تعلیمی ادارے کی سالانہ تقریبات کیسے منعقد کی جائیں

��(تعلیمی اداروں میں ہر سال منعقد کی جانے والی سالانہ تقریبات کی صورتحال اور اس میں بہتری پیدا کرنے کے لیے تجاویز)

راجہ محمد عتیق افسر
اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات قرطبہ یونیورسٹی پشاور
03005930098، [email protected]

سالانہ دن کی تقریبات ہر تعلیمی ادارے کا ایک لازمی جزو بنتا جا رہا ہے اور یہ طلباء کی پسندیدہ سرگرمی بھی ہے ۔سالانہ تقریب ایک اہم تقریب ہے جو نئے سال کے آغاز اور گزشتہ تعلیمی سال کے اختتام پر نئے طلبہ کے لیے استقبالیہ اور رخصت ہونے والے طلبہ کے لیے الوداعی تقریب ہوتی ہے ، لہذا اس کی اہمیت ایک تہوار یا میلے کی سی ہوجاتی ہے ۔ تعلیمی ادارے کے طلبہ و اساتذہ اس تقریب کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں ۔اس تقریب کے ذریعے طلبہ و طالبات کی کارکردگی کو عوام الناس کے سامنے رکھ کر تعلیمی ادارے کی عکاسی کا یہ نادر موقع ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے تعلیمی ادارے اس تقریب کا باقاعدگی سے اہتمام کرتے ہیں ۔ان تقریبات میں شریک طلبہ و طالبات کو مہنگے ملبوسات خرید کر تقریبات میں شریک کیا جاتا ہے ساتھ میں ان طلبہ و طالبات کو تحائف لانے کے لیے بھی کہا جاتا ہے ۔ تقریبات میں جو سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں وہ کسی طور بھی ایک تعلیمی ادارے کے تشخص کی آئینہ دار نہیں ہوتیں ۔ رقص و موسیقی کی بھرمار پہ ننھی کونپلوں کو نچایا جاتا ہے اور یہ سب کچھ کلچر کے نام پہ ہوتا ہے ۔دوران تقریب طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا اٹھنے بیٹھنے کا طریقہ اور لباس کسی بھی طور تعلیمی ادارے کے نظم و ضبط کی عکاسی نہیں کرتا اور نہ ہی کسی دینی و تمدنی اقدار کا پتہ دیتا ہے ۔نجی تعلیمی ادارے ہوں یا سرکاری تعلیمی ادارے ہر جگہ رقص و موسیقی کا پرچار نظر آتا ہے ۔دل دہلا دینے والی بات تو یہ ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں ایسی سرگرمیاں کروائی جاتی جو سرا سر اسلامی تعلیمات کے برعکس ہیں ۔ اسلام کے نام پہ بننے والی ریاست پاکستان کے مقتدر حلقے یعنی سول سروسسز کی تربیتی اکادمی میں ہولی کی تقریبات سرکاری سطح پہ منائی جاتی ہیں ۔ اسی طرح دیگر غیر مذہبی رسومات کو پروان چڑھایا جاتا ہے جو پاکستان کی نظریاتی اساس اور دین اسلام کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔تعلیمی اداروں کو اپنی سرگرمیوں کے انعقاد کے وقت دینی اور ملی اقدار کا خیال رکھنا چاہیے اور ایسی تقریبات منعقد کرنا چاہییں جو پاکستان کے تشخص کی آئینہ دار ہوں ۔
مقاصد و اہمیت
