کیا جاوا آئی اور شرعی حکم


علماء اکرام کے شرعی نقطہ نظر کے مطابق
کمپنی کی ویب سائٹ اور دیگر الیکٹرانک ذرائع وغیرہ سے دست یاب معلومات کے مطابق "Jawa Eye" کمپنی ایک انٹرنیٹ پلیٹ فارم ہے ، یہ کمپنی فلموں اور ٹیلی ویژن منصوبوں پر عمل درآمد کرنے لیے فنڈز اور دیگر وسائل اکٹھا کرتی ہے، فلم پروڈیوسرز کے ساتھ ساتھ، فلموں اور ٹی وی سریز میں سرمایہ کرنے والوں کا بھی تعاون کرتی ہے، اور یہ فلم بنانے والے اداروں کی کنسلٹنٹ پارٹنرز بھی ہے، اور مذکورہ کمپنی اپنے مقصدکو واضح طور پر یوں باور کراتی ہے:
".JAWA EYE WILL ENORMOUSLY BENEFIT ALL FILM LOVERS WORLDWIDE"
(جاوا آئی دنیا بھر کے تمام فلمی شائقین کو بہت زیادہ فائدہ دے گی)۔

اس میں سرمایہ کاری کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس میں اکاؤنٹ بنواکر میں ڈالر جمع کرانے ہوتے ہیں اور اس میں مختلف درجات کے اعتبار سے فرق بھی ہے، اور پھر ان ڈالرز سے مختلف فلم، کارٹونز وغیرہ کے ٹکٹ خریدنے کے آپشن ملتےہیں، ہر فلم کا وقت بھی لکھا ہوا ہوتا ہے، ایک ٹکٹ دس ڈالر تک ملتی ہے اور اسی وقت اس پر ملنے والا متعین منافع بھی ظاہر کردیا جاتا ہے، اور فلم ختم ہونے کے بعد وہ فکس منافع اپنے ڈالرز کے ساتھ واپس اکاؤنٹ میں آجاتا ہے، اسی طرح مزید ممبر بنانے پر واؤچرز ملتے ہیں، اس سے بھی فلم کے ٹکٹس خریدے جاسکتے ہیں۔
شرعی حکم:
کسی بھی کمپنی میں سرمایہ کاری کے جائز ہونے کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کا کاروبار حقیقی طور پر موجود ہو،جائز اور حلال ہو، اور مذکورہ کمپنی کا بنیادی کام فلموں اور ٹیلی ویژن منصوبوں پر عمل درآمد کرنے لیے فنڈز اور دیگر وسائل اکٹھے کرنا ہے،جب کہ فلم انڈسٹری اور ٹیلی ویژن سریز وغیرہ میں کئی قسم کی ناجائز چیزیں موجود ہوتی ہیں،مثلاً:

جان دار کی تصاویر اور پھر بالخصوص نامحرم خواتین کی تصاویر۔
موسیقی ۔
مرد اورعورت کااختلاط۔
فحاشی اور عریانی۔
معاشرے میں بے حیائی اور بے راہ روی پھیلانا وغیرہ۔
اور مذکورہ بالا امور میں سے ہر ایک ناجائز اور حرام ہیں، لہذا جو کمپنی فلم انڈسٹری کو سرمایہ فراہم کررہی اور اس کو معاشرے میں ترویج دینے کے لیے کوشاں ہے، اس میں سرمایہ کاری کرنا ان سب ناجائز کاموں میں تعاون کرنا ہے، اور گناہ کے کاموں میں تعاون کرنا بھی گناہ ہے۔

نیز مذکورہ کمپنی کا بنیادی کاروبار ناجائز ہونے کے ساتھ ساتھ، اس میں جو سرمایہ کاری کا طریقہ ہے وہ بھی شرعی اصولوں کے مطابق درست نہیں ہے؛ کیوں کہ:

1: اس میں نفع کی رقم پہلے سے مقرر ہوتی ہے، اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی، شرعاً شرکت میں نفع کے حصول کا یہ طریقہ جائز نہیں ہے۔

2: اسی طرح اس میں نفع کی یقین دہانی ہوتی ہے، اور نقصان نہ ہونے کی گارنٹی ہوتی ہے، جب کہ شرعی اعتبار سے کاروبار میں سرمایہ کار نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے، لہٰذا شرکت میں نفع کی یقین دہانی کروانا درست نہیں ہے، بلکہ اس طرح کا نفع سود ہے اور حرام ہے ۔

3: کسی جائز کاروبار کی بھی اس طرح تشہیر کرنا کہ جس میں دوسروں کو ممبر بنانے پر چین در چین کمیشن ملتا رہے، شرعاً جائز نہیں ہے۔لہذا مذکورہ کمپنی میں دوسروں کو شامل کرانے پر اور پھر ان لوگوں کے دوسرے کو شامل کرانے پر پہلے ممبر کو جو واؤچرز وغیرہ ملتے ہیں ، یہ بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔

4: نیز دوسروں کو اس کمپنی کا ممبر بنانا درحقیقت انہیں بھی گناہ کے کام کی ترغیب دینا ہے، اور یہ بھی گناہ ہے۔

لہذا خلاصہ یہ ہے کہ "Jawa Eye" کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا اور اس سے نفع کمانا شرعاً جائز نہیں ہے، اور نفع کی رقم بھی حلال نہیں ہے۔

قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ." ﴿المائدة: ٢﴾

فتوی نمبر : 144407101977
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

واضح رہے کہ فلموں کا کام کرنا یا اس کی ترویج میں حصہ لینا جائز نہیں اور نہ ہی اس کی آمدنی حلال ہے؛ کیوں کہ اس میں گناہ کی معاونت ہے، اور گناہ کےکام میں تعاون کرنا بھی گناہ ہے، نیز اس صورت میں جو تنخواہ ملے گی، وہ بھی حرام آمدن سے ملے گی، تو اس وجہ سے بھی اس کے وہ تنخواہ حلال نہیں ہوگی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جاوا آئی ( Jawa Eye )نامی ایپ میں پیسے انویسٹ کرنا در حقیقت فلموں کی ترویج میں حصہ لینا ہے، اور اس کام تعاون علی المعصیت بھی ہورہا ہے؛ اسی لیے اس ایپ میں پیسے انویسٹ کرنا یا اس کے ذریعے پیسہ کمانا دونوں ناجائز اور حرام ہے۔
فتوی نمبر : 144407100814
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 461000 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More