رمضان شریف میں ناجائز منافع خوری

 اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے رمضان شریف ایک بہت بڑا تحفہ ہے جس میں ہم اپنے گناہوں کی معافی کر و ا سکتے ہیں اور اپنا نام اچھے مسلمانوں کی فہرست میں درج کر واسکتے ہیں رمضان المبارک میں گورنمنٹ پنجاب کی طرف سے مختلف مقامات پر رمضان سستے بازار لگائے جاتے ہیں جن کا مقصد عوام کو روز مرہ کی اشیاء ضرورت سستے ریٹ پر مہیا کرنا ہے ان بازاروں میں ہر قسم کی اشیا ء موجود ہوتی ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ بجائے سستے بازار لگانے کے ہر دوکان کو ہی رمضان سستا بازار کا کردار ادا کرنا چاہیے ہر کاندار اپنی دوکانوں کے لیے منافع میں اتنی کمی کر دے کہ غریب عوام کو ہر جگہ پر سستی اشیاء دسیتاب ہو ں ہر تاجر اپنا نیک مسلمان ہونے کا ثبوت دے لیکن ہمارے ہاں یہ رواج چل نکلا ہے کہ ایک رمضان ہی ایسا مہینہ ہے جس میں اپنی مرضی کا منافع کمایا جا سکتا ہے رمضان شریف کی آمد سے قبل ہی اشیاء خور دونوش کی قیمیتں آسمان سے باتیں کرنے لگ جاتی ہیں آلو ،پیاز ،لیسن اور دیگر سبزی فروٹ اور خاص طور پر روزہ دار کی ضرورت والی تمام چیزیں کئی گنامہنگی کر دی جاتی ہیں ریٹ لسٹ بازار میں تقسیم تو کروا دی جاتی ہے مگر اس پر عمل کرنے اور کروانے والا کہیں نظر نہیں آتا ہے اور یوں ایسا لگتا ہے کہ ہم رمضان المبارک کو مہنگا ترین مہینہ بنانے اور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں بحیثیت مسلمان ہماری کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ ہم رمضان کو عام مہینوں سے اچھا ثابت کریں ہر دوکاندار اپنی دوکا ن کے سامنے رمضان سستا بازار کا بورڈ آویزاں کرے رمضان میں نبی کریم ﷺ دونوں ہاتھوں سے تقسیم کیا کرتے تھے لیکن ان کے نام لیوا منافع خوری کے چکر میں رمضان المبارک کے محترم و مکرم ماہ کو چن لیتے ہیں ا س باربھی رمضان المبارک میں ایسا ہی ہوا ہے جو عوام جو شے رمضان سے قبل 2سوروپے کلو تھے رمضان کے شروع کے دنوں میں یک دم 400روپے کلو پر چلی گئی ہے باقی پھلوں کی قیمتوں کو بھی پر لگے ہوئے ہیں اور مقررہ قیمت سے نصف سے بھی اوپر قیمت پر فروخت ہورہے ہیں کچھ روز قبل قبل قومی اسمبلی میں ایک ہندو ایم این اے کی تقریر نے پورے ملک کے مسلمانوں کے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں ان کی تقریر کو اگر غور سے سنا جائے تو ان کی ایک ایک بات ہمارے لیئے عبرت کا مقام ہے لیکن ان کی تقریر بھی ہمیشہ کی طرح ہمارے سروں کے اوپر سے گزر جائے گی دو سری طرف متعلقہ سرکاری محکموں کا حال یہ ہے کہ وہ رمضان المبارک میں صرف جرمانوں کی بھر مار کرتے نظر آتے ہیں قیمیتں کنٹرول کروانے میں بالکل ناکام ہوتے ہیں جرمانے ادا کرنے کے بعد دوکاندار کی ریٹس مزید بڑھ جاتے ہیں اور پھر بعد میں مہنگائی کی چکی میں پسی ہوئی عوام کو مزید پریشانی میں مبتلا کر دیتے ہیں رمضان شریف کے بابرکت مہینے کے شروع ہونے سے پہلے ہی بہت سی اشیا ء کو روک لیا جاتا ہے اور پھر رمضان میں زیادہ سے زیادہ قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے رمضان المبارک جو رحمتوں اور برکتوں سے بھر پور ہوتا ہے ہم اپنے غلط کاموں سے اس کو اپنے لیے عذاب کا ذریعہ بناتے پھر رہے ہیں اگر ہمارے دوکاندار حضرات