اس سے قبل کہ ہم ان سرگرمیوں کے بارے مین بات کریں جو ایک تعلیمی ادارے کے شایان شان ہو سکتی ہیں ہم سالانہ تقریبات کی اہمیت کے بارے میں جاننے کی کو شش کرتے ہیں ۔سالانہ تقریبات کے مقاصد و اہمیت مندرجہ ذیل نکات میں پوشیدہ ہیں :
• یہ بچوں کو اپنی پوشیدہ صلاحیت کو ظاہر کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں ۔
• یہ بچوں کو اپنے اساتذہ کے ساتھ غیر رسمی طور پر بات چیت کرنے اور ربط پیداکرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں ۔
• یہ تعلیمی یا غیر نصابی سرگرمیوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلبہ و طالبات کو سراہنے کا ایک بہترین موقع ہے ۔
• اس موقع پر والدین اپنے بچوں کی مہارتوں اور دلچسپیوں سے آگاہ ہوتے ہیں ۔
• یہ بچوں میں خود اعتمادی کو پروان چڑھاتی ہیں ہ انہیں خجالت سے نجات دلانے میں مدد کرتا ہے۔
• یہ بچوں کو باہمی سرگرمی (ٹیم ورک) کی اہمیت سکھانے میں بھی مدد کرتا ہے۔
• یہ بچوں کییاداشت میں ایک قیمتی اضافہ کرتی ہیں ۔
• اس سے بچوں کو ان ان کے مستقبل کے حواکے سے جذبہ و لگن نکھارنے میں مدد ملتی ہے ۔
• یہ بچوں کو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے اور زیادہ مسابقتی بننے کی ترغیب دلاتی ہیں ۔
• یہ ہماری قوم کی ثقافت کو اجاگر کرنے اور اپنی اقدار کو نئی نسل میں منتقل کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہیں ۔
• اس موقع پہ جسمانی کھیل اور صحت مند کھانے سے طلبہ کی جسمانی صحت بھی نمو پاتی ہے اور معاشرتی طور اطوار سے آگاہی بھی ہوتی ہے ۔
معاشرتی و دینی اقدار جو تعلیمی ادارے کی تقریب سے جھلکنا چاہییں ۔
کسی بھی تعلیمی ادارے کی تقریبات سے مندرجہ ذیل اقدار کی عکاسی ناگزیر ہے ۔
‌أ. دینی تشخص : ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم دین اسلام سے وابستہ ہیں ۔ لہذا ہماری ہر تقریب سے ہمارا دینی تشخص نمایاں ہونا چاہیے ۔ شعائر اسلام کا خیال رکھنا چاہیے اور پابندی سے ان کی ادائیگی ہونا چاہیے مثلا نماز کے وقت میں وقفہ کر کے نماز ی ادائیگی ضروری ہے اسی طرح اذان کی آواز سنتے ہی لبوں پہ خاموشی چھا جانا چاہیے ۔اور کوئی ایسی سرگرمی تقریب کا حصہ نہ ہو جو شریعت اسلامی کی رو سے حرام ہو۔
‌ب. حیاء ہماری دینی و معاشرتی قدر ہے اسے کسی صورت پامال نہیں ہونا چاہیے ۔ ہماری گفتگو ، ہماری چال ڈھال اور ہمارا لباس حیاءدار ہونا چاہیے ۔
‌ج. ادب ہماری دینی و معاشرتی قدر ہے ۔ اس کی جھلک ہماری سرگرمیوں سے ہونا چاہیے ۔ بڑوں کا ادب ، اساتذہ کا ادب والدین کا ادب ہماری سرگرمیوں کا لازمی جزو ہونا چاہیے۔
‌د. ہماری ایک قدر محبت بھی ہے ۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس قدر کو بھی عام کرنا چاہیے ۔ ایک دوسرے سے محبت کرنے ،اپنے دین سے محبت، اپنے وطن سے محبت اپنی قوم سے محبت اور اپنی زبان سے محبت کی جھلک ہماری سرگرمیوں کا خاصہ ہونا چاہیے ۔
