جمعہ نامہ: یوم الفرقان کا پیغام

ارشادِ ربانی ہے:’’یاد کرو جبکہ تم لوگ اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کی تھی کہ میں تمہاری مدد کروں گا ایک ہزار ملائکہ کے ساتھ جو پے درپے آئیں گے‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت میں نبی کریم ﷺ کی میدانِ بدر میں کی جانے والی دعا کا ذکر فرمایا ہے ۔ مومنین کو صف بستہ کرنے کے بعد نبیٔ رحمت ﷺ سجدے میں گر پڑے اور فریاد کی :’’اے ربّ العزّت، تُو نے جو وعدہ کیا ہے اِسے آج پورا کر۔ اے خدائے بزرگ و برتر ، یہ مٹھی بھر لوگ اگر آج مٹ گئے تو پھر قیامت تک تیرا نام لینے والا کوئی نہ ہوگا‘‘۔بدر کے مقام پر برپا ہونے والے معرکۂ حق و باطل کی اہمیت کا اظہار کرنے کے لیے دعا کے یہ الفاظ ہی کافی ہیں ۔ اس کے جواب میں سنائی جانے والی بشارت کی غرض و غایت یہ ہے کہ :’’یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمہیں خوشخبری ہو اور تمہارے دل اس سے مطمئن ہو جائیں، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، یقیناً اللہ زبردست اور دانا ہے‘‘۔ آزمائش کے وقت اللہ کی بشارت اطمینانِ قلب بن کر مومنین کا حوصلہ بلند کرتی ہے۔

غزوۂ بدر کےاس روحانی پہلو کے علاوہ عملی تیاری بھی غیر معمولی تھی ۔جذبۂ شہادت کا یہ عالم تھا کہ کوچ سے قبل حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے فرمایا، ’’خدا کی قسم آپ فرمائیں توہم سمندر میں کودپڑیں‘‘۔حضرت مقداد ؓ نے یقین دلاتے ہیں ، "ہم حضرت موسیٰ ؑ کی قوم کی طرح یہ کبھی نہیں کہیں گے کہ آپ اور آپ کا خداجا کرلڑیں، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ ہم لوگ آپ ؐ کے دائیں سے، بائیں سے، سامنے سے، اور پیچھے سے لڑیں گے۔‘‘ صحابائے کرام کا یہ ولولہ دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا اب یہاں سے کوچ کرو، خدا کی طرف سے فتح کی بشارت ہے۔ بخدا مکہ والوں میں سے ایک ایک کا مقتل میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ مجادین اسلام کا لشکر کوچ کرتا ہے تو اس میں شمولیت کی خاطر حضرت زید بن ثابتؓ اپنی کم سنی کو چھپانے کے لیے پنجوں کے بل کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ حضرت معوذؓ اور حضرت معاذؓ جیسے کم سن بھائی اصرار کے ساتھ جنگ میں شامل ہوکراس ابوجہل کو واصلِ جہنم کرنےکا ذریعہ بنتے ہیں جو گھمنڈ سے یہ کہہ کر میدان میں اترا تھا ؎
تمہارے سامنے ہستی ہی کیا ہے اس جماعت کی
مسلماں کیا ہیں اک بے رنگ سی تصویر غربت کی

میدان جنگ میں کفار کے لشکر ِ جرار کو دیکھ کراہل ایمان کے جوش و ولولہ میں مزید اضافہ ہوگیا ۔اس دور میں اذنِ عام سے قبل سردار ایک دوسرے سے دودوہاتھ کرتے تھے چنانچہ کفّار کی جانب سے عتبہ ا پنے بھائی اور بیٹے کے ساتھ للکارکر بولا، "ہے کوئی ہم سے مقابلہ کرنے والا"؟ اہل ایمان میں سے حضرت عبدالرّحمٰن بن عوف ؓ ،حضرت معاذؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ آگے بڑھے۔عتبہ نے رعونت سے کہا، " اے محمّد، یہ انصار تو ہمارے برابر کے نہیں۔ ہمارے ہم پلّہ مقابلے کے لیے بھیجو"۔آپﷺنے حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ اور حضرت عبیدہؓ کو حکم دیا ۔ حضرت حمزہ ؓ نے عتبہ ، حضرت علیؓ نے ولید کو ٹھکانے لگا دیا۔ عتبہ کے بھائی شیبہ نے حضرت عبیدہ ؓ کے کندھے پر حملہ کیا تووہ زخمی ہوگئے۔ حضرت علیؓ نے شیبہ کا بھی کام تمام کردیا۔ نبی کریم ﷺ کے پاس جب زخمی حالت میں حضرت عبیدہؓ کو لایا گیاتورنج و الم سے بے نیاز صحابیٔ رسولﷺ نے انوکھا سوال کیا ، " یا رسول اللہ، کیا میں شہادت کی دولت سے محروم رہا"؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، "نہیں، تم نے شہادت پائی"۔ واپسی میں دورانِ سفر حضرت عبیدہ ؓخالقِ حقیقی سے جا ملے۔ جذبۂ شہادت کا یہ ٹھاٹیں مارتا ہواسمندر ہی بے سازوسامان مجاہدین کی کامیابی کا ضامن تھا ۔

رب کائنات نے یوم الفرقان کو ایک نشانی بنادیا۔ارشادِ قرآنی ہے:’’تمہارے لیے اُن دو گروہوں میں ایک نشان عبرت تھا، جو ( بدر میں) ایک دوسرے سے نبرد آزما ہو ئے۔ ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دُوسرا گروہ کافر تھا۔ دیکھنے والے بچشمِ سر دیکھ رہے تھے کہ کافر گروہ مومن گروہ سے دو چند ہے۔ مگر (نتیجے نے ثابت کردیا کہ) اللہ اپنی فتح و نصرت سے جس کی چاہتا ہے، مدد کر دیتا ہے۔ دیدۂ بینا رکھنے والوں کے لیے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے‘‘۔عصرِ حاضر میں بے سرو سامانی اور تعداد کمی کا شکوہ کرنے والوں کے غزوہ بدر تا قیامت یہ پیغام دیتی رہے گی کہ :’’اور خدا نے جنگِ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی حالانکہ اس وقت تم بہت کمزور تھے لہٰذا تم کو چاہیے کہ اللہ کی ناشکر ی سے بچو، امید ہے کہ اب تم شکر گزار بنو گے‘‘۔ میدانِ بدر میں 313مجاہدین اسلام کی ایک ہزار کے لشکر جرار پرفتح اور ان کے ابو جہل، عتبہ، شیبہ اور اُمیّہ بن خلف جیسے سرداروں سمیت سترّ لوگوں کا صفایہ نیزاتنے ہی قیدی اللہ کی مدد و نصرت کے نتائج کی ایک ایسی مثال ہے جو اہل ایمان کو ہمیشہ جذبۂ عمل سے سرشار رکھتی ہے کیونکہ بقول حفیظ جالندھری ؎
غلامان محمد جان دینے سے نہیں ڈرتے
یہ سر کٹ جائے یا رہ جائے کچھ پروا نہیں کرتے


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1224732 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.