بابائے پبلک ریلیشنز مراتب علی شیخ مرحوم

مراتب علی شیخ کا شمار شعبہ پبلک ریلیشنز کے ابتدائی ماہرین میں ہوتا ہے ۔ وہ 23جنوری 1934ء کو نارووال کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد منصب علی شیخ ہندوستان کے شہر شملہ کے ایک بنک میں ملازم تھے ۔کمسنی میں ہی آپ کے والد کا انتقال ہو گیا ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم ناروال اور سیالکوٹ کے تعلیمی اداروں میں حاصل کی ۔گرایجویشن کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ لاہورتشریف لے آئے اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ماس کیمونیکیشن سے ماسٹر ڈگری حاصل کی ۔پھر پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان نمایا ں پوزیشن میں پاس کرکے 1968ء میں آپ محکمہ تعلقات عامہ پنجاب میں پبلک ریلیشنز آفیسر کے عہدے پر تعینات ہوئے ۔تقریبا 30سال تک محکمہ تعلقات عامہ میں تعیناتی کے دوران آپ ، وزیراعلی پنجاب ملک معراج خالد ، نواب صادق حسین قریشی ،محمد حنیف رامے ، میاں محمد نواز شریف ،غلام حیدر وائیں، گورنر پنجاب جنرل ایف ایس لودھی ، جنرل سوار خاں، جنرل محمد اقبال خاں،جنرل غلام جیلانی خان جیسی نامور شخصیات کے ساتھ بطور ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز فرائض انجام دیتے رہے ۔ 1989ء میں جب نواز شریف نے پنجاب بنک بنایا تو آپکو بنک آف پنجاب میں بطور چیف منیجر پبلک ریلیشنزتعینات کردیاگیا ۔ابتداء میں بنک آف پنجاب کا سٹاک مارکیٹ میں شیئر کا ریٹ 150روپے سے اوپر تھا ، اس میں نواز شریف کی خصوصی توجہ ، پہلے چیئرمین تجمل حسین کے ساتھ ساتھ بطور چیف منیجر پبلک ریلیشنز مراتب علی شیخ کی کاوشوں اور مہارتوں کا بھی عمل دخل شامل تھا ۔یہ وہ وقت تھا جب بنک آف پنجاب کے پلیٹ فارم پر برصغیر پاک و ہند کا مقبول ترین معاشی میگزین "پاکستان بنکرز" سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی جناب شیخ رفیق احمد کی ادارت میں نہ صرف شائع ہوتا بلکہ اس میگزین میں آرٹیکل لکھنے والوں میں پاکستان ، بھارت، بنگلہ دیش کے علاوہ یورپ کے معیشت دان بھی شامل تھے ۔تجمل حسین کے بعد ڈاکٹر محمد عارف ( فرشتہ صفت بیورو کریٹ ) نے بنک آف پنجاب کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالاتو انہوں نے بنک آف پنجاب کی ترقی کو چار چاند لگا دیئے ۔ 8نومبر 1994ء کو قدرت مجھے ( محمد اسلم لودھی )بھی بنک آف پنجاب میں ملازمت کی غرض سے لے گئی ۔ میں جس ریسرچ، پریس اینڈ پبلکیشنز ڈویژن میں تعینات ہوا ۔ اس ڈویژن کے سربراہ ایک ماہر معاشیات ، محقق اور کئی کتابوں کے مصنف( ڈاکٹر سید ریاض احمد) تھے ۔ مراتب علی شیخ صاحب اسی ڈویژن کا حصہ تھے، اور وہ اخبارات اور الیکٹرونکس میڈیا کے معاملات کے انچارج تھے ۔ ان دو عظیم شخصیات کے زیر سایہ میری تحقیقی اور تخلیقی کاوشوں کو توانائی میسر آئی۔ بنیادی طور پر ہمارے سیکشن کا کام اخبارات و جرائد میں اپنے اور دوسرے بنکوں کے بارے میں خبروں اور تجزیوں پر مشتمل ایک فائل تیار کرکے بنک کے چیئر مین ، منیجنگ ڈائریکٹر سمیت تمام جنرل مینجرز کو ہر صبح پیش کرنا ہوتی تھی ۔