکالا تھا. میرا یہ منصب نہیں، میرے بیٹے ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اﷲ تعالیٰ کے خلیل ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت ابراہیم علیہ السلام فرمائیں گے میرا یہ مقام نہیں ہے، میرے خلیل ہونے کا مقام، مقامِ شفاعت سے بہت پیچھے ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ جن کو اﷲ تعالیٰ نے شرف کلام سے نوازا ہے، پھر لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں جائیں گے تو وہ فرمائیں گے : میرا یہ منصب نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اﷲ تعالیٰ کے کلمہ اور اس کی روح ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے : میرا یہ مقام نہیں۔

’’پس وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں گے تو آپ کھڑے ہوں گے اور آپ کو شفاعت کا اذن دیا جائے گا۔ علاوہ ازیں امانت اور رحم کو چھوڑ دیا جائے گا اور وہ دونوں پل صراط کے دائیں بائیں کھڑے ہوجائیں گے۔ تم میں سے پہلا شخص پل صراط سے بجلی کی طرح گزرے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : میرے میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں بجلی کی طرح کونسی چیز گزرتی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم نے بجلی کی طرف نہیں دیکھا کہ کس طرح گزرتی ہے اور پلک جھپکنے سے پہلے لوٹ آتی ہے۔ پھر لوگ پل صراط سے آندھی کی طرح گزریں گے، اس کے بعد پرندوں کی رفتار سے اور اس کے بعد آدمیوں کے دوڑنے کی آواز سے گزریں گے۔ ہر شخص کی رفتار اس کے اعمال کے مطابق ہوگی اور تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پل صراط پر کھڑے ہو کر کہہ رہے ہوں گے : اے رب! ان کو سلامتی سے گزار دے، ان کو سلامتی سے گزار دے پھر ایک وقت وہ آئے گا کہ بندوں کے اعمال انہیں عاجز کر دیں گے اور لوگوں میں چلنے کی طاقت نہیں ہوگی اور وہ اپنے آپ کو گھسیٹتے ہوئے پل صراط سے گزریں گے۔ پل صراط کے دونوں جانب لوہے کے کانٹے لٹکے ہوں گے اور جس شخص کے بارے میں حکم ہوگا اس کو یہ پکڑ لیں گے بعض ان کی وجہ سے زخمی حالت میں نجات پا جائیں گے اور بعض ان سے الجھ کر دوزخ میں گر جائیں گے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں ابو ہریرہ کی جان ہے جہنم کی گہرائی ستر سال کی مسافت کے برابر ہے۔‘‘
اسے امام مسلم، نے کتاب : الإيمان، باب : أدنی أهل الجنة منزلة فيها میں ابو یعلی اور حاکم نے بھی روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے کہا ہے : شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر یہ حديث صحيح ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گوشت لایا گیا تو دستی کا حصہ آپ کے سامنے پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دستی کا گوشت بہت پسند تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے دانتوں سے کاٹ کاٹ کر تناول فرمانے لگے پھر ارشاد فرمایا : قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار ہوں گا۔ تمہیں معلوم ہے وہ کون سا دن ہوگا؟ اس دن اﷲ تعالیٰ دنیا کی ابتداء سے قیامت کے دن تک کی ساری خلقت ایک چٹیل میدان میں جمع فرمائے گا کہ ایک پکارنے والے کی آواز سب کے کانوں تک پہنچ سکے گی اور ایک نظر سب کو دیکھ سکے گی اور سورج بالکل قریب ہو جائے گا۔ پس لوگوں کی پریشانی اور بے قراری اس حد تک پہنچی ہو گی جس کی انہیں نہ طاقت ہو گی اور نہ وہ برداشت کر پائیں گے۔ لوگ کہیں گے : کیا دیکھتے نہیں ہو کہ تمہیں کس طرح کی پریشانی لاحق ہو گئی ہے؟ کیا کوئی ایسا برگزیدہ بندہ نہیں ہے جو اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں تمہاری شفاعت کرے؟

’’بعض لوگ بعض سے کہیں گے : تمہیں حضرت آدم علیہ السلام کے پاس چلنا چاہیے۔ لہذا سب لوگ حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے : آپ تمام انسانوں کے جدِ امجد ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اپنی طرف سے آپ میں روح پھونکی اور اس نے فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا لہذا آپ اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت کر دیجئے۔ آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہم کس حال کو پہنچ چکے ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام کہیں گے : بے شک میرا رب آج انتہائی غضب ناک ہے، اس سے پہلے اتنا غضب ناک وہ کبھی نہ ہوا تھا اور نہ بعد میں کبھی اتنا غضب ناک ہوگا۔ رب العزت نے مجھے درخت سے روکا تھا تو میں نے اس کا حکم نہ مانا، مجھے اپنی پڑی ہے، مجھے اپنی پڑی ہے، مجھے اپنی پڑی ہے، کسی اور کے پاس جاؤ، ہاں نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ چنانچہ سب لوگ حضرت نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کریں گے : اے نوح! آپ (طوفان کے بعد) سب سے پہلے رسول ہیں جو اہل زمین کی طرف بھیجے گئے تھے اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے شکر گزار بندہ کا خطاب دیا ہے، آپ ہی ہمارے لئے اپنے رب کے حضور شفاعت کر دیجئے۔ کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ گئے ہیں؟ حضرت نوح علیہ السلام کہیں گے : میرا رب آج اتنا غضب ناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضب ناک نہیں ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضب ناک ہو گا، مجھے ایک مقبول دعا عطا کی گئی تھی جو میں نے اپنی قوم کے خلاف کر لی تھی۔ مجھے اپنی فکر ہے، مجھے اپنی فکر ہے، مجھے تو اپنی فکر ہے، میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔

