پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد: نثر اردو اور اسلوب کی معنویت

اردو کے فروغ میں مذہبی و اصلاحی ادب کا اہم کرداررہا ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بجا ہو گا کہ اردو کی بقا میں اس جہت سے جو کاوش ہے اس کے نمایاں اثرات پائے جاتے ہیں۔ فروغ اردو میں مذہبی و اصلاحی لٹریچر کا کردار موثر و مخلصانہ رہا ہے ۔

ماضی قریب کی جن شخصیات نے اردو کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا، زبان اردو میں جدید لب و لہجہ، بانک پن اور چاشنی و لطافت، سلاست و روانی اور شعور و ادراک کی صحت مند قدروں کو فوقیت دی، ان میں پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد (28اپریل 2008ئ) کا نام نمایاں ہے۔آپ کا تعلق دبستان دہلی سے ہے، مفتی اعظم شاہ مظہراللہ مجددی شاہی امام مسجد فتح پوری دہلی کے لایق و فایق فرزند تھے، علمی گھرانے اور علمی ماحول نے فکر مسعودی کو نکھار دیا۔ تحقیق و تدقیق کا ذوق تھا ہی۔ قومی خدمت کا جذبہ مستزاد۔ آپ نے صالح افکار کی ترویج کی، نافع کردار کا نمونہ پیش کیا۔ گورنمنٹ ڈگری کالج ٹھٹھہ سندھ کے پرنسپل تھے، تحقیق، ری سرچ، ادب و تصوف اور دعوت و تبلیغ آپ کے مشاغل علمیہ تھے۔ قرآنیات، سیرت، اصلاحیات، ادبیات، مجددیات (مجدد الف ثانی و مجدد بریلوی پر علمی کام)جیسے گوشوں پر آپ کا رہوارِ فکر سرپٹ دوڑا۔

آپ کی تحریر میں سلاست و روانی، پختگی و استدلال کی فراوانی، افکار کی تابانی و ادب کی جلوہ سامانی ہے۔ ایسے چند نثری نمونے ملاحظہ کریں جن سے ایک طرف ادب میں تعمق و ژرف نگاہی کا اندازا ہوتا ہے تو دوسری طرف قومی تعمیر کی فکر بھی جھلکتی ہے اور فکر و نظر کو حوصلہ دیتی ہے۔

نمونہ اول:
عقل کی دنیا میں عقل کی بات کیجیے.... برگ و بار دیکھ کر درخت کو پہچانیے.... دھوپ دیکھ کر آفتاب کو مانیے.... ان سہاروں کو لے کر آگے بڑھیے.... قرآن کا یہی حکم ہے.... اللہ اللہ !قرآن کھولتے ہی پیاروں اور محبوبوں کا ذکر شروع ہو جاتا ہے.... ۱

نمونہ دوم:
ادب و احترام اسلامی معاشرے کی جان اور روح ہے، بغیر روح کے جسم بے روح ہے.... ادب کی محرک، محبت ہے.... محبت کی محرک، عظمت ہے.... عظمت کی محرک، حقیقت ہے.... جب حقیقت کا انکار کیا جائے گا عظمت کا ادراک ختم ہو جائے گا.... جب عظمت کا انکار کیا جائے گا محبت کا احساس ختم ہو جائے گا.... ۲

نمونہ سوم:
تصوف روحِ اسلام ہے....تصوف جانِ ایمان ہے.... تصوف بندگی ہے.... تصوف زندگی ہے.... تصوف سادگی ہے.... تصوف ہم دردی و غم خواری ہے.... تصوف دل داری و دل نوازی ہے.... تصوف سیرتِ مصطفی ہے.... تصوف صدقِ ابوبکر ہے.... تصوف ضرب حیدر ہے.... تصوف فقر بوذر ہے.... تصوف عدالت و دیانت ہے.... تصوف معیشت و معاشرت ہے.... تصوف خزینہ رحمت ہے.... ۳