اس بات پر زرا غور کریں کہ بقایا گیارہ مہینے منافع کمانے کے لیے بہت ہوتے ہیں صرف ایک ماہ مقد س میں اگر کم سے کم منافع کمائیں توا ن کی دنیا اور آخرت دونوں سنور سکتی ہیں دوسری طرف حکومت کو بھی یہ کوشش کرنی چاہییے کہ بجائے اس کے کہ پوری انتظامیہ کو صرف ایک مفت آٹا فراہمی مرکز کے ساتھ باندھ دینے سے اجتناب کرے انتظامیہ کو ہدایات جاری کرے کہ وہ قیمتوں پر اتنی سختی کرے کہ جگہ ہر دوکان کو آٹا فراہمی کی حیثیت حاصل ہو اگر مفت آٹا دینا عوام کی خدمت تصور کیا جا رہا ہے تو بجائے اس کے کہ پوری تحصیل کو صرف ایک ہی جگہ پر اکٹھاآٹا دیا جائے بلکہ تمام چھوٹے شہروں میں بھی ایک ایک مرکز بننا چاہیے تھا تاکہ عوام کو اپنے نزدیکی شہروں میں ہی یہ سہولیات میسر آسکیں اسسٹنٹ کمشنر کلر سیداں کو کم از کم کلر سیداں کے علاوہ چوک پنڈوڑی کے مقام پر بھی ایک آٹا مرکز کا انتظام کرنا چاہیے کیوں کہ چوک پنڈوڑی ایک ایسا مقام ہے جس کے گر د نواح میں کم و بیش پچاس کے قریب دیہات موجود ہیں اگر ان تما م دیہات کو یہ سہولت چوک پنڈوڑی میں فراہم کر دی جائے تو یہ ان پر احسان سمجھا جاتاصرف کلرسیداں شہر میں ایک ہی مرکز قایم کرنے سے بھی عوام بہت تکلیف میں ہیں نلہ مسلماناں ،کھڈ بناہل جیسے پہاڑی علاقوں سے لوگ پانچ سو روپے کرایہ لگا کر کلرسیداں پہنچ رہے ہیں اور جب ان کو آٹا بھی نہیں ملتا تو غریب خواتین وہاں پر بیٹھ کر روتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں یہ غریب عوام کے ساتھ سرا سر زیادتی ہے اگر اس دور دراز علاقے کے عوام کو دوبیرن کلان کے قریب آٹا فراہمی مرکز بنا دیا جاتا تو ان لوگوں کو اتنی زیادہ تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑتاگوجر خان میں یو سی کی سطح پر مراکز بنائے گے ہیں کلرسیداں انتطامیہ ایسا کرنے میں کیوں ناکام رہی ہے دوسری طرف تحصیل انتظامیہ کو تحصیل بھر میں موجود تمام چھوٹے اور بڑے شہروں میں قائم شدہ تاجر تنظیموں سے قبل رمضان المبارک میٹنگز کا انعقاد کرے اور ان کو دوران ماہ مقد س قیمتوں کے کنٹرول بارے میں ہدایات جاری کریں اور دوکانداروں کو اس بات پر رضا مند کرے کہ وہ ہر دوکان کو رمضان سستا بازار بنائیں اور یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر انتظامیہ نیک نیتی کے ساتھ یہ کام انجام دے تو دوکاندار رضا کارانہ طو ر پر ایسا کرنے پر راضی ہو جائیں گے بصورت دیگر زبانی دعوؤں سے تمام تر دعوے اپنی اہمیت کو کھو بیٹھیں گے حکومت پنجاب سستے بازار بھی ضرور لگائے لیکن رمضان شریف میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے پنجاب بھر میں سبسڈی پلان ترتیب دے جس سے عوام کو سستے بازراوں کے علاوہ بھی ہر شہر گلی محلے میں بھی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات نظر آئیں اور عوام کو رمضان شریف میں بھر پورحکومتی سبسڈی نظر آئے اﷲ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کی اصل اہمیت کو سمجھنے کی توفیق عطا فر مائے اور اس مقدس ماہ میں گراں فروشی سے بچنے کی توفیق عطا فر مائے (آمین )
 

Muhammad Ashfaq
About the Author: Muhammad Ashfaq Read More Articles by Muhammad Ashfaq: 244 Articles with 145188 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.