‌ه. صدق ہماری ایک قدر ہے جسے ہمارے ہر عمل سے جھلکنا چاہیے ۔ ہماری سرگرمیوں میں اس قدر کو ہر صورت شامل ہونا چاہیے ۔ مبالغے سے اجتباب کرنا چاہیے اور صحیح صورتحال سامنے رکھنا چاہیے ۔
‌و. سلام ہماری ایک ایسی قدر ہے جو ہمیں دوسری تمام قوموں سے ممتاز کرتی ہے ۔ سلام محض جملوں کا تبادلہ نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کو سلامتی کی دعا کرنے کا مطلب یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ میرے کسی عمل سے آپ کو کوئی گزند پہنچنے والی نہیں ہے ۔
‌ز. ہمدردی بھی ہماری ایک گم گشتہ قدر ہے اسے بھی ہماری ہر تقریب سے جھلکنا چاہیے ۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھنا اور ایک دوسرے کی مدد کرنا اور ان کے کام آنا ہماری اقدار میں سے ہے اور اس قدر کو اپنی سرگرمیوں میں نمایاں کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔
‌ح. حب الوطنی ایک غریضہ ہے جو ہماری ہر سرگرمی کا حصہ ہونا چاہیے ، قومی پرچم ، قومی ترانہ ، قومی لباس اور قومی زبان کو مقدم اور محترم رکھنا ہماری ذمہ داری ہے ۔ لہذا تقریبات میں ان اقدار کو نمایاں کرنے کی ضرورت ہے ۔
سالانہ تقریبات کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ سرگرمیاں تجویز کی جاتی ہیں جن کے ذریعے ہم اپنی دینی و معاشرتی اقدار کو اپنی نئی نسل میں منتقل کر سکتے ہیں ۔
‌أ. کھیلوں کی سرگرمیوں کا اہتمام کریں۔
ثقافتی پروگراموں اور ڈراموں کو ایک طرف رکھتے ہوئے، اگر آپ اپنے طلباء میں صحت مند عادات پیدا کرنا چاہتے ہیں تو سالانہ تقریب میں کھیلوں کی سرگرمیوں خصوصا روائتی کھیلوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد سے بچوں کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔ اس کے نتیجے میں دوسرے فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں جیسے:
• بچے ایک سے زائد صلاحیتوں کے حامل ہو جائیں گے ۔
• اشتراک عمل (ٹیم ورک ) ، انتظام اور قائدانہ صلاحیتوں سے مزئین ہوں گے ۔
• وہ زیادہ توجہ مرکوز کرنا اور نظم و ضبط میں رہنا سیکھتے ہیں۔
• وہ کم عمری میں بھی اپنے شوق ور جذبے سے کچھ کر گزرنے کے عادی ہوں گے ۔
• وہ خوش دلی (سپورٹس مین شپ) کو اختیار کر پائیں گے ۔
‌ب. طلباء کے ساتھ بات چیت کریں
جیسا کہ پہلے زیر بحث آیا، سالانہ دن کی تقریبات طلباء کو اساتذہ کے ساتھ غیر رسمی طور پر بات چیت کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں ۔ اسے دانشمندی سے استعمال کرنے اور بچوں کو فعال طرز زندگی پر عمل کرنے کی ضرورت اور اہمیت سکھانے اور ایسا نہ کرنے کے مضر اثرات سے آگاہ کرنے ا بہترین وقت ہے۔یہ ضروری نہیں ہے کہ اساتذہ صرف کمرہ ٔجماعت میں ہی پڑھائیں، کہیں بھی کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت آپ ان کو مثبت طور پہ سکھا سکتے ہیں ۔ان تقریبات کے دوران اپنے طالب علموں سے ربط بڑھائیں اور ان کے قریب ہونے کی کوشش کریں اس طرح آپ ان کے قلب و ذہن میں اتر سکتے ہیں ۔ان تقریبات میں ان کے قریب ہونے انہیں جاننے کے بود انہیں آپ آسانی سے پڑھا سکتے ہیں ۔