ہمارے پاس لاہور سے شائع ہونے والے تمام اخبارات اور جرائد باقاعدگی سے آتے ۔ بلکہ تمام اخبارات کے رپورٹر اور چھوٹے بڑے صحافیوں کا وہاں تانتا لگا رہتا ۔یہاں میں بلاشبہ مراتب علی شیخ صاحب کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتا ہوں کہ جو بھی صحافی اور کالم نگار انہیں بنک میں ملنے آتاوہ ان سے میرا تعارف ضرور کرواتے بلکہ اخبارات و جرائد میں کالم اور فیچر لکھنے کا حوصلہ بھی شیخ صاحب نے ہی مجھے دیا تھا ۔ میں نے زندگی میں یہ پہلا شخص دیکھا تھا جو اپنے ماتحت کو آگے بڑھنے کا نہ صرف خود راستہ دکھاتا بلکہ کامیابیوں کے زینوں پر انگلی پکڑ کر خود چڑھا کے آتا ۔روزنامہ جرات کے چیف ایڈیٹر جمیل اطہر صاحب سے میری ملاقات شیخ صاحب نے ہی بنک آف پنجاب میں کروائی تھی ، بلکہ شیخ صاحب کے کہنے پر انہوں نے مجھے اپنے اخبار" روزنامہ جرات" میں کالم لکھنے کا حکم بھی دیا تھا ۔حالانکہ مجھے اس وقت زیادہ روانی سے لکھنا نہیں آتا تھا لیکن قابل احترام جمیل اطہر اور ان کے عظیم بیٹے عرفان اطہر صاحب کی خصوصی شفقت اور رہنمائی کی بدولت نہ صرف میرے کالم کئی سال تک روزنامہ جرات میں شائع ہوتے رہے بلکہ انہوں نے ذہنی طور پر لکھنے اور تحقیق کرنے کے فن سے بھی مجھے آشنا کردیا ۔ایک روز پشاور سے شائع ہونے والے اخبار"روزنامہ آج " کے چیف ایڈیٹر عبدالواحد یوسفی ، مراتب علی شیخ صاحب کو ملنے کے لیے بنک آف پنجاب کے ہیڈ آفس میں تشریف لائے تو شیخ صاحب نے بڑھ چڑھ کر ان سے میرا ایسا تعارف کروایا کہ عبدالواحد یوسفی صاحب نے مراتب علی شیخ صاحب کے روبرو مجھے حکم دیا کہ آپ کا کالم روزانہ میرے اخبار میں شائع ہوا کریگا ، میں نے کہا میں آپ کے اخبار میں اشاعت کے لیے اپنا کالم کس طرح بھیجوں گا تو انہوں نے اپنے اخبارکے لاہور کے بیورو چیف کی ڈیوٹی لگائی کہ ان کا نمائندہ مجھ سے روزانہ کالم لے بھی جائے گا اور آج اخبار بھی دے جایا کرے گا۔میں روزنامہ آج پشاور میں تقریبا تین سال تک کالم لکھتا رہا اوروہ روزانہ اخبار میں شائع بھی ہوتے رہے ۔ یہ سب کچھ شیخ صاحب ہی کی بدولت ہوا تھا۔میں سمجھتا ہوں مراتب علی شیخ صاحب میرے حقیقی باپ تو نہیں تھے لیکن ان کی شفقت اور محبت کسی بھی طرح باپ سے کم نہ تھی ۔ شیخ صاحب کو میں اپنا روحانی باپ ہی سمجھتا تھااور اب بھی سمجھتا ہوں ، اگر میں بطور میڈیا کوارڈی نیٹر بنک میں 20سال ملازمت کرکے2014ء میں باعزت طور پر ریٹائر ہوا ہوں تو اس میں شیخ صاحب کی تربیت ، رہنمائی اور مہارت کا عمل دخل یقینا شامل ہے ۔2001ء کو شیخ صاحب بنک سے فارغ ہوگئے اورپنجاب یونیورسٹی میں بطور سنیئر چیف پبلک ریلیشنزآفیسرکی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے ،جب بیماری نے انہیں بے حال کردیا تووہ اپنے گھر تک محدود ہوگئے۔ بالاخر 3اپریل 2004ء کو وہ اس فانی دنیا کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے خالق جا ملے اورمومن پورہ قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔دل سے دعا نکلتی ہے کہ اﷲ تعالی انہیں جنت الفردوس میں داخل فرمائے ۔آمین


 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 665275 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.