ان تینوں اقتباسات میں دریا کی سی روانی ہے۔ زبان کہیں ڈگمگاتی نہیں، تسلسل ہے، پڑھتے چلے جائیے۔
صداقت و حقیقت سے پر چند اقتباسات موضوع کے تناظر میں دیکھیں جن میں شگفتگی اور حسن زبان وبیان یک جا ہیں، نیز سیرت طیبہ کا ذکرِ جمیل اردو ادب کے گلستاں کو بہار آشنا کرتا ہے۔ دل کی بنجر وادی میں یقین کے گل و لالہ کھل اٹھتے ہیں اور ماحول بہاروں کا مسکن بن جاتا ہے۔ سچ ہے سیرتِ طیبہ کا بیان ایک طرف اردو کو جہانِ معنی کا پتا دیتا ہے تو دوسری طرف کردار کی تشکیل کا فلسفہ بھی دیتا ہے۔

سیرت طیبہ پر نثر مسعودی کے نمونے:
(۱) آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کائنات میں ایک عظیم انقلاب برپا کیا.... آرزوؤں کا ڈھنگ بتایا.... تمناؤں کا سلیقہ سکھایا.... امنگوں کو ایک نیا رنگ و روپ دیا.... فرش پر جمی ہوئی نگاہوں کو عرش پر لگا دیا.... مرجھائے ہوئے چہروں کو تاب ناک بنا دیا.... مُردہ جسموں میں جان ڈال دی.... بے کیف روحوں کو کیف و سرور بخشا.... مظلوموں اور بے کسوں کو سہارا دیا.... زندہ درگور ہونے والی عورت کو مسندِ عزت پر بٹھایا.... قاتلوں کو جان و تن کا محافظ بنایا.... ظالموں کو مظلوموں کا پاس دار بنایا.... غلاموں کو آزادی کا مُژدہ سنایا اور ایسا سرفراز کیا کہ آزادوں کا آقا بنا دیا.... رہزنوں کو قائد و رہبر بنایا.... اللہ اللہ! وہ اتنا عظیم انقلاب لایا کہ جس معاشرے میں اٹھا اس کو یکسر بدل کر رکھ دیا....۴

(۲) انقلاب باہر سے نہیں، اندر سے آتا ہے.... دل سے اٹھتا ہے، روح سے پھوٹتا ہے اور پھر رگ رگ میں سما جاتا ہے.... کچھ پاس نہیں، نہ سہی.... ایمان ایک عظیم قوت ہے، عشق ایک عظیم دولت ہے.... اسی سے افراد زندہ ہوتے ہیں.... اسی سے قومیں زندہ ہوتی ہیں.... ہاں زندگی پکار رہی ہے.... ذرا کان تو لگائیے.... سنیے تو سہی، کیا کہہ رہی ہے:
کس کا منھ تکیے، کہاں جائیے، کس سے کہیے
تیرے ہی قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا (رضا) ۵

(۳) چاند چمک رہا ہے ستارے کھل رہے ہیں ، نور کی پھوار پڑرہی ہے اچانک غلغلہ بپا ہوا ، ایک ندا دینے والا ندا دے رہا تھا لوگوں! صدیوں سے جس ستارے کا انتظار تھا دیکھو دیکھو!آج وہ طلوع ہوگیا آج وہ آنے والا آگیا وادی مکہ کے سناٹے میں یہ آواز گونج گئی ۶

(۴) ڈوبتے ہوئے ابھر نے لگے، سہمے ہوئے چہکنے لگے، روتے ہوئے ہنسنے لگے، صدیوں کے دبے ہوئے ، پسے ہوئے سرفراز ہونے لگے، خون کے پیاسے محبت کرنے لگے، ہارنے والے جیتنے لگے بکھرے ہوئے خیال یک جا ہوگئے، منتشر قوتیں سمٹ گئیں، ضعیف وناتواں ایک قوت بن کر ابھرے اور دنیا نے پہلی مرتبہ جانا کہ انسان احسن تقویم میں بنایا گیا....۷

