میاں صاحب ہوش کے ناخن لیں کہیں آپ تو ڈوبے ساتھ ہمیں بھی لیں ڈوبے

مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اندرونی و بیرونی طور بہت سے نامساعد مسائل کا سامانا ہے ۔ مہنگائی بے روزگاری ،بدعنوانی ،ناانصافی اور اقرباء پروری جہاں ہمارے ملک کے پرچم کا درخشاں چاند ہے وہاں دہشت گردی،بدامنی،آئے دن بینک ڈکیتیوں کی واردات ،لوٹ مار ،قتل و غارت گری اور مذہبی انتہاء پسندی ہمارے پرچم کا چمکتاہوا ستارہ ہے ۔

قیام پاکستان سے قبل ہی میرجعفر و صادق کی بھرمار متحدہ ہندوستان میں موجود تھی جن کو انگریزوں اور ہندو بنیوں کا آشیرباد حاصل تھا ۔ تقسیم ہند کے بعد جب بڑی تعداد میں مسلمانان ہند نے پاکستان کی طرف ہجرت شروع کی تو لاکھوں مسلمانوں کو اپنی جان و مال کی قربانی دینا پڑی اور بڑی کسمپرسی کی حالت میں پاکستان پہنچے جہاں سندھ و پنجاب کے غیور مسلمانوں نے ناصرف اپنے مسلمانوں بھائیوں کو گلے لگایا بلکہ ان کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے ناقابل فراموش کردار ادا کیا ۔

بدقسمتی سے قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد ہی قائد اعظم محمد علی جناح کے رحلت فرماجانے سے پاکستان سیاسی طور پر یتیم ہوگیا تھا اور چند سال بعد لیاقت علی خان کو لگنے والی گولی نے پاکستانی جمہوریت کا آخری چشم وچراغ بھی گل کردیا ۔ اس وقت فوج میں شامل میر جعفر وصادق کا ٹولہ اقتدار پر قابض ہونے کے لیے وقفے وقفے سے اپنی باری کا انتظار کرنے لگا کبھی مذہب کے نام سے کبھی جمہوریت کے نام سے اپنے اقتدار کو طول دینے لگا ۔ پاکستان کی سالمیت و خودمختاری پر جب بھی کوئی کاری ضرب لگی توفوج ہی ملک پر برسراقتدار تھی ۔

لسانی فسادات کی ابتداء ایک فوجی آمر کے دور میں شروع ہوئی ،ملک دو لخت بھی ایک فوجی ڈکٹیٹر کے دور حکومت میں ہوا، ذوالفقار علی بھٹو کوپھانسی بھی ایک فوجی آمر نے طویل اقتدار کی خاطر دی ،بلوچستان کی مخدوش صورتحال ، نواب اکبر بگٹی کا قتل کا بھی ذمہ دار ایک فوجی آمر ہے اور ان سب سے بڑھ کر صرف ایک فون کال پر پاکستان کی سلامتی وخودمختاری کا سودا، ماؤں بہنوں اور بھائیوں کو گرفتار کرکے اپنے مائی باپ کو فروخت کرنے کا کریڈٹ بھی ایک فوجی آمر کے کھاتے میں شامل ہے ۔

ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماء آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو بھی ماضی میں فوج میں شامل میر جعفر و صادق کی بدولت بڑی تکالیف اٹھانی پڑی ایک گیارہ سال تک قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتا رہا اور دوسرا معافی مانگ کر دس سال کے لیے خودساختہ جلاوطنی کے لیے تیار ہوگیا ۔

آج پھر فوج میں شامل کچھ میر جعفر و صادق کی نظریں اقتدار کی کرسی پر لگی ہوئی ہیں اسٹبلشمنٹ نے ایسے حالات پیدا کردیے ہیں کہ ملک کے چاروں صوبوں میں ایک قوم کی شناخت ختم ہورہی ہے اور لسانیت کی بنیاد پر لوگ تقسیم ہورہے ہیں، الگ صوبوں کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں ملک قدرتی آفات میں گھرا ہوا ہے ۔ ایسے میں سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا نا تھمنے والا سلسلہ گرج وچمک کے ساتھ جاری ہے جو کسی آمر کو اقتدار میں قابض ہونے کی دعوت دے رہا ہے ۔