‌ج. ذہنی آزمائش کے مقابلے کروائیں ۔
سالانہ دن کی سرگرمیوں میں ذہنی آزمائش کے مقابلے کو ضرور شامل ہونا چاہیے ۔لیکن اس بات کا دھیان رہے کہ یہ نصابی نہیں ہونا چاہیے۔ اس میں کچھ سوالات تفریحی ہوں ، کچھ معلومات عامہ سے ہوں ، کچھ معاشرت سے متعلق ہوں ، کچھ کھیلوں سے متعلق ہوں اور کچھ صحت ، خوراک ، پھلوں اور سبریوں کی افادیت سے متعلق ہوں ۔ اس طرھ اس سرگرمی میں دلچسپی بھی قائم رہے گی اور طلبہ و طالبات کچھ سیکھ بھی سکیں گے ۔

‌د. .صحت مند گھریلو کھابے پیش کیے جائیں ۔
عام طور پر، اسکول ایسے مواقع پہ غیر صحت بخش مشروبات اور بازاری خوراک پیش کرتے ہیں جو مضر صحت عناصر پہ مشتمل ہوتی ہے ۔ ایک جانب تو یہ اشیائے خور و نوش مضر صحت ہیں تو دوسری جانب یہ طلبہ و طالباات کی عادات کو بھی بگاڑتی ہیں ۔طلبہ و طالبات کو صھٹ و صفائی کی تربیت دینے کی غرض سے انہیں صحتمند خوراک سے آگاہی دینا لازمی ہے ۔ اس سرگرمی میں بہتر یہ ہو گا کہ طلبہ و طالبات اپنے گھروں سے کھانے پکا کر لائیں اور انہیں پیش کریں ۔اس میں روائتی کھابے پیش کیے جائیں تاکہ طلبہ ایک دوسرے کے روائیتی کھانوں سے آگاہ ہو سکیں اور اس کی افادیت ان کے اذہان میں پیوست ہو سکے ۔ اس سرگرمی سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں :
• اس سرگرمی کے دوران کھانے کے آداب سکھائے جا سکتے ہیں ۔
• کھانا پیس کرنے اور اسے سلیقے سے رکھنے کے طور طریقے سکھائے جا سکتے ہیں ۔
• طلبہ و طالبات یہ جان سکتے ہیں کہ بازاری مشروبار اور کولا وغیرہ کی قیمت میں دودھ اور لسی بھی پی جا سکتی ہے جو مفید بھی ہے ہور ہمارے تمدن کا حصہ بھی ہے ۔
• والدین کے بنائے کھانے کا لطف خود بھی اٹھائیں گے اور اپنے دوست احباب سے داد تحسین بھی پایئں گے ۔
• مل بیٹھ کر کھانے سے ان کے درمیان ہمدردی ، محبت اور بھائی چارے کی فضاء قائم ہو گی ۔
• اگر طلبہ و طالبات اس موقع پر کھانے کے سٹال لگائیں توں ان میں مارکیٹنگ کی صلاحیت بھی پیدا کی جا سکتی ہے ۔
‌ه. صحت مندتخلیقی سرگرمیاں کی جائیں ۔