(۵) ہم قرآن کریم نہیں دیکھتے ، ہم قرآن حکیم نہیں پڑھتے ، سنی سنائی پر یقین کرلیتے ہیں ، بہت بھولے ہیں .... جب قرآن کریم میں ہر چیز کا روشن بیان ہے .... اور ہر بات کی تفصیل موجود ہے ، تو پھر قرآن کریم سے کیوں نہ پوچھا جائے .... اِدھر اُدھر کیوں بھٹکتے رہیں ؟.... ایک ایک کا منھ کیوں تکتے رہیں ؟ .... کوئی کچھ بتاتا ہے کوئی کچھ .... دل اُلجھ کر رہ جاتا ہے ، دماغ پر اگندہ ہوجاتا ہے.... متاعِ عشق و محبت برباد ہونے لگتی ہے ، جب وہ برباد ہوگئی تو پھر کیا رہ گیا ؟ .... ایک خاک کا ڈھیر ،ایک بے جان لاشہ .... محبت کی باتیں اتنی مشکل نہیں جو سمجھ میں نہ آسکیں .... دل وا لا ہوتو بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے .... یہ باتیں دماغ سوزی سے سمجھ میں نہیں آتیں ع
ہے دانش برہانی حیرت کی فراوانی ۸

سیرت طیبہ سے منسلک ان اقتباسات میں انقلاب کی دھمک ہے، پھولوں کی مہک ہے، افکار کی ہمک ہے، کردار کی چمک ہے، اور غور و فکر کی دعوت ہے۔ نثر مسلسل کے نمونے پر ڈاکٹر مسعود احمد کے اقتباسات الفاظ کے زیر و بم اور معنٰی و مفہوم کے لحاظ سے برجستہ استعمال کی دست رس پر دلالت کرتے ہیں۔

سادہ و سلیس انداز میں شگفتہ اسلوب اور جدید انداز تحریر ڈاکٹر مسعود احمد کا وہ اچھوتا پہلو ہے جو بذات خود مثال ہے۔ بعد کے درجنوں قلم کاروں نے آپ کے اس اسلوب کی پیروی کی۔ چھوٹے چھوٹے مقفیٰ جملے درمیان میں لکیر کھینچ دینا، اور پڑھنے والا ایک ایک جملہ پڑھ کر ٹھہر ٹھہر جاتا ہے، جس سے مفہوم کی دل کشی سے حظ بھی اٹھاتا ہے، اور تحریر کا مقصد اس ٹھہراؤ میں کھل کھل جاتا ہے۔اس اقتباس کو دیکھیں کہ کس طرح خفتہ رگوں کو چھیڑا ہے اور طبیب حاذق کی طرح مرض عصر کی دوا بھی تجویز فرمائی ہے: ”ہمارے ایمان کی چنگاری راکھ میں دبی ہے.... ہمت کر کے راکھ کے اس ڈھیر کو ہٹاؤ اور دنیا کو بتا دو کہ ہم صرف نام کے مسلمان نہیں.... ہم ان کی ہر ادا پر قربان ہیں.... ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فدا کار و جاں نثار ہیں.... ہم مردہ نہیں زندہ ہیں.... ہم غافل نہیں ہشیار ہیں.... ہم بھول گئے تھے.... ہماری فکر و نظر کو اغیار کی جادوگری نے بے اثر کر دیا تھا.... لیکن اب جاگ گئے ہیں اور اس ساحری کے سارے اثرات ہماری قوت ایمانی سے بے اثر ہو گئے....۹

بعض تحریریں انقلاب بہ داماں ہوتی ہیں۔ شعور و فکر کو اپیل کرتی ہیں۔ تنزل پذیر اور انحطاط پذیر قومی اقدار کے ڈھانچے میں توانائی کی روح پھونک دیتی ہیں۔ ڈاکٹر مسعود احمد نے اپنے البیلے اسلوبِ تحریر سے سماج کی خفتہ رگوں کو چھیڑا ہے اور ان موضوعات کو کریدا ہے جو معاشرے کا ”ناسور“ کہے جا سکتے ہیں۔ اس طرح بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ان کی نثر سے اصلاحی دینی کاز کو تقویت بھی ملی اور ادب کے دامن میں نئے خزانوں کا ورود ہوا۔نیز مسلم معاشرے کی تنزلی میں جن عوامل کی کارفرمائی ہے ان کی اصلاح ڈھنگ اور سلیقے سے کی ہے۔ ایسے دو اقتباسات دیکھیں:

فکر انسانی:
دائرہ فکر جتنا وسیع ہوتا ہے، ترقی کی راہیںکھلتی ہیں اور ترقی کی راہیں کیا کھلتی ہیں فرد ملت کا وقار بلند ہوتا ہے.... اوج ثریا تک پہنچتا ہے.... اسلام نے انسانی فکر کا دائرہ جتنا وسیع کیا ہے شاید ہی کسی نے کیا ہو.... نوع انساں پر یہ خدا کا عظیم احسان ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسان فطرةً احسان فراموش واقع ہوا ہے....۰۱

غیر دانش مندانہ بات:
فتنے یوں ہی پیدا نہیں ہوتے، آگ دشمنوں کے لگائے سے لگتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ غیر شعوری طور پر اپنوں کے لگائے سے بھی لگ جاتی ہے.... اس لیے ہر فتنے کو دشمن کے سر تھوپنا دانش مندی نہیں.... دانش مندی یہ ہے کہ فتنوں کے اسباب و علل پر غور کیا جائے اور ان کا خلوص دل سے سدباب کیا جائے....۱۱

ذکر رضا بریلوی میں نثر مسعودی کی ضوفشانیاں:
پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نے ۹۷۹۱ءمیں ہندوستان کے فراموش کردہ عبقری اور نعتیہ ادب کے عظیم ستون مولانا شاہ احمد رضا بریلوی پر تحقیق کا آغاز کیا۔ہوا یوں کہ حضرت رضا بریلوی کی بعض علمی و سنجیدہ تنقیدات نے مقابل گروہ کو مضطرب کیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اپنی اصلاح کر لیتے لیکن یہ غیر علمی طریقہ اپنایا کہ حضرت رضا بریلوی پر ا تہام و الزام لگانا شروع کیا۔ ہمارے یہاں ایک المیہ ہے کہ سنی سنائی پر بلا تحقیق یقین کر لیا جاتا ہے۔ اسی منفی روش پر چل کر ہم نے ”تعصب“ کے قبرستان میں علم و فن کے کئی خزینے زندہ در گور کردیے۔ حضرت رضا بریلوی کی شعری و ادبی خدمات کو قابل اعتنا نا سمجھا گیا۔شاےد اس کا سبب یہ ہو کہ نصف صدی پیش تر یہ تحریک چلائی گئی کہ ادب الگ چیز ہے اور مذہب چیز ے دگر،آپ کی شاعری اور نثر کا موضوع علوم دینیہ ہی تھے اس لیے ادب آشناؤں نے اغماض برتا۔اس مسموم فضا نے ڈاکٹر مسعود احمد کو متاثر کیا اور آپ نے جہل و لا علمی کے پردے چاک کرنے کے لیے مولانا احمد رضا کو موضوع تحقیق بنایا۔اس رخ سے آپ نے جو کچھ قلمی اثاثہ چھوڑا وہ ایک طرف حقایق کا نا قابل تردید ذخیرہ ہے تو دوسری طرف نثر اردو کا بیش قیمت سرمایہ۔حقیقت و صداقت کے تناظر میں آپ کا یہ اقتباس متوازن فکر کا اشاریہ معلوم ہوتا ہے :

”مطالعہ و مشاہدہ،نیک و بد اور خیر و شر کی پہچان کا بہترین ذریعہ ہے....پروپیگنڈے سے کچھ وقت کے لیے خیر کو شر اور نیک کو بد بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے۔مگر ہمیشہ کے لیے نہیں،مطالعہ کے بعد جب جہل و لا علمی کے پردے اٹھتے ہیںتو مطلع صاف نظر آنے لگتا ہے....۲۱