’’سب لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کریں گے : اے ابراہیم! آپ اللہ کے نبی اور روئے زمین میں اﷲ کے خلیل ہیں، آپ اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت کیجئے۔ کیا آپ ملاحظہ نہیں فرما رہے کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی کہیں گے : آج میرا رب بہت غضب ناک ہے۔ اتنا غضب ناک وہ نہ پہلے ہوا تھا اور نہ آج کے بعد ہوگا۔ میں نے (بظاہر نظر آنے والے) تین جھوٹ بولے تھے، مجھے اپنی پڑی ہے، مجھے اپنی پڑی ہے، مجھے اپنی پڑی ہے، میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، ہاں موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ سب لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے : اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی رسالت اور اپنے کلام کے ذریعہ فضیلت دی۔ آپ اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت کریں۔ کیا آپ ملاحظہ نہیں فرما رہے کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کہیں گے : آج اللہ تعالیٰ بہت غضب ناک ہے، اتنا غضب ناک وہ نہ پہلے کبھی ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی ہو گا، میں نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا حالانکہ اللہ کی طرف سے مجھے اس کا حکم نہیں ملا تھا، مجھے اپنی پڑی ہے، مجھے اپنی پڑی ہے، مجھے اپنی پڑی ہے، میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، ہاں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ سب لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کریں گے : اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے مریم کی طرف القاء کیا تھا اور اللہ کی طرف سے روح ہیں، آپ نے بچپن میں گہوارے میں لوگوں سے کلام کیا تھا، (لہذا آپ) ہماری شفاعت کیجئے، کیا آپ ملاحظہ نہیں فرما رہے کہ ہماری کیا حالت ہو چکی ہے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی کہیں گے : میرا رب آج اس درجہ غضب ناک ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضب ناک ہوا اور نہ کبھی اس کے بعد ہو گا اور آپ کسی لغزش کا ذکر نہیں کریں گے (صرف اتنا کہیں گے :) مجھے اپنی پڑی ہے، مجھے اپنی پڑی ہے، مجھے اپنی پڑی ہے، میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، ہاں محمد حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ۔

’’سب لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کریں گے : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! آپ اللہ کے رسول اور سب سے آخری پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہلے اور بعد کے تمام گناہوں سے معصوم رکھا ہے، آپ اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت کیجئے۔ کیا آپ ملاحظہ نہیں فرما رہے کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں؟ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ) میں آگے بڑھوں گا اور عرش تلے پہنچ کر اپنے رب عزوجل کے حضور سجدہ میں گر پڑوں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد اور حسن تعریف کے ایسے دروازے کھولے گا کہ مجھ سے پہلے کسی اور پر اس نے نہیں کھولے تھے۔ پھر کہا جائے گا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اپنا سر اٹھائیے، سوال کیجئے آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ پس میں اپنا سر اٹھا کر عرض کروں گا : میرے رب میری امت! میرے رب میری امت ! میرے رب میری امت ! کہا جائے گا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اپنی امت کے ان لوگوں کو جن پر کوئی حساب و کتاب نہیں ہے جنت کے دائیں دروازے سے داخل کیجئے ویسے انہیں اختیار ہے کہ جس دروازے سے چاہیں دوسرے لوگوں کے ساتھ داخل ہو سکتے ہیں۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، جنت کے دروازے کے دونوں کناروں میں اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور حمیر میں ہے یا جتنا مکہ اور بصری میں ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری، نے کتاب : التفسير، باب : ذرّيّة من حملنا مع نوح إنه کان عبداً شکوراً کتاب : الأنبياء، باب قول اﷲ : ولقد أرسلنا نوحاً إلی قومه ..مسلم،نے کتاب : الأنبياء، باب قول اﷲ : ولقد أرسلنا نوحاً إلی قومه ترمذی نے کتاب : صفة القيامة، باب : ما جاء في الشفاعة، میں اور احمد نے روایت کیا ہے
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے ایسی پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں اور میں انہیں فخریہ بیان نہیں کرتا : مجھے تمام لوگوں سرخ و سیاہ کی طرف مبعوث کیا گیا ہے، ایک ماہ کی مسافت تک رعب سے میری مدد فرمائی گئی، میرے لئے اموال غنیمت حلال کر دیئے گئے جو مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھے، اور میرے لئے تمام روئے زمین مسجد اور پاک کرنیوالی (جائے تیمم) بنا دی گئی، اور مجھے شفاعت عطا کی گئی ہے، پس میں نے اسے اپنی امت کے لیے مؤخر کر دیا تو وہ ہر اس شخص کے لیے ہو گی جو اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔‘‘

اسے امام احمد بن حنبل اور ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے کہا ہے : امام احمد کے رُواۃ صحیح حدیث کے رجال ہیں سوائے یزید بن ابی زیاد کے، ان کی روایت حسن ہوتی ہے۔

 

پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1281373 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.