تخلیقی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے اور سالانہ دن کے موقع پر طلبہ و طالبات کی تخلیقی سرگرمیوں کو نمایاں کیا جائے ۔ اگر کسی طالب علم کو کسی ہنر میں مہارت حصل ہے تو وہ اس کا عملی نمونہ پیش کرے ۔ کوئی اپنی ایجاد یا دریافت سامنے لانا چاہے تو اسے موقع دیا جائے ۔ اس طرح طالب علم جن کے مضامین کسی مجے میں چپے ہوں یاان کی کوئی شاعری سامنے آئی ہو تو انہیں بھی تقریب کی زینت بنایا جائے ۔ اس طرح طلبہ و طالبات کی صلاحیتیں بھی نکھر کر سامنے آئیں گی اور انہیں حوصلہ و ہمت بھی فراہم ہوں گے ۔اس موقع پر اگر طلبہ و طالبات کے مختلف گروہوں کے درمیان ایک اخبار نکانے کا مقابلہ کرایا جائے اور قومی اخبارات کے طرز پہ ہاتھ سے بنایا ہوا اخبار پیش کیا جائے تو تقریب کو چار چاند لگائے جا سکتے ہیں ۔
‌و. ڈرامے اور خاکے کے لیے صحت مند موضوعات کا انتخاب کریں۔
ایسے مواقع پہ طلبہ و طالبات تفریحی خاکے یا ڈرامے بھی پیش کرتے ہیں ۔ یہ بھی ایک مثبت سرگرمی ہے ۔ اس طرح کی سرگرمی کے لیے اچھے موضوعات کا انتخاب کیا جائے اور اپنے تمدن کے اندر رہتے ہوئے معاشرتی برائیوں کو اجاگر کیا جائے اور معاشرے کی بہتری کے کیے شعور کو اجاگر کیا جائے ۔ میڈیا پہ پیش کیے جانے والے ڈراموں کی نقل اتار کر چند خاکے پیش کر دینے سے ماچھے ثمرات حاصل نہیں ہوں گے ۔یہ سوچ کر طلبہ و طالبات سے یہ سرگرمی کرائیں کہ آپ اس سرگرمی کے ذریعے سے ان کی تربیت کر رہے ہیں ۔
‌ز. تقریب میں جمالیات
تقریب میں جمالیات کا خاص خیال رکھیں ۔ پھیکی اور بے رونق تقریب سے آپ فوائد حاصل نہی کر سکتے اسی طرح بناوٹ اور تصع سے بھی گریش کریں ۔ البتہ تزئین و آرائش کا خیال رکھیں اور اپنے تعلیمی ادارے اور تقریب کے لیے مقررہ جگہ کو خاص طور پر سجائیں ۔ یہ کام بازار اجرت پہ کرانے کے بجائے طلبہ و طالبات سے کرائیں ۔ اس سے ان کے اندر احساس ذمہ داری پروان چڑھے گا ۔طلبہ کی بنی پینٹنگ، طلبہ کے بنے نوادرات اور ان کے بنے ساہ پارون سے تزئین و آرائش کا کام لیا جائے ۔ بہترین اقوال کو خطاطی کے ذریعے دیوارں پہ چسپاں کیا جائے ۔ اسی طرح تقریب میں نغمگی پیدا کریں لیکن خیال رکھیں کہ یہ نغمگی آپ کی اقدار کی آئینہ دار ہو ۔ غیر ملکی دھنوں پہ رقص کی اجازت نہیں ہونا چاہیے ۔ طلبہ و طالبات ملی نغموں اور علاقائی گیتوں سے محفل میں نغمگی پیدا کر سکتے ہیں ۔ خیال رہے کہ آزاں اور نماز کے اوقات میں خاموشی اختیار کی جائے اور اگر ساز استعمال ہو رہے ہوں تو ان کا شور ارد گرد کے ماحول پہ اثر انداز نہ ہو ۔ اساتذہ و طلبہ کا لباس مہذب اور حیادار ہو ۔ قومی لباس کو فروغ دیں اور قومی زبان میں بات چیت کو اولیت دیں ۔
‌ح. شجر کاری
سالانہ تقریبات عموما موسم برسات میں منعقد کی جاتی ہیں ۔ اس موقع پر ہماری حکومت شجر کاری کے نام پہ بہت وسائل خرچ کرتی ہے لیکن اس کا حاصل کچھ نہیں ہوتا ۔ افر تعلیمی ادارے اس موقع پر شجرکاری کا اہتمام بھی کریں تو اس کے فوائد ملک و ملت ایک لمبے عرصے تک سمیٹیں گے۔ درخت لگانا صدقہ جاریہ ہیں اس عمل سے طلبہ و طالبات صدقہ جاریہ کی عملی مشق کریں گے ۔ درخت لگا کر وہ یہ بھی سیکھیں گے کہ وہ اپنی قوم اور اپنے ملک کے لیے کیسا عمل انجام دے رہے ہیں ۔ اپنے تعلیمی ادارے میں پھلدار درخت لگا ئیں گے اور جب وہ فارغ ہو رہے ہوں گے تو ان کے لگائے پیڑ پھل دینا شروع کر دیں گے ۔ وہ عملی طور پہ اپنی محنت کا پھل دیکھیں گے تو زندگی بھر محنت اور دل لگی سے کام کریں گے اور اس ملک کی پیداوار میں اضافے کا باعث بنیں گے ۔ خود سوچیے کہ کہ اگر ملک کا ہر تعلیمی ادارہ اپنے احاطے میں ہی درخت لگائے تو ملک کے کتنے فیصد علاقے پہ سبزہ ہو گا ۔ اس سے ایک صحت مند ماحول جنم لے گا۔
‌ط. پھولوں کی نمائش
پودے لگانے کی افادیت کا ذکر ہم کر چکے اب ایک اور سرگرمی بھی ہے جو طلبہ و طالبات کے لیے اہم ہو سکتی ہے ۔ بہار کے موسم میں اگر بازار سے مہنگے گلدستے طلب کرنے کے بجائے طلبہ و طالبات کو اپنے گھروں میں اگائے گئے پھول لا کر سجانے کو کہا جائے اور بہترین سجاوٹ پہ انعام بھی دیا جائے تو اس سے تعلیمی ادارے کی نفاست میں اضافہ بھی ہو گا اور طلبہ میں باغبانی کا جذبہ بھی پیدا ہو گا۔
‌ي. مہمان خصوصی کا انتخاب ۔
ہر تعلیمی ادارہ ایک مہمان خصوصی کو تقریب میں شرکت اور اسکول کے بارے میں بات کرنے کے لیے مدعو کرتا ہے۔اس موقع پہ عموما سیاسی شخصیات کو مدعو کر لیا جاتا ہے ۔ مہمان خصوصی کے انتخاب کے موقع پر کوشش کریں کہ کسی ایسی نابغہ روزگار شخصیت کو مدعو کیا جائے جس کا تعمیر معاشرہ میں کوئی نہ کوئی حصہ یا کارنامہ ہو ۔ ایسے افراد جو تعلیم ، تحقیق ، طب ، معیشت یا سماجی خدمت میں نام رکھتے ہوں ان کی مہمان خصوصی کی حیثیت سے کی گئی بات طلبہ و اساتذہ اور دیگر سامعین کے لیے مشعل راہ کا کام کرے گی اور اس کے اچھےثمرات حاصل ہو گے ۔
سالانہ تقریب کے لیے کوئی بھی خیالیہ(تھیم) چن سکتے ہیں، خواہ وہ کھیل ہو، ثقافتی، مذہبی، حب الوطنی یا روایتی، ہمیشہ مندرجہ بالا خیالات میں سے کچھ نہ کچھ شامل کرنے کی کوشش کریں یا ا اسکے علاوہ ایسا اپنائیں جو بچوں کے لیے صحت مند زندگی گزارنے کی راہ ہموار کرے۔ان تقریبات کے ذریعے آپ شرکاء محفل کو بتائیں کہ آپ کے پاس قوم کو دینے کے لیے کیا ہے ۔ لہذا اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچے، والدین، عملہ، اساتذہ اور اس میں شامل کوئی بھی فرد خوشی سے اس تقریب کا م میں شامل ہو اور آپ کی تقریب سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر واپس جائے ۔یقینا ہم سب کی خواہش ہو گی کہ ہم ایک باوقار قوم بن سکیں اگر ہماری تقریبات صحت مند اور مثبت سرگرمیاں مہیا کرنا شرعو کر دیں تو وہ دن دور نہیں جب ہم باوقار قوموں کی صف میں کھڑے ہوں گے ۔


Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 83 Articles with 90720 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More