چوں کہ خالص علمی اور تحقیقی انداز میں حضرت رضا بریلوی پر آپ نے کام کیا وہ بھی اپنے مخصوص اسلوب تحریر اور متین لہجے میں، جس سے جامعات کے اساتذہ ،کالجز کے پروفیسرز،عصری مدارس کے ماہرین علم اور ادب کی انجمن کے خوشہ چیں متاثر ہوئے۔حقایق کے تناطر میں نثری خوبیوں سے آراستہ نمونے ملاحظہ کریں:

(۱) اصل میں بات یہ ہے کہ گزشتہ تیرہ برس میں امام احمد رضا کا شہرہ پاک و ہند سے گزر کر دیار مشر ق و مغرب میں پھیل چکا ہے۔ظاہر ہے یہ بات ان حضرات کو پسند نہیں جو امام احمد رضا کو بہ قول خود دفن کر چکے تھے اب امام احمد رضا کے آفتاب فکرکے سامنے ان کا چراغ فکر ٹمٹمانے لگا....۳۱

(۲) جب پاک و ہند میں اسلامی سلطنت کا آفتاب غروب ہو رہا تھا....تاریکیاں پھیل رہی تھیں،دل ڈوب رہے تھے،حوصلے پست ہو رہے تھے کہ رحمت باری جوش میں آئی اور ایک آفتاب طلوع ہوا....جس نے فضاﺅں کو منور کر دیا....ڈوبتے دلوں کو سہارا دیا ....پست حوصلوں کو بلند کیا....تاریک فضاﺅں میں یہ طلوع ہونے والا آفتاب کون تھا؟....وہی امام احمد رضا عرب و عجم نے جس کی عظمت و جلالت کی گواہی دی....۴۱

(۳) جب مؤرخ ایک طرف جھکنے لگتا ہے تو اس کو ساری خوبیاں اور کمالات اسی طرف نظر آنے لگتے ہیں،دوسری طرف کچھ نظر نہیں آتا....”نقش حیات“ اس طرف ، دوسری طرف ”نقش ممات“....”شان دار“ ماضی اس طرف ،دوسری طرف ”خار دار“ ماضی ....”پرانے چراغ“ اس طرف ، دوسری طرف ”مردہ چراغ“....”بڑے“ مسلمان اس طرف، دوسری طرف ”چھوٹے“ مسلمان ....الغرض اُدھر چمک رہی ہے اور اِدھر گھٹائیں چھا رہی ہیں....۵۱

(۴) اس کا ذہن برق رفتار تھا.... اس کی آنکھ عرش نگاہ تھی.... اس کا سینہ بحر ناپیدا کنار تھا.... اس کا ہاتھ صبا رفتار تھا....وہ کیا تھا؟.... وہ کون تھا؟.... اس نے کیا کیا،کِیا ع
سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے۶۱

(۵) جب دلوں کو ویران کیا جارہا تھا.... جب ملت کا شیرازہ منتشر کیا جارہا تھا.... امام احمد رضا دلوں کو آباد کر رہے تھے، ملت کی شیرازہ بندی کر رہے تھے.... انھوں نے جوانانِ ملت کو ایک نیا ولولہ دیا، ایک نیا عزم دیا، ایک نیا حوصلہ دیا، ذہنی غلامی سے آزاد کر کے نئے جمال کی خبر سنائی....۷۱

نثر مسجع:
جملوں کے آخری الفاظ موزوں و مقفیٰ ہوں اسے نثر مسجع کہتے ہیں، ڈاکٹر محمد مسعود احمد کی نثر میں اس کی جھلکیاں بہ کثرت ملتی ہیں، مثال دیکھیں:

”زمانہ کروٹیں بدلتا رہتا ہے.... نشیب و فراز آتے رہتے ہیں.... کبھی اجالا کبھی اندھیرا.... کبھی اندھیرا کبھی اجالا....زمین پر بسنے والے جب نور کو ترستے ہیں.... ظلمت کے پردے اٹھتے چلے جاتے ہیں.... مٹے مٹے نقوش ابھرتے چلے جاتے ہیں.... روشنیاں پھیلتی چلی جاتی ہیں....“۸۱