نوازشریف کا کہنا کہ سیاست نہیں ملک بچانے کا وقت ہے موجودہ حکمرانوں سے ملک کی سالمیت کو خطرہ ہے کرپٹ افراد ملک کی بھاگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں جس کی وجہ ملک عالمی برادری میں تنہائی کا شکار ہے انہوں نے ملک کی بقاء کے لیے بغاوت کا علم اٹھانے کا اعلان کیا ہے جس کے جواب میں زرداری صاحب نے میاں صاحب کو ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ دیتے ہوئے کھولی کا ذکر کیا ہے کیونکہ نوازشریف بہتر طور پر کھولی کا اشارہ سمجھ سکتے ہیں کہ بارہ اکتوبر ١٩٩٩ء کو ان کے ساتھ کیا سانحہ پیش آیا تھا دوتہائی اکثریت کے حامل وزیراعظم کو پیشہ وارانہ مجرموں کی طرح ایک عام سی پولیس موبائل میں ڈال کر ایسی جگہ بند کیا گیا جہاں گرمی و حبس کی شدت ،مچھروں اور کیڑے مکوڑوں کی بھرمار تھی پھر بکتر بند گاڑیوں میں کبھی ایک کھولی سے دوسری کھولی اور دوسری سے تیسری کھولی منتقل کیا جانے لگا ۔ قید وبند کی صعوبتیں اور اس قسم کی اذیت و ذلالت میاں صاحب برداشت نا کرسکے اور ایک آمر کے سامنے جھک گئے۔

آج ملک میں بڑھتی ہوئی انارکی،بیرون ملک میں آباد پاکستانیوں کی گرتی ہوئی ساخت ، غیرملکی رہنماؤں کی پاکستان پر تنقید اور اب ایران اور چین کی ناراضگی نے ملک کو جنھجوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ مرزا صاحب کے اہم انکشافات سے پردہ چاک کرنا، الطاف حسین کا ملک توڑنے کے حوالے سے نقشہ دکھانا ،آرمی چیف کا کراچی کی صورتحال پر تشویش کرنا، سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس لینا، ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا لفظ مہاجر پر زور دینا اور اردو بولنے والوں مظلوم قرار دے کر نفرت و لسانیت کا بیچ بونا، الطاف حسین کا ایم کیوایم کے نوجوانوں کو فوج اور آئی ایس آئی کے حوالے کرنا پھر ان کو آزاد چھوڑنے کی دھمکی دینا ۔ آئی ایس آئی آر کی جانب سے ملک ٹورنے کی سازش کا سختی سے نوٹس لینا ،شہر قائد میں فوج کا پڑاؤ ڈالنا اسٹبلشمنٹ کا ڈھکےچھپے لفظوں میں زرداری صاحب کو خبردار کرنا کے ملک کےحالات جس سمت جارہے ہیں وہاں فوج کا اقتدار پرقابض ہونا ملک کی سالمیت کا تحفظ کہلائے گا۔ جس پر زرداری صاحب نے میاں نواز شریف صاحب پر واضح کردیا ہے کہ ۔ جناب ہوش کے ناخن لے کہیں ایسا ناہو کہ اب کی دفعہ فوج اقتدار میں آئے تو اس کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے نا آپ زندہ رہے اور نامیں زندہ رہو ں۔

میاں صاحب ہوش کے ناخن لیں کہیں آپ تو ڈوبے ساتھ ہمیں بھی لیں ڈوبے۔
abad ali
About the Author: abad ali Read More Articles by abad ali: 38 Articles with 35022 views I have been working with Electronic Media of Pakistan in different capacities during my professional career and associated with country’s reputed medi.. View More