نثر مرسل:
نثر مرسل میں سادگی ہوتی ہے، قافیہ بندی نہیں ہوتی، پروفیسر محمد مسعود احمد کے یہاں نثر مرسل کا اہتمام کم ہی ملتا ہے۔ لیکن ضرورت کے پیش نظر عام فہم انداز میں جو تحریریں لکھی ہیں ان میں نثر مرسل کے جلوے دکھائی دیتے ہیں۔ سادگی و سلاست بیان کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو:

”قرآ ن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ اس زمانے میں لڑکیوں کی ولادت مرد کے لیے عذاب جاں تھی....جب کوئی مردیہ خبر سنتا تو اس کاچہرہ مارے غصے کے سیاہ ہوجاتا اوروہ اسی غم میں پیچ وتاب کھاتا.... لوگ لڑکیوں کوزندہ دفن کر دیا کرتے تھے جس کے لیے قرآن کریم میں فرمایا گیا کہ قیامت کے دن دفن ہونے والی لڑکی سے پوچھاجائے گا بتاتجھے کس جرم کی پاداش میں قتل کیاگیا ؟یعنی ایسے سفّاک باپ کو قیامت کے دن چھوڑا نہیں جائے گا۔ایک صحابی نے ایام جاہلیت میں اپنی بیٹی کو زندہ دفن کرنے کادردناک واقعہ سنایاتووہ خود بھی روئے اورسرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم بھی روتے رہے....

ہندستان کاحال عرب سے بھی بدتر تھا ، یہاں مرنے والے شوہروں کے ساتھ ان کی زندہ بیویاں جلائی جاتی تھیں ، اس رسم کو ”ستی“ کے نام سے پکاراجاتا تھا ۔ “۹۱

کس قدر سادہ انداز میں بات پیش کی کہ کم پڑھا لکھا بھی آسانی سے عبارت سمجھ سکتا ہے اور کہیں دشواری نہیں آتی بلکہ ہر ہر لفظ ذہن میں اترتا ہے۔

نثر مسعودی کا فنی نمونہ”اجالا“:
پروفیسر مسعود احمد نے بیانیہ نثر میں ”اجالا“ نام سے ایک کتاب لکھی جس میں زور بیان، قوت استدلال، فنی محاسن، حلاوت زبان اور اسلوب کا تنوع ایسا ہے کہ ارباب فن لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہتے، اس کتاب کی زبان اتنی صاف ستھری اور بامحاورہ ہے کہ زبان بھی محظوظ ہوتی ہے۔ کتاب کی بابت مشہور محقق ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی کا یہ تاثر پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:

”یہ کتاب بڑے دل کش انداز میں لکھی گئی ہے اس میں ادبی اور تحقیقی دونوں رنگ ہیں، انداز بیانیہ ہے۔“۰۲

اجالا کا یہ اقتباس ہمارے موقف کی تائید کرتا معلوم ہوتا ہے:

”آج سے ایک صدی قبل یہ دگر گوں حالات تھے.... ظلمت پر ظلمت چھا رہی تھی.... اجالے کو لوگ ترس رہے تھے.... رحمت باری کو جوش آیا اور پھر وہ آیاجس نے اندھیروں میں اجالا کیا.... صراط مستقیم کا پتا بتا دیا.... ہاتھ پکڑ پکڑ کر راستے پر لگایا.... ہدایت پر ایسا حریص کہ گم راہوں کی گم راہی پر بل کھاتا اور تڑپتا.... وہ دل سے چاہتا تھا کہ چاروں طرف اسلام کا بول بالا ہو.... وہ اسلام کا شیدائی تھا.... وہ اسلام کا فدائی تھا.... وہ اسلام کا متوالا تھا.... کون؟.... احمد رضا خاں بریلوی!“۱۲

تمہیدات و انتسابات:
آپ کی تمہیدات میں بڑی دل کشی و جاذبیت اور اثر و کیف ہے، پڑھنے والا احساسات کی دنیا میں گم ہو جاتا ہے، الفاظ میں دل کی آواز گونجتی معلوم ہوتی ہے اور یہی کیفیت انتسابات کی ہے، جنھیں ادبی شہ پارہ کہیں تو صحیح و درست ہو۔ ڈاکٹر موصوف کی کتاب ”غریبوں کے غم خوار“ کا انتساب ملاحظہ کریں:

”مسکینوں کے نام.... غریبوں کے نام.... مظلوموں کے نام.... بے کسوں کے نام.... بے بسوں کے نام....“۲۲

ڈاکٹر موصوف کی کتاب ”توحید کے نام پر“ کا انتساب کچھ اس طرح ہے:
”توحید کے اُن پرستاروں کے نام!
جنھوں نے محبت کے چراغ روشن کیے....
جنھوں نے ادب کا سلیقہ سکھایا....
جو رمز شناس ادب تھے....
جادہ ادب سے جن کا نہ خیال بھٹکتا تھا، نہ زبان بہکتی تھی، نہ قدم ڈگمگاتے تھے....
جو حریمِ جاناں میں نیچی نگاہوں سے بیٹھے رہتے تھے....
حضورِ یار میں جن کی آواز بلند نہ ہوتی تھی....
جو آتے تھے تو اس کی اجازت سے، بیٹھتے تھے تو اس کی اجازت سے، اٹھتے تھے تو اس کی اجازت سے....
جنھوں نے اپنا جان و مال محبوب کے قدموں پر نچھاور کر دیا تھا....
جو ادب کو جانِ ایمان سمجھتے تھے....
جو ادب ہی کے لیے جیتے تھے، جو ادب ہی کے لیے مرتے تھے....“۳۲

ڈاکٹر صاحب نے قرآن مقدس کی عظمت و برکات پر ایک عمدہ مقالہ لکھا”تعظیم کتاب اللہ“ جس کی تمہید دل کو چھوتی اور فکر کو جھنجھوڑتی ہے:
”کتاب مبین....
جس میں ہر چیز کا روشن بیان ہے....
جس میں حکمت ہی حکمت ہے....
جس میں دانائی ہی دانائی ہے....
جس میں روشنی ہی روشنی ہے....
جس میں نور ہی نور ہے....
جس میں ہدایت ہی ہدایت ہے....
جس میں شفا ہی شفا ہے....
جس میں علم ہی علم ہے....
جس میں عظمت ہی عظمت ہے....
جس میں آسانی ہی آسانی ہے....
جس میں رحمت ہی رحمت ہے....
جس میں یقین ہی یقین ہے....
جس میں نصیحت ہی نصیحت ہے....
جس میں امید ہی امید ہے....
جس میں حق ہی حق ہے....
جس میں ماضی کی خبریں ہیں....
جس میں حال سے آگاہی ہے....
جس میں مستقبل کی خبریں ہیں....
جس کو سن سن کر آنسو بہہ نکلتے ہیں....
جس کو سن سن کر دل تڑپ اٹھتے ہیں....
جس کا ذکر پچھلی کتابوں میں ہے....
جس کو جبریل امین نے اتارا....
جس کو محمد مصطفی (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے بتایا....
جو اتنی بھاری کہ پہاڑ تھر تھرا جائیں....
جواتنی ہلکی کہ دل میں سماجائے....
جو علوم و فنون کا ذخیرہ ہے....
جو زندگی کا سرمایہ ہے....
جو تاریکیوں سے روشنیوں میں لاتی ہے....
جو اترنے سے پہلے جانی پہچانی تھی....
جو انسانوں پر اللہ کی عظیم رحمت ہے....
جو صدیوں سے محفوظ ہے....
جو رازوں کا خزانہ ہے....
جو معموں کا حل ہے....
جو اللہ کا کلام ہے....
جو اللہ کی کتاب ہے....“۴۲

الغرض! حضرت پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد کی نثر میں بلاغت و معانی، سلاست و روانی، متانت و سنجیدگی اور فکر و تخیل کی ایک علمی فضا آراستہ نظر آتی ہے جس سے زبان کا دامن جواہرات سے پر ہوتا ہے اور نئے لب ولہجہ سے آشنا ئی ہوتی ہے۔ ادب کی راہ کا کوئی مسافر ذخیرہ مسعودی میں خوشہ چینی کرے اور فنی نقطہ نظر سے نثر مسعودی کا تجزیہ کرے تو یہ ادب کی ایک عظیم خدمت ہوگی۔ معاصر ادبی فضا کس قدر مسموم ہوئی جاتی ہے یہ مخفی نہیں، ضرورت ہے کہ اردو زبان و ادب کے فروغ و ابلاغ کے لیے صالح و پاکیزہ ادبی جواہر پاروں کو منظر عام پر لایا جائے اس رخ سے ڈاکٹر محمد مسعود احمد کے آثار علمیہ بڑے مفید و کار آمد ثابت ہوں گے۔
٭٭٭
مصادر و مآخذ:
(۱) محمد مسعود احمد، ڈاکٹر، توحید کے نام پر، طبع بھیونڈی۰۹۹۱ئ،ص۲۱
(۲) محمد مسعود احمد، ڈاکٹر،تعظیم کتاب اللہ، طبع ادارہ مسعودیہ کراچی ۶۰۰۲ئ، ص۷
(۳) محمد مسعود احمد، ڈاکٹر، روح اسلام، طبع رضا اکیڈمی ممبئی ۷۰۰۲ئ،ص۶۵
(۴) محمد مسعود احمد، ڈاکٹر،سیرت رسول اور ہماری زندگی، طبع نوری مشن مالیگاؤں۰۱۰۲ئ، ص۴
(۵) حوالہ سابق،ص۶
(۶) محمد مسعود احمد، ڈاکٹر،جشن بہاراں،طبع مکتبہ طیبہ ممبئی ۰۱۰۲ئ،ص۶۱
(۷) حوالہ سابق،ص۷۱
(۸) محمد مسعود احمد،تعظیم و توقیر،طبع نوری مشن مالیگاؤں، ص۳
(۹) محمد مسعود احمد،محبت کی نشانی، طبع رضوی کتاب گھربھیونڈی،ص۱۹
(۰۱) محمد مسعود احمد، ڈاکٹر،موج خیال، طبع انجمن فیضان حافظ ملت ممبئی۴۸۹۱ئ، ص۵۱
(۱۱) حوالہ سابق،ص۷۱
(۲۱) محمد مسعود احمد، ڈاکٹر،آئینہ رضویات،ج۴، مرتب: عبدالستار طاہر،طبع ادارہ تحقیقات امام احمد رضا،کراچی۴۰۰۲ئ،ص۹
(۳۱) حوالہ سابق ،ص ۹۱
(۴۱) حوالہ سابق ،ص ۶۳
(۵۱) حوالہ سابق ،ص ۲۵
(۶۱) حوالہ سابق ،ص ۴۷
(۷۱) حوالہ سابق ،ص ۳۳۱۔۴۳۱
(۸۱) محمد مسعود احمد، ڈاکٹر،اجالا، طبع المجمع الاسلامی مبارک پور۴۰۰۲ئ،ص۰۱
(۹۱) محمد مسعود احمد، ڈاکٹر،عورت اور پردہ، طبع آل انڈیا تبلیغ سیرت کولکاتا۰۱۰۲ئ،ص۳
(۰۲) عبدالنعیم عزیزی، ڈاکٹر، مسعود ملت اور امام احمد رضا، طبع ادارہ مسعودیہ کراچی۶۰۰۲ئ، ص۸۳
(۱۲) محمد مسعود احمد، ڈاکٹر،اجالا،طبع المجمع الاسلامی مبارک پور ۴۰۰۲ئ،ص۳۱
(۲۲) محمد مسعود احمد، ڈاکٹر،غریبوں کے غم خوار، طبع رضوی کتاب گھر بھیونڈی،ص۳
(۳۲) محمد مسعود احمد، ڈاکٹر، توحید کے نام پر، طبع بھیونڈی۰۹۹۱ئ،ص۳
(۴۲) محمد مسعود احمد، ڈاکٹر،تعظیم کتاب اللہ، طبع ادارہ مسعودیہ کراچی۶۰۰۲ئ،ص۳۔۵
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